کچھ دن پہلے تو بے ایمانی کی حد ہی ہو گئی۔ گوشت والی کچوریاں بازار سے گھر پہنچتے پہنچتے راستے میں ارتقاء کے مرحلے سے گزرتی رہیں اور جب افطاری کے وقت کچوری کا سینہ چاک کیا تو سارا گوشت بند گوبھی، آلوؤں اور مٹروں میں تبدیل ہو چکا تھا۔ شہباز ، زرداری ، عمران اور عاصم جیسے لوگ یونہی اس قوم پر مسلط نہیں ہو جاتے۔ ہم اسی کے مستحق ہیں۔
زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اس کے گھومنے کی رفتار 30 کلومیٹر فی سیکنڈ بتائی جاتی ہے۔ لیکن مجھے یہ سب افسانہ لگتا ہے۔ اگر زمین اتنی تیزی سے گھوم رہی ہے تو آپ گیند ہوا میں اچھالیں تو اسے
ایک سیکنڈ بعد آپ سے 30 کلومیٹر دور گرنا چاہیئے۔ اور طیارے بے چارے تو اپنی منزل پر کبھی پہنچ ہی نہ پائیں۔ اگر زمین اس رفتار سے بھاگ رہی ہے تو بیلسٹک میزائل ہیں وہ بھی کبھی اپنے ہدف تک نہ پہنچ پائیں۔ اب کوئی بند گاڑی والی مثال نہ دے کیونکہ زمین اور بند گاڑی میں مماثلت کی بات حماقت سے خالی نہیں۔ یہ کشش ثقل والا سارا ٹنٹا ہی مشکوک ہے۔
پاکستان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں گنجوں کو ناخن مل گئے ہیں۔۔۔
مجھے دمادم پر آٹھ سے زیادہ سال ہو چکے ہیں۔ اس دوران ہوم پیج پر میں نے ہزاروں پوسٹس پڑھی ہیں۔ بھئی ناکام عاشقوں کو آہ و زاری کرتے تو بے شمار مرتبہ دیکھا ہے لیکن آج تک کوئی ایسی پوسٹ نظر نہیں آئی جس میں لکھا ہو کہ دمادم پر عشق کی سیڑھی چڑھنے والے دو عاشق آج چھت پر پہنچ گئے ہیں یعنی ان کی شادی ہو رہی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ یہاں سب لوگ ٹائم پاس کر رہے ہیں۔ خصوصا مردوں کی فطرت کا تو مجھے خوب اندازہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جو گریبان چاک کر کے صحرا نوردی کر رہے ہوتے ہیں وہ بڑے فخر سے اپنے دوستوں کی بیٹھک میں اپنے "شکار" گنوا رہے ہوتے ہیں۔ مجھے تو ان لوگوں سے سخت چڑ ہے جو یہ عشقیہ فسقیہ پوسٹس کر کے ہوم پیج کو گندا کرتے ہیں۔ ارے بھئی یہاں دکھڑے سنانے کی بجائے اپنے ماں باپ کو کہو کہ تمہاری شادی کریں۔ ہنہہہہ
کالا بھیڑیا ، چھچھوندر ، ٹکلا ، پاگل ، زیرو میٹر ، مطلبی ، کام چور ، خاندانی بیوقوف ، آوارہ ، ضدی
بہت سے منفرد نام پائے جاتے ہیں دمادم کی اس دنیا میں۔۔۔۔۔
فقہ رافضیہ والوں کو بھی خدا کی طرف سے اہلبیت کرام کو بھوکا پیاسا رکھنے کی خوب سزا ملی ہوئی ہے۔ بے چارے صبح صادق سے 10 منٹ پہلے ہی منہ باندھ لیتے ہیں اور پھر غروب آفتاب کے 10 منٹ بعد بھی بیٹھے رہتے ہیں تاکہ ان کو اپنا جرم یاد آتا رہے۔
دمادم کے ہوم پیج پر روزانہ 5 سے 10 ایسی پوسٹس آتی ہیں جن میں لوگوں کی بے وفائی کا شکوہ ہوتا ہے، سب سے معافی مانگی جاتی ہے اور لکھا ہوتا ہے "خدا حافظ دمادم اب میں یہاں کبھی نہیں آؤں گا/گی۔" اور پھر دوسرے یا تیسرے دن دمادم کو ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہنے والے وہی حضرت آن لائن تشریف فرما ہوتے ہیں۔ ایسی پوسٹس کرنے والوں میں سے 95 فیصد کو صرف توجہ چاہیئے ہوتی ہے کہ لوگ ان کی پوسٹ پر آ کر ان کی منتیں ترلے کریں کہ ہائے کیوں جا رہے ، پلیز نہ جاؤ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
شرم و حیا اور خوف خدا ہم لوگوں کے دلوں سے نکل چکے ہیں۔ رمضان میں شیاطین کے قید ہونے والی احادیث کے لطیفے بنائے جا رہے ہیں اور لوگ ان پر کھی کھی کر رہے ہیں۔ کچھ تو شرم کر لو۔ ہمارے بزرگ تو بغیر وضو کے حدیث پڑھنے کو بے ادبی جانتے تھے اور تم لوگوں نے احادیث کے مضامین کو مذاق کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ چند لائکس کی خاطر تم لوگ اتنا گر چکے ہو۔ مجھے علم ہے کہ یہ لطیفے تم لوگوں نے خود نہیں بنائے کیونکہ تم لوگ تو صرف کافی پیسٹ میں ماہر ہو۔ تمہارے پاس تو اتنی عقل بھی نہیں کہ تمہیں یہ اندازہ ہو سکے کہ کون سی شے کاپی پیسٹ اور شیئر کرنے کے قابل ہے اور کون سی نہیں۔ پتہ نہیں کہاں سے گنوار لوگ اٹھ کر یہاں آ گئے ہیں۔ بے غیرت کہیں کے۔
سیاسی مرشد عمران نیازی اور مذہبی مرشد انجینیئر مرزا ----- اس دماغی عارضے میں مبتلا افراد کا شفایاب ہو جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ اور اگر اس مرض میں لبرل ازم کی شکایت کا بھی اضافہ ہو جائے تو مریض کا تو گویا سفرِ سقر کا ٹکٹ کٹ جاتا ہے۔ الا ماشاءاللہ ہی کسی کی واپسی ہو پاتی ہے۔
پانچ چھ برس پہلے جب میں دمادم استعمال کرتا تھا تو تب یہاں اکثریت مذہبی یا ٹھرکی لوگوں کی تھی۔ اب واپس آیا ہوں تو ایک نئی پرجھاتی دکھائی دے رہی ہے اور وہ ہے نیم لبرل نیم فلسفیوں کا ٹولہ۔ مجھے تو ان بے چاروں کے حالات پر ترس آتا ہے۔ ان نام نہاد مفکرین کے نزدیک ذہنی اختلال اور نفسیاتی گٹھن کے اظہار کا دوسرا نام فلسفہ ہے۔ خیر جس فلسفے کے یہ پجاری ہیں اس کے متبعین کی اکثریت کا یہی انجام ہوتا ہے۔
سنا ہے کہ جب رومی بادشاہوں سے ان کی عوام تنگ آ جاتی تھی تو اس سے قبل کہ عوام ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی، وہ عوام کی توجہ کا محور بدلنے کی غرض سے کولوسیئم میں کبھی شمشیر زنی کے مقابلے کروانا شروع کر دیتے تو کبھی انسانوں کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈالنے کا تماشا دکھانے کا اہتمام کرتے اور یوں ظلم و ستم کی ماری مفلس و مقہور عوام اپنے دکھ درد بھلا کر یہ کھیل تماشے دیکھنے میں مشغول ہو جاتی اور ان کے باغیانہ خیالات تلواروں کی جھنکار اور شیروں کی دھاڑ تلے دفن ہو جاتے۔ بادشاہ بھی خوش اور عوام بھی خوش۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے عالمی قانون کے تحت چلنے والے اس زمانے میں ایک بھکاری قوم کے دانشور کرکٹ سٹیڈیمز پر رنگ روغن کر کے سمجھ رہے ہیں کہ اب دنیا میں ہماری عزت میں اضافہ ہو جائے گا۔ ارے بے غیرتو دنیا میں دو ٹکے کی اوقات نہیں ہے تم لوگوں کی۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح لوگ اس بات پر مزاحیہ تبصرے کر رہے تھے جب خبر آئی کہ ایک بھکاری نے اپنی شادی پر بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا اور ہزاروں لوگ اکٹھے کر لیے۔ اس کروفر والی شادی سے اس بھکاری کی جتنی عزت لوگوں کی نظروں میں بڑھی تھی اتنی ہی قدر چیمپئنز ٹرافی کے انعقاد کے بعد اس قوم کی دنیا میں بڑھے گی۔
جنت الحمقاء کی باسی یہ بے چاری قوم اور اس کے سستے جغادری۔۔۔۔۔۔۔
اگر آج کاپی پیسٹ کا آپشن ختم ہو جائے تو دمادم پر موجود آدھے سے زیادہ فلسفیوں ، پارٹ ٹائم شاعروں اور ناکام عاشقوں کا ناطقہ بند ہو جائے گا۔ تخلیقی صلاحیتیں آہستہ آہستہ اس قوم میں دم توڑ رہی ہیں۔
السلام علیکم ۔ یہ پوسٹ ان سب دوستوں کے لیے ہے
جن کی وجہ سے دمادم کے ساتھ بہت سی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ الحمدللہ میں خیریت سے ہوں اور امید ہے کہ آپ سب بھی خیریت سے ہوں گے۔
دمادم سے رابطہ اب بالکل کٹ چکا ہے اور یوں بھی آپ سب دوستوں کی وجہ سے رونق تھی جو اب گہنا چکی۔ مہران سے بات ہوتی رہتی ہے باقی سب تو جانے کہاں کھو چکے۔ میں بس اتنا کہنے آیا ہوں کہ آپ سب کو میں بہت مس کرتا ہوں۔ اپنا خیال رکھئے گا۔ خدا حافظ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain