Damadam.pk
Sukar's posts | Damadam

Sukar's posts:

Sukar
 

زندگی بھر خود کو بادشاہ سمجھتے رہے.......
. احساس تب ہوا جب ایک شخص سے پیار مانگا فقیر کی طرح...

Sukar
 

خدا گواہ ہے بڑی مشکل سے ملتا ہے
وہ ایک دل جو محبتیں نبھانے والا ہو

Sukar
 

وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے
کچھ لوگ بکھر کر بھی تماشا نہیں ہوتے
جاں دیتے ہیں جاں دینے کا سودا نہیں کرتے
شرمندۂ اعجاز مسیحا نہیں ہوتے
ہم خاک تھے پر جب اسے دیکھا تو بہت روئے
سنتے تھے کہ صحراؤں میں دریا نہیں ہوتے
اک تار گریباں کا رہے دھیان کہ سب لوگ
محفل میں تو ہوتے ہیں شناسا نہیں ہوتے
زہرا نگاہ

Sukar
 

اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہ تمام رکھ دیا
آمد دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سر شام رکھ دیا
شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی
اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا
اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس
کبک ��ری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا
جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوش یار تھا
اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

Sukar
 

جب آۓ گی سمجھ اسے میری وفائیں
تب وہ روۓ گا پھر سے میرا ہونے کے لیے

Sukar
 

اتنی ٹهوکریں دینے کا شکریہ صاحب
چلنے کا نہ سہی سنبهلنے کا ہنر تو آ گیا

وہ جو اُٹھاتے ہیں کردار پر اُنگلیاں
تخفے میں اُن کو آئینہ دیجئیے 😊
S  : وہ جو اُٹھاتے ہیں کردار پر اُنگلیاں تخفے میں اُن کو آئینہ دیجئیے 😊 - 
Folw to folw ❤😜😍😘😍👈
S  : Folw to folw ❤😜😍😘😍👈 - 
Sukar
 

folwکھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے
مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے
میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل
بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے
سڑک کو چھوڑ کر چلنا پڑے گا
کہ میرے گھر کا کچا راستہ ہے
me all 😜😜😜👈

Sukar
 

کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے
میں تو قائم ہوں ترے غم کی بدولت ورنہ
یوں بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے
شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تو ملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے
تیرے رستے کا جو کانٹا بھی میسر آئے
میں اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے
سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے
اس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کے
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے
آخری بات مجھے یاد ہے اس کی انورؔ
جانے والے کو گلے سے نہ لگاؤں اپنے

Sukar
 

شَفَق کی جِھیل میں جب سنگِ آفتاب گِرے
ہمارے گھر پہ سِیہ رات کا عذاب گِرے
کہیں تو گردشِ ایّام تھک کے سانْس بھی لے!
کبھی تو خیمۂ افلاک کی طناب گِرے
کواڑ بند رکھو ، برق ڈھونڈتی ہے تمھیں
کسے خبر کہ کہاں خانماں خراب گِرے
سرشکِ درد کُھلا اُس کے پیرہن پہ بہت !
زمِیں کی گود میں جیسے کوئی گلاب گِرے
کھُلی ہیں جِھیل سی آنکھیں نہ جُوئے درد چلی !
اُفق سے کٹ کے کہاں عکسِ ماہتاب گِرے
کہیں تو سِلسِلۂ اِنتظار ختم بھی ہو
کسی طرح تو یہ دیوارِ اِضطراب گِرے
کسی کے رائیگاں اشکوں کا کُچھ حِساب تو کر
فَلک سے یُوں تو سِتارے بھی بے حِساب گِرے
غزل کے رُوپ میں، وہ رُوبرُو جو ہو، محسن
لبوں سے لفظ اُڑیں، ہاتھ سے کتاب گِرے