پر کیسے؟ اب ہم دوبارہ ان لڑکوں کو کہاں ڈھونڈیں گے؟ یہاں پہلے ہی ٹینشن کم ہیں کیا جو تو اور کام بڑھا رہا ہے یار۔" دلاور الجھا۔
"ابے گدھے انکو کیوں ڈھونڈیں گے؟ نقلی غنڈوں کی بات کررہا ہوں میں۔" جہانگیر نے بتایا۔
"نہیں نہیں! یہ غنڈوں وغیرہ کے چکر میں مت پڑیں آپ لوگ، بس تھوڑا سا ناٹک ہی تو کرنا ہے آپ دونوں خود ہی کرلیں۔" عروج نے ٹوکا۔
"بات تو ٹھیک ہے ویسے بھابھی کی۔" دلاور نے تائید کی۔
۔
"ہم لوگ پہلی مرتبہ رات میں ایک سنسان روڈ پر ملے تھے، میں اپنی نائٹ ڈیوٹی سے واپس آرہی تھی کہ تب کچھ لڑکوں نے مجھ پر حملہ کرکے میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی، میں مدد کیلئے چلانے لگی تو اچانک حاذق آگیا، وہ بھی اتفاق سے ادھر سے گزر رہا تھا، پھر اس نے ان لڑکوں کو مار کر بھاگا دیا تھا، اور مجھے میرے گھر چھوڑ کر پھر چلا گیا تھا وہ۔" اس نے بتایا۔
"واہ! کافی فلمی ملاقات تھی۔" رمشا کو رشک ہوا۔
"بس ٹھیک ہے، اب ہم یہ سب دوبارہ کریں گے۔" جہانگیر نے فیصلہ کیا۔
مذاق کررہا ہوں بےبی۔" اس نے دانت نکال کر وضاحت کی۔
"یہ پلان تو فلاپ ہوگیا اب کوئی دوسرا پلان سوچو۔"جہانگیر پرسوچ تھا۔
"ہممم! دوسرا پلان، یار کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔" دلاور نے سوچتے ہوئے کہا۔
"مجھے ایک آئیڈیا آیا ہے۔" جہانگیر یکدم پرجوش ہوا۔
"جاؤ جلدی سے کرکے آؤ۔" دلاور نے کہا۔ اور حسب معمول کسی نے اس پر دھیان نہیں دیا۔
"کیسا آئیڈیا؟" عروج نے پوچھا۔
"ہم حاذق کو ان دونوں کی پہلی ملاقات یاد دلاتے ہیں۔" جہانگیر نے کہا۔
"کیا مطلب کیسے؟" دلاور ناسمجھی سے پوچھا۔
"تم اور حاذق پہلی مرتبہ کب اور کیسے ملے تھے فائقہ؟" جہانگیر نے پوچھا۔
دیکھا! کچھ نہیں ہوا وہ اب بھی مجھ سے ویسے ہی ناراض ہے بیکار گئی ساری محنت۔" فائقہ نے صوفے پر بیٹھ کر کشن گود میں رکھتے ہ سب لوگ اگلے دن اب پھر فائقہ کے گھر میں جمع تھے۔
"حاذق تو نہیں مانا، پر ہمیں کل بہت اچھا کھانا کھانے کو مل گیا، تھینک یو عروج بھابھی آپکا آئیڈیا تھا ناں یہ۔" دلاور نے تعریف کی۔
"ویسے اگر حاذق نہیں مان رہا تو، میرے بارے میں کیا ارادہ ہے؟ ٹھیک کہا تھا آپ نے بھابھی، واقعی دل تک جانے کا راستہ معدے سے ہی گزرتا ہے، اور مجھے کل کھانا کھانے کے بعد سے ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی اس راستے سے گزرا ہے، کیوں فائقہ!" دلاور نے شرارتاً کہا۔
"شٹ اپ!" فائقہ نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔
"آپ شاید بھول رہے ہیں کہ میں بھی یہاں موجود ہوں۔" رمشا نے اسے گھورا۔
"کہاں چلے گئے تھے آپ لوگ؟" رمشا نے انجام بنتے ہوئے پوچھا۔
"وہ حاذق کو ایک ضروری کال کرنی تھی، ابھی اچانک اسے یاد آیا۔" دلاور نے جھوٹ بولا۔
"اوہ اچھا! مجھے لگا شاید حاذق بھائی کو میری فرینڈ کا آنا اچھا نہیں لگا۔" رمشا نے پلان کے مطابق کریدا۔
"کیوں حاذق بھائی! ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ناں!" اب اس نے براہ راست ہی پوچھ لیا۔
"نہیں! ضروری کال کرنے ہی گیا تھا۔" وہ زبردستی مسکرایا۔
تو رمشا بھی مسکرا کر واپس کھانے کی جانب متوجہ ہوگئی۔ جبکہ حاذق نے ایک سخت نظر فائقہ پر ڈالی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی اور ناچاہتے ہوئے بھی اپنے بچے ہوئے کھانے کی جانب متوجہ ہوگیا۔
ابے یار! کیا مسلہ ہے۔" اس نے بےبسی سے منہ بسورا۔
"اب چل اندر یار، پلیز ہماری خاطر۔" جہانگیر نے اصرار کیا تو ناچاہتے ہوئے بھی وہ منہ بناتے ہوئے دونوں کے ساتھ واپس اندر کی جانب بڑھ گیا۔
"شکل ٹھیک کر اپنی۔" دلاور نے ٹوکا۔
یار تم نہیں جانتے، یہ بیویاں بہت شکی ہوتی ہیں ذرا سی بات کا پتنگڑ بنا دیں گی بلاوجہ میں اور عروج کو تو ویسے بھی ڈاکٹر نے ٹینشن سے دور رکھنے کا کہا ہے اسکی حالت تو تم جانتے ہو ناں!" جہانگیر نے سمجھایا۔
"ٹھیک ہے، میں بھابھی پر کچھ ظاہر نہیں کررہا پر میں یہاں سے جارہا ہوں۔" حاذق نے کہا۔
"دماغ خراب ہوگیا ہے! دونوں پوچھیں گی نہیں کہ حاذق بھائی اچانک چلے کیوں گئے؟" دلاور نے ٹوکا۔
"کہہ دینا کہ کوئی ضروری کام یاد آگیا تھا۔"
"یار کیسا دوست ہے تو، دوستوں کیلئے تھوڑی دیر برداشت نہیں کرسکتا اسے! دوپہر کو آفیس میں تو بڑا پیار آرہا تھا تجھے ہم پر اب کیا ہوا بس! سب لفظی باتیں تھیں!" دلاور نے ایموشنل بلیک میلنگ کی۔
تم نے سنا نہیں رمشا نے کیا کہا! وہ اسکی یونیورسیٹی کی دوست ہے، اب رمشا تو ہم لوگوں کے بارے میں نہیں جانتی ناں! اور اگر اسے بتایا بھی تو شروع سے سب بتانا پڑے گا، سب بتانے کا مطلب سب، پھر رمشا کو میرے اور عروج بھابھی کو جہانگیر کے ماضی کے بارے میں سب پتہ چل جائے گا اور بات کہاں کی کہاں چلی جائے گی۔" دلاور نے وضاحت کی۔
"تو تم لوگوں کا کوئی لو آفیئر تو نہیں چل رہا تھا فائقہ کے ساتھ جو بات کہاں کی کہاں چلی جائے گی۔" حاذق نے گویا یاد دلایا۔
تم اٹھ کر کیوں آگئے حاذق؟" جہانگیر نے باہر آکر پوچھا۔
حاذق لان میں آگیا تھا کیونکہ وہ پہلے بھی ایک دو دفعہ دلاور کے ساتھ یہاں آچکا تھا۔ اس لئے اسے گھر کا نقشہ معلوم تھا۔
"یہ یہاں تمہاری منگیتر کے گھر میں کیا کررہی ہے دلاور؟" اس نے جہانگیر کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے غصے میں دلاور سے پوچھا۔
"کھانا کھا رہی ہے اندر۔" دلاور نے اطمینان سے جواب دیا۔
"میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں۔" اس نے غصے سے دانت پیسے۔
"اسے کیا پتہ! اس نے تھوڑی انوائٹ کیا ہے اسے یہاں جو تم اس پر غصہ ہورہے ہو۔" جہانگیر نے اسکا دفاع کیا۔
دیکھا! میں نے کہا تھا وہ ایسا ہی کرے گا۔" اسکے جاتے ہی فائقہ افسردگی سے بولی۔
"فکر مت کرو، ہم بات کرتے ہیں اس سے، چلو دلاور۔" جہانگیر نے کہا۔ اور دونوں بھی جلدی سے باہر گئے۔ جبکہ رمشا اور عروج فائقہ کو تسلی دینے لگی
جبکہ فائقہ بھی عروج کے برابر میں ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ مگر حاذق نے ہاتھ میں پکڑا چمچ واپس پلیٹ میں رکھ دیا۔ جسے سب نے نوٹ کیا کیونکہ سب کی نظریں اور دھیان اسی پر ہی تھا۔
"یہ میری یونی فرینڈ ہے، اور فائقہ ان سب کے بارے میں تو میں تمھیں بتا چکی ہوں اور حاذق بھائی کو تو کھانا بھی بہت پسند آیا ہے، ہیں ناں حاذق بھائی!" رمشا نے کہتے ہوئے اسکی جانب دیکھ کر اس سے تائید چاہی۔
"ایکسکیوزمی! مجھے دلاور سے کچھ بات کرنی ہے، دلاور باہر آؤ تم۔" حاذق نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ اور بنا کسی کا جواب سنے باہر نکل گیا۔
وہ کھانا کھالیتا تو پھر چلتے ابھی مجھے دیکھ کر وہ کھانا چھوڑ دے گا۔"
"ارے کچھ نہیں ہوگا، تم بس چلو۔" اس نے کہا۔ اور فائقہ کو لے کر ڈائینگ روم کی جانب جانے لگی جبکہ فائقہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ پتہ نہیں حاذق کا رد عمل کیا ہوگا اسے دیکھ کر؟ دھڑکتے دل کے ساتھ دونوں ڈائینگ روم میں داخل ہوئیں۔
"یہ ہیں میری فرینڈ، فائقہ۔" رمشا نے بتایا۔ اسکی آواز پر سب نے ان کی جانب دیکھا اور حاذق کا منہ کی جانب جاتا ہاتھ رک گیا۔حاذق کو شک نہ ہو اس لئے دلاور اور جہانگیر نے بھی چہرے پر مصنوعی حیرانی ظاہر کی۔
"آؤ فائقہ، بیٹھتے ہیں۔" رمشا نے کہا۔ اور اسکے ساتھ آکر واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔
"چلو فائقہ، پلان کام کررہا ہے حاذق بھائی کو کھانا پسند آیا ہے اور انھوں نے ہی تمھیں بلانے کا کہا ہے۔" رمشا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے خوشی سے بتایا۔
فائقہ اضطرب کی کفیت میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے دیکھ کر کھڑی ہوگئی۔
"حاذق نے مجھے نہیں، اسے بلایا ہے جس نے کھانا بنایا ہے۔" اس نے تصیح کی۔
"تو تم نے ہی تو بنایا ہے کھانا۔" وہ کہتی ہوئی قریب آئی۔
"ہاں پر وہ تو یہ بات نہیں جانتا ناں! اگر اسے پتہ ہوتا کہ کھانا میں نے بنایا ہے تو وہ کھانے کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا۔"
"ارے چھوڑو وہ سب، ابھی جلدی سے چلو۔" اس نے فائقہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچا۔
"اچھا کھانا کھالیا حاذق نے؟"
"نہیں ابھی باقی ہے، کیوں!" اس نے بتاتے ہوئے پوچھا۔
کیا! فرینڈ کھانا بنانے آئی تھیں آپکی!" جہانگیر نے انجان بنتے ہوئے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا۔
"جی! وہ آج صبح سے ہی یہاں آئی ہوئی ہے، میں نے خاص طور پر اسے بلوایا تھا، کیونکہ وہ کھانا بہت اچھا بناتی ہے، اور دیکھیں آپ لوگوں کو پسند آبھی گیا۔" اس نے پلان کے مطابق بتایا۔
"تو پھر کھانا بنا کر چلی گئیں آپکی فرینڈ؟" عروج نے بھی انجان بنتے ہوئے مزید پوچھا۔
"نہیں نہیں! ابھی بھی یہاں ہی ہے۔"
"ارے تو بلانا چاہئے تھا ناں آپکو انھیں بھی یہاں، کتنی بری بات ہے کہ ہم سب یہاں ڈنر کررہے ہیں اور جس بیچاری نے اتنی محنت کی اسے بلایا ہی نہیں۔" حاذق حیرانی سے بولا۔
"ابھی بلا کر لاتی ہوں۔" رمشا نے کہا۔ اور اٹھ کر ڈائینگ روم سے باہر چلی گئی۔
"کچھ دنوں کی بات ہے، پھر تو آپکو دلاور کے گھر جانا ہے، وہاں بوریت نہیں ہوگی آپکو۔" جہانگیر نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
"ہممم! میں اپنے گھر کے سارے نوکروں کی چھٹی کردوں گا، پھر سارا کام رمشا کرے گی تو اسے بوریت نہیں ہوگی۔" دلاور نے بھی مزید کہا۔
"جی نہیں! سوچ ہے آپکی کہ میں ایسا کچھ کروں گی۔" رمشا نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔
"ویسے کھانا بہت ہی زبردست ہے، آپ نے بنایا ہے؟" حاذق نے تعریف کرتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں! یہ سدا کی کام چور، اسے بس کھانا آتا ہے پکانا نہیں، ویسے پکانا بھی آتا ہے، پر کھانا نہیں دماغ۔" اسکے بجائے دلاور نے جواب دیا۔
"ہوگئی بکواس! اب میں بولوں؟" رمشا نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
"جی جی بولیں۔" دلاور نے گویا اجازت دی۔
"آپکے گھر والے کہاں ہیں رمشا؟ وہ لوگ نہیں آرہے ڈنر کرنے؟" عروج نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔ سب لوگ اب ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے۔
"ڈیڈی تو دبئی میں ہیں، ممی دوائی کھاکر آرام کررہی ہیں، ویسے بھی وہ پرہیزی کھانا کھاتی ہیں، اور بلال (چھوٹا بھائی) وہ دوستوں کے ساتھ باہر گیا ہوا ہے۔" اس نے تفصیل بتائی۔
"اوہ اچھا! تو یعنی آپ سارا دن گھر میں اکیلی ہی ہوتی ہیں!" عروج نے کھانا کھاتے ہوئے پوچھا۔
"جی! اکیلی ہی بور ہوتی رہتی ہوں۔"
بہت شکریہ آپکا کہ آپ نے ہم غریبوں کے بارے میں بھی سوچا۔" وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر مسکرایا۔
"اوہ! حاذق بھائی، ایسے تو نہیں کہیں آپ کہاں سے غریب ہوگئے!"
"ضروری نہیں ہے کہ انسان صرف پیسوں کے لحاظ سے ہی غریب ہو!" وہ پھیکی سی ہنسی ہنسا۔
"تو اور کس لحاظ سے غریب ہوتے ہیں؟"
"رہنے دیں، یہ بتائیں کہ کیا ہمیں صرف باتوں پر ہی ٹالنے کا ارادہ ہے یا کچھ کھانے پینے کا انتظام بھی ہے؟" حاذق نے موضوع بدلا۔
"ارے ہاں ہاں چلیں، ڈنر تو ریڈی ہے بس آپکا ہی ویٹ کررہے تھے ہم۔" رمشا نے کہا۔ اور پھر سب ڈائینگ روم میں جانے کیلئے کھڑے ہوگئے
رات کے نوں بج رہے تھے اور سب لوگ پلان کے مطابق رمشا کے گھر پر جمع تھے۔ کیونکہ رمشا کے پاپا دبئی میں تھے اور ممی زیادہ اسکے معملات میں دخل نہیں دیتی تھیں اس لئے اس کام کیلئے رمشا کا گھر منتخب ہوا تھا۔
"بہت مبارک ہو آپکو، اتنے اچھے نمبروں سے آپ نے اپنی تعلیم مکمل کرلی۔" حاذق نے ایک گلدستہ رمشا کی جانب بڑھایا۔ وہ ابھی ابھی آیا تھا جبکہ باقی سب یعنی جہانگیر عروج اور دلاور آچکے تھے۔
"تھینک یو سو مچ حاذق بھائی، بیٹھیں ناں پلیز۔" اس نے گلدستہ لیتے ہوئے کہا۔ تو وہ دلاور کے برابر میں صوفے پر بیٹھ گیا۔
"دراصل فیملی میں تو میں سب کو اس خوشی میں ٹریٹ دے چکی ہوں، بس فرینڈز رہ گئے تھے تو سوچا کہ آپ لوگوں کو بھی اچھے سے ڈنر کی ٹریٹ دے دوں۔" اس نے بھی ایک صوفے پر بیٹھتے ہوئے وضاحت کی۔
بولو!"
"رمشا نے اپنا فائنل ایئر اچھے نمبروں سے پورا کرلیا ہے، اور اسی خوشی میں آج رات اس نے تمھیں مجھے جہانگیر اور عروج بھابھی کو اپنے گھر ڈنر پر انوائٹ کیا ہے تمھیں وہاں چلنا ہوگا میرے ساتھ۔" اس نے بتایا۔
"تمھیں بلانا تو سمجھ میں آتا تھا، پر میرے، جہانگیر اور عروج بھابھی کے آنے کی کیا تک بنتی ہے؟" اس نے تعجب سے پوچھا۔
"رمشا کو پتہ ہے کہ ہم کتنے قریبی دوست ہیں اور تم دونوں کو بھی وہ بھائیوں کی طرح ہی سمجھتی ہے، اس لئے اس نے بلایا ہے، اگر بنا ضد بحث کے چلنے کیلئے تیار ہو تو ٹھیک ہے ورنہ شکل گم کرو اپنی یہاں سے۔" اس نے واپس کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"اچھا! بدمعاشی!"
"ہاں!"
"چل ٹھیک ہے، بس تو خوش رہ۔" حاذق نے پیار سے اسکے گال کھینچے۔
لوہا گرم تھا یہی صحیح وقت تھا وار کیلئے جو اس نے کردیا۔ حاذق خاموش ہوگیا کیونکہ اس کے پاس اسکی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔
"ایسا کچھ نہیں ہے، بس کل تم نے کچھ زیادہ ہی نامناسب الفاظ استمعال کرلئے تھے اور تم نے فائقہ کی جگہ کسی اور لڑکی کیلئے بھی کہا ہوتا تو میرا رد عمل یہی ہوتا بس! اور کوئی بات نہیں ہے۔" اس نے گلاس ونڈو سے باہر دیکھتے ہوئے وضاحت کی۔
"اب اس بات کو ختم کرو اور دوبارہ اسکا ذکر مت کرنا، کل جو میں نے تمہارے ساتھ کیا اسکے لئے میں شرمندہ ہوں اور تم سے معافی چاہتا ہوں۔" اس نے مزید کہتے ہوئے بات بدلی۔
"ٹھیک ہے، پر ایک شرط پر معاف کروں گا۔"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain