اس کی وفاکے باوجود اس کو نہ پا کے بد گماں
کتنے یقیں بچھڑ گئے کتنے گماں گزر گئے


مت ادھیڑ ان ٹانکوں کو
کہ زخم ابھی بھرا نہیں ہے
دیکھ وہ زندہ ہے
ابھی مرا نہیں ہے
سرد سرد موسم میں
زرد زرد ہونٹوں پر
چپ کا جو پہرا ہے
کوئی تو زخم گہرا ہے
احباب کی صُورت ہو کہ اغیار کی صُورت
ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صُورت
سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صُورت
جس آنکھ نے دیکھا تُجھے اُس آنکھ کو دیکُھوں
ہے اِس کے سِوا کیا تِرے دیدار کی صُورت
پہچان لِیا تُجھ کو تِری شیشہ گری سے
آتی ہے نظر فن ہی سے فنکار کی صُورت
اشکوں نے بیاں کر ہی دیا رازِ تمنّا
ہم سوچ رہے تھے ابھی اِظہار کی صُورت
اِس خاک میں پوشیدہ ہیں ہر رنگ کے خاکے
مٹی سے نِکلتے ہیں جو گُلزار کی صُورت
دِل ہاتھ پہ رکھا ہے کوئی ہے جو خریدے
دیکُھوں تو ذرا مَیں بھی خریدار کی صُورت
صُورت مِری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صُورت
واصف کو سرِ دار پُکارا ہے کِسی نے
اِنکار کی صُورت ہے نہ اِقرار کی صُورت۔۔۔!

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے نیاز کیا جانیں
شمع رُو آپ گو ہوئے لیکن
لطفِ سوز و گداز کیا جانیں
کب کسی در کی جُبّہ سائی کی
شیخ صاحب نماز کیا جانیں
جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں
پوچھئے مے کشوں سے لطفِ شراب
یہ مزا پاک باز کیا جانیں
جن کو اپنی خبر نہیں اب تک
وہ مرے دل کا راز کیا جانیں
حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں
لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں
جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمھاری ہے
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتطاری ہے
ایک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تری سواری ہے
خوش رہے تو کہ زندگی اپنی
عمر بھر کی امید واری ہے
ان کو ڈر ہے کہیں سویا ہوا فتنہ نہ اٹھے
میری تربت سے دبے پاؤں گزر جاتے ہیں
ہِجر کی شاہراہ پر، جتنے دِیے جَلے بُجھے
اُتنے ستارے پِس گئے، گردشِ ماہ و سال میں
جو آنا چاہو ہزار رستے ، نہ آنا چاہو عُذر لاکھوں
مزاج برہم، طویل رستہ، برستی بارش، خراب موسم
میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں
زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں
علاجِ جانِ مُضطر ہے، دوائے دردِ اُلفت ہے
تِری خاکِ کفِ پا کو، اب اِس صُورت میں کیا کہیئے
نہ اب وہ بات کرتے ہیں، نہ اب وہ بات سُنتے ہیں
جو سُنئیے بھی تو کیا سُنئیے، جو کہیئے بھی تو کیا کہیئے
مجھے موسم سے کیا لینا ،
نومبر ہو ،
دسمبر ہو
میرے سب رنگ تجھ سے ہیں ،
بہاروں کے،
خزاؤں کے
ایسے پنجروں میں پرندے نہیں رہتے تا دیر
کون اب دل سے گئے شخص کو لائے واپس
کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظُلمت کو ضیا کہتے ہیں
کُشتگانِ سِتم و جور کو بھی دیکھ تو لیں
اہلِ دانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیں
رفو کرے گا کسی روز نوکِ سوزن سے
اسے خبر ہے مرا چاک چاک سینہ ہے
میں کہانی تو نہیں ہوں کہ سدا رہ جاؤں
میں نے کردار نبھانا ہے چلے جانا یے
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain