میں خود کو تیرا سہارا سمجھتا ہوں میں تیرے دکھ کو خدارا سمجھتا ہوں یہ جان کر بھی کہ میرا نہیں ہے تو میں خود کو اب بھی تمہارا سمجھتا ہوں یہ میری نادانی ہے کہ ڈوب کر بھنور کو اب بھی کنارا سمجھتا ہوں مثال دیتا ہے ہجرت کی روز تو میں ناداں تیرا اشارا سمجھتا ہوں یہ بات بھی تو نہیں ہے زمانے کی میں خود بھی خود کو ہارا سمجھتا ہوں عاصم نثار
محنت سے جی چرایا نہیں کرتے جو خود کو خود ہرایا نہیں کرتے اپنے سوا امید کسی سے بھی کوئی بھی جو لگایا نہیں کرتے ملتی ہیں منزلیں انہی کو جو لوگ رستے کا خوف کھایا نہیں کرتے عاصم نثار
وہ تو ہے ہی بہت نادان اسے نہیں پتا فائدہ کیا ہے کیا نقصان اسے نہیں پتا وہ جو ہجرت پر آمادہ ہے اسے سمجھاؤ رو رو ہو جاؤں گا میں ہلکان اسے نہیں پتا گاؤں میں اسی کے دم سے ہیں رونقیں ورنہ پھر یہ گلی بھی ہو گی ویران اسے نہیں پتا نکلا ہے نئی منزلوں کی وہ تلاش میں خوش ہے چاہتوں کا یہاں ہے فقدان اسے نہیں پتا ہجر کی وحشت سے ابھی وہ بے خبر ہے عاصم درد بھی لے لیتے ہیں جان اسے نہیں پتا عاصم نثار
محبت بیج ہوتی تو، محبت ہم اگا لیتے۔۔ جہاں پر جتنی حاجت ہو، وہاں اتنی کھلا لیتے۔۔ دلوں کو موم کر لیتے، ختم حرص و حسد کرتے! محبت بیج ہوتی تو، ہوا کے دوش پہ رکھتے۔۔ نمی پا کر فضاؤں سے، محبت پھوٹ جو پڑتی، تو ننھی کونپلوں سے، سکھ کی بیلیں سر اٹھا لیتیں ، ہرے پتے سکوں کے، نغمگی کی دھن بجا لیتے۔ دکھوں کا خاتمہ ہوتا، دلوں کے میل دھل جاتے، کدوروت صاف ہو جاتی، یہ دنیا پاک ہوجاتی۔۔ یہ سب کچھ عین ممکن تھا. محبت بیج جو ہوتی..