ہر ایک زخم کو اسکی رضا سمجھتا تھا کبھی کبھی میں خدا کو خدا سمجھتا تھا اگا لیے ہیں شجر گھر میں کچھ اداسی کے میں شاعری تری آب و ہوا سمجھتا تھا سو اس نے زخم بھی سب سے جدا دیا ہے مجھے وہ شخص میں جسے سب سے جدا سمجھتا تھا تمہیں خبر ہے دیا کس لیے بجھایا گیا؟ یہ شہر اس کو مرا ہمنوا سمجھتا تھا تری نظر سے گرا ہوں تو یاد آیا ہے میں اپنے آپ کو کتنا بڑا سمجھتا تھا بچھڑنے والے میں سو عیب تھے مگر فرہاد وہ بد دماغ مرا مسئلہ سمجھتا تھا
آنکھ بھاری ہے خان زادی بے قراری ہے خان زادی میری آنکھوں میں آنکھ ڈالو بات جاری ہے خان زادی تجھ کو کھونے کا اک عجب سا خوف طاری ہے خان زادی پھول جھڑتے ہیں گر وہ بولے کتنی پیاری ہے خان زادی خان زادے بھی آئے ہوں گے مجھ پہ ہاری ہے خان زادی