تو یقیں کر میں تجھے با خدا نہیں چھوڑوں گا
کچھ بھی ہو جائے میں تنہا نہیں چھوڑوں گا
چھوڑ دیا اک روز اس نے بھی میرا ہاتھ
جو اکثر مجھے کہتا تھا نہیں چھوڑوں گا
عاصم نثار
میں تو اب بھی ہوں تیری آنکھ سے اوجھل منظر
تو تو اب بھی ہے مجھے جان سے پیارا , یارا .🖤
وہ منزلیں بھی کھو گئیں
وہ راستے بھی کھو گئے
جو آشنا سے لوگ تھے
وہ اجنبی سے ہو گئے 🍁
نہ چاند تھا نہ چاندنی
عجیب تھی وہ زندگی
چراغ تھے کہ بجھ گئے
نصیب تھے کہ سو گئے 🍁
یہ پوچھتے ہیں راستے
روکے ہو کس کے واسطے
چلو تم بھی اب چلو
وہ مہرباں بھی کھو گئے 🍁
میں تیری گفتگو نہ ہو جاؤں..!!
صورتِ ہوُ بَہوُ نہ ہو جاؤں...!!
ہو رہا ہے گماں مجھے..!!
میں کہیں میںِ سے تو نہ ہو جاؤں..!!
کوئی بھی نہیں تھا جو چپ کراتا مجھے
میں خود ہی رو کے یہ کہتا تھا خود سے اور نہ رو
کون سے وہم کے پردے تھے، دلوں میں حائل
کیوں تیری ذات، میری ذات ،نہ ہونے پائی♣️
کیا تم نے کبھی خود کو خط لکھا؟ ایک معذرت بھرا خط ان خواہشات کے لیئے جو مسخ ہو گئیں اُن خوابوں کے نام جو ادھورے رہ گئے کیا تم نے کبھی خود سے معذرت کی کہ ایک عرصے سے تم کبھی کُھل کر بے وجہ مسکرا نہ سکے ؟ 🙂💯
ہم تو کہہ دینگے کہ ہم” ٹھیک ہیں“ لیکن!!!
کون سمجھے گا یہاں” ٹھیک “ کا مطلب آخر.....
مجھے نفرت ہے محفل سے ، تکلم سے ، تبسم سے.......
مجھے تنہائیاں دے دو ؛ مجھے خاموش رہنا ہے........
کبھی ملے تو ؛ اسے یہ کہنا.......
گئے دنوں کو ؛ بھلا رہا ہوں.......
وہ اپنے وعدوں سے پھر گیا ہے!!
میں اپنے وعدے نبھا رہا ہوں......
لمہوں میی قید کر دے جو صدیوں کی چاہتں
دل چاہتا ہے کوئ ایسا طلبگار ہو _
اور پھر میں نے آج سے کہانی کا اختتام کر دیا،
آج سے تم مجھے مرحوم لکھو گے۔..🤐🖤🥀
تنہا خاموش رات ، اور گُفتگو کی آرزو
کِس سے کریں بات ، کوئی سُنتا ہی نہیں
اب میرے عیب تو مجھے نہ بتاٶ
مجھ کو احساس ہے کہ بُرا ہوں میں
اب میرے عیب تو مجھے نہ بتاٶ
مجھ کو احساس ہے کہ بُرا ہوں میں
ترکِ تعلقات کے سو عذر ہیں مگر
اِتنا تو مت گرا کہ میں خود کو بُرا لگوں
قیامت ہوں گے آپ
مگر قیامت تو نہیں!!
"اسے کہنا!
یونہی بیزار کیا محبت نے
ہم اگر دوست ہی رہتے تو اچھا تھا"
کَرب کے نصابوں
میں قہقہے نہیں چلتے
مستیاں نہیں ہوتیں
آنسوؤں کی بیٹھک میں
چپ کا ماتم رہتا ہے
تالیاں نہیں بجتیں
زندگی کی بستی کی
منطقیں نرالی ہیں
آنکھ تو لبالب ہے
پر یہ ہاتھ خالی ہیں!!
وہ مجھ کو لکھتا تھا۔۔
اے ہمدم۔۔!
جدائیوں کی اداس رُت میں،
میں لوٹ آیا تو قربتوں کے،
حسین موسم سے،
دل کا آنگن سنوار دونگا۔۔
بہار اس میں اتار دونگا۔۔
میں لے آؤنگا ساتھ اپنے،
محبتوں کے گلاب موسم،
وفا میں ڈوبے سیماب لمحے،
تمہاری خاطر۔۔۔
مگر۔۔۔۔
مگر وہ آیا،
تو عذر لایا۔۔
جواز لایا۔۔
وضاحتوں کے محاذ لایا۔۔
میں جن دکھوں کے تھا انتہا پر،
وہ پھر سے اُن کا آغاز لایا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain