میں جب بھی لکھنے بیٹھتا ہوں سب لفظ خفا ہو جاتے ہیں ہر لفظ کی منت کرتا ہوں جو حال بیاں دل کا کر دے اس لفظ کا ہاتھ پکڑنے کو میں اپنی سوچ کے صحرا میں بس بس پاگل پاگل پھرتا ہوں اور جب میں تھک سا جاتا ہوں تب لفظوں کا اک جھرمٹ خود اٹکھیلیاں کرتے آتا ہے تب قلم کو جنبش دیتا ہوں پھر یاد تیری کے جوبن کو محسوس میں کرتا جاتا ہوں اور لفظ میں لکھتا جاتا ہوں یوں تیری یاد میں جان میری میں نظمیں لکھتا رہتا ہوں .
سوچنا روح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا یہ بھی کیا سانس کی تلوار بنائے رکھنا اب تو یہ رسم ہے خوشبو کے قصیدے پڑھنا پھول گلدان میں کاغذ کے سجائے رکھنا تیرگی ٹوٹ پڑے بھی تو برا مت کہیو ہو سکے گر تو چراغوں کو جلائے رکھنا راہ میں بھیڑ بھی پڑتی ہے ابھی سے سن لو ہاتھ سے ہاتھ ملا ہے تو ملائے رکھنا کوئی تخلیق بھی تکمیل نہ پائے مری نظم لکھ لوں تو مجھے نام نہ آئے رکھنا اپنی پرچھائیں سے منہ موڑ نہ لینا انورؔ تم اسے آج بھی باتوں میں لگائے رکھنا