پھر یہ بات میری سمجھ میں آئی
وقت کے ساتھ لوگ بدلے جاتے ہیں
تم نے پہچانا مجھ کو
آئینے سے پوچھنا پڑتا ہے
تم کو معلوم نہیں ہے کہ تمہارے بعد
میرے کیا حال ہوا ہے میں کیسا ہوں
وحشت تو یہ بھی ہے کہ مجھے خود سے بھی نفرت ہے۔
ویران آنکھوں کے نیچے بڑے بڑے سیاہ حلقے
ہلکی ہلکی سی جھریاں
سیاہ پڑتا رنگ
بد رنگ ہوتے سوکھے بال
سیاہی مائل خشک پپڑی زدہ ہونٹ
دن بدن خراب ہوتی صحت
دل و دماغ کی تباہ حالت
وحشت زدہ سا دل
بےحس دماغ
مجھ میں کچھ بھی تو ایسا باقی نہیں
جس کی بنا پر میں تمہیں کہہ سکوں
کہ مجھ سے محبت کرو🩶
ہرکوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے
عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام تیرا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
ہنس نہ اتنا بھی فقیروں کے اکیلے پن پر
جا ،خدا میری طرح تجھ کو بھی تنہا رکھے
یہ قناعت ہے، اطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
احمد فراز
اشک لکھتی ، کوئی تحریر بنا کر دیتا
میں تجھے ہجر کی تصویر بنا کر دیتا
ایک حسرت ھے کہ پہلے تیری آنکھیں بنتی
پھر تجھے خواب کی تعبیر بنا کر دیتا
سڑکوں پہ گھُومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے
کس دیکھائے جائیں یہاں زخم دل کے۔
کون مرہم لگاتا ہے کون رفو کرتا ہے
میں تیری تلاش میں اب تک بھٹک رہا ہوں
خراب رکھا میں نے جو اپنا حال مسلسل
رہے گا مجھ کو اس بات کا ملال مسلسل
بدل ہی جاتے ہیں لوگ وقت کے ساتھ اکثر
یہاں کوئی بھی نہیں رہتا ہم خیال مسلسل
جو زندگی کچھ دن بھی نہیں گزار سکے آپ
میں نے گزاری ہے وہ پچیس سال مسلسل
خدا نے چاہا تو میرا بھی وقت بھی بدلے گا
کسی پہ کب رہتا ہے یہاں زوال مسلسل
میں چھوڑ دوں گا اک روز زندگی کو عاصم
بنی ہوئی ہے جو جان کا وبال مسلسل
عاصم نثار
ہجر کی تلخی زہر بنی ہے
میٹھی باتیں بھیجو نا
شام میں جیون بیت چلا ہے
روشن صبحیں بھیجو نا
خود کو دیکھے عرصہ گزرا
اپنی آنکھیں بھیجو نا
زندگی بھی اب روٹھ چلی ہے
کچھ تو سانسیں بھیجونا
بن تیرے ہے جینا مشکل
خود کو واپس بھیجو نا
بات کر لیتے ہیں شاید کوئی حل مل جائے
آج مشکل ہے تو کہنا مجھے کل مل جائے
عین ممکن ہے وہ اک روز مجھے کر لے قبول
عین ممکن ہے مجھے صبر کا پھل مل جائے❤️
اندھیروں سے تھا میرا رشتہ بڑا
تو نے ہی اجالوں سے واقف کیا
لوٹا ہوں میں اب اندھیروں میں
تو خود کو پایا بیگانہ یہاں
کہ بنجروں نے بھی مجھ کو ٹھکرا دیا
میں ادھورا جی رہا ہوں ہر خود پہ سزا ہوں
مجھے تیری ضرورت ہے مجھے تیری ضرورت ہے
میں نے تم سے جدائی کا تمام عرصہ، تمہارے لئے خیر اور اپنے لئے صبر طلب کرتے گُزارا۔🙂🖤
تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد اور کئی مان ٹوٹنے کے بعد ہمیں کسی انسانی آسرے کی ضرورت نہیں رہتی پھر ہم ہوتے ہیں اور ہماری تنہائی ہوتی ہے۔۔۔
میں ہر وقت اس کے انتظار میں
اور وہ مجھ سے اکتایا ہوا شخص🩶
ملنے سے کچھ منٹ پہلے مر جانا چاہیے
تاکہ آخری ملاقات ہمیشہ فرضی کردار میں چھپتی پھرے🩶
میں نے پالا ہے ایک مدت تک
اک ____ تعلق نما اذیت کو _! 😕
تم ہوتی تو گلے لگ کر کہتا کہ ہر شے سے تھک چکا ہوں میں۔۔۔
۔🥀💔
سیاہ بخت
مَیں اپنے ہونے پہ کب سُکھی ہُوں، بہُت دُکھی ہُوں.؟.
نہ خاص دُکھ ہے، نہ عام دُکھ ہے، تمام دُکھ ہے.؟.😢
ﺟﻮ ﺳﭻ ﮐﮩُﻮﮞ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﺎﺭ ِ ﺍُﻟﻔﺖ ، ﮨﮯ ﮐﺎﺭ ِ ﻭَﺣﺸﺖ.؟.
ﺷﺮُﻭﻉ ﺩُﮐﮫ ، ﺍِﺧﺘﺘﺎﻡ ﺩُﮐﮫ ﮨﮯ ، ﺗﻤﺎﻡ ﺩُﮐﮫ ﮨﮯ.؟.
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain