روٹھا تو شہر خواب کو غارت بھی کرگیا
پھر مسکرا کے تازہ۔۔۔ شرارت بھی کرگیا
شاید اسے عزیز تھیں آنکھیں میری بہت
وہ میرے نام اپنی بصارت بھی کرگیا
منہ زور آندھیوں کی ہتھیلی پہ اک چراغ
پیدا میرے لہو میں حرارت بھی کرگیا
بوسیدہ بادبان کا ٹکڑا ہوا کے ساتھ
طوفاں میں کشتیوں کی سفارش بھی کرگیا
دل کا نگر اجاڑنے والا ہنر شناس
تعمیر حوصلوں کی عمارت بھی کرگیا
سب اہلِ شہر جس پہ اٹھاتے تھے انگلیاں
وہ شہر بھر کو وجہ زیارت بھی کرگیا
محسن یہ دل کہ اس سے بچھڑتا نہ تھا کبھی
آج اس کو بھولنے کی جسارت بھی کرگیا ___!!!
محسن نقوی
کہتے سبھی میں بھول ہوں،
سچ یہی ہے میں فضول ہوں،
لوگوں کی باتیں سُنتا نہیں،
بس وجہ ہے یہ میں فضول ہوں،
روتے کو ہنسانے کا ہنر آتا ہے،
ہنر میں انمول مگر میں فضول ہوں،
جائیں گے سبھی تو میں بھی جاؤں،
جواب ہے نہ اُمید کے جیسے میں فضول ہوں،
نقّوی بس میں اِک مُرجھایا پھول ہوں،
کیا کروں کہاں جاؤں کہ میں فضول ہوں"_ 🌚🌸
- سید عباس حیدر شاہ نقوی 🖤
کیا خزانے مِری جاں ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تِری آنکھیں، تِرے لب یاد آئے
ایک تُو تھا جسے غُربت میں پُکارا دِل نے
ورنہ، بِچھڑے ہُوئے احباب تو سب یاد آئے
ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پَل بھر سوچا
دُکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبَب یاد آئے
پُھول کِھلنے کا جو موسم مِرے دل میں اُترا
تیرے بخشے ہُوئے کچھ زخم عجَب، یاد آئے
اب تو آنکھوں میں فقط دُھول ہےکچھ یادوں کی
ہم اُسے یاد بھی آئے ہیں تو، کب یاد آئے
بُھول جانے میں، وہ ظالِم ہے بھَلا کا ماہر !
یاد آنے پہ بھی آئے، تو غضب یاد آئے
یہ خُنک رُت، یہ نئے سال کا پہلا لمحہ !
دِل کی خواہش ہے کہ، مُحسن، کوئی اب یاد آئے
مُحسن نقوی
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻮ ﺷﮩﺮِ ﺳﺘﻤﮕﺮﺍﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺷﻨﺎﺱ ﺁﺋﮯ
ﻭﮦ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﻮﺭ ﭼﮭﻠﮑﮯ،
ﻟﺒﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﯽ ﺑﺎﺱ ﺁﺋﮯ
ﭼﻠﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺷﻮﺥ ﺟﺬﺑﮯ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﺰﻥ ﺗﮭﮯ
ﻣﮕﺮ ﻧﺎ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﮐﮧ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﮯ
ﺳﻔﺮ ﺳﮯ ﮐِﺘﻨﮯ ﺍُﺩﺍﺱ ﺁﺋﮯ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍِﮎ ﺩِﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﮨﻮﺍ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺑُﺠﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﮨﯿﮟ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺑﺪﻧﺼﯿﺐ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ،
ﮨﻤﯿﮟ ﺍُﺟﺎﻟﮯ ﻧﮧ ﺭﺍﺱ ﺁﺋﮯ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺟﺎﻧِﺐ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﯾﮧ ﻣﻨﺎﺩﯼ ﮐﺮﺍ ﺩﻭ ” ﻣﺤﺴﻦ
ﺟﺴﮯ ﻃﻠﺐ ﮨﻮ ﻣﺘﺎﻉِ ﻏﻢ ﮐﯽ،
ﻭﮦ ﮨﻢ ﻓﻘﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ
ﻣﺤﺴﻦ نقوی
یاد ماضی میں جو آنکھوں کو سزا دی جائے
اس سے بہتر ہے کہ ہر بات بھلا دی جائے
جس سے تھوڑی سی بھی امید زیادہ ہو کھبی
ایسی ہر شمع سر شام بجھا دی جائے
میں نے اپنوں کے رویوں سے یہ محسوس کیا
دل کے آنگن میں بھی دیوار اٹھا دی جائے
میں نے یاروں کے بچھڑنے سے یہ سیکھا محسن
اپنے دشمن کو بھی جینے کی دعا دی جائے...!
✍...محسن نقوی(شاعر درد)
میں نے کہا، خراب ہوں گردشِ چشمِ مست سے
اُس نے کہا کہ رقص کر سارا جہاں خراب ہے
ہم سے وفا کے بارے میں جو چاہو پوچھ لو
لیکن وفا کی کیا ھے سزا یہ نہ پوچھنا
راہ وفا میں ہم پے جو گزری وہ پوچھنا
منزل پے کیا سلوک ھوا یہ نہ پوچھنا
جو زخم بھر چکے ہیں انہیں مت کریدنا
جو اپنا گھر تھا کیسے لُٹا یہ نہ پوچھنا
رستے میں کون کون ملا، پوچھو شوق سے
کس کس کا ساتھ چھوٹ گیا، یہ نہ پوچھنا
خود اپنے ھی قبیلے کے لوگوں سے کیا گِلہ
کس کس نے ہم پہ ظلم کیا، یہ نہ پوچھنا
ہم نے تمام عمر دیا درسِ دوستی
کیا پایا ہم نے اس کا صلہ، یہ نہ پوچھنا
سچ بولنا بھی تم کو سکھا دیں گے ہم مگر
سچ بولنے کی کیا ھے سزا یہ نہ پوچھنا
(اقبال عظیم آبادی)
تُو رازِ کن فکاں ہے، اپنی انکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اُخُوّت کا بیاں ہو جا، محبّت کی زباں ہو جا
یہ ہندی، وہ خُراسانی، یہ افغانی، وہ تُورانی
تُو اے شرمندۂ ساحل! اُچھل کر بے کراں ہو جا
علامہ اقبال
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کاپانی
مجھ کو بھی تمنّا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اس کی جدائی میں بہت اَشک فشانی
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
اقبالیات
آرزُوئیں فُضُول ہَوتی ہیں
گَویا کاغَذ کے پھُول ہَوتی ہیں
ہَر کِسی نام پَر نَہِیں رُکتِیں
دھَڑکَنیں با اُصُول ہَوتی ہیں
پَتھّروں کے خُداؤں کے آگے
اِلتِجائیں فُضُول ہَوتی ہیں
کَوئی مَیرے لَبوں کَو بھی لا دے
جَو دُعائیں قُبُول ہَوتی ہیں
خواب ٹُوٹیں یا بِکھَر جائیں
قِیمَتیں کَب وُصُول ہَوتی ہیں۔۔
احمد فراز
مفاہمت نہ سکھا ، جبرِ ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
زباں نے جسم کا کچھ زہر تو اُگل ڈالا
بہت سکون ملا ، تلخئِ نوا سے مجھے
رَچا ہُوا ہے بدن میں ابھی سرُورِ گناہ
ابھی تو خوف نہیں آئے گا سزا سے مجھے
میں خاک سے ہوں، مجھے خاک جذب کر لے گی
اگرچہ سانس ملے ، عمر بھر ہَوا سے مجھے
غذا اسی میں میری، مَیں اسی زمیں کی غذا
صدا پھر آتی ہے کیوں، پردۂِ خلا سے مجھے
میں جی رہا ہوں ابھی، اے زمیں آدم خور !
ابھی تو دیکھ نہ ، تُو اتنی اشتہا سے مجھے
بکھر چکا ہوں میں، اب مجھ کو مجتمع کر لے
تو اب سمیٹ بھی اپنی کسی صدا سے مجھے
میں مر رہا ہوں، پھر آئے صدائے کُن فیکون
بنایا جائے مِٹا کے ، پھر ابتدا سے مجھے
میں سر بہ سجدہ ہوں، اے شمرؔ مجھکو قتل بھی کر
رہائی دے بھی اب ، اس عہدِ کربلا سے مجھے
تیری آنکھوں میں رت جگا تو نہیں
پوچھ خود سے تو بے وفا تو نہیں
یہ جو میں دربدر بھٹکتا ہوں
میں کہیں خود کو ڈھونڈتا تو نہیں!
عرش سے فرش تک اداسی ہے
عرش تا فرش کربلا تو نہیں
جتنا سمجھا ہے مجھ کو اپنوں نے
میں کوئی اس قدر برا تو نہیں
سانس جاری ہے زور و شور کے ساتھ
مجھ کو جینے کی بد دعا تو نہیں!
آئنہ دیکھ کے یہ پوچھتا ہ
تیری آنکھوں میں رت جگا تو نہیں
پوچھ خود سے تو بے وفا تو نہیں
یہ جو میں دربدر بھٹکتا ہوں
میں کہیں خود کو ڈھونڈتا تو نہیں!
عرش سے فرش تک اداسی ہے
عرش تا فرش کربلا تو نہیں
جتنا سمجھا ہے مجھ کو اپنوں نے
میں کوئی اس قدر برا تو نہیں
سانس جاری ہے زور و شور کے ساتھ
مجھ کو جینے کی بد دعا تو نہیں!
آئنہ دیکھ کے یہ پوچھتا ہوں
میں کہیں آپ سے ملا تو نہیں؟
تجھ سے تو بے تکلفی ہے مری
تو مرا دوست ہے، خدا تو نہیں
مبشر سعید
زوالِ شب کا ہے منظر حُسین ع جیت گئے
کہاں ہے شام کا لشکر؟حُسین ع جیت گئے
وہ دیکھو خیمہء شب سے نکل رہا ہے حُر ع
اذان دو علی اکبر ع حُسین ع جیت گئے
منافقت کا اُدھر ۔اک الاؤ روشن ہے
اِدھر چراغ بجھا کر حُسین ع جیت گئے
یزیدیت کو یہ احساس مار ڈالے گا
گَلہ بھی اپنا کٹا کر حُسین ع جیت گئے
سوال ایک ہُوا کربلا کا کیا انجام؟
جواب آۓ بَہتر حُسین ع جیت گئے۔
گلو ۓ خُشک سے دیکھا جو پیاس کا رشتہ
تڑپ کے بولا یہ خنجر حُسین ع جیت گئے
جفا شہید کے قدموں میں تھک کے بیٹھ گئی
بنا کے تربتِ اصغر ع حُسین ع جیت گئے
چلا جو تیرِ سِتم مُسکرا دِیے اصغر ع
سمجھ رہے تھے سراسر حُسین ع جیت گئے
خلیِل آنکھوں سے پٹی اُتار کر دیکھو
پِسر کی لاش اُٹھا کر حُسین ع جیت گئے!!!!
کتابِ کرب و بلا خود دلوں پہ اترے گی
بس اتنا لکھے سُخنوَر حُسین ع جیت گئے
یہ سال بھی اُداس رہا رُوٹھ کر گیا
تجھ سے ملے بغیر دسمبر گذر گیا
عُمرِ رَواں خزاں کی ہَوا سے بھی تیز تھی
ہر لمحہ برگِ زرد کی صورت بکھر گیا
کب سے گِھرا ہُوا ہُوں بگولوں کے درمیاں
صحرا بھی میرے گھر کے دروبام پر گیا
دل میں چٹختے چٹختے وہموں کے بوجھ سے
وہ خوف تھا کہ رات مَیں سوتے میں ڈر گیا
جو بات معتبر تھی وہ سر سے گزر گئی
جو حرف سرسری تھا وہ دل میں اُتر گیا
ہم عکسِ خونِ دل ہی لُٹاتے پھرے مگر
وہ شخص آنسوؤں کی دھنک میں نکھر گیا
محسن یہ رنگ رُوپ یہ رونق بجا مگر
میں زندہ کیا رہوں کہ مِرا جی تو بھر گیا
یہ زندگی کہ بدل جسکا دوجہاں بھی نہیں..
اک دو ٹکے کی حسینہ پہ وار ڈالوں کیا...؟
حسن یوسف..
بساط بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش، سبو چپ، اداس پیمانے
نہ اب وہ جلوۂ یوسف نہ مصر کا بازار
نہ اب وہ حسن کے تیور، نہ اب وہ دیوانے
نہ حرف حق، نہ وہ منصور کی زباں، نہ وہ دار
نہ کربلا، نہ وہ کٹتے سروں کے نذرانے
نہ بایزید، نہ شبلی، نہ اب جنید کوئی
نہ اب و سوز، نہ آہیں، نہ ہاؤ ہو خانے
خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی
نہ سلسلے نہ وہ قصے نہ اب وہ افسانے
نہ قدر داں، نہ کوئی ہم زباں، نہ انساں دوست
فضائے شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے
بدل گئے ہیں تقاضے مزاج وقت کے ساتھ
نہ وہ شراب، نہ ساقی، نہ اب وہ مے خانے
پیر نصیر الدین شاہ نصیر
کس نے کہا کہ عشق میں دیوانہ ڈر گیا
صد شکر ہے خُدا کا محبت میں مر گیا
عشقِ الٰہی روح کے اندر اتر گیا
جینا سنور گیا، مرا مرنا سنور گیا
کچّا گھڑا عبور نہ کروا سکا ندی
موسٰی(ع) سمیت فوج کے دریا گزر گیا
یوسف(ع) کا حُسن دیکھ کے کٹتی تھیں انگلیاں
سجدے میں تو حسین(رض) کا کٹ تن سے سر گیا
مجھ سے کسی نے پوچھ لیا عشق کا کمال
حُسنِ نظر ملائی تو پہلی نظر گیا
شاکر دعا کے واسطے سوچا ہی تھا ابھی
وہ شخص سامنے سے اچانک گزر گیا
یہ حوا کی بیٹی ہے لیکن جہاں میں
رواجوں کی سولی چڑھائی گئی ہے
بِکا کوڑیوں میں جہاں حُسن یُوسف
زلیخا بھی تو آزمائی گئی ہے
بڑھاپے میں دے کر دوبارہ جوانی
زلیخا کی قسمت جگائی گئ ہے
فرشتے بھی روۓ ہلا عرش اعظم
جو کربل کی صورت دکھائی گئی ہے
رہے سر پہ زہرہؑ کی چادر کا سایہ
سر عرش ۔۔۔۔۔۔ دہائی گئی ہے
تھک چکے ہیں قدم, لا پتہ سی ہیں منزلیں,
ممکن ہے ہر نظر سے اوجھل ہو جائیں ہم .!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain