ہو_جاتی_ہیں_غلطیاں
۔دلاور آج پھر اسی سپر مارکیٹ میں آیا ہوا تھا جہاں وہ اس دن فائقہ سے ملا تھا اور آج بھی وہ اسی امید پر یہاں آیا تھا کہ شاید وہ دوبارہ اسے مل جائے۔ پر اتفاق بار بار نہیں ہوتے اس لئے وہ خوار ہوکر واپس ہولیا۔
پر ہاسٹل سے کچھ فاصلے پر جو منظر اس نے دیکھا اسکو دیکھ کر وہ خوشی سے بےہوش ہوتے ہوتے بچا تھا۔
سامنے سے فائقہ آرہی تھی۔ وہ بھی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اسکے پاس آیا۔
"السلام و علیکم! پہچانا مجھے؟" اس نے قریب آکر خوشی سے پوچھا۔ جبکہ وہ بھی ایک جگہ رک گئی۔
"جی، وہی ہیں جس نے اس دن میرا نقصان کردیا تھا۔" اس نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔
"لیکن بھر بھی تو دیا تھا ناں!" اس نے فوراً تصیح کی۔
"جی تو بولیں اب کیا کام ہے؟" وہ سیدھا مدعے پر آئی۔
اس گلی میں ہی ہے میرا گھر۔" فائقہ نے تھوڑی دور جاکر ایک گلی کے کونے پر رک کر کہا۔
"ٹھیک ہے جاؤ میں دیکھ رہا ہوں۔" اس نے کہا۔
"بہت شکریہ آپکا اگر ابھی آپ نہیں آتے تو پتہ نہیں کیا ہوجاتا؟" اس نے تشکر آمیز لہجے میں کہا۔
"شکریہ میرا نہیں، اللّه کا ادا کرو اس نے ہی مجھے تمہارے لئے وسیلہ بنا کر بھیجا تھا۔"
"ہممم! بیشک۔"
"چلو اب جلدی سے جاؤ۔" اس نے کہا۔
وہ سرہلاکر گلی میں چلی گئی اور ایک گھر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ اسکے اندر جانے کے بعد وہ بھی اپنے ہاسٹل کی جانب چلا گیا۔
لڑکی اس بیچ ڈری سہمی ایک کونے میں کھڑی تھی۔ زور زبردستی کے دوران اسکا دوپٹہ بھی جھاڑیوں میں اٹک کر اس سے جدا ہوگیا تھا۔
حاذق نے اس کا جھاڑیوں میں اٹکا ہوا دوپٹہ نکال کر اسے اوڑھا دیا۔
"کون ہو تم؟ اور اس وقت یہاں کیا کررہی تھی؟" اس نے پوچھا۔
میں فائقہ ہوں، یہاں قریب ہی رہتی ہوں اور اس وقت اپنے گھر جارہی تھی کہ تب ہی ان لڑکوں نے میرا راستہ روک لیا اور مجھے زبردستی یہاں لے آئے۔" اس نے اپنا دوپٹہ درست کرتے ہوئے بتایا۔
"ہممم! اگلی دفعہ احتیاط کرنا اور اس وقت گھر سے باہر مت نکلنا چلو تمھیں تمہارے گھر چھوڑ دوں۔" اس نے کہا۔
اور دونوں آہستہ آہستہ چلنے لگے۔
آواز جس لڑکی کی بھی تھی وہ شاید رو رہی تھی۔
"چلا جتنا چلانا ہے، یہاں اس وقت دور دور تک تیری مدد کیلئے کوئی نہیں آنے والا۔" اب ایک لڑکے کی تمسخرہ اُڑاتی آواز آئی۔
اور ساتھ ہی دو لوگوں کے قہقے بھی سنائی دیے۔ اس نے جھاڑیاں ہٹا کر دیکھا تو دو لڑکوں نے ایک لڑکی کو جکڑا ہوا تھا اور انکے ارادہ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔ اس سے پہلے کے وہ لوگ اپنے غلط ارادوں میں کامیاب ہوتے۔
اد نے پوری قوت سے ایک لات لڑکے کی کمر پر رسید کی۔ سب ہی اچانک حملے سے چونک گئے اور لڑکی کو چھوڑ کر حاذق کی جانب متوجہ ہوگئے۔ اس نے بھی بنا لحاظ کیے دونوں لڑکوں کو دھونا شروع کردیا۔ دونوں لڑکے نشئی تھے۔ اس لئے اسے ان پر سبقت حاصل تھی اور وہ لوگ زیادہ دیر اسکے بھاری بھرکم لاتوں اور گھونسوں کا مقابلہ نہیں کر پائے اور بھاگ گئے۔
رات کے گیارہ بج رہے تھے اور حاذق اویس کے گھر سے واپس ہاسٹل آرہا تھا روڈ پر سناٹا ہورہا تھا اور سٹریٹ لائٹ کی پیلی پیلی روشنی نے ماحول اور خوفناک بنایا ہوا تھا۔
"اس منحوس کی ہی نظر لگی ہے، بالکل بھی مزہ نہیں آیا بیکار میں اتنی دور گیا میں۔" حاذق نے خودکلامی کرتے ہوئے دلاور کو کوسا۔
اور تیز تیز قدم بڑھانے لگا۔
"کوئی ہے؟ بچاؤ!" اچانک ایک لڑکی کے چیخنے کی آواز آئی۔
وہ ٹھٹھک کر رک گیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
"پلیز ہیلپ۔" پھر سے آواز آئی۔
آواز کچھ فاصلے پر روڈ کے بائیں جانب اگی لمبی لمبی جھاڑیوں کے پیچھے سے آئی تھی۔ وہ جلدی سے جھاڑیوں کی جانب آیا۔
"کوئی تو میری مدد کرو۔"پھر آواز آئی۔
آواز جس لڑکی کی بھی تھی ۔
"یہ کہاں گیا ہے رات کے نوں بجے؟" جہانگیر نے پوچھا۔
"انڈے اور ڈبل روٹی لینے گیا ہے ناشتے کیلئے۔" دلاور نے بتایا۔
"اتنا تیار ہوکر!" اس نے حیرانگی سے کہا۔
"تو رہنے دے بھائی، اپنے ننھے سے دماغ پر زور مت ڈال اور کتاب پڑھ۔" اس نے کہا۔
تو جہانگیر نے کاندھے اچکا کر واپس کتاب منہ کے آگے کرلی۔ اور وہ پھر سے فون میں گم کھیلنے میں مگن ہوگیا۔
ارے او کتابی کیڑے، تم سے بات کررہے ہیں ہم۔" دلاور نے اسے متوجہ کرنے کیلئے اپنا تکیہ کھینچ کر مارا۔
وہ چونک کر دونوں کی جانب متوجہ ہوا۔
"ہاں! کیا ہوا؟" اس نے چونک کر پوچھا۔
"ٹیپو سلطان نے ہاسٹل پر حملہ کردیا ہے بوریا بستر سمیٹو اور بھاگو۔" حاذق نے بیڈ پر بیٹھ کر جوتے پہنتے ہوئے کہا۔
"ہمیں تو کچھ نہیں ہوا پر تمھیں شام سے کیا ہوا ہے؟ کومہ میں کیوں گئے ہوئے ہو؟" دلاور نے پوچھا۔
"اچھا دوستوں، ملتے ہیں بریک کے بعد، تب تک کیلئے الله حافظ۔" حاذق نے کہا۔
اور روم سے باہر نکل گیا۔
"یہ کہاں گیا ہے رات کے نوں بجے؟" جہانگیر نے پوچھا۔
"یار میں پھر بولوں گا کہ اس لنگور کی برتھڈے پر مت جا بور ہوجائے گا۔" دلاور نے حاذق کو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے تیار ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
اور بیڈ پر لیٹ کر فون میں گیم کھیلنے لگا۔
"تم دونوں کو مسلہ کیا ہے؟ خود تو جا نہیں رہے ہو اویس کی برتھڈے پر اور مجھے بھی جانے نہیں دے رہے ہو۔" اس نے ہیئر برش واپس ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
"پچھلی مرتبہ جب تم چھٹیوں پر گھر گئے ہوئے تھے تب میں اور جہانگیر گئے تھے، اس نے کلاس میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے کی خوشی میں پارٹی دی تھی بہت ہی بیکار اور بور پارٹی تھی، ہیں ناں جہانگیر!" دلاور نے کہتے ہوئے اس سے تائید چاہی۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اپنے بیڈ پر کتاب کھولے بیٹھا تھا پر دھیان اسکا کہیں اور تھا۔
"یہ جب سے باہر سے آیا ہے، ایسے ہی کومہ میں گیا ہوا ہے۔" حاذق نے گھڑی پہنتے ہوئے کہا۔
اچھا! پر کبھی دیکھا نہیں آپکو وہاں میں تو دو سال سے اس ہاسٹل میں ہوں۔" اس نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
"ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں مجھے وہاں شفٹ ہوئے۔"
"اچھا! پہلے پتہ ہوتا تو وہیں مل لیتے بلاوجہ اتنی دور آگئے ہم۔"
"کوئی بات نہیں اب تو پتہ چل گیا ناں! خیر اچھا لگا آپ سے مل کر اور ایک بار پھر شکریہ۔"
"مجھے بھی، اور شکریہ کی کوئی بات نہیں آپکی جگہ کوئی بھی ہوتا تو میں ایسا ہی کرتا چلیں پھر واپس چلتے ہیں، ایک ہی ایریا میں تو جانا ہے۔"
"نہیں! دراصل میں ابھی گھر نہیں جارہی مجھے یہاں سے کہیں اور جانا ہے یہاں تو میں آپکو آپکی امانت دینے آئی تھی۔"
"اوہ! اچھا چلیں تو پھر ملاقات ہوگی، الله حافظ۔"
"ضرور، الله حافظ۔" اس نے بھی کہا۔
اور پھر دونوں اپنے اپنے راستوں پر چلے گئے۔
پیسے لے جانا بھول گئی تھی اور اس طرف کی بک شاپ بند تھی، گھر میرا یونیورسیٹی سے دور ہے، تو میں نوٹ بک کی تلاش میں اس ایریا میں آگئی۔" اس نے بتایا۔
"ہممم! آئندہ خیال رکھیے گا۔"
"آپ یہاں ہی رہتے ہیں؟"
"نہیں! یہاں سے کچھ دور بوائز ہاسٹل ہے میں وہاں رہتا ہوں یہاں یونیورسیٹی آتا ہوں اور اتفاق سے آج میں اپنی نوٹ بک گھر بھول آیا تھا تو بجائے کسی کلاس فیلو سے لینے کے میں نے سوچا کہ نئی نوٹ بک ہی لے لوں پر اب لگ رہا ہے کہ میں نوٹ بک بھولا ہی اس لئے تھا تا کہ آپ سے مل کر آپکی مدد کرسکوں۔"
"ہممم! ہوسکتا ہے۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"ویسے جس ایریا میں آپکا ہاسٹل ہے، میں بھی وہیں رہتی ہوں۔" اس نے بتایا۔
شام کے پانچ بج رہے تھے اور جہانگیر کشمکش میں مبتلا تھا کہ وہاں جائے یا نہیں؟ پھر آخر کار وہ روانہ ہو ہی گیا۔ مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر ایک پیڑ کے قریب ہی اسے فائقہ کھڑی ہوئی نظر آگئی۔
"السلام و علیکم!" اس نے قریب آکر سلام کیا۔
"وعلیکم السلام شکر ہے آپ آگئے۔" اس نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
اور پرس کھول کر اس میں سے پیسے نکالے۔
"یہ لیجئے آپکی امانت۔" اس نے پیسے اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
"شکریہ، پر ضرورت تھی نہیں ویسے اسکی۔" اس نے پیسے لیتے ہوئے کہا۔
"بالکل تھی، مشکل وقت میں آپ میرے کام آئے اور یہ آپکی امانت تھی واپس کرنا فرض تھی مجھ پر۔"
"ویسے آپ اِس یونیورسیٹی میں پڑھتی ہیں؟" اس نے اپنی یونیورسیٹی کا نام لے کر پوچھا۔
"نہیں! میں دوسری یونیورسیٹی میں پڑھتی ہوں دراصل آج مجھے نوٹ بک لینی تھی،
ٹھیک ہے، اب میں چلتا ہوں پانچ منٹ بعد میری کلاس ہے۔" اس نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
"اچھا آپکا نام کیا ہے؟"
"جہانگیر ذولفقار۔"
"میرا نام فائقہ ہے، میں شام پانچ بجے یہاں ہی انتظار کروں گی آپکا۔" اس نے بتایا۔
پھر وہ سرہلاکر اپنے راستے پر چلا گیا اور فائقہ اپنے راستے
سوری میڈیم۔"
"آپ ایسا کریں ان ہی پیسوں میں سے انکی بک کے بھی پیسے کاٹ لیں۔" جہانگیر نے بیچ میں مداخلت کی۔
وہ حیرانگی سے اسکی جانب دیکھنے لگی۔
"نہیں آپ کیوں پیسے دیں گے؟" اس نے جھجھکتے ہوئے کہا۔
"کوئی بات نہیں، آپکی حالت سمجھ سکتا ہوں میں، میں بھی ارجنٹ نوٹ بک ہی لینے آیا ہوں۔" اس نے کہا۔
تب تک شاپکیپر نے اسے باقی پیسے واپس کردیے تو وہ پیسے لے کر شاپ سے باہر آگیا۔
"ایکسکیوزمی!" فائقہ نے اسکے پیچھے شاپ سے باہر آتے ہوئے اسے پکارا۔
وہ رک گیا۔
"آپ بتادیں کہ آپ دوبارہ کہاں ملیں گے؟ تا کہ میں آپکو آپکے پیسے واپس لوٹا سکوں۔" اس نے کہا۔
"ارے اسکی کوئی ضرورت نہیں ہے ایک معمولی سی رقم تو ہے۔"
"پر ہے تو ناں! آپ ایسا کیجئے گا آج شام پانچ بجے یہاں ہی آجائیے گا میں آپکا انتظار کروں گی۔"
یہ لیں میڈیم دو سو روپے ہوئے آپکے۔" شاپکیپر نے نوٹ بک کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے کہا۔
"ایک منٹ بھائی پیسے نکال لوں، تب تک آپ باقی لوگوں کا بل کلئیر کردیں۔" فائقہ نے پرس ٹٹولتے ہوئے کہا۔
شاپکیپر سرہلاکر باقی کسٹمرز کو ڈیل کرنے لگا۔ اور وہ مسلسل پرس ٹٹول رہی رہی پر اب اسکے چہرے پر واضح طور پر پریشانی دیکھی جاسکتی تھی۔
"سر دو سو روپے ہوئے۔" شاپکیپر نے جہانگیر سے کہا۔
وہ جیب سے پیسے نکالنے لگا۔ وہ بھی اس وقت بک شاپ پر نوٹ بک لینے آیا ہوا تھا۔
"بھیا! میں پیسے گھر بھول آئی ہوں اور مجھے بہت ارجنٹ اس نوٹ بک کی ضرورت ہے، آدھے گھنٹے بعد میری کلاس ہے کیا میں شام تک آپکو پیسے دے دوں تو چلے گا؟" اس نے پوچھا۔
"سوری میڈیم پر میں اس شاپ کا مالک نہیں ہوں مجھے اس کی اجازت نہیں ہے۔" اس نے معذرت کی۔
"پلیز بھیا!" اس نے پھر منت کی۔
نہیں یار، مجھے لگا کہ تم نے یا دلاور نے ڈال دی ہوگی۔" اس نے بتایا۔
"اب کیا کریں گے؟ ہم تینوں تو ایک ہی کلاس میں ہونے کی وجہ سے استمعال بھی ایک ہی نوٹ بک کرتے ہیں۔" دلاور نے کہا۔
"ایسا کرتے ہیں کسی کلاس فیلو سے کچھ دیر کیلئے نوٹ بک مانگ لیتے ہیں۔" جہانگیر نے کہا۔
"یار پوری کلاس سے تو ہم لوگ لڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کون دے گا ہمیں اپنی بک؟" دلاور نے کہا۔
"ایسا کرو جہانگیر، ابھی کلاس شروع ہونے میں دس منٹ ہیں یونیورسیٹی کے پاس جو بک شاپ ہے تم وہاں سے جاکر جلدی سے ایک نوٹ بک لے آؤ۔" حاذق نے مشورہ دیا۔
"کیوں! میں کیوں جاؤں؟ تم لوگ بھولے ہو تم لوگ جاؤ۔" اس نے صاف انکار کیا۔
"یار پہلی بات تو یہ کہ غلطی تینوں کی ہے اور دوسری بات کہ چلنے میں تمہاری سپیڈ تیز ہے تو تم فٹافٹ لے آؤ گے چلا جا ناں یار، بھائی نہیں ہے۔" حاذق نے مسکا لگایا۔
وقت کم تھا
اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ سر کا لیکچیر نوٹ کس پر کریں گے؟ نوٹ بک تو ہم ہاسٹل میں ہی بھول آئے ہیں۔" حاذق نے بتایا۔
اور اب اسکا بھی رنگ اُڑگیا۔
"کیا! تم نے رات کو واپس بیگ میں نہیں ڈالی تھی!" اس نے بےیقینی سے پوچھا۔
"نہیں یار، مجھے لگا کہ تم نے یا دلاور نے ڈال دی ہوگی۔" اس نے بتایا۔
"اب کیا کریں گے؟ ہم تینوں تو ایک ہی کلاس میں ہونے کی وجہ سے استمعال بھی ایک ہی نوٹ بک کرتے ہیں۔" دلاور نے کہا۔
"ایسا کرتے ہیں کسی کلاس فیلو سے کچھ دیر کیلئے نوٹ بک مانگ لیتے ہیں۔" جہانگیر نے کہا۔
"یار پوری کلاس سے تو ہم لوگ لڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کون دے گا ہمیں اپنی بک؟" دلاور نے کہا۔
کیا ہوا؟ تم دونوں کے چہروں کے رنگ کیوں اڑے ہوئے ہیں؟" جہانگیر نے سینڈوچ اور سموسوں کی پلیٹ ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
اور خود بھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ تینوں اس وقت بریک میں کینٹین پر موجود تھے۔
"تجھے پتہ چلے گا تو تیرا بھی رنگ اُڑ جائے گا۔" حاذق نے کہا۔
"اچھا! تو اُڑاؤ پھر میرا رنگ بھی۔" اس نے لاپرواہی سے کہا۔
اور سموسہ اٹھا کر کھانے لگا۔
"اگلا پیریڈ سر شمسی کا ہے اور وہ جو بھی لیکچیر دیتے ہیں اسے نوٹ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے اور اگر کوئی نوٹ نہ بنا پائے تو سر شمسی نے سختی سے کسی دوسرے سے نوٹس لینے سے منع کیا ہوا ہے۔" دلاور نے بتایا۔
"واہ کیا بات ہے! میں تو جانتا ہی نہیں تھا اس بارے میں۔" اس نے مصنوئی حیرت سے کہا۔
"پر بل تو تم نے دیا تھا ناں! تو یہ پرفیوم تمہارا ہی ہوا۔" جہانگیر نے کہا۔
دونوں ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ انھیں پرفیوم کی خوشبو محسوس ہوئی۔ دونوں نے پلٹ کر دیکھا تو حاذق جو کہ ابھی ابھی نہا کر نکلا تھا دوبارہ تقریباً اسی پرفیوم سے نہا چکا تھا۔
"نہیں! یہ کیا کِیا حاذق؟" دلاور کی چیخ نکل گئی۔
"پرفیوم لگایا ہے اچھی خوشبو ہے۔" اس نے کہا۔
اور دلاور کی شکل دیکھ کر جہانگیر کی ہنسی چھوٹ گئی۔ دلاور نے جلدی سے آگے بڑھ کر پرفیوم کی بوتل اٹھائی اور دونوں کو گھور کر کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ وہ ہنوز ہنس رہا تھا۔
"اسکو کیا ہوگیا؟ اور تم کیوں دانت نکال رہے ہو؟" حاذق نے ناسمجھی سے پوچھا۔
"ارے بقول دلاور کے پہلی مرتبہ کسی لڑکی نے اسے کوئی چیز دی تھی جو اس سے پہلے تم نے استمعال کرلی۔" جہانگیر نے بتایا۔
"کیا! صحیح سے بتا یار۔" اس نے الجھ کر کہا۔
اچھا لو رکھ دی بس! اب خوش؟" اس نے پرفیوم کی بوتل ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں، مجھے واپس دو۔" دلاور نے کہا۔
"دے دوں گا پر پہلے یہ بتاؤ کہ ایسی کیا خاص بات ہے اس میں کہ جب سے لے کر آئے ہو اسے ہی گھورے جارہے ہو۔" جہانگیر نے کندھوں سے پکڑ کر اسے واپس بیڈ پر بیٹھاتے ہوئے پوچھا۔
اور خود بھی اسکے سامنے اپنے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
"یار مارکیٹ میں، ایک لڑکی سے ٹکرا گیا تھا میں، اور اسکی پرفیوم کی بوتل ٹوٹ گئی تھی، تو اس نے کہا کہ میں اس ٹوٹی ہوئی بوتل کا اور اس نئی بوتل کا بل ادا کروں میں نے بل دے دیا پر اس لڑکی نے یہ پرفیوم لیا ہی نہیں مجھے دے کر چلی گئی۔" اس نے بتایا۔
"تو اس میں بوتل کو گھورنے والی کونسی بات ہے؟"
"یار پہلی مرتبہ کسی لڑکی نے مجھے کوئی چیز دی ہے تو مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا۔"
بیٹا اسے ہاتھ میں پکڑ کر گھورتے نہیں ہیں کپڑوں پر چھڑکتے ہیں۔" جہانگیر نے دلاور سے کہا۔
جو کب سے بیڈ پر اوندھا لیٹا ہوا پرفیوم کی شیشی کو ہاتھ میں پکڑے گھورے جارہا تھا۔اور اس نے کوئی جواب بھی نہیں دیا۔ جہانگیر نے اچانک سے جھپٹا مار کر اسکے ہاتھ سے پرفیوم لے لیا تو وہ یکدم اٹھ کر بیٹھ گیا۔
"دیکھ جہانگیر بوتل واپس کر۔" اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
"اگر نہیں کروں تو؟"
"دیکھ نازک ہے، تیرے مذاق کے چکر میں گر کر ٹوٹ جائے گی واپس دے دے۔"
"تو اس میں کونسی بڑی بات ہے؟ دوسرا لے لینا پرفیوم کی کمی تھوڑی ہے مارکیٹوں میں۔" اس نے لاپرواہی سے بوتل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے کہا۔
"دیکھ جہانگیر اگر یہ بوتل ٹوٹی تو اچھا نہیں ہوگا۔" اس نے دھمکی دی۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain