اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ایک گاؤں میں غریب نائی رہا کرتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا ۔ مشکل سے گزر بسر ہورہی تھی۔ اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا۔ نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ صرف ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔ جب رات ہوتی تو وہ ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا، تکیہ رکھتا اور سو جاتا۔ ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آ گیا۔اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا۔وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا. چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا ۔لوگ اپنا سامان، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے. کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے، کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے۔ اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔ جب وہ شخص اس
"ڈائن" قسط نمبر 3 "ایک دفعہ ایسے ہی میں جنگل میں سے گزر رہا تھا تو میرے سامنے شیر آ گیا شیر نے مجھے دیکھا، میں نے شیر کو دیکھا" ساحل نے گاڑی میں اپنی کہانی شروع کی ہوئی تھی۔ "پھر کیا ہوا؟" فجر نے پوچھا "پھر کیا ہونا تھا میں بھاگ گیا، میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی معصوم جانور میرے ہاتھ سے مر جائے" ساحل نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا "ہاں جی ہاں جی بھائی صاحب ٹارزن تھے پچھلے جنم میں" ثانیہ نے ہنستے ہوۓ کہا۔فجر بھی ہنس دی۔ اچانک ایک طرف سے سرمد بھاگتا ہوا آیا۔ اور گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا۔ اسکے رنگ اڑے ہوۓ تھے۔ "ہاۓ! تمہیں کیا ہوا ہے؟ اور حفیظ کہاںہے؟" ساحل نے پوچھا۔وہ۔۔وہ۔۔۔وہ۔۔۔حفیظ میرے ساتھ ہی تھا۔۔۔پپپپ۔۔پتا نہیں کہاں ره گیا۔۔ابھی تو میرے ساتھ تھا۔۔بلکل بلکل ساتھ ہی آ رہا تھا" سرمد سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔ "فجر پانی دو" سا
"ڈائن" قسط نمبر 2 روہی اس وقت ایک غار میں موجود تھی۔ اس نے اپنا ٹھکانہ اس غار کو چنا تھا کیوں کہ یہ عام انسانوں کی پہنچ سے دور تھا اور وہاں آج تک کوئی انسان داخل نہیں ہوا تھا۔ روہی خوش تھی کیوں کہ اسے ایک ہزار سال کی قید کے بعد آزادی ملی تھی۔ اس کی شیطانی طاقتوں میں کافی کمی آ چکی تھی۔ اب وہ دوبارہ اپنی پرانی طاقتیں بحال کرنا چاہتی تھی۔ اور اس کے لئے اسے بہت کام کرنا تھا۔ شیطان کو خوش کرنے کے لئے اسے پھر سے معصوم لوگوں کا خون بہانہ تھا۔ مگر اس کی طاقتیں بہت محدود تھی اور وہ کسی صورت بھی اس جنگل سے باہر نہیں جا سکتی تھی اسے صرف اور صرف جنگل میں رہتے ہوۓ اپنا شکار ڈھونڈھنا تھا۔ اور جنگل میں سے لوگوں کے گزرنے کا انتظار کرنا تھا، اور وہ یہ ہی کرنے والی تھی۔ وہ ایک ہزار سال سے بھوکی تھی اور وہ اپنی بھوک بھی مٹانا چاہتی تھی۔ --------
"ڈائن" قسط نمبر 1 ایک ہزار سال پہلے "روہی" نامی لڑکی نے کالا جادو سیکھنا شروع کیا تھا۔ وہ پوری پوری رات قبرستان میں بیٹھ کر چلہ کاٹتی تھی۔ کہتے ہیں کہ اس کے قابو میں بہت سی شیطانی طاقتیں آ گئی تھی۔ مگر وہ شیطان کے اور زیادہ قریب جانا چاہتی تھی اس کے لئے اس نے شیطان کو خوش کرنے کے لئے اس کے سامنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی بلی دینا شروع کردی۔ وہ اپنے گاؤں کے بچوں کو اغوا کرواتی اور شیطان کے بت کے سامنے اس بچے کو ذبح کردیتی۔ شیطان کے اس مندر میں اس نے انسانی بچوں کے خون کا تلاب بنایا ہوا تھا۔ وہ ان معصوم بچوں کا دل کھاتی تھی۔ گاؤں والے اس سے بہت تنگ تھے۔ وہ سب مل کر ایک بزرگ کے پاس گئے اور مدد کی درخواست کی۔ اس بزرگ نے گاؤں والوں کی مدد سے اس لڑکی کو ایک تابوت میں بند کیا اور اسے زمین کے نیچے گاڑھ دیا۔ "چاہے کچھ ہو جائے اس تابوت کو کھولنا مت،