اب اس کی یاد ستانے کو بار بار آئے وہ زندگی جو ترے شہر میں گزار آئے تری لگن نے زمانے کی خاک چھنوائی تری طلب میں تمام آرزوئیں ہار آئے یہ بے بسی بھی نہیں لطفِ اختیار سے کم خدا کرے نہ کبھی دل پہ اختیار آئے قدم قدم پہ گلستاں کھلے تھے رستے میں عجیب لوگ ہیں ہم بھی،کہ سوئے دار آئے نہ چہچہے، نہ سرودِ شگفتگی، نہ مہک کسے اب ایسی بہاروں پہ اعتبار آئے جنوں کو اب کے گریباں سے کیا ملے گا کہ ہم بفیضِ موسمِ گل پیرہن اتار آئے یہ فخر کم تو نہیں کوئے یار میں نکہت نہ شرمسار گئے تھے، نہ شرمسار آئے (نکہت بریلوی
تم کو مری اُفتاد کا اندازہ نہیں ہے تنہائی صِلہ ہے مرا، خمیازہ نہیں ہے تم مجھ سے نہ مل پاؤ گے ہرگز، کہ مرے گرد دیوار ہی دیوار ہے، دروازہ نہیں ہے ڈاکٹر خورشیدؔ رضوی
وہ تَخت پر جو شَخص تھا، نَشِیں رہا ؟ نہیں رہا دِلوں میں ایک روز بھی مَکِیں رہا ؟ نہیں رہا گَلی گَلی یہ حادثے گَھڑی گَھڑی کے وَسوسے کِسی کو اَگلی سانس کا یَقِیں رہا ؟ نہیں رہا نَظَر سے لَوگ گِرگئے، ذَرا عُرُوج کَیا مِلا جہاں پہ جِس کا ظَرف تھا، وہیں رہا ؟ نہیں رہا سُنا ہے اَہلِ حَکم میں سَبھی تھے صادِق و اَمیں کوئی ہمارے دَرد کا اَمیں رہا ؟ نہیں رہا وہ قُوَّتِ اُخُوَّتِ عوام کَیا، نِظام کَیا وہ شَاد باد پاک سَر زَمِیں رہا ؟ نہیں رہا احمد خلیل خان
اسے کہنا۔۔! خزاں کے زرد پتوں کا کوئی سایہ نہیں ہوتا ، بہت بےمول ہو کر جب زمیں پر آن گرتے ہیں تو یخ بستہ ہوائیں بھی انہی کو زخم دیتی ہیں ، اسے کہنا۔۔! کہ مجھ کو بھول کر ، بے مول نہ کرنا۔
میرے بستر سے اُتر دُکھ میرے آج اعصاب شکستہ ہیں میرے نیند بھی ضد پر اتر آئی ہے میں جو ہر رات ترے پہلو میں ایک کروٹ پہ پڑا رہتا ہوں آج آسُودہ بدن ہونے دے دیکھ! مجھے سُونے دے..
چارہ گر ہوتے ہیں کچھ دکھ میں دوا کرنے کو چارہ گر کوئی نہیں ہے؟ تو کراہے جاؤ! میں ہوں اک ہجر کی منکوحہ مرے ساتھ نہ رہ! یہ نہ ہو تم بھی اداسی سے بیاہے جاؤ! تعبیر علی