دِلِ بےتاب کو دھڑکن عنایت کیوں نہیں کرتے محبت ہے تو پھر کھُل کے وضاحت کیوں نہیں کرتے بڑا ہے شوق جھیلوں پر تمہیں جگنو پکڑنے کا وہ آنکھیں خوبصورت ہیں سیاحت کیوں نہیں کرتے کہاں ہے اب وہ گلیوں میں کھلونے بانٹنے والا ہمارے دور کے بچے شرارت کیوں نہیں کرتے دلوں میں نفرتیں بھر کے کدھر سے یار لاتے ہیں مجھے لوگوں پہ حیرت ہے محبت کیوں نہیں کرتے سکونِ قلب کی کیونکر دعا کرتے نہیں آ کر مریضِ مرضٍ وحشت کی عیادت کیوں نہیں کرتے تمہاری سُرخ آنکھیں یہ بتاتی ہیں اناڑی ہو الم میں مسکرانے کی ریاضت کیوں نہیں کرتے عاطف جاوید عاطف
#Shah ~ کبھی کبھار کچھ لوگوں کی اصلیت کا پتہ ہونے کے باوجود بھی خاموش رہ کر صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان کی آخری حد کیا ہوسکتی ہے۔۔؟ 🙂 جب بھی کبھی زندگی میں کسی ایسے انسان سے پالا پڑے تو خاموشی سے چلتے جانا چاہئیے ۔ نظروں سے تو پہلے ہی وہ گر چکے ہوتے ہیں ، دماغ سے نکالنے کیلئے ان کی مکاری کی آخری حد دیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے 🙂۔ تاکہ زندگی میں دوبارہ کسی کی مکاریوں اور چالاکیوں سے بچا جاسکے ۔ زندگی کی حقیقتوں کی سمجھ تجربہ ہی دیتا ہے اور پھر تجربے کب آسانی سے مل جاتے ہیں بھلا❤۔