عام سے چہروں پر بھی
عشق اترتا ہے❤️🦋
کہانیاں !!
فقط شاہ زادیوں کی نہیں ہوتیں❤️
تیرے بدن کی دھوپ دریچے میں رہ گئی
سایہ تیری صدا کا میرا ہمسفر رہا
ﯾﮧ ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮫ ﺷﮑﺎﯾﺘﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﺗﻮ ﺑﺘﺎ ﺗﯿﺮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺘﻢ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ
حرف رنجش پہ کوئ بات بھی ہو سکتی ہے
عین ممکن ہے ملاقات بھی ہوسکتی ہے
زندگی پھول ہے خوشبو ہے مگر یاد رہے
زندگی گردش حالات بھی ہوسکتی ہے
ہم نے یہ سوچ کے رکھا ہے قدم گلشن میں
لالہ و گل میں تیری ذات بھی ہوسکتی ہے
چال چلتے ہوے شطرنج کی بازی کے اصول
بھول جاؤ گے تو پھر مات بھی ہوسکتی ہے
ایک تو چھت کے بنا گھر ہے ہمارا محسن
اس پے یہ خوف کے برسات بھی ہو سکتی ہے
دھڑکتی قربتوں کے خواب سے جاگے تو جانا
ذرا سے وصل نے کتنا اکیلا کر دیا ہے
زخموں سے کلیجے کو بھر دے، برباد سکونِ دل کر دے
او نار بھری چتون والے، آ اور مجھے بسمل کر دے
یاد آؤ تو بس اتنی سی عنایت کرنا
اپنے بدلے ہوئے لہجے کی وضاحت کرنا
تم تو چاھت کے شا ہکار ہوا کرتے تھے
کس سے سیکھا ہے محبت میں ملاوٹ کرنا
ہمارے ساتھ بھی کم سانحے نہیں گزرے
ہمارے بعد ہمارے بھی دن منانا دوست
زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد
حوصلہ دینا انہیں میرے خدا میرے بعد
کون گھونگھٹ کو اٹھائے گا ستم گر کہہ کے
اور پھر کس سے کریں گے وہ حیا میرے بعد
پھر محبت کی زمانے میں نہ پرسش ہوگی
روئے گی سسکیاں لے لے کے وفا میرے بعد
ہاتھ اٹھتے ہوئے ان کے نہ کوئی دیکھے گا
کس کے آنے کی کریں گے وہ دعا میرے بعد
کس قدر غم ہے انہیں مجھ سے بچھڑ جانے کا
ہو گئے وہ بھی زمانے سے جدا میرے بعد
وہ جو کہتا تھا کہ ناصرؔ کے لیے جیتا ہوں
اس کا کیا جانئے کیا حال ہوا میرے بعد
کردار مختصر تھا کہانی میں ہم بھی تھے
دو چار دن تو قصہِ فانی میں ہم بھی تھے
ہر شخص ہم سے خوش رہے ممکن نہیں ہے یہ
ڈوبوں کو یہ گلہ ہے کہ پانی میں ہم بھی تھے
رائے بنانے والے ، ذرا رفتگاں سے پوچھ
کچھ آئینوں کا خواب جوانی میں ہم بھی تھے
پھر زندگی نے دفعتاً مطلع بدل دیا
پہلے پہل تو مصرعہِ ثانی میں ہم بھی تھے
دیوار پر لگا کے ہٹائی بھی اس نے خود
تصویر تھی پرانی ، پرانی میں ہم بھی تھے
لگتا ہے لکھ کے بھول گیا ہے ہمیں قلم
کوئی اسے بتائے کہانی میں ہم بھی تھے
یہ بات اور ہے کہ وہ مشہور ہو گیا
مجنوں کے ساتھ دشت مکانی میں ہم بھی تھے
کس منہ سے اب زمانے کو ابرک برا کہیں
اپنے خلاف شعلہ بیانی میں ہم بھی تھے
اپنے ہر ہر لفظ کا خود آئینہ ہو جاؤں گا
اس کو چھوٹا کہہ کے میں کیسے بڑا ہو جاؤں گا
تم گرانے میں لگے تھے تم نے سوچا ہی نہیں
میں گرا تو مسئلہ بن کر کھڑا ہو جاؤں گا
مجھ کو چلنے دو اکیلا ہے ابھی میرا سفر
راستہ روکا گیا تو قافلہ ہو جاؤں گا
ساری دنیا کی نظر میں ہے مرا عہد وفا
اک ترے کہنے سے کیا میں بے وفا ہو جاؤں گا
*پائیں گے اب کہاں مجھے، یارانِ ناشناس*
*میں خود سے ہوں فرار، مرا کچھ پتہ نہیں*
چل اپنے جیسے گنہگار ڈھونڈ آتے ہیں
نہیں ہیں راس ہمیں رنگ صوفیوں والے
کوئی بلائے تو خط پھاڑ دینا،مت آنا
یہاں مزاج ہیں لوگوں کے کوفیوں والے
کوئی تو نام ہو گا یار انوکھے اِس تعلق کا
اُسے میں کھو نہیں سکتا اُسے میں پا نہیں سکتا
بھلا کیسے بتاؤں دُکھ کسی متروک گملے کا
جسے پانی نہیں مِلتا جو پانی لا نہیں سکتا
ہمارے پاس فقط ایک موقع تھا ایک ہونے کا،
ہمارے دِین میں تو سات جَنم بھی نہیں ہوتے
ایک تم ہو کہ جو ہر ظُلم کی حد پار کرتے ہو،
ایک ہم ہیں کہ جو مطلوبِ کرَم بھی نہیں ہوتے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain