آنکھ میں درد ہی کیوں ، لب پہ شکایت کیسی ہجر میں شور مچانے کی روایت کیسی اب مرے حق میں کوئی اور اٹھائے آواز اپنے ہی جرم پہ خود اپنی حمایت کیسی میں کہانی سے بھی اکتا کے نکل آیا ہوں ایک سرکش پہ مصنف کی ہدایت کیسی میرے حصے میں تُو پہلے ہی بَٹا آیا ہے اتنے تھوڑے سے میسر پہ کفایت کیسی میری تصویر میں رہنے دو یہی ویرانی مجھ سیہ بخت پہ رنگوں کی عنایت کیسی تم نے بے کار تکلف ہی کیا کہنے کا ورنہ نفرت تو ہے نفرت ہی ، نہایت کیسی ؟ آخری بار پلٹ کر مجھے دیکھا اس نے میں تو حیران ہوں آخر میں رعایت کیسی
وہ جو اک شخص مُجھے طعنہءجاں دیتا ھے مرنے لگتا ھوں تو مرنے بھی کہاں دیتا ھے تیری شرطوں پہ ھی کرنا ھے اگر تجھ کو قبول یہ سہولت تو مُجھے سارا جہاں دیتا ھے...
تمہارے حق میں کوئی بھی دعا نہیں مانا اٹھائے دستِ طلب بھی ، مگر خدا نہیں مانا ہمارے خواب اتارے گئے ہیں قبروں میں ہماری آنکھوں نے دل کا کہا نہیں مانا ،، !
دستِ تعزیر چومنے والے ہم ہیں زنجیر چومنے والے یہ حقیقت پسند تھوڑی ہیں تیری تصویر چومنے والے صرف باتیں ہی کر سکا رانجھا لے گئے ہیر چومنے والے رہ گیا کھیل شاہزادی کا مر گئے تیر چومنے والے تیرے خط کو شفا سمجھتے ہیں تیری تحریر چومنے والے
میں روز اُس کو سمجھاتا ہوں عشق فانی ہے.!! وہ پھر سے خواب محبت کے بونے لگتی ہے۔!! ایسی لڑکی سے کون بحث کا خطرہ مول لے.!! جو لاجواب ہو جائے تو رونے لگتی ہے.!
عین ممکن ہے کہ حالات کی تلخی ہو کوئی۔۔!! سب کے سب عشق کے مارے تو نہیں ہوتے ناں۔۔!! مسترد ہونے کو تم دِل پہ لیۓ بیٹھے ہو۔۔!! سب کے سب جان سے پیارے تو نہیں ہوتے ناں