مرد کو چار شادیوں کی مشروط اجازت ہے تو عورت کو کیوں نہیں؟
چونکہ لبرل مافیا کا دماغ علمی و منطقی دلائل جذب کرنے کی سکت نہیں رکھتا اس لیے میں ایک آسان مثال سے سمجھا دیتا ہوں۔ فرض کیجیئے کہ ایک لبرل خاتون جن کا نام مس رذیلہ ہے وہ مسٹر ذلیل، مسٹر خبیث ، مسٹر دیوث اور مسٹر جاہل نامی چار لبرل مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ اب کسی دن اتفاق سے مس رذیلہ 24 گھنٹوں کے اندر اپنے چاروں شوہروں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتی ہیں اور اس کا نتیجہ 9 ماہ بعد بے بی رذیل کی پیدائش کی شکل میں نکلتا ہے۔ادھر ہسپتال کے باہر ذلیل ، خبیث ، دیوث اور جاہل ڈنڈوں اور گھونسوں کا آزادانہ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ نومولود رذیل کی ولدیت اور کفالت کا ذمہ اٹھانے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ اور پھر جھگڑا ختم کرنے کے لیے بے بی رذیل کی ولدیت کے خانے میں ذلیل/جاہل/خبیث/دیوث لکھ دیا جاتا ہے

آج تو لبرلوں کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہے میں نے۔ بیچارے خارش زدہ کتے کی طرح پھڑک رہے ہیں۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے میں نے کہا تھا نا کہ ذرا ان آزادی اظہار رائے کے نام نہاد علمبرداروں کی ہفوات پر آپ تنقید تو کیجیئے اور پھر دیکھیئے کہ ان کی منافقت بالکل ویسے باہر آتی ہے جیسے برسات میں مینڈک اپنے بلوں سے باہر آتے ہیں۔
ویسے تو اکبر الہ آبادی کی ساری شاعری ہی لاجواب ہے لیکن انہوں نے "برق کلیسا" میں تو کمال ہی کر دیا ہے۔ واہ واہ کیا بات ہے۔ کاش کہ اقبال نے جو اکبر کی پیروی میں "ظریفانہ" کا آغاز کیا تھا وہ مزید کچھ طویل ہوتا۔ اقبال اور اکبر کے علاوہ حفیظ اور حسرت بھی مجھے پسند ہیں۔ حالی بھی ٹھیک ہے لیکن اس نیچری سر سید کا بغل بچہ بننا حالی کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ ظفر علی خان نے بھی اچھی شاعری کی ہے لیکن جو بیچ بیچ میں اس نے اکابرین کی ہجو گوئی کی ہے اس کی وجہ سے میں اس سے نالاں ہوں۔۔۔۔۔
میں نے جب یہ پڑھا تھا کہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی انگریزی کورٹ کچہری کے لیے "عدالت " کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا تب سے میں نے بھی پاکستانی کورٹ کچہریوں اور ججوں کے لیے عدالت اور عدلیہ جیسے الفاظ کبھی استعمال نہیں کیے۔ عدل اور اسلام آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور نظام کفر کے تحت فیصلے کرنے والی کسی کورٹ کچہری کو عدالت کہنا لفظ عدالت کے ساتھ ظلم ہے۔ کبھی آپ نام نہاد وزارت انصاف کی ویب سائٹ ملاحظہ کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ پاکستان میں رائج سینکڑوں قوانین 1839 سے 1946 کے درمیان بنائے گئے تھے اور تب سے ویسے چلے آ رہے ہیں اور یہ کورٹ کچہریاں فرنگیوں کے بنائے ہوئے انہی نوآبادیاتی قوانین کے تحت چل رہی ہیں۔
دو سو پچانوے سی تعزیرات پاکستان کی غالبا وہ واحد شق ہے جس کے تحت آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود لبرل اور ملحد لابی کے پیٹ میں اس کے خلاف مڑوڑ اٹھتے ہیں۔ جب بھی کوئی گستاخ لوگوں کے ہاتھوں کیفر کردار تک پہنچتا ہے تو یہ مافیا دو سو پچانوے سی کے خلاف درآمد شدہ پروپیگنڈا پھیلانا شروع کر دیتا ہے۔ ارے بے غیرتو اگر دو سو پچانوے سی کو تم نے اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا ہوتا تو کسی کو اپنے ہاتھ میں قانون لینے کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہوتی۔ لیکن تم تو گستاخوں کو امریکہ اور یورپ کے ٹکٹ بانٹے ہو اور پھر جب کوئی علم الدین یا ممتاز اٹھتا ہے تو تمہیں قانون کی بالادستی یاد آ جاتی ہے۔
اس سے زیادہ ذلت والی بات اور کیا ہو گی کہ اسلام کے تین مقدس ترین مقامات میں سے ایک پر یہودی اور دو پر سعودی قابض ہیں۔
لنڈے کے لبرلوں کی ذہنی پسماندگی کی ایک مثال۔۔۔
رابنسن کروسو : واہ واہ سبحان اللہ حضرت ڈینیل ڈیفیو صاحب نے کمال کر دیا ہے۔۔۔۔
حیی بن یقظان : ارے پیچھے کرو اس کو۔ ایسی کتابیں ہمارے ذوق سے میل نہیں کھاتیں۔۔۔۔
اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ
!تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ
دفعِ مرض کے واسطے پِل پیش کیجیئے
ولایتی و دیسی لبرلز کی ذہنی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بیچاروں کے نزدیک انسان کی آزادی کی معراج اور اس کا منتہی یہ ہے کہ وہ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اور جنسی تعلق قائم کرنے میں اپنی مرضی کا مالک ہو۔ اور اس معیار آزادی کے مطابق سب سے زیادہ روشن خیال اور لبرل حیوانات ٹھہرتے ہیں کہ اپنی مرضی سے کھاتے پیتے ہیں، کپڑے پہننے کی تو انہیں حاجت ہی نہیں اور جب چاہے جہاں جی چاہے جفتی کرتے پھرتے ہیں۔ لبرل ازم اور حیوانیت ایک ہی فلسفے کے دو رخ ہیں۔ آپ کی گلی کے باہر ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا گدھا اور دمادم پر ہفوات بکتا لبرل ، دونوں ایک ہی فلسفہ حیات کے متبع ہیں۔
میرا یہ مشاہدہ ہے کہ جو لوگ خود کو عقلِ کل سمجھ بیٹھتے ہیں اور دین اسلام کو عقلی و منطقی میزان پر تولنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس بات کا بوجھ ان کا ناقص ترازو نہ اٹھا سکے اس کا انکار کر دیتے ہیں ، ایسے لوگ اکثر قعرِ ضلالت میں جا گرتے ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ حروف مقطعات کو قرآن کے آغاز میں کیوں رکھا گیا؟ اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ انسان کتاب اللہ کو پڑھنے سے پہلے اپنی عقل اور علم کی تحدید و تنقیص اور اپنے عجز کا اقرار کرے کیونکہ اسی برتن میں کچھ بھرا جا سکتا ہے جو خالی ہو۔ مجھے اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا تعالی ہمارا یہی تو امتحان لینا چاہتا ہے کہ کیا اپنے آپ کو میرا مطیع کہنے والے میرا ہر حکم بلا چوں چرا بجا لاتے ہیں یا نہیں اگرچہ بظاہر وہ حکم ان کی ناقص عقل کی پہنچ سے ماورا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔

میرا کوئی فرقہ نہیں۔ میں سیدھا سادہ مسلمان ہوں جہاں مسجد نظر آئے وہاں نماز پڑھ لیتا ہوں۔
یہ جملہ آپ کو روشن خیال یا اعتدال پسند نہیں بناتا بلکہ آپ کی جہالت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جملہ کہہ کر آپ اپنی سطحی علمیت کا اعتراف کر رہے ہوتے ہیں اور اس بات کا ببانگ دہل اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ نہ تو آپ اسلام کی تاریخ سے واقف ہیں، نہ آپ کو عقائد اسلام، اصول دین اور ضروریات دین سے آگاہی ہے اور نہ ہی آپ نزاعی مسائل کے مبداء و وجوہات اور ان پر قولِ فیصل سے شناسائی رکھتے ہیں۔ اس جملے کے بودے پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو اسلام کی پوری تاریخ میں کوئی ایسا مجتہد، مفسر ، محدث اور محقق ایسا نہیں ملے گا جس نے یہ بات کی ہو۔
حضور اقدس ﷺ کے اسم مبارک کے ساتھ درود شریف کی بجائے ص، ع یا صلعم وغیرہ لکھنا حرام ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس نے سب سے پہلے درود شریف کا اختصار کیا تھا اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ قلم بھی ایک زبان ہے اور قلم سے درود پاک کی بجائے ص، ع وغیرہ لکھنا ایسے ہی ہے جیسے بولتے ہوئے درود شریف کی جگہ الم غلم بکنا۔ بنی اسرائیل نے حطة کو حنطة کہا تو عذاب نازل ہو گیا تھا اور خدا نے فرمایا کہ ظالموں نے جو انہیں حکم دیا گیا تھا اسے بدل دیا۔ (البقرة : ٥٩) ہمیں حکم ہوا ہے کہ ہم صلوة و سلام پڑھیں نہ کہ ص، ع یا صلعم تو دو انچ جگہ یا دو سیکنڈ بچانے کی خاطر درود پاک کو ص، ع ، صلعم یا ایس اے ڈبلیو وغیرہ سے بدلنے والوں کو عذاب الہی سے ڈرنا چاہیئے۔ اسی طرح رضی اللہ عنہ کو رض اور رحمة اللہ علیہ کو رح لکھنا بھی مکروہ و باعث حرمان ہے۔
شوکت تھانوی کی مزاح نگاری بہت پسند تھی۔ اس کی کوئی درجن بھر کتابیں پڑھ ڈالی تھیں۔ کوئی کتاب پڑھنا شروع کرتا تھا تو ایک ہی نشست میں پوری پڑھ ڈالتا تھا۔ خصوصا "جی ہاں پٹے ہیں" تو اردو ادب میں پسندیدہ کتب میں سے ایک تھی۔ لیکن پھر ایک دن اس کی خودنوشت پڑھتے ہوئے قادیانیوں کے بارے میں اس کے خیالات کا علم ہوا تو ساری محبت نفرت سے بدل گئی۔ نہیں معلوم کہ شوکت کو اپنی اس قادیانیت نوازی والی حماقت کا احساس ہوا یا نہیں لیکن اس کے بعد سے جو شوکت سے لگاؤ تھا وہ یکسر ختم ہو گیا۔
رشوت ستانی، سود خوری وغیرہ پر تو منہ سے کبھی بات نکل جاتی ہے لیکن آپ نے کبھی یہ محسوس کیا ہے کہ یہ قوم خوشامد پرستی اور حب جاہ کی وبا کا بھی شکار ہے۔ یونیورسٹیوں میں پروفیسر صاحبان کے منظور نظر وہ شاگرد قرار پاتے ہیں جو فن تملق میں مہارت رکھتے ہیں۔ باس کو سب اوکے کی رپورٹ دینے والا ملازم سب سے عزیز ہے، سیاست دانوں کے گرد ان کے تلوے چاٹنے والوں کا جم غفیر جمع ہے اور سپہ سالاروں کو داد شجاعت دینے کے لیے کور کمانڈر کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ حد یہ ہے کہ مذہبی مجالس میں بھی غوث زماں اور قطب دوراں جیسے القابات تھوک کے حساب سے بٹ رہے ہوتے ہیں۔ حرف تنقید و اصلاح تو کسی کو گوارا
ہی نہیں۔ حدیث پاک کے مطابق تو کسی کی سچی تعریف اس کے منہ پر کرنا بھی اس کو گویا چھری سے کاٹ ڈالنے کے مترادف ہے اور یہاں جھوٹی تعریفوں کے پل پر پل باندھے جاتے ہیں۔
کسی زمانے میں ہسپتال میں موت کو برا سمجھا جاتا تھا اور لوگ کہتے تھے کہ "دیکھو فلاں کو گھر میں موت بھی نصیب نہیں ہوئی۔" لیکن اب معاملہ الٹا ہو گیا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو مائی/بابے کو گھر میں رکھ کر مار دیا۔ چلو حادثاتی یا اچانک موت ہو جائے یا کوئی جوان ہو تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہسپتال میں سہولیات ہوتی ہیں لیکن جو اسی نوے سال کے بزرگ اپنی آخری سانسیں گن رہے ہوتے ہیں تو ان کے پیارے گھر میں ان کے ساتھ موجود ہوں اور یسین و فاتحہ کی صداؤں میں جان کنی ہو کیا یہ بہتر ہے یا یہ مناسب ہے کہ ایک سرکاری ہسپتال کے بستر پر جہاں دو دو تین تین مریض اکٹھے پڑے ہوتے ہیں وہاں بابا جی کے آخری وقت ان کو ٹیکے ٹھوکے جا رہے ہوں اور ناک منہ میں نالیاں ڈالی جا رہی ہوں اور گھر والوں کو وارڈ سے باہر نکالنے کے لیے گارڈ دھکے دے رہے ہوں۔ یہ کیسا الوداع ہے؟
جو دینی رحجان رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں وہ اکثر اپنے موقف پر بڑی مضبوطی سے قائم ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کا ایمان ہوتا ہے کہ اسلام دین کامل ہے اور اس میں کسی کمی کجی کی گنجائش نہیں۔ اس بنا پر ہندو ، عیسائی اور دیسی لبرل انہیں تنگ نظر یا کٹھ ملا یا پھر بنیاد پرست جیسے گھسے پٹے القابات دیتے ہیں۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ انہی لبرل حضرات پر جونہی آپ کچھ تنقید کریں گے تو یہ اتاؤلے ہو جائیں گے، ان کے منہ سے جھاگ اور زبان سے مغلظات پھوٹ پڑیں گے اور یہ مرنے مارنے پر تل جائیں گے۔ یعنی جو لوگ بظاہر اس بات کے قائل ہیں کہ ہر ایک کو آزادئ اظہار رائے کا حق ہے جب وہی حق ان کے خلاف استعمال ہو تو پھر ان کو مڑوڑ اٹھنے لگتے ہیں۔ ہے نا منافقت کی انتہا۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کو یوں مخاطب کیا جائے "میٹھے میٹھے لبرل بھائیو ! آپ کی فلاں بات سے کیا ہم اختلاف کر سکتے ہیں؟"😆
آج کا دن میں نے دمادم پر لوگوں کی مدد کر کے گزارا ہے۔ مثلا ایک صاحب پوچھ رہے تھے کہ مرنے کا کوئی آسان طریقہ بتا دو تو میں نے انہیں ایک ایسا طریقہ بتا دیا جس سے انسان ایک منٹ میں خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔ اسی طرح ایک صاحب خوش ہو رہے تھے کہ انہیں شوگر ہو گئی ہے تو میں نے ان کو مشورہ دیا کہ پہلے ٹیسٹ کروا کے پتہ تو کروا لیں ہو سکتا ہے شوگر کی بجائے کینسر نکل آئے اور آپ کی خوشی دوبالا ہو جائے۔ اسی طرح ایک اور صاحب ہیں جو شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ اب میں ان کا بھی ذکر کروں گا لیکن جناب نہیں۔ اب ہر اچھے کام کا چرچہ کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔۔۔۔۔ اگر آپ کو بھی کسی مدد کی ضرورت ہے تو بندہ ناچیز آپ کے ایک کمینٹ کی دوری پر ہے۔۔۔۔
ایک دن میں واٹس ایپ پر اسٹیٹس دیکھ رہا تھا تو ایک دکھی آتما کا سٹیٹس دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گیا۔ لکھا تھا "الانتظار اشد من الموت" (القرآن)۔ یہ پڑھتے ہی سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ یعنی اب اس قوم میں جہالت اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ عربی مقولوں کو بھی قرآن کی آیات بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک عرصے سے ہر للو پنجو اور ایرے غیرے نتھو خیرے کے قول پر حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا نام لکھ دینا تو اس قوم کی عادت ثانیہ بن چکا ہے لیکن یہ نیا رحجان انتہائی خطرناک ہے کہ اب لوگوں نے من گھڑت آیتیں بنانا بھی شروع کر دی ہیں۔ دمادم کے ہوم پیج پر بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی طرف منسوب کر کے لوگ ایسی باتیں پوسٹ کرتے ہیں جن کو ایک مہذب انسان کی طرف منسوب کرنا بھی اس کی توہین ٹھہرے اور یہاں انہیں "باب العلم" کے قول کے طور پر پیش کیا جا رہا ہوتا ہے۔ استغفار
یہ جو دمادم پر سستے عشق باز لونڈے بڑی ناز و ادا کے ساتھ پوسٹس کر رہے ہوتے ہیں کہ "آج انگزائنٹی میں ہوں" یا "آج بہت ڈپریسڈ فیل کر رہا ہوں" ان بے غیرتوں کو میرا پیغام ہے کہ بے حیا لوگو اگر خدا نے تمہیں صحت دی ہے تو اس کی قدر کرو۔ تم فیشن کے طور پر انگزائنٹی اور ڈپریشن کا نام لیتے ہو اگر خدانخواستہ تمہیں ان سے حقیقی واسطہ پڑ گیا تو دن میں تارے نظر آ جائیں گے تم لوگو کو۔ جاہلو یہ ذہنی امراض انسان کو مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں اور تم ان کو ایسے رومانوی پیرائے میں بیان کر رہے ہوتے ہو گویا یہ کوئی سووینیئر ہوں۔ ڈرو خدا سے اور صحت مانگو ورنہ جس دن تمہیں واقعی انگزائنٹی یا ڈپریشن ہو گیا تو یہ عشق کے بھوت بھول کر دیواروں میں سر پھوڑتے پھرو گے۔۔۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain