ہدایت آسمانی کے فروغ کے لئے حصول علم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور جہالت کے اندھیروں کے خلاف مسلسل جہاد کی ترغیب ملتی ہے۔ علم ﷲ کی رحمت ہے وہ جسے چاہے عطاء کرتا ہے اور جس سے چاہے روک لیتا ہے۔
علم سراپا فضل ہے۔ دنیا کے تمام علوم میں سے افضل علم ''علم نبوت'' ہے۔ تمام مراتب علوم کی اقسام جہاں پہنچ کر ختم ہوجاتی ہیں وہاں سے مرتبہ علم نبوت کا آغاز ہوتا ہے۔ مرتبہ علم نبوت ساری کائنات کے مراتب علم سے ارفع ہوتا ہے۔ اس کے اوپر مرتبہ علم الوہیت ہے۔ یہ صرف ﷲ کے ساتھ ہے اور اس کا تصور بھی انسان کے ذہن کے لیے مشکل ہے۔
سورۃ مبارکہ کی پہلی آیت پر اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وحی کا آغاز جس لفظ اور کلمہ سے ہو رہا ہے اس کا تعلق ہی پڑھنے سے ہے۔ اس حرف آغاز کا مطلب یہ ہوا کہ خدائے ذوالجلال نے اپنی ہدایت کا آغاز ہی تحصیل علم کے حکم سے کیا ہے لہذا حصول علم ہی وہ پہلا قدم ہے جہاں سے مرتبہ نبوت کا آغاز ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ علم نبوت کا ایک حصہ ہوتا ہے۔
اسی طرح جب ہم پانچویں آیت کے آخری الفاظ پر غور کرتے ہیں تو مرتبہ نبوت کی انتہا بھی حصول علم پر ہی ہوتی نظر آتی ہے۔ گویا ہم ایک اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ نبوت کا آغاز بھی علم ہے اور منتہابھی علم ہی ہے اور باقی جو کچھ بھی اس دنیا میں باقی ہے وہ بھی علم ہی کے دامن میں موجود ہے، لہذا اس سے علم کے حصول اور پڑھنے لکھنے کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے
اس وقت کے اس غار میں قائم اس سکول کے واحد طالب علم ہونے کا شرف سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو نصیب ہوا اور معلم خود خالق کائنات ٹھہرا
یہ آیات وہ پانچ آیات مقدسہ ہیں جن میں ﷲ تعالی نے اپنے پیارے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم پر علم حاصل کرنے کا پیغام دے کر نازل کیا۔ گویا اس سے پہلے انسان کا علم ناقص تھا۔ انسان کچھ نہیں جانتا تھا اسے علم عطا کیا گیا، وہ جاننے لگا اور ﷲ تعالی نے اسے جہالت کے اتھا گہرے اندھیروں سے علم کے پر نور اجالوں کے دامن کی طرف لایا۔ اسے علم کی روشنی عطا کی گئی، علم و آگہی روشنی کے سفر ہی کا نام ہے۔ مذکورہ بالا آیات کے ذریعہ ﷲ تعالی رب کائنات نے حضور رحمت عالم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے ابن آدم اور اس کی آنے والی نسلوں کو باقاعدہ ایک سلسلہ تعلیم سے منسلک کر دیا۔ ذہن انسانی میں شعور و آگہی کے وہ بے شمار چراغ روشن کئے جس سے یہ پوری دنیا تا قیامت روشن ہو گئی۔ گویا تاریخ اسلام میں سب سے پہلا سکول غار حرا کی تنہایوں میں قائم ہوا
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وجود سے پیدا کیاo پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ (یا:- جس نے (سب سے بلند رتبہ) انسان (محمد مصطفیٰ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم) کو (بغیر ذریعہ قلم کے) وہ سارا علم عطا فرما دیا جو وہ پہلے نہ جانتے تھے)o (العلق: 1-5)
(3)…اُمُّ المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی :میرے والد بوڑھے ہیں اور وہ حج کرنے کی اِستطاعت نہیں رکھتے۔ ارشاد فرمایا: ’’اس بارے میں تیری کیا رائے ہے کہ اگر تیرے والد پر قرض ہوتا اور تو ان کی طرف سے قرض ادا کر دیتا تو وہ تجھ سے قبول کر لیا جاتا؟ا س نے عرض کی :جی ہاں ،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’تو اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ رحم فرمانے والاہے ،تم اپنے والد کی طرف سے حج کرو۔( مسند امام احمد، حدیث سودۃ بن زمعۃ رضی اللّٰہ عنہا،۱۰ / ۳۹۸، الحدیث: ۲۷۴۸۷)
(2)…اُمُّ المومنین حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں : ’’جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر تین مرتبہ یہ دعا پڑھتے ’’رَبِّ قِنِیْ عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ‘‘ اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، تو مجھے اپنے عذاب سے بچا جس دن تو اپنے بندوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ اور نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کھانا کھانے ،پانی پینے،وضو کرنے،کوئی چیز لینے اور کچھ دینے کے لئے اپنا دایاں ہاتھ استعمال فرماتے تھے اور دیگر کاموں کے لئے بائیں ہاتھ کا استعمال فرماتے تھے۔( مسند امام احمد، حدیث حفصۃ ام المؤمنین۔۔۔ الخ، ۱۰ / ۱۶۷، الحدیث: ۲۶۵۲۶)
(1)…اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں :جب کبھی رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ظہر سے پہلے چار سنتیں نہ پڑھ پاتے تو انہیں بعد میں (یعنی ظہر کے فرض پڑھنے کے بعد) پڑھ لیا کرتے تھے۔( ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب منہ آخر، ۱ / ۴۳۵، الحدیث: ۴۲۶)
اَزواجِ مُطَہَّرات
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اور اَحادیث کا بیان:
ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احوال کو بڑے قریب سے دیکھا اور ان کے عمومی ارشادات اور بطورِ خاص گھریلو زندگی سے متعلق فرامین کوانتہائی توجہ سے سنا اور انہیں امت تک پہنچانے کا فریضہ بڑی خوبی سے ادا فرما کر امت پر عظیم احسان فرمایا،انہوں نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جو اَحوال اور ارشادات امت تک پہنچائے،یہاں ا س کی3 مثالیں ملاحظہ ہوں ،
وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِ: اور اللہ کی آیات اور حکمت یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں ۔} اس آیت میں بھی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ سے خطاب فرمایا گیاکہ تمہارے گھروں میں جو قرآنِ مجید کی آیتیں نازل ہوتی ہیں ا ورتم رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جن اَحوال کا مشاہدہ کرتی ہو اور ان کے جن ارشادات کو سنتی ہو انہیں یاد رکھا کرو اور موقع کی مناسبت سے وعظ و نصیحت کے طور پر لوگوں کے سامنے انہیں بیان کرتی رہو۔یہاں آیت میں اللہ تعالیٰ کی آیات سے مراد قرآن مجید کی آیتیں ہیں
وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا۠(۳۴)
ترجمہ: کنزالایمان
اور یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں اللہ کی آیتیں اور حکمت بےشک اللہ ہر باریکی جانتا خبردار ہے
اَذْهِبِ الْبَآسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ وَاَنْتَ الشَّافِيْ، لَا شِفَاءَ اِلاَّ شِفَائُکَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا.
’’اے لوگوں کے رب! تکلیف دور فرما دے اور شفا عطا فرما اور تو ہی شفا دینے والا ہے، کوئی شفا نہیں سوائے تیری شفا کے، ایسی مکمل شفا عطا فرمادے جس کے بعد بیماری باقی نہ رہے۔‘‘
اَللّٰهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُّغِيْثًا مَّرِيْئًا مُّرِيْحًا نَّافِعًا غَيْرَ ضَآرٍّ عَاجِلًا غَيْرَ اٰجِلٍ.
’’اے اللہ! ہم پر ایسا مینہ برسا جو ہماری ضرورت پوری کرنے والا ہو، ارزانی پیدا کرنے والا ہو، نقصان دینے والانہ ہو، جلدی برسنے والا ہو، دیر میں برسنے والا نہ ہو۔‘‘
اَللّٰهُمَّ اَحْيِنِيْ مَاکَانَتِ الْحَيٰوةُ خَيْرًا لِّيْ وَتَوَفَّنِيْ اِذَا کَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِّيْ.
’’اے اللہ! مجھے زندہ رکھنا جب تک میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہے اور مجھے موت دینا اس وقت جب موت میرے لیے باعثِ خیر ہو۔‘‘
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهَرِالرِّجَالِ.
’’اے اللہ! میں فکر اور غم سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور قرض کے گھیر لینے اور لوگوں کے دبا لینے سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
اِنَّا ِللهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ. اَللّٰهُمَّ عِنْدَکَ اَحْتَسِبُ مُصِيْبَتِيْ فَاَجِرْنِيْ فِيْهَا وَاَبْدِلْنِيْ مِنْهَا خَيْرًا.
’’بیشک ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اے اللہ! میں اپنی اس مصیبت میں تجھ سے ثواب کا امیدوار ہوں پس مجھے اس میں اجردے اور اس کا بہتر بدلہ دے۔‘‘
اَللّٰهُمَّ کَمَا حَسَّنْتَ خَلْقِيْ فَحَسِّنْ خُلُقِيْ.
’’اے اللہ! جیسا تو نے میری صورت کو اچھا بنایا ہے (اسی طرح) تو میری سیرت کو بھی اچھا بنادے۔‘‘
اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ يَآاَهْلَ الْقُبُوْرِ يَغْفِرُ اللهُ لَنَا وَلَکُمْ، وَاَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَر.
’’سلام ہو تم پر اے قبروں والو! اللہ ہمیں اور تمہیں بخشے، تم آگے جاچکے ہو اور ہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔‘‘
اَللّٰهُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ يَا غَفُوْر.
’’اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے پس مجھ کو معاف فرمادے اے بخشنے والے۔‘‘
Jumma Mubarak All Of You
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain