گلا ناں دبا دوں میں تیرا!" حاذق نے دونوں ہاتھوں سے اسکا گلا پکڑا۔
"دبا دے، تو جان بھی لے لے گا تو اف نہیں کروں گا، دوست کہا ہے تجھے، تیرے لئے جان بھی حاضر ہے، اب وہ الگ بات ہے کہ تو دوست نہیں سمجھتا۔" اس نے طنز کیا۔
"نہیں یار! کس نے کہا؟ تم دونوں میرے لئے سب سے زیادہ عزیز ہو۔"
"ہماری پانچ سالہ دوستی میں، کل پہلی مرتبہ تو نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا، وہ بھی ایک اس لڑکی کیلئے جس سے بقول تیرے تو کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا، جس کے آنے یا جانے سے تجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، جو تجھ سے معافیاں مانگ رہی ہے، پر تو سنگدل بنا ہوا اسے تڑپا رہا ہے، اور کل ذرا سا میں نے اسکے خلاف کا کہہ دیا! تو نے مجھ پر ہاتھ اٹھالیا، یہ پیار نہیں ہے تو کیا ہے؟" دلاور نے کرسی سے اٹھ کر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بنا رکے کہا۔
وہ سب چھوڑ اور موڈ ٹھیک کر یار، تیرا ٹنڈے جیسا منہ تو ویسے ہی ہے اوپر سے ناراض ہوکر اور عجیب لگ رہا ہے۔" اس نے شرارت سے کہا۔
"دفع ہوجا یہاں سے ڈیش۔" دلاور نے ہاتھ اٹھا کر گیٹ کی جانب اشارہ کیا۔
"اتنی آسانی سے دفع نہیں ہوں گا میں، پہلے تم اپنا یہ ٹنڈے جیسا منہ ٹھیک کرو۔" اس نے دلاور کی کرسی کے پیچھے آتے ہوئے کہا۔ اور دونوں ہاتھوں سے اسکے کاندھے دبانے لگا۔
"بس کر یار؟ اتنے نخرے تو رمشا بھی تیرے نہیں اٹھاتی ہوگی۔" اس نے کہتے ہوئے اسکے گال کھینچے۔
"یہاں دبا، یہاں درد ہورہا۔" دلاور نے گردن کی جانب انگلی سے اشارہ کیا۔
"کس بات کی معافی؟" اس نے اسے دیکھ کر انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
"کل غصے میں تجھ پر ہاتھ جو اٹھالیا تھا ناں اس لئے۔" اس نے شرمندگی سے کہا۔
"بڑی جلدی خیال آگیا آپکو!" اس نے طنزیہ مارا اور دوبارہ کام میں مشغول ہوگیا۔
"دیر آیا، پر درست آیا، اور خیال تو مجھے کل رات کو ہی آگیا تھا پر یہ بات فون پر کرنے کی نہیں تھی اور اتنی رات کو تمہارے گھر آنا ٹھیک نہیں لگا، ابھی لنچ ٹائم میں تم سے ملنے آیا تو پتہ چلا کہ تم آفیس میں نہیں ہو، کب سے تمہارا انتظار کررہا تھا میں۔" اس نے بتایا۔
"کام سے گیا ہوا تھا۔" اس نے بات بنائی
دلاور فائقہ کے گھر سے آچکا تھا اور آفیس میں اپنے روم میں بیٹھا ہوا کام میں مصروف تھا۔
"ٹک ٹک ٹک!" دروازے پر دستک ہوئی۔
"کم ان!" اس نے ہنوز کام جاری رکھتے ہوئے اجازت دی۔
"السلام و علیکم!" حاذق نے اندر داخل ہوتے ہوئے مسکراتے ہوئے سلام کیا۔
"وعلیکم السلام!" اس نے ایک نظر اسے دیکھ کر بےتاثر لہجے میں جواب دیا۔ اور پھر کام میں مشغول ہوگیا۔
"ناراض ہو؟" اس نے ٹیبل کے قریب آتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں!" اس نے مختصر جواب دیا۔
"پر لگ تو رہا ہے۔" اسکی بات پر دلاور نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"اچھا سوری یار! معاف کردے
بکواس بند کرو تم، تم بولو عروج۔" جہانگیر نے ٹوکا۔
"ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ فائقہ جی آپ کھانے کے ذریعے حاذق بھائی کا دل جیتنے کی کوشش کریں۔" عروج نے مشورہ دیا۔
"پر کیسے؟ حاذق خود چل کر تو یہاں کھانا کھانے آئے گا نہیں، اور یہ اسکے گھر جاکر پکانہیں سکتی، کھانا، تو پھر یہ کیسے ممکن ہوگا؟" دلاور نے سوال اٹھایا۔
"میرے پاس ایک آئیڈیا ہے!" رمشا نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
"کیسا آئیڈیا؟" سب نے یک زبان ہوکر پوچھا
فیشن ہے جہانگیر بھائی، پیار سے سب ایسے ہی بلاتے ہیں۔" رمشا نے بتایا۔
"بڑا عجیب فیشن ہے، ہم تو باز آئے ایسے فیشن سے، کیوں بیگم!" اس نے کہتے ہوئے عروج سے تائید چاہی۔
"یہ سب چھوڑیں، یہ سوچیں کہ اب کرنا کیا ہے؟ حاذق بھائی کی ناراضگی کیسے دور کی جائے؟" عروج نے واپس موضوع پر آتے ہوئے کہا۔ تو سب کوئی آئیڈیا سوچنے لگے۔
"میری امی کہتی ہیں کہ مرد کے دل کا راستہ اسکے معدے سے گزرتا ہے۔" عروج نے فلسفہ دیا۔
"کیوں معدے سے دل تک جانے والے راستے پر ڈامر آپکی امی نے بچھایا تھا کیا، جو انھیں راستوں کا اتنا معلوم ہے؟" دلاور نے کو شرارت سوجھی۔
اچھا! پر جانے سے پہلے جو اس نے کیا تھا وہ تو آپ نے سینسر کردیا، وہ بھی بتائیں ناں سب کو۔" جہانگیر نے معنی خیزی سے کہا۔
"کیا کِیا تھا حاذق نے؟" فائقہ نے تجسس سے پوچھا۔
"اس نے بہت ہی پیار سے انکے نرم و نازک رخسار پر اپنی انگلیاں مبارک پرنٹ کی تھیں۔" جہانگیر نے مزے سے بتایا۔
"مطلب حاذق بھائی نے تمھیں تھپڑ مارا تھا بےبی؟" رمشا نے حیرانی سے پوچھا۔ دلاور نے جواب نہیں دیا اور جہانگیر کو گھورنے لگا۔ جبکہ وہ آگے سے دانتوں کی نمائش کرنے میں مصروف تھا۔
"ویسے بہت چھوٹا بےبی نہیں ہے آپکا؟" جہانگیر نے شرارت سے رمشا کو چھیڑا۔
"نہیں! ہم لوگوں نے پلان بنایا تھا کہ میں حاذق کے سامنے فائقہ کو کافی برا بھلا بولوں گا، اگر اس نے کوئی رسپانس نہیں دیا تو کچھ بھی کرنا بیکار ہے، پر اگر اس نے فائقہ کا دفاع کیا تو بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، اور اسی پلان پر عمل کرتے ہوئے ہم دونوں کل اسکے گھر گئے اور میں نے اپنا کام شروع کردیا، پہلے تو ایک دو دفعہ اس نے دبے دبے لفظوں میں مجھے خاموش کرانا چاہا، پر جب اسکی برداشت سے باہر ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔" دلاور نے "سینسر" کرکے بتایا۔
بھئی یہ بات تو کنفرم ہوگئی ہے کہ حاذق کہ دل میں اب بھی کچھ کچھ ہے۔" جہانگیر نے بتایا۔
کیونکہ جہانگیر کے والدین گھر واپس آچکے تھے۔ اس لئے فائقہ، جہانگیر، دلاور، عروج اور رمشا پانچوں اس وقت فائقہ کے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔
اور دلاور نے رمشا کو بھی ان سب کے بارے میں بتا کر اسے بھی اپنے "گینگ" میں شامل کرلیا تھا۔
جہانگیر اور دلاور آفیس سے لنچ بریک پر یہاں آئے ہوئے تھے۔
"یہ تو بہت اچھی بات ہے، پھر تو ہمیں زیادہ محنت بھی نہیں کرنی پڑے گی۔" عروج نے خوشی کا اظہار کیا۔
"پر آپ لوگوں کو یہ پتہ کیسے چلا؟ حاذق بھائی نے خود بتایا ہے کیا؟" رمشا کو جاننے کا تجسس ہوا۔
"کیا میرا جرم اتنا بڑا ہے حاذق! کہ تم میرے ساتھ ایسا برتاؤ کررہے ہو؟" اس نے اپنے گلے میں پہنے ہوئے لاکٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خودکلامی کی۔
یہ وہی لاکٹ تھا جو حاذق نے اسے دیا تھا۔ یہ ایک ہارٹ شیپ میں گولڈ کا لاکٹ تھا۔ جس کی ایک طرف "H" لکھا ہوا تھا۔اور دوسری طرف "F" لکھا ہوا تھا۔ یہ لاکٹ حاذق نے خاص طور پر اس کیلئے بنوایا تھا۔
"تم مجھ سے کتنا بھی ناراض ہوجاؤ، پر میں بھی اب تمھیں اپنی سچائی کا یقین دلا کر رہوں گی، اور مجھے پتہ ہے کہ تم زیادہ دن مجھ سے ناراض نہیں رہو گے۔" اس نے پھر پریقین انداز میں خودکلامی کی۔
اُن کچھ ہی دنوں میں اسے بھی کب حاذق سے پیار ہوگیا تھا یہ اسے بھی نہیں پتہ چلا تھا۔اس بات کا احساس تو اسے حاذق سے دور جانے کے بعد ہوا۔ اور ابھی بھی وہ انکی امانت واپس کرنے کے ساتھ ساتھ خاص طور پر حاذق کیلئے واپس آئی تھی۔ اگر اسکا خیال نہ ہوتا تو وہ کبھی واپس نہیں آتی۔ بس خاموشی سے جہانگیر کو چیک بھیجوادیتی۔
پر یہ رقم تو ایک بہانہ تھی اس کے پاس آنے کیلئے۔
اس نے سوچا تھا کہ وہ اسے واپس دیکھ کر بہت خوش ہوجائے گا۔ تھوڑے سا گلہ شکوہ کرے گا اور پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔
پر یہاں تو سب کچھ اسکی سوچ کے برعکس نکلا۔ معاف کرنا تو دور۔ وہ تو اس سے بات کرنے کے اور اسکی شکل دیکھنے کے حق میں بھی نہیں تھا۔ فائقہ کو اسکے اس برتاؤ سے بہت دکھ اور صدمہ ہوا تھا۔
جانتی ہوں کہ وہ خفا بھی نہیں"
"دل کسی طور پر مانتا بھی نہیں"
"کیا وفا و جفا کی بات کریں"
"درمیان اب تو کچھ رہا بھی ہے"
"درد وہ بھی سہا ہے تیرے لئے"
"میری قسمت میں جو لکھا بھی نہیں"
"ہر تمنا سراب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بنتی رہی"
"ان سرابوں کی کوئی انتہا بھی نہیں"
"ہاں چراغ کی کیفیت تھی کبھی"
"اب تو پلکوں پر ایک دیا بھی نہیں"
"دل کو اب تک یقین آنہ سکا"
"یوں نہیں ہے کہ وہ ملا بھی نہیں"
"وقت اتنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گزر چکا ہے"
جانے والے سے اب گلہ بھی نہیں"
فائقہ اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی اور حاذق کے رویے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
اب دوبارہ اگر تو نے فائقہ کے بارے میں کوئی الٹی سیدھی بکواس کی تو زبان کھینچ لوں گا میں تیری۔" اس نے دلاور کا گریبان پکڑ کر غصے میں اسکو وارننگ دی۔ اور ایک جھٹکے سے اسے چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ جبکہ یہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرادیے۔
"آگ ابھی بھی بجھی نہیں ہے۔" جہانگیر نے نتیجے پر پہنچا۔
نہیں یار! اس نے جو ہمارے ساتھ کیا ہے، اسکے بدلے میں ہم نے تو پھر بھی کچھ نہیں کیا، اور تم بھی کبھی معاف مت کرنا اسے، تم نے تو پھر بھی اسے صرف زبان سے سمجھایا تھا، میرا تو جی چاہ رہا تھا کہ اس ڈائین کا گلا دبا دوں۔" اس نے اور غصہ دکھایا۔
"بس کر یار! چھوڑ دے۔" حاذق نے اس بار تھوڑی سختی سے بیڈ پر سے اٹھتے ہوئے پھر کہا۔ جبکہ جہانگیر بھی کھڑا ہوگیا۔
"کیوں چھوڑ دوں یار! میں تو نہیں چھوڑوں گا بلکہ ایسا سبق سکھاؤں گا کہ زندگی بھر یاد رکھے گی وہ نیچ اور گری ہوئی لڑکی، خود کو سمجھتی کیا ہے وہ (گالی) کہیں کی، میں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"
"چٹاخ!" دلاور بول ہی رہا تھا کہ حاذق نے پوری قوت سے اسے تھپڑ مارا اور اسکی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔ دونوں اب حیرانی سے حاذق کو دیکھنے لگے۔
شام سے فون ہی نہیں اٹھا رہے تھے تم ہمارا، تو ہم گھر آگئے تمہارے، آتے ہوئے نیچے ہال میں آنٹی سے ملاقات ہوگئی تو انھوں نے بھی بتایا کہ تم شام سے کمرہ بند کیے پڑے ہوئے ہو، سب خریت تو ہے؟" جہانگیر نے بتا کر انجان بنتے ہوئے پوچھا۔ اور اسکے سامنے ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔
"ہممم! بس تھوڑا سر میں درد تھا تو اسی لئے۔" اس نے جھوٹ بولا۔
"ویسے بالکل ٹھیک کیا تم نے شام میں فائقہ کے ساتھ۔" دلاور نے کہا۔ جو جہانگیر کے قریب کھڑا ہوا تھا۔ حاذق نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"مجھے بھی بہت غصہ آرہا تھا اس پر، بلکہ ابھی بھی آرہا ہے۔" وہ غصے سے مزید بولا۔
"چھوڑ جانے دے یار۔" حاذق نے ٹالنا چاہا۔
وہ مسیحا نہ بنا ہم نے بھی خواہش نہیں کی"
"اپنی شرطوں پر جیئے اس سے گزارش نہیں کی"
"اب کے ہم نے بھی دیا ترکِ تعلق کا جواب"
"ہونٹ خاموش رہے آنکھ نے بارش نہیں کی"
"اس نے ظاہر کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا پشیماں ہونا"
"ہم بھی انجان رہے ہم نے بھی پرسش نہیں کی"
رات کے دس بج رہے تھے اور حاذق اپنے کمرے میں لائٹ بند کیے اندھیرے میں لیٹا ہوا تھا۔ ملازمہ اسے کھانے کیلئے بلانے آئی تھی پر سر درد کا بہانہ بنا کر اس نے انکار کردیا۔
دراصل اسکے دل میں درد ہورہا تھا اسکا ذہن مختلف سوچوں میں مشغول تھا کہ تب ہی کمرے کا دروازہ کھلا اور آنے والے نے لائٹ جلا دی۔
"کیا ہوگیا حاذق! ایسے کیوں لیٹے ہوئے ہو؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟" جہانگیر نے قریب آتے ہوئے پوچھا۔ اسکے پیچھے دلاور بھی تھا۔
"ٹھیک ہوں میں، تم دونوں اس وقت یہاں!" وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
پر کچھ بھی کرنے سے پہلے اگر ہمیں یہ پتہ چل جاتا کہ حاذق کے دل میں کیا ہے؟ تو زیادہ اچھا تھا۔" جہانگیر نے خیال ظاہر کیا۔
"میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔" دلاور نے یکدم پرجوش ہوکر چٹکی بجائی۔
"کیسا آئیڈیا؟" سب نے یک زبان پوچھا۔
ہممم! لگتا تو مجھے بھی ایسا ہی ہے۔" دلاور نے بھی تائید کی۔
"تو بس پھر ٹھیک ہے، آج سے مشن سٹارٹ۔" عروج نے کہا۔
"کونسا مشن؟" جہانگیر نے پوچھا۔
"حاذق بھائی اور فائقہ جی کی پھر سے دوستی کروانے کا مشن۔" اس نے وضاحت کی۔
"اگر حاذق نہیں مانا تو؟" فائقہ نے خدشہ ظاہر کیا۔
"محبت کی تمنا ہے تو پھر وہ وسف پیدا کر"
"مگر شرط یہ ہے اپنے اندر اسکی جستجو پیدا کر"
"اگر نہ بدلے وہ تیری خاطر ہر چیز تو کہنا"
"تو اپنے آپ میں پہلے اندازِ وفا تو پیدا کر"
عروج نے مسکراتے ہوئے شاعرانہ انداز میں جواب دیا۔
"ہممم! میں پوری کوشش کروں گی۔" فائقہ نے گویا عہد کیا
میرا مشورہ تو یہی ہے کہ آپ لوگ پہلے حاذق بھائی کی مرضی معلوم کریں، اگر وہ اب بھی فائقہ جی میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ہم انھیں منانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اگر اب سچ میں انکے دل میں کوئی اس طرح کا جذبہ نہیں ہے تو پھر کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" اس نے مشورہ دیا۔
"لیکن یہ پتہ کیسے چلے گا کہ حاذق کیا چاہتا ہے؟ وہ تو کسی کو کچھ بتاتا ہی نہیں ہے۔" دلاور نے سوال اٹھایا۔
"مجھے لگتا ہے کہ حاذق اب بھی وہی چاہتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک وہ شادی وغیرہ کرکے اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکا ہوتا۔" جہانگیر نے تکا لگایا۔
جہانگیر، دلاور، فائقہ اور عروج تینوں اس وقت جہانگیر کے گھر کے ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہوئے مزاکرات کررہے تھے۔
"ویسے جہاں تک میرا خیال ہے کہ غلطی دونوں کی ہی ہے، پہلی غلطی فائقہ کی ہے کہ انہیں حاذق بھائی کو ایسے ہرٹ نہیں کرنا چاہئے تھا اور دوسری غلطی حاذق بھائی کی ہے کہ انھیں بھی بات اتنی بڑھانی نہیں چاہئے تھی، جب انہوں نے اپنی غلطی مان کر معافی مانگ لی تھی تو انھیں معاف کردینا چاہئے تھا۔" ساری بات جان کر عروج نے رائے دی۔
"ہم نے تمہاری ججمنٹ نہیں مشورہ مانگا ہے، یہ تو ہمیں بھی پتہ ہے۔" جہانگیر نے کہا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain