مرشد ہمارا خوابِ محبت بکھر گیا مرشد وہ ایک شخص بھی دل سے اتر گیا مرشد کسی کا ہجر ستاتا رہا ہمیں مرشد ہمارے وصل کا سپنا کدھر گیا ؟ مرشد جو معتبر تھا زمانے کے سامنے مرشد وہ آنسوٶں کی دھنک میں نکھر گیا مرشد ہمارے ساتھ اداسی تھی ہمسفر مرشد اُسی کو دیکھ کے شاید وہ ڈر گیا مرشد گریز کرتا رہا ہم سے ایک شخص مرشد وہ جب ملا تو حدوں سے گزر گیا مرشد ہجومِ شہر سے بیزار تھا کہیں مرشد ہماری راہ میں اکثر ٹھہر گیا