" اس نے بتایا۔
"اچھا ویسے تم نے ہمیں فون کرنے کا کیوں کہا تھا کہ ہم فون کرکے تم سے پوچھیں کہ کہاں آنا ہے؟ یہ تو پہلے ہی ڈیسائڈ ہوگیا تھا ناں کہ ہم لوگ یہاں آئیں گے اور تم شام سے کہاں تھے؟" جہانگیر نے پوچھا۔
"فون کا اس لئے کہا تھا کہ اگر تم دونوں کو پیسے نہیں ملے ہوتے تو پھر ہم کہیں اور جاتے اور میں شام سے سر حسن کے پاس تھا۔" حاذق نے بتایا۔
کہ تب ہی جہانگیر کو اسکے عقب سے کوئی سایہ انکی جانب آتا ہوا دکھائی دیا۔
"شاید آگیا وہ بھی۔" اس نے حاذق کے عقب میں دیکھتے ہوئے کہا۔
اس نے بھی جہانگیر کے کہنے پر پیچھے مڑ کر اسکے تعقب میں دیکھا۔ اتنے میں وہ سایہ دونوں کے قریب آچکا تھا اور سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں اسکا چہرہ نظر آگیا۔
"کہاں مرے ہوئے تھے تم؟" حاذق نے پوچھا
رات کے گیارہ بج چکے تھے حاذق اس وقت سنسان سڑک پر اکیلا کھڑا ہوا تھا اور بار بار اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی میں ٹائم دیکھ رہا تھا۔
"کہاں رہ گئے یہ لوگ؟" اس نے خودکلامی کی۔
اور بےچینی سے یہاں وہاں ٹہلنے لگا۔ کہ تب ہی ایک جانب سے اسے ایک سایہ اپنی طرف آتا ہوا دکھائی دیا تو وہ چوکنا ہوگیا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ سایہ اسکے قریب آگیا اور سٹریٹ لائٹ کی پیلی روشنی میں وہ آنے والے کو پہچان گیا۔
"آگیا میں۔" جہانگیر نے قریب آکر کہا۔
"نظر آرہا ہے مجھے بھی اندھا نہیں ہوں میں۔" اس نے کہا۔
"وہ تیسرا کارٹون نہیں آیا ابھی تک؟" جہانگیر نے پوچھا۔
"نہیں! فون آیا تھا اسکا کہہ رہا تھا پیسوں کا انتظام ہوگیا ہے آرہا ہوں میں پر ابھی تک آیا نہیں ہے
رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے پر آس پاس سناٹا ایسا ہورہا تھا کہ رات کے دو بج رہے ہوں۔
جہانگیر دبے پاؤں دیوار کی جانب آیا آس پاس کا جائزہ لیا اور بنا آواز کیے دیوار پر چڑھ کر باہر کی جانب کود گیا۔ باہر کودنے کی وجہ سے اسکے کپڑوں پر تھوڑی مٹی لگ گئی تھی جسے اس نے ہاتھ سے صاف کیا اور ایک سائیڈ پر آکر کسی کو فون کرنے لگا۔
"ہیلو! پیسوں کا بندوبست ہوگیا ہے کہاں آنا ہے مجھے؟" اس نے فون کان سے لگا کر دھیمے لہجے میں پوچھا۔
اور مخالف کا جواب سننے لگا۔
"اوکے آرہا ہوں میں۔" اس نے کہا۔
پھر لائن کاٹ کر موبائل واپس جیب میں رکھتے ہوئے تسلی کیلئے پھر آس پاس کا جائزہ لیا اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگیا۔
#ہوجاتی_ہیں_غلطیاں
#پہلی_قسط
#تحریر_فریال_خان
رات کے دس بج رہے تھے پر آس پاس سناٹا ایسا ہورہا تھا کہ رات دو بج رہے ہوں۔
دلاور بنا آواز کیے دیوار پر چڑھ کر باہر کی جانب کود گیا۔ اس نے ہاتھ سے اپنی پینٹ پر لگی مٹی صاف کی اور ایک سائیڈ پر آکر فون میں کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
"ہیلو! ہاں رقم کا انتظام ہوگیا ہے بتاؤ کہاں آؤں میں؟" اس نے فون کان سے لگا کر آہستگی سے پوچھا۔
اور دوسری جانب کا جواب سننے لگا۔
"ٹھیک ہے میں بس ابھی آیا۔" اس نے کہا۔
لائن کاٹ کر فون واپس جیب میں ڈال کے آس پاس کا اچھے سے جائزہ لیا۔ اور مطلوبہ جگہ پر جانے کیلئے روانہ ہوگیا۔

submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain