وہ محفل بھی روئے گی وہ دل بھی روئے گی ڈوبی جھاں میری کشتی وہ ساحل بھی روئے گی اتنا پیار بکھیر دینگے زمانے میں میری موت پر میرے اپنے تو کیا میرا قاتل بھی روئے گا
میرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کر ھوا نہ دے یہ چراغ پھر بھی چراغ ھے کھیں تیرا ھاتھ ھی جلا نہ دے یھاں لوگ رھتے ھیں رات دن کسی مصلحت کے نقاب میں یہ تیری نگاھوں کی سادگی کھیں دل کے راز بتا نہ دے شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھو کیسے سحر ھوئ کبھی ایک چراغ جلا دیا کبھی ایک چراغ بجھا دیا کبھی آہ لب سے نکل گئ کبھی اشک آنکھ سے ٹپک پڑے یہ تیری جدائ میں آنسو کبھی برس گئے کبھی تھم گئے یہ محبتوں کے جزبات ھیں انھیں نفرتوں کی ھوا نہ دے (آگے لکھنے کی ھمت نھی ھو رھی) (((((((i....i)))))))))