مرا نہیں تو کسی اور کا بنے تو سہی کسی بھی طور سے وہ شخص خوش رہے تو سہی پھر اس کے بعد بچھڑنے ہی کون دے گا اسے کہیں دکھائی تو دے وہ کبھی ملے ہی سہی کہاں کا زعم ترے سامنے انا کیسی وقار سے ہی جھکے ہم مگر جھکے تو سہی جو چپ رہا تو بسا لے گا نفرتیں دل میں برا بھلا ہی کہے وہ مگر کہے تو سہی کوئی تو ربط ہو اپنا پرانی قدروں سے کسی کتاب کا نسخہ کہیں ملے تو سہی دعائے خیر نہ مانگے کوئی کسی کیلیے کسی کو دیکھ کے لیکن کوئی جلے تو سہی جو روشنی نہیں ہوتی نہ ہو بلا سے مگر سروں سے جبر کا سورج کبھی ڈھلے تو سہی
جب میری کوئی دعا قبول ہوتی ہے تو میں خوش ہوتا ہوں کیونکہ یہ میری مرضی تھی اور جب میری دعا قبول نہیں ہوتی تو میں اور زیادہ خوش ہوتا ہوں کیونکہ یہ میرے اللہ کی مرضی ہے حضرت علی
جب اس نے رقم کی واپسی کا تقاضا شروع کیا تو ٹیچر نےاسے ہلکا لیا کہ یہ تو گھر کے آدمی ہیں لیکن بات اتنی بڑھی کہ اس کی بہن کو طلاق ہوگئی۔ یوں امیر بننے کی خواہش میں ایک فراڈئیے کے ہاتھوں اس ٹیچر کی زندگی برباد ہوکر رہ گئی۔ محترم قارئین ! یہ واقعہ کچھ عرصے پہلے پیش آیا تھا جسے اپنے الفاظ وانداز میں پیش کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے اردگرد بھی ایسے لوگ موجود ہوں جو کسی فراڈئیے کا شکار ہوئے ہوں۔ آگے بڑھنے سے پہلے اسی طرح کی چند مختصر خبریں پڑھ لیجئے : (1)مختلف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی عوام کو چند ہزار روپے کے بدلے لاکھوں ڈالر دینے کا لالچ دے کر لُوٹنے والے 6 گروپس کے 20افراد پکڑے گئے۔ ان کے خلاف درخواست دینے والے صرف ایک شخص نے ان کے کہنے پر مختلف اکاؤنٹس میں مجموعی طور پر 41 لاکھ 90 ہزار روپے جمع کروائے تھے۔ [2]
دوچار مہینے اسی طرح گزرے ، ٹیچر کا اس شخص پر اور لوگوں کا ٹیچر پر اعتماد بڑھتا گیا ، یوں مزید رقم جمع ہوئی اور انویسٹمنٹ 80 لاکھ تک جاپہنچی۔ لیکن اگلے ہی مہینے وہ شخص غائب ہوگیا جس کے پاس ٹیچر نے اپنی اور لوگوں کی رقم جمع کروائی تھی۔ اب تو ٹیچر کو لینے کے دینے پڑ گئے کیونکہ نہ صرف اس بے چارے کی اپنی رقم ڈوبی بلکہ ان لوگوں کی بھی ڈوب گئی جنہوں نے رقم اس کو جمع کروائی تھی۔ اب لوگوں نے اس سے اپنی رقم کی واپسی کے تقاضے شروع کئے۔ ٹیچر کی عزت ، کیرئیر سب داؤ پر لگ گیا وہ اتنی بڑی رقم ایک دَم کہاں سے واپس کرتا! اس نے لوگوں کو وعدوں پر ٹالنا شروع کیا لیکن آخر کب تک ! اپنی عزت ، وقار اور جان بچانے کے لئے اپنا ذاتی گھر اورکچھ قیمتی سامان تک بیچ ڈالا لیکن جان مکمل نہ چُھوٹی ! ٹیچر کو رقم دینے والوں میں اس کا بہنوئی بھی شامل تھا ،
وہ ایک تعلیمی ادارے میں ٹیچر تھا ، امیرہونے کی خواہش اکثر اس کے دل میں ہلچل مچاتی رہتی تھی مگر کوئی راہ نہ نکلتی۔ آخرکار! ایک دن اسے اُمّید کی کِرن دکھائی دی ، اسے ایک شخص ملا جس نے اسے اپنے بزنس میں انویسٹمنٹ کی آفر کی اور ہر ماہ اچھا منافع دینے کا وعدہ کیا[1] ، اس شخص پر اعتبار کرتے ہوئے ٹیچر نے کسی نہ کسی طرح رقم کا انتظام کیا ، اپنے قریبی لوگوں (جن میں اس کے شاگرد بھی شامل تھے) کو بھی اچّھے نفع کالالچ دیا اورلاکھوں روپے جمع کر کے اس شخص کو جمع کروا دئیے۔ اب اسے ہرماہ نفع میں موٹی رقم وقت پر ملنے لگی جس میں سے وہ اپنی رقم کا سارا نفع خود رکھتا اور دوسروں کو بھی طے شدہ نفع کی رقم وقت پر دے دیتا اور اپنا مارجن رکھ لیتا (مثلاً اسے ایک لاکھ کی رقم کے نفع میں کم وبیش چار ہزار ملتے تھے تو وہ دوسروں کو 3500 دے کر 500 روپے خود رکھ لیتا تھا)۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain