میں اپنے وجود کے اندر بھٹکتے بھٹکتے تھک گئی ھوں میں نے اپنے وجود کی مسافتوں میں بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں"💔💔
۔                    اتھرو تارا ، ھو سکدا اے
                     دُکھ دا چاره ، ھو سکدا اے۔۔۔
                     اِکو واری فرض تے نئیں ناں
                     عشق دوبارہ ، ھو سکدا اے۔۔۔
                     ککھوں ھولا جان نہ سانُوں
                     ککھ وی بھارا ، ھو سکدا اے۔۔۔
                     اَجے نہ رشتے ، توڑ تُوں سارے
                     اَجے گزارہ ، ھو سکدا اے۔۔۔
                     کدی کدائیں جان دا دشمن
                     جان تُوں پیارا ، ھو سکدا اے۔۔۔
                     کھول نہ پچھلے کھاتے سارے
                     ھور کِھلارا ، ھو سکدا اے۔۔۔
کہتے ہیں محبت نہ بھی رھے۔۔
!! بھرم رھنے دیتے ہیں
ممکن نہیں کہ ساتھ نبھائیں تمام عمر
ممکن بھی کس طرح ھو کہ دونوں ذہین ہیں 
میں اِن دنوں بہت سے مسائل میں ھوں گھِرا
تُو نے بچھڑنا ھے تو یہ دن بہترین ہیں 
زوہیر عباس
دِل جو ہارااا تو کوئی حوصلہ باقی نہ رھا
میرے ہاتھوں سے میری جِیت گئی مات گئی__!! 
کس لیے عہدِ گُزشتہ کا کوئی ذِکر کروں
اُسکی فِطرت ھے کہ جب رات گئی بات گئی_
- post removed -
	
پھر کوئی دور۔۔۔۔۔۔ ھوا جاتا ھے
پھر کوئی دل کے قریب آئے گا
احمد عطا
محبت نفسیاتی مسئلہ ھے
یہ نارمل اور پریکٹیکل لوگوں کو کبھی نہیں ھوتی ۔"💔🙂
ہم وہ انا پرست ہیں دائم کہ دہر میں 
گھٹ گھٹ کے مر گئے پکارا نہیں اسے
اداسیوں کا  تعفن  رھا  وہیں کا وہیں 
جلایا کمرے میں لوبان اور عود بہت 
قدیم خوابوں کی روحیں مگر نہیں نکلیں 
اگرچہ  آنکھوں  پہ  کروائے  دم درود بہت
جب اس کے ناز میں ھر طرح سے اٹھانے لگا
اسے بھی میری محبت سے خوف آنے لگا،
نہ پھینک عشق ہمارا یوں دشت تہمت میں،
یہ لاش قیمتی ھے ٹھیک سے ٹھکانے لگا،
محمد مبشر میو
اُنکی صحبت میں گئے، سنبھلے، دوبارہ ٹوٹے،،
ہم کسی شخص کو دے دے کے سہارا ٹوٹے،،،
یہ بھی عجب رسم ھے، بالکل نہ سمجھ آئی ہمیں،،
پیار بھی ہم ھی کریں، دل بھی ہمارا ٹوٹے..!!
چہرے پر چہرے ہیں
انسان اندر سے کتنے گہرے ہیں
اب شوقِ سفر، خواہشِ یکجائی بہت ھے
دشمن ھی ملے ، راہ میں تنہائی بہت ھے
ہم کون سے غالب تھے کہ شہرت ہمیں ملتی
دنیا ، تری اتنی بھی پذیرائی بہت ھے
زخموں کی نمائش کا سلیقہ نہیں ہم کو
وہ ہیں کہ انہیں شوقِ مسیحائی بہت ھے
لوگوں سے تعارف نہ کوئی جان نہ پہچان
دل ھے کہ اسی بزم کا شیدائی بہت ھے
گلیوں میں مگر کوئی دریچہ نہیں کھلتا
آپس میں یہاں شورِ شناسائی بہت ھے
شامیں ہیں بہت سوختہ ، برسات میں 
کہنے کو بھرا شہر ھے ، تنہائی بہت ھے۔
 حیدر علی آتش
				
			منزلوں سے گمراہ کر دیتے ہیں لوگ'
ھر شخص سے راستہ پوچھنا اچھا نہیں ھوتا.
واسطہ حسن سے کیا، شدتِ جذبات سے کیا 
عشق کو تیرے قبیلے یا میری ذات سے کیا 
مری مصروف طبعیت بھی کہاں روک سکی
وہ تو یاد آتا ھے اس کو مرے دن رات سے کیا 
محسن نقوی
				
			
				
			میری مانو تو چھوڑ دو ان کو
وہ جو کہتے ہیں تُم ضروری ھو
یہ ضرورت بھی پوری ھو گئی تو؟
پھر کہیں گے کہ تُم مجبوری ھو
💔
submitted by 
uploaded by 
profile: 
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain