تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو
میں دل کسی سے لگا لوں اگراجازت ہو
تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں
بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو
تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں
کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو
جنوں وہی ہے، وہی میں، مگر ہے شہر نیا
یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو
کسے ہے خواہشِ مرہم گری مگر پھر بھی
میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو
تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی
کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو
میں واقف ہوں چار دن کی محبت سے
میں بھی رہ چکا ہوں عزیز کسی کا
ہر شخص اپنی سنائی ہوئی
کہانی میں ہمیشہ مخلص ہوتا ہے
یہ رات یوں نہ جاتی تو کچھ اور بات تھی
جذبوں کی آگ ہمیں جلاتی تو کچھ اور بات تھی
کئے بار ہاتھ سے ہاتھ ملایا ہے اس نے
جو دل سے دل ملاتی تو کچھ اور بات تھی
میں بھی بہکی آنکھوں سے کوئی حسیں شرارت کرتا
تو بھی بھاگ کر بالکنی میں جاتی تو کچھ اور بات تھی
اپنے کپ سے اس کے کپ میں ڈالی تھی چائے
بھولی یہ رمز سمجھ جاتی تو کچھ اور بات تھی
وقتِ رخصت ہلکی سی مسکان دے کر یار
تو جو سینے سے لگاتی تو کچھ اور بات تھی
اتنی تاخیر سے مت مل کے ہمیں صبر آ جائے
اور پھر ہم بھی نظر تجھ سے چرانے لگ جائیں
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا
یہ وفا کی سخت راہیں
یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھ سے
مرے ساتھ ساتھ چل کے
اُس کے حصے میں ٹھوکریں..!!
ہیں فقط..!
جِــــــــس کے حصے میں تُو..!
نہیں آیا..!!
امیرؔ اُس راستے سے جو گُزرتے ہیں وہ لُٹتے ہیں
محلہ ہے حسینوں کا کہ قزّاقوں کی بستی ہے۔۔۔!
ڈوبنے والا تو کچھ دیر سے ڈُوبے شاید..
ڈُوبتا دیکھنے والوں کو بڑی جلدی ہے..
یہ سوچ کر کہ وہ کھڑکی سے جھانک لے شاید
گلی میں کھیلتے بچے لڑا دیے میں نے
سب رفتگاں کو بھولنے آئے ہمارے پاس
ہم سے کسی کو پہلی محبت نہیں ہوئی
جانے کس خطۂ اضداد سے ہے میرا خمیر
آگ میں کانپتا ہوں برف جلاتی ہے مجھے
وعدۂ وصل بھی اِک حرفِ تسلّی نکلا
میرا دل رکھنے کو "ہاں" کہہ گۓ جاتے جاتے
دلِ مجبُور بھی کیا شے ہے، کہ در سے اپنے
اُس نے سَو بار اُٹھایا ، تو میں سَو بار آیا
فاصلے اتنے بڑھ چکے ہیں ہمارے مابین ہمدم
کہ ایک بالشت میں صدیوں کی دوریاں ہیں
دِنوں کے بعد مجھے اُس نے دُکھ دیا تھا کوئی
میں اُس سے یہ بھی نہیں کہہ سکا، زیادہ ہے...!!!!
کتنی آسانی سے مجھ سے ___چھین لیا گیا
اک مدت کی ریاضت سے کمایا ہوا شخص!!
نیند آتی ہے مجھے رات بڑی مشکل سے
پھر کوئی خواب مری آنکھ میں آ لگتا ہے
کب تلک لوٹ کے آؤ گے بچھڑنے والو
خالی رستے پہ کھڑا شخص برا لگتا ہے
ہر گُمان جس پہ وار ڈالا ہے
اس نے ہی مجھ کو مار ڈالا ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain