زندگی بھر خود کو بادشاہ سمجھتے رہے.......
. احساس تب ہوا جب ایک شخص سے پیار مانگا فقیر کی طرح...
خدا گواہ ہے بڑی مشکل سے ملتا ہے
وہ ایک دل جو محبتیں نبھانے والا ہو
وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے
کچھ لوگ بکھر کر بھی تماشا نہیں ہوتے
جاں دیتے ہیں جاں دینے کا سودا نہیں کرتے
شرمندۂ اعجاز مسیحا نہیں ہوتے
ہم خاک تھے پر جب اسے دیکھا تو بہت روئے
سنتے تھے کہ صحراؤں میں دریا نہیں ہوتے
اک تار گریباں کا رہے دھیان کہ سب لوگ
محفل میں تو ہوتے ہیں شناسا نہیں ہوتے
زہرا نگاہ
اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہ تمام رکھ دیا
آمد دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سر شام رکھ دیا
شدت تشنگی میں بھی غیرت مے کشی رہی
اس نے جو پھیر لی نظر میں نے بھی جام رکھ دیا
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا
اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس
کبک ��ری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا
جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوش یار تھا
اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا
اور فرازؔ چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
جب آۓ گی سمجھ اسے میری وفائیں
تب وہ روۓ گا پھر سے میرا ہونے کے لیے
اتنی ٹهوکریں دینے کا شکریہ صاحب
چلنے کا نہ سہی سنبهلنے کا ہنر تو آ گیا
folwکھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے
مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے
میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل
بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے
سڑک کو چھوڑ کر چلنا پڑے گا
کہ میرے گھر کا کچا راستہ ہے
me all 😜😜😜👈
کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے
میں تو قائم ہوں ترے غم کی بدولت ورنہ
یوں بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے
شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تو ملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے
تیرے رستے کا جو کانٹا بھی میسر آئے
میں اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے
سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے
اس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کے
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے
آخری بات مجھے یاد ہے اس کی انورؔ
جانے والے کو گلے سے نہ لگاؤں اپنے
شَفَق کی جِھیل میں جب سنگِ آفتاب گِرے
ہمارے گھر پہ سِیہ رات کا عذاب گِرے
کہیں تو گردشِ ایّام تھک کے سانْس بھی لے!
کبھی تو خیمۂ افلاک کی طناب گِرے
کواڑ بند رکھو ، برق ڈھونڈتی ہے تمھیں
کسے خبر کہ کہاں خانماں خراب گِرے
سرشکِ درد کُھلا اُس کے پیرہن پہ بہت !
زمِیں کی گود میں جیسے کوئی گلاب گِرے
کھُلی ہیں جِھیل سی آنکھیں نہ جُوئے درد چلی !
اُفق سے کٹ کے کہاں عکسِ ماہتاب گِرے
کہیں تو سِلسِلۂ اِنتظار ختم بھی ہو
کسی طرح تو یہ دیوارِ اِضطراب گِرے
کسی کے رائیگاں اشکوں کا کُچھ حِساب تو کر
فَلک سے یُوں تو سِتارے بھی بے حِساب گِرے
غزل کے رُوپ میں، وہ رُوبرُو جو ہو، محسن
لبوں سے لفظ اُڑیں، ہاتھ سے کتاب گِرے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain