انسان جب اتنا خاموش ہو جائے کہ اپنے حق کے لیے بھی نہ بولے
تو سمجھ لیں وہ اپنے اندر بہت کچھ دفن کر چکا ہے
منزلوں کی کیا خبر
جنہیں راستوں سے عشق ہو
آدھے سے کچھ زیادہ ہیں پورے سے کچھ کم
کچھ زندگی، کچھ غم، کچھ عشق، کچھ کم
کتنی دلکش ہے لاپرواہی اس کی
میری ساری محبت فضول ہو جیسے
مجھے وہ زخم مت دینا
دوا جس کی محبت ہو
نید آئی نہ رات بھر مجھ کو
خواب بیٹھے رہے قطاروں میں
یہ ٹھیک ہے کہ کوئی نہیں مرتا جدائی میں
مگر خدا کبھی کسی کو کسی سے جدا نہ کرے
میرا درد بس میرا ہی درد ہے
بہت درد ہوا یہ جان کر
محبت کی بات مت کرو صاحب
اس لفظ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تکلیف ہوتی ہے
دل دیتا ہے رو رو گواہی کسی سے کوئی پیار نہ کرے
بڑی مہنگی پڑے گی جدائی کسی کوئی پیار نہ کرے
بوجھ رونے سے ہلکا ہوتا ہے
ہائے ہم مسکرانے والے لوگ
سدا سے صدا پہ صدا دے رہا ہوں
صدا یہ سدا سے صدا بن سکی نہ