جا بہ جا اداسی تھی پورے وجود میں اسکے
روتی تھی تحریر ، ہر شعر اشکبار تھا اس کا
قبل وصال اپنے اندر ہی مر گیا __ ایلیا جون
یوں تو کہنے کو زندوں میں شمار تھا اس کا
کتنا حسین منظر ہو گا
سانس آخری ہو گی انتظار تمہار ا ہو گا
پھر نا سانس ہو گی نہ انتظار ہو گا
جنازہ اٹھائیں دفنا آئیں گے ۔ تب تم صرف اتنا کرنا
میری بخشش کی دعا کرنا
آج دل بہت اداس ہے
آج تم بے حساب یاد آئے
کیا کرو گی آخر تم قبر پر میری آ کر
دیر رو لو گی پھر بھول جاؤ گی
It's reality
معاف کرنا اے خدا میں
خودکو مار بیٹھا ہوں


پھر اچانک میں یہاں سے غائب ہو جاؤں گا نہ ہی میرا کوئی میسج آئے گا اور نہ ہی میں
دن مہینوں میں بدل جائیں گے اور کئی مہینوں بعد اگر آپ کو میرا خیال آیا آپ مجھے میسج کریں گی لیکن اس کا بھی کوئی جواب نہیں آئے
پھر ایک دن میری آئی ڈی ایکٹیو ہو گی اور آپ سب کو میری موت کی خبر دی جائے گی لیکن تب تک اتنی دیر ہو چکی ہو گی کہ میرا جسم اور ہڈیاں خاک میں مل چکی ہوں گی۔
میرا وہ دل جو مجھے ہمیشہ بے قرار رکھتا تھا افسوس کہ وہ بھی خاک ہو جائے گا ۔۔لیکن اس میں رہنے والوں کا کیا ہو گا شاید وہ روح کے ساتھ رہیں گے
ﺑﯿﻤﺎﺭٖ ﻋﺸﻖ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﺍﺣﺘﯿﺎﻃﺎً ﻓﺎﺗﺤﮧ ﭘﮍﮪ ﻟﻮ
ہم ﺳﮯ _ ﺑﺎﺕ ﮐﯿﺠﯿﮯ .
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺁﺧﺮﯼ ﺩﻥ ﮨﯿﮟ
آج دل بہت اداس ہے ۔۔ آج کوئی مجھ سے میرا حال ہی پوچھ لے

پھر سے لوٹ آیا اکتوبر
ابھی کچھ ہی دیر پہلے
ابھی کچھ ہی دیر پہلے،
یہاں زندگی تھی روشن، یہ چراغ جل رہے تھے
یہیں پھول کھل رہے تھے، یہیں کھل رہی تھیں کلیاں
ابھی کچھ ہی دیر پہلے، یہاں تتلیاں تھیں رقصاں
تو نہ جانے کیا ہُوا یہ کہ لرز اٹھی زمیں بھی
پھٹے پر بَتوں کے سینے ، نہ پناہ تھی کہیں بھی
ابھی کچھ ہی دیر پہلے، یُوں ہُوا نزولِ آفت
تھے وہ بد نصیب لمحے کہ گزر گئی قیامت
ہے فلک ہی اوڑھنے کو، ہے زمیں ہی اب بچھونا
کہیں گم ہُوا ہے بچّہ، کہیں گم ہُوا کھلونا
کہیں لالِ گم شدہ کی یوں تلاش میں ہے ممتا
نہ ہی سر پہ ہے دوپٹہ نہ ہی پیر میں ہے جوتا
ابھی کچھ ہی دیرپہلے، جو کھنڈر ہے مدرسہ تھا
وہ دبی ہوئی ہے تختی، وہ پڑا ہوا ہے بستہ
کسی پھول سے بدن پرہیں سجی ہوئی خراشیں
کہیں بوڑھا باپ بیٹوں کی اُٹھا رہا ہے لا شیں
ابھی ان گنت ہیں لاشیں
سنو اسے کہنا اکتوبر لوٹ آیا ہے
کہ اب کی بار وہ آ جائے
ہر آہٹ پر چونک جاتی کہ تم آئے
ہر شام کو ڈوبتے سورج کو دیکھتی ہوں
جیسے جیسے سورج ڈوبتا ہے
ویسے ویسے میری امید انتظار کی ختم ہوتی
اک شام کا کہ کر گیا تھا
سنو
کئی شامیں بیت گئی
پر تم نہی آئے
تمہارے قدموں کی آہٹ آج تک آواز آتی
اکتوبر کے جانے سے پہلے لوٹ آؤ
سنو اسے کہنا اکتوبر لوٹ آیا ہے
اَب کے اُمید کے شُعلے سے بھی آنکھیں نہ جلیں
جَانے کِــــــس موڑ پہ لے آئــی مُحبّت ہَــــــم کو
کون سی رُت ہے زمانے، ہمــــــیں کیا مـــــعلوم
اپنے دامن میں لئے پھرتی ہے حَسرت ہَـــــم کو
زَخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شَاید نہ بھرے
ہِجــر میں ایسی مِلی اب کے مُسافت ہَـــــم کو
یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاوں بتا اے دلِ تنہا تجھ کو
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
تعارف روگ بن جائے تو ا س کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا ناممکن ہو
اسے ایک خوبصورت موڑ دیکر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
تُم نے بھی ٹھکرا ہی دیا ہے دُنیا سے بھی دُور ہوُئے
اپنی اَنا کے سارے شیشے آخر چکنا چور ہوُئے
ترکِ وفا کی ساری قسمیں اُن کو دیکھ کے ٹوٹ گئیں
اُن کا ناز سلامت ٹھہرا، ہم ہی ذرا مجبور ہوُئے
اب کے اُن کی بزم میں جانے کا گر محسن اذن ملے
زخم ہی ان کی نذر گزاریں اشک تو نا منظور ہوُئے
۔۔
وہ قریب آنا بھی چاھے ، اور گُریزاں بھی رھے
اُسکا یہ پِندارِ محبوبی ، مُجھے بھایا بہت
کِتنی یادیں ، کِتنے منظر آبدِیدہ ھُوگئے
جب بھی تنہا آئینہ دیکھا ، وہ یاد آیا بہت
سانس کی مہلت کیا کر لے گی
اب یہ سہولت کیا کر لے گی
بے بس کرکے رکھ دے گی نا
اور محبت کیا کر لے گی ؟
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain