یہ سانحہ میری سنجیدگی کو کافی ہے"
کہ میری عُمر کے لوگوں کو موت آنے لگی🖤🥀
کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے
تجھ کو نا بھلا پایا یہ میری بے بسی ہے
تو میری زندگی ہے
میں شیشے کی مانند تھا
تمہارے ہاتھ سے نکلا تو ٹوٹ کر بکھر گیا
جب انسان کا منتظر کوئی نا ہو تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا موبائل چارج ہے یا نہیں
یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں تماشا ہی نہ ہو
راس آنے لگے ہم کو تو یہ دنیا ہی نہ ہو 🥀
ٹکٹکی باندھ کے میں دیکھ رہا ہوں جسکو
یہ بھی ہو سکتا ہے وہ سامنے بیٹھا ہی نہ ہو
🖤🔥❤️
تُو تو خوش ہو کہ تجھے دُکھ کی دوا بولتے ہیں
میرے بارے میں تو سب کُھل کے بُرا بولتے ہیں
میں نہیں جانتا سینے سے لگانے کے سوا
کوئی روتا ہوا لوٹ آئے تو کیا بولتے ہیں
گلابی شام کے
بڑھتے ہوئے
مخمور سائے میں
تھکے ہارے پرندے بھی
گھروں کو لوٹ آتے ہیں
مگر تم ہی نہیں آتے
یہ میری منتظر آنکھیں
اُفق کے پار تکتی ہیں
مری ان نیم وا آنکھوں کے گوشے
بھیگ جاتے ہیں
مری شامیں
مری راتیں اُداسی اوڑھ لیتی ہیں
مجھے بھوک نہیں ہے
اور امی جی نے کہا
کہ جب انسان کو اندر سے
کچھ کھا رہا ہو تو
اسے کچھ کھانے کو دل نہیں کرتا
اور ان کے یہ الفاظ
میرا دل چیر گئے 😪💔
یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں تماشا ہی نہ ہو
راس آنے لگے ہم کو تو یہ دنیا ہی نہ ہو 🥀
ٹکٹکی باندھ کے میں دیکھ رہا ہوں جسکو
یہ بھی ہو سکتا ہے وہ سامنے بیٹھا ہی نہ ہو
🖤🔥❤️
آج ضرورت ہے تو کوئی نہیں
کل کوئی بھی ہو کیا ضرورت
آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں۔
دل میری جان مر گیا کب کا۔
دور غربت میں اجنبیت کا بھرم ھے اس قدر
آئینے سے پوچھنا پڑتا ھے۔۔!! پہچانا مجھے؟
- " یہ مقام بھی آتا ہے رابطوں میں ایک روز 🙂
کیا حال تُمہارا ؟ میں ٹھیک ہوں، بات تمام شُد !💔🥀
"امید ہے ہم دوبارہ ملیں گے۔
پھر سے، کسی رات،
جب چاند بادلوں میں لپٹا، چکور بنائے,
یا جب وہ، نظروں سے اوجھل ہوکر تمہیں تڑپائے،
امید ہے ہم دوبارہ ملیں گے
پھر سے، کسی ایسی جگہ،
جسے دیکھ کر تمہیں ملنے کو جی چاہے،
یا پھر کسی درخت کے سائے، جب تمہیں میری یاد آئے!
امید ہے ہم دوبارہ ملیں گے
پھر سے، کسی مہینے،
جون کی لمبی راتوں میں،
یا دسمبر کی اداس شاموں میں،
جب من اک کھوج میں پڑ جائے
اور تم بھی آرزو کرو، کاش وہ آجائے،
امید ہے ہم دوبارہ ملیں گے ۔
سنو…🥀
نومبر کی کسی شام
اک ملاقات رکھتے ہیں چائے پر☕
چائے کی اڑتی ہوئی بھاپ!
ہمیں لے جائے گی ماضی کی یادوں میں
ہنستے مسکراتے کھلکھلا تے
تمہاری کسی بات پر میرا مسکرانا!
اور تمھارا مجھے تکتے رہنا!
سنو اک ملاقات رکھتے ہیں
نومبر کی کسی شام میں🔥🥀
گلابی شام کے
بڑھتے ہوئے
مخمور سائے میں
تھکے ہارے پرندے بھی
گھروں کو لوٹ آتے ہیں
مگر تم ہی نہیں آتے
یہ میری منتظر آنکھیں
اُفق کے پار تکتی ہیں
مری ان نیم وا آنکھوں کے گوشے
بھیگ جاتے ہیں
مری شامیں
مری راتیں اُداسی اوڑھ لیتی ہیں
#واپسی
اس نے کہا
سُن
عہد نبھانے کی خاطر مت آنا
عہد نبھانے والے اکثر
مجبوری یا مہجوری کی تھکن سے لوٹا کرتے ہیں
تم جاؤ
اور دریا دریا پیاس بجھاؤ
جن آنکھوں میں ڈوبو
جس دل میں اترو
میری طلب آواز نہ دے گی
لیکن جب میری چاہت
اور مری خواہِش کی لَو
اتنی تیز اور اتنی
اُونچی ہو جائے
جب دل رو دے
تب لوٹ آنا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain