Damadam.pk
Salwa's posts | Damadam

Salwa's posts:

Salwa
 

اچھا ٹھیک ہے۔" دلاور نے مزید بات نہیں بڑھائی۔
"آپکا نام کیا ہے؟"
"آپ کیا کریں گے جان کر؟" لڑکی نے تنک کر پوچھا۔
"ایک تو میں بل دینے پر راضی ہوگیا اب کیا میں نام بھی نہیں جان سکتا؟"
"تو آپکی غلطی سے ہوا ہے یہ نقصان اب ازالہ تو کرنا پڑے گا ناں!" اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔
"مرضی ہے آپکی، ویسے میرا نام دلاور منصور ہے۔" اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
لڑکی نے کچھ نہیں کہا۔
"چلیں کاؤنٹر پر بل ادا کردوں میں۔" اس نے کہا۔
دونوں خاموشی سے کاؤنٹر کی جانب آگئے اور وہ بل ادا کرنے لگا۔
"خوش! کردیا بل ادا؟" اس نے کاؤنٹر پر سے ہٹتے ہوئے کہا۔
"جی، اب اسے آپ ہی رکھ لیں اور میرا نام فائقہ ہے۔" اس نے نئی فرفیوم کی شیشی دلاور کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔
اور بنا اس کا جواب سنے باہر کی جانب چلی گئی جبکہ اسے دیکھتا رہ گیا۔

Salwa
 

دیکھ کر نہیں مڑسکتے تھے؟" لڑکی نے ناگواری سے کہا۔
"ایکسکیوزمی میڈیم! غلطی آپکی ہے، میں نے آپکو نہیں دیکھا تھا پر آپ نے تو مجھے دیکھا ہوگا ناں! اپنی غلطی نہ ہونے پر بھی میں نے آپ سے سوری کہا اور آپ غلطی ہونے پر بھی مجھے الزام دے رہی ہیں۔" اس نے تھوڑی سختی دکھائی۔
"تو مجھے کیا پتہ تھا کہ آپ مڑنے والے ہیں۔" لڑکی نے سٹپٹاکر کہا۔
"تو میں کیا مڑنے سے پہلے آپکو خط لکھتا کہ میں مڑنے والا ہوں، اگر کوئی میرے پیچھے آرہا ہے تو براہِ مہربانی سائیڈ پر ہوجائے۔" اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔
"وہ سب مجھے نہیں پتہ، پر میرا یہ نقصان آپکی وجہ سے ہوا ہے اس لئے اب نئے پرفیوم کا اور اسکا بل آپ ہی دیں گے۔" لڑکی نے نیچے ٹوٹی ہوئی پرفیوم کی شیشی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
دلاور نے کچھ نہیں کہا اور خاموشی سے لڑکی کو گھورنے لگا

Salwa
 

آج اتوار تھا جہانگیر اور حاذق تو دن چڑھے سوئے پڑے ہوئے تھے جبکہ دلاور سپر مارکیٹ آیا ہوا تھا۔
جہانگیر صحیح کہتا تھا کہ اسکے پاس جب پیسے ہوتے ہیں اور جب تک وہ انھیں خرچ کرکے کنگال نہیں ہوجاتا اسے سکون نہیں ملتا۔
کافی دیر سے وہ اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا پر کیا لے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ایسے ہی گھومتے ہوئے وہ پرفیوم وغیرہ کی سائیڈ پر آگیا اور پرفیوم چیک کرنے لگا۔
جب کوئی پرفیوم بھی پسند نہیں آیا تو وہ واپس جانے کے ارادے سے پلٹا ہی تھا کہ آنے والے سے ٹکراگیا اور چھناکے سے کوئی چیز ٹوٹی۔
"اوہ! ایم سو سوری۔" دلاور نے جلدی سے معذرت کی۔
ٹکرانے والی لڑکی تھی، ٹکر کی وجہ سے لڑکی کے ہاتھ سے پرفیوم کی شیشی گر کر ٹوٹ گئی تھی۔ اور پرفیوم کی خوشبو آس پاس محسوس ہونے لگی تھی۔

Salwa
 

سینڈوچ کھانے لگا۔ جہانگیر بھی واپس کھانے کی جانب متوجہ ہوگیا۔
"یار جب اس لنگور کی گرل فرینڈ ہوسکتی ہے تو ہماری کیوں نہیں؟" اسکی سوئی ابھی بھی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
"کیونکہ ہم اچھے لڑکے ہیں اور اچھے لڑکے گرل فرینڈ نہیں بناتے، ہیں ناں جہانگیر!" حاذق نے کہتے ہوئے تائید چاہی۔
"ہاں بالکل۔" اس نے تائید کی۔
"چلو گرل فرینڈ نہیں بناتے پر شادی بھی تو نہیں ہورہی ہے ناں!" اس نے نیا رونا شروع کیا۔
"پہلے پڑھائی تو پوری کرلو پھر شادی بھی ہوجائے گی۔" حاذق نے کہا۔
اور کولڈڈرنک کا سپ لینے لگا۔
"ویسے ہم تینوں میں سب سے زیادہ شدید قسم کا سنگل یہی ہے، اتنا سنگل ہے کہ اس نے الارم بھی "جانوں اٹھ جائیں ناں" والا لگایا ہوا ہے۔" جہانگیر نے کہا۔
اور دونوں تالی مار کر ہنسنے لگے۔ جبکہ وہ دونوں کو گھورنے لگا

Salwa
 

"ابے یاروں وہ دیکھو!" دلاور نے یکدم جوش میں آکر کہا۔
حاذق اور جہانگیر چونک کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ تینوں اس وقت کلاس کے بعد کینٹین میں بیٹھے ہوئے تھے۔
"ابے اِدھر اُدھر کیا دیکھ رہے ہو؟ سیدھا میری نظروں کے تعقب میں دیکھو۔" اس نے کہا۔
دونوں ہی اسکی نظروں کے تعقب میں دیکھنے لگے۔
"کیا ہوا؟ اویس ہے وہ۔" جہانگیر نے واپس دلاور کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"ارے اس لنگور کے پہلو میں جو حور بیٹھی ہے اسکو تو دیکھو، اسکی شکل بھی ہے ایسی لڑکی سے بات بھی کرنے کی۔" اس نے تپ کر کہا۔
دونوں نے پھر اس کی جانب دیکھا۔
"چھوڑ ناں ہمیں کیا؟"" حاذق نے لاپرواہی سے کہا۔

Salwa
 

اس نے بتایا۔
"چلو یاروں! اب سونے کی تیاری کرو کل سر شمسی کا بہت امپورٹنٹ لیکچیر ہے، کسی بھی قیمت پر مس نہیں ہونا چاہئے۔" دلاور نے یاد دہانی کرائی۔

Salwa
 

"بیٹا وہ ہنس ہنس کر نہیں دیکھ رہی تھی، وہ تجھے دیکھ دیکھ کر ہنس رہی تھی، اس نے پہلی بار لائیو کارٹون دیکھا ہوگا ناں!" حاذق نے کہا۔
اور جہانگیر کے ساتھ تالی مار کر ہنسے لگا۔
جبکہ وہ دونوں کو گھورنے لگا۔
"ہنس لو، اڑا لو مذاق دیکھنا ایک دن دنیا کی سب سے حسین لڑکی میری گرل فرینڈ بنے گی اور تم دونوں اسے میرے ساتھ دیکھ کر جل کے کوئلہ ہوجاؤ گے۔" اس نے دونوں کو ہنستا دیکھ کر اکڑ سے کہا۔
"بیٹا دوائی کھاؤ اور سو، تمہاری دماغی توازن مسلسل بگاڑتا جارہا ہے بہکی بہکی باتیں کررہے ہو۔" حاذق نے ہنستے ہوئے کہا۔
"ویسے حاذق، اس بار تم نے ہمیں الگ الگ ہوسٹل سے نکلنے کا کیوں کہا؟ ہم تینوں ساتھ بھی تو چل سکتے تھے ناں!" جہانگیر نے پوچھا۔
"تینوں ایک وقت میں ایک ساتھ غائب ہوتے تو پکڑے جانے کا چانس زیادہ تھا۔

Salwa
 

مثال ہے یار۔" جہانگیر نے کہا۔
"طبیعت ٹھیک ہے تم دونوں کی! میں کب چپک رہا تھا اس لڑکی سے؟ وہ لڑکی خود چپک رہی تھی مجھ سے۔" اس نے وضاحت کی۔
"اچھا! وہ خود چپک رہی تھی تو آپ خود الگ کیوں نہیں ہوگئے؟" جہانگیر نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
"ہوگیا تھا الگ میں۔" اس نے کھسیانا ہوکر کہا۔
"ویسے اگر ہم تھوڑی دیر اور رکتے ناں! تو وہ اورینج ڈریس والی لڑکی سے بات بن جانی تھی میری، تھوڑی تھوڑی لائن دے رہی تھی وہ مجھے۔" دلاور نے کہا۔
"کیسے لائن دے رہی تھی؟" جہانگیر نے پوچھا۔
"مطلب وہ بار بار مجھے ہنس ہنس کر دیکھ رہی تھی۔" اس نے وضاحت کی۔

Salwa
 

کلب میں چلتے ہیں۔" جہانگیر نے یاد دلایا۔
"ہاں تو تم لوگ منع بھی تو کرسکتے تھے ناں! تم دونوں کیوں راضی ہوگئے۔" اس نے جتایا۔
"یہی سوچ کر کہ اس بار کچھ نیا کرتے ہیں مزہ آئے گا۔" حاذق نے بتایا۔
"بیٹا تم تو رہنے ہی دو، دیکھا تھا ہم نے کیسے چپک چپک کر اس پیلی شرٹ والی لڑکی کے ساتھ ڈانس کررہے تھے تم، فل انجوائے کیا ہے تم نے تو۔" دلاور نے کہا۔
"ہاں! ہم دونوں کیلئے وہ مثال ہے کہ کھایا پیا کچھ نہیں اور گلاس توڑے بارہ انے کے، جبکہ حاذق کیلئے وہ مثال ہے کہ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں۔" جہانگیر نے بھی کہا۔
"ابے سر کڑھائی میں ڈالنے سے جل نہیں جائے گا۔" دلاور نے حیرانگی سے کہا۔

Salwa
 

ابے یار! بیکار میں وہاں گئے ہم لوگ ٹائم اور پیسے دونوں برباد ہوئے۔" جہانگیر نے اپنے سنگل بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"اسکا ہی آئیڈیا تھا یہ۔" حاذق نے بھی بیڈ پر بیٹھتے ہوئے دلاور کی جانب اشارہ کرکے کہا۔
جو جوتوں سمیت بیڈ پر اوندھا لیٹا ہوا تھا۔
"اچھا! میں تو جیسے زبردستی گن پائنٹ پر لے کر گیا تھا تم لوگوں کو تم لوگ تو دودھ پیتے ننھے منے بچے ہو ناں!" اس نے بھی اٹھ کر بیٹھتے ہوئے تپ کر کہا۔
"آئیڈیا تو تمہارا ہی تھا ناں! کہ ہر بار ہم لوگ چوری چھپے کچھ مخصوص جگہوں پر جاتے ہیں اس بار کچھ الگ کرتے ہیں

Salwa
 

پھر کچھ ٹائم بعد دلاور بھی آگیا اور یوں ان تینوں کا گروپ بن گیا۔
ان لوگوں کو ایک ساتھ رہتے ہوئے دو سال ہوچکے تھے پر تینوں کی دوستی دیکھ کر لگتا تھا کہ تینوں بچپن کے دوست ہیں۔

Salwa
 

سب سے پہلے حاذق اس ہاسٹل میں آیا۔ اس کیلئے پرائیویٹ روم لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا پر وہ تو یہاں آیا ہی دوست بنانے تھا۔ اس لئے وہ تین لڑکوں کے ساتھ ایک روم میں رہنے لگا۔ پر وہ لڑکے اسکے ٹائپ کے نہیں تھے۔ اس لئے جلد ہی اس نے الگ روم لے لیا۔
پھر کچھ دنوں بعد جہانگیر ہاسٹل آیا اسی مقصد کیلئے جس مقصد کیلئے حاذق آیا تھا۔ وہ حاذق کے روم میں رہنے لگا۔ دونوں میں کافی اچھی دوستی ہوگئی۔

Salwa
 

زیادہ تر ہائی کلاس فیملی کی طرح انکے والدین کے پاس بھی ان لوگوں کیلئے وقت نہیں تھا۔ ان لوگوں کا بھی یہی خیال تھا کہ بس اچھا کھلانا، پلانا، پہننا اور پڑھانا ہی والدین کی زمیداری ہے۔ جبکہ یہ لوگ ان سے کچھ خاص توجہ چاہتے تھے۔ پر یہ لوگ بس چاہ کر ہی رہ گئے۔ اس اکیلے پن کا تینوں نے یہ حل نکالا کے یہ لوگ گھر سے دور ہاسٹل شفٹ ہوگئے دوستوں کی تلاش میں

Salwa
 

حاذق، جہانگیر اور دلاور یہ تینوں ایک ہی یونیورسیٹی میں پڑھتے تھے اور ایک ہی ہاسٹل میں تینوں روم میٹس تھے۔ تینوں کا تعلق ہی ہائی کلاس گھرانے سے تھا۔
حاذق کے پاپا کافی بڑے ڈاکٹر تھے اور ممی نام نہاد N.G.O وغیرہ میں مصروف رہتی تھیں۔ وہ انکا اکلوتا بیٹا تھا۔
جہانگیر کے ابو بھی کافی بڑے بزنس مین تھے ممی کو گھومنے پھرنے سے فرصت نہیں ہوتی تھی۔ اس سے چھوٹی ایک بہن بھی تھی جو اپنی ممی کے ساتھ ہی مصروف رہتی تھی۔
دلاور کے ڈیڈ بھی کافی بڑے وکیل تھے اور ممی اسکی ہاؤس وائف تھیں پر ہاؤس پر کم اور پارلر اور شاپنگ مال میں زیادہ رہتی تھیں وہ۔ اسسے بڑے اسکے دو بہن بھائی تھے اور دونوں ہی شادی شدہ تھے۔

Salwa
 

ہیں! روز جاتے ہو اور مجھے ایک دفعہ بھی نہیں پوچھا۔" اس نے مصنوئی حیرت سے کہا۔
"اسکی بکواس تو چلتی رہے گی، چل جہانگیر ہم چلتے ہیں۔" حاذق نے کہا۔
اور دونوں کلب کی جانب جانے لگے کیونکہ وہ لوگ کلب سے کافی فاصلے پر کھڑے تھے۔
"اوہ نہیں یاروں رکو میں بھی آیا۔" دلاور نے بھی پیچھے آتے ہوئے کہا۔

Salwa
 

تم اپنی عیاشیوں کی وجہ سے غریب لگتے ہو ہر مہینے ہم تینوں کے فادر ہمیں برابر برابر پاکٹ منی دیتے ہیں پر تم ایک جھٹکے میں سب اڑا دیتے ہو اور پھر بعد میں ہم سے اُدھار مانگتے پھیرتے ہو۔" جہانگیر نے وضاحت کی۔
"چلو اب کیا یہاں کھڑے رہ کر بکواس ہی کرنی ہے؟ اندر نہیں جانا؟" حاذق نے پوچھا۔
"جانا ہے یار اسی لئے تو اتنی محنت کی ہے اور میں تو بہت زیادہ ہی اکسائٹیڈ ہوں اندر جانے کیلئے، پہلی مرتبہ کسی کلب میں جاؤں گا میں۔" دلاور نے پرجوش انداز میں کہا۔
"ہاں! اور ہم تو جیسے روز جاتے ہیں۔" جہانگیر نے طنز مارا۔
"

Salwa
 

"دس ہزار۔" اس نے منہ بنا کر بتایا۔
"فون پر تو بڑے بھرم سے بول رہا تھا کہ رقم کا انتظام ہوگیا ہے جیسے دس ہزار نہیں دس لاکھ مل گئے ہوں تجھے۔" اس نے طنز مارا۔
"یہ بھی غنیمت جانو، ڈیڈ سے کتنی مشکل سے یہ پیسے ملیں ہیں یہ میں ہی جانتا ہوں۔" اس نے گویا احسان جتایا۔
"اچھا اچھا ٹھیک ہے، اور تمھیں کتنے پیسے ملے جہانگیر؟"
"پچیس ہزار۔" اس نے بتایا۔
"واہ یار! کتنے سخی ہیں تمہارے ابو۔" دلاور نے رشک سے کہا۔
"گڈ! مجھے تیس ہزار ملے ہیں۔" اس نے بھی بتایا۔
"یار تم دونوں کے بیچ میں کچھ زیادہ ہی غریب نہیں لگتا۔" دلاور نے افسردگی سے کہا۔

Salwa
 

اس نے اثبات میں سرہلایا۔
"لعنت ہے تیری شکل پر۔" اس نے باقاعدہ پانچوں انگلیاں اسکے منہ کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
"وہ سب چھوڑو، یہ باتوں کہ کتنے کتنے پیسے ملے ہیں تم دونوں کو؟" حاذق نے دونوں کی بکواس کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا۔
"یار میری ڈیڈ تو بڑی مشکل سے مانے ہیں میرے اکاؤنٹ میں پیسے ڈلوانے کیلئے، میں نے انکو کہا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!"
"ابے پوری کہانی مت سنا صرف اتنا بتا کہ کتنے پیسے ملے ہیں؟" حاذق نے دلاور کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا

Salwa
 

پر آج تو پچھلے والے واقعے کو مدنظر رکھتے ہوئے خود ہم تینوں نے چوکیدار کی چائے میں نیند کی دوائی ملائی تھی تو کیا آج بھی چوکیدار جاگ گیا تھا؟" جہانگیر نے وضاحت کرتے ہوئے پوچھا۔
"نہیں! آج چوکیدار نہیں جاگا تھا۔"
"تو پھر تم لیٹ کیوں آئے؟" حاذق نے پوچھا۔
"میرا پیٹ خراب ہوگیا تھا تو پھر میں واپس ہاسٹل بھاگا اور پھر فارغ ہوکر آیا۔" دلاور نے اطمینان سے بتایا۔
"تو ایک گھنٹے سے باتھروم میں تھا!" جہانگیر نے حیرانگی سے پوچھا۔

Salwa
 

"کہیں بھی بھی۔" دلاور نے دانت نکال کر کہا۔
"سب سے پہلے تمہارا فون آیا تھا دس بجے کہ تم آرہے ہو اور اب گیارہ بج رہے ہیں ہاسٹل سے یہاں تک آنے میں تمھیں ایک گھنٹہ لگ گیا؟" حاذق نے پوچھا۔
"اچھا! ابھی ایک گھنٹہ میرا انتظار کیا کرنا پڑا جان نکل گئی تمہاری اور پچھلی مرتبہ جب میں سب سے پہلے آیا تھا اور جو تم دونوں نے مجھے دو گھنٹے انتظار کروایا تھا اسکا کیا؟" دلاور نے یاد دلایا۔
"وہ تو ہمیں اس لئے دیر ہوگئی تھی کہ عین وقت پر جب ہم ہاسٹل سے نکل رہے تھے تو چوکیدار جاگ گیا تھا جب وہ اپنے کیبن میں گیا تو پھر موقع دیکھ کر ہم آئے تھے