قصّے میری الفت کے جو مرقوم ہیں سارے
آ دیکھ تیرے نام سے موسوم ہیں سارے
شاید یہ ظرف ہے جو خاموش ہوں اب تک
ورنہ تو تیرے عیب بھی معلوم ہیں سارے
سب جرم میری ذات سے منسوب ہیں مُحسن
کیا میرے سِوا اس شہر میں معصوم ہیں سَارے
*آیا نہ پھر کے ایک بھی کوچے سے یار کے*
*قاصد گیا نسیم گئی نامہ بر گیا*
ناپتے ہیں صحرا کو، وسعتیں کہاں تک ہیں
صرف دیکھنا یہ ہے وحشتیں کہاں تک ہیں
آؤ جانچ لیتے ہیں ، درد کے ترازُو پر
کس کا غم کہاں تک ہے، شدتیں کہاں تک ہیں
کس قدر پسینہ ہے، چند اجلے چہروں پر
آگ میرے دل میں ہے، حدتیں کہاں تک ہیں
ایک پھول کھڑکی سے، اُڑ کے میز تک آیا
اب یہ شہر سے پوچھو، نکہتیں کہاں تک ہیں
کچھ عزیز لوگوں سے، پوچھنا تو پڑتا ہے
آج کل محبت کی قیمتیں کہاں تک ہیں
ایک شام آ جاؤ، کُھل کے حالِ دل کہہ لیں
کون جانے سانسوں کی مہلتیں کہاں تک ہیں
دو دو ٹَکے کے لوگ تُجھے جَانتے ہیں اَب
کِس کِس کو مرے بَعد مُیسر رہا ہے تُو
کیا لائق ستم بھی نہیں اب میں دوستو
پتھر بھی گھر میں آئے زمانے گزر گئے
اور کچھ بھی نہیں کہا لیکن
میں نے دل رکھ دیا سوال کے ساتھ
*میرے مرشد کہا کرتے تھے سب اچھا نہیں ہوتا*
*کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جو سوچا نہیں ہوتا*
*بہت خستہ مکانوں میں رہائش بھی مصیبت ہے*
*اگر کھڑکی سلامت ہو تو دروازہ نہیں ہوتا*
*کسی سے راہ چلتے میں اچانک عشق ہو جائے*
*یہ ایسا جرم ہے جس پر کہیں پرچہ نہیں ہوتا*
*مجھے بینائی کھودینے کا اک یہ فائدہ بھی ہے*
*کہ میں اب وہ بھی پڑھ لیتا ہوں جو لکھا نہیں ہوتا*
*محبت ہوکسی سے اور یک طرفہ محبت ہو*
*یہ وہ احساس ہے،جس میں کبھی دھوکہ نہیں ہوتا*
*ہر اک درویش کے کاسے میں درویشی نہیں ہوتی*
*ہراک چشمے کا پانی دوستا!میٹھا نہیں ہوتا*
*کسی کے عشق میں برباد ہو کر یہ کھلا* *عامی*
*بہت خوشحال ہونا بھی بہت اچھا نہیں ہوتا*
لمبی مسافتوں نے چپکے سے یہ کہا
تنہا جو آ رہے ہو، محبتوں سے کیا ملا ؟
مجھ کو احساسِ جرم اتنا تها
میں سزا سے بهی مطمئن نہ ہوا
زندگی تُو نے دُکاں کھول کے لکھ رکھا ہے
اپنی مرضی کا کوئی رنج اٹھائیں , جائیں
وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہو ا تھا
وطن کی خاطر جیے مریں گے یہ طے ہو ا تھا
بوقتِ ہجرت قدم اُٹھیں گے جو سوئے منزل
تو بیچ رستے میں دَم نہ لیں گے یہ طے ہوا تھا
چہار جانب بہار آئی ہوئی تھی لیکن
بہار کو اعتبار دیں گے یہ طے ہوا تھا
تمام دیرینہ نسبتوں سے گریز کرکے
نئے وطن کو وطن کہیں گے ، یہ طے ہوا تھا
خدا کے بندے خدا کی بستی بسانے والے
خدا کے احکام پر چلیں گے یہ طے ہوا تھا
بغیرِ تخصیص پست و بالا ہر اک مکاں میں
دیئے مساوات کے جلیں گے، یہ طے ہوا تھا
کسی بھی اُلجھن میں رہبروں کی رضا سے پہلے
عوام سے اذنِ عام لیں گے، یہ طے ہوا تھا
تمام تر حل طلب مسائل کو حل کریں گے
جو طے نہیں ہے، وہ طے کریں گے، یہ طے ہوا تھا
وہ میرے ذکر سے بھی ڈرتی ہے
میں اس کی آواز پہ بھی مرتا ہوں
مریضِ عشق نہ مخلص ہو اپنے ساتھ اگر
طبیب لاکھ بھی چاہے شفا نہیں ہوتی
جن کو سورج میری چوکھٹ سے ملا کرتا تھا
اب وہ خیرات میں دیتے ہیں اجالے مجھ کو
اس کی وفاکے باوجود اس کو نہ پا کے بد گماں
کتنے یقیں بچھڑ گئے کتنے گماں گزر گئے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain