کچھ خواب ٹوٹے کچھ ارمان نہ رہے
مکین دربدر ہوئے مکان نہ رہے
کل تک جنہیں دیکھ کر جیتے تهے
آج وہی لوگ اپنے درمیان نہ رہے
داستان دل سنا کر کیا ملا
اپنا کسی کو بنا کر کیا ملا
آنکھیں خون روتی ہیں ہر وقت
کسی کو دل میں بسا کر کیا ملا
پهر غم دہر سے فرصت ہی نہ ملی
تجھ کو بھی اپنا بنا کر کیا ملا
اداسی ہوا انجام محبت کا
آنکھوں میں سپنے سجا کر کیا ملا
بدل نہ سکیں دعائیں لکیروں کو
راتوں کو آنسوؤں بہا کر کیا ملا
تو بھی خفا ہوا مقدر بهی روٹھ گیا
ہاتھ دعا میں اٹھا کر کیا ملا
تنہائی اکثر مجھ سے کہتی ہے عاصی~
کہ تجھے اپنا آپ گنواہ کر کیا ملا
آنکهیں تیری کبھی پر نم نہ ہوں
خدا کرے تیری زندگی میں غم نہ ہوں
تو ہنستا مسکراتا رہے صدا ایسے
تیری زندگی سے خوشیاں کم نہ ہوں
یوں خفا ہو کر نہ جا دور مجھ سے
کیا خبر تو لوٹے عاضی~ اور ہم نہ ہوں
اشک آنکھوں سے بہا کر دیکھتے ہیں
دستان درد سب کو سنا کر دیکھتے ہیں
شاید مٹ جائے اندھیرا اس شہرِ ویران کا
آو اپنا گهر ہی جلا کر دیکھتے ہیں
شاید مل ہی جائے اپنا کوئی اس بھیڑ میں
ایک بار یہاں آواز لگا کر دیکھتے ہیں
نہ ہو کبھی بهی غم تعبیر کے تبدل کا
کوئی ایسا خواب آنکھوں میں سجا کر دیکھتے ہیں
آ جائے گا کبھی تو اسے احساس میرا
اس بے خودی میں خود کو گنواہ کر دیکھتے ہیں
کیا بچتا ہے میرے پاس سوائے تیرے
.اس لیے تجھے بهلا کر دیکھتے ہیں
شاید مل جائے کہیں تو سکون عاصی~
تیرے راستے میں اپنا آپ مٹا کر دیکھتے ہیں
ﻣﻮﺝ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺁﻭ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﻭﻋﺪﮮ پر
ﻣﮕﺮ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
یہ میرا وہم ہے یا تصویر ہے تیری
تو ہی نظر آتا ہے جدھر دیکھتے ہیں
نہ جانے زندگی میری کیا لگتی ہے
اک مدت سے یہ مجھ سے خفا لگتی ہے
اس قدر مغموم ہوا ہوں تیرے بعد
کے ہنسی اب مجهے کوئی وبا لگتی ہے
اس انداز سے ہوئی ہے عمر بسر عاصی~
یہ میری زندگی کسی فقیر کی بدعا لگتی ہے
چراغ امید جلا کر دیکھیں گے
اس کو ایک بار بلا کر دیکھیں گے
شاید کسی کو آ جائے خیال میرا
اس امید پر سب کو آزما کر دیکھیں گے
کہاں تک جاتی ہے روشنی میرے جلنے کی
کسی روز خود کو آگ لگا کر دیکھیں گے
کبھی تو کھلے گا در عنایتوں کا
ہم بهی اپنی جھولی پهلا کر دیکھیں گے
کہاں تک ممکن ہے وہ ہم سے گریزاں رہے
ہم بهی دعا میں ہاتھ اٹھا کر دیکھیں گے
تلاش سکون میں پھرتے ہیں دربدر
ایک بار اپنے گھر جا کر دیکھیں گے
ﻭﮦ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺿﺮﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻻﺵ ﭘﺮ ﺭﻭﻧﮯ ..ﺍﮮ
ﻗﺎﺻﺪ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺧﺒﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﺩﯾﻨﺎ
گنہگار چاہیئے نہ پارسائی چاہتا ہوں
محفلوں سے اکتا گیا ہوں تنہائی چاہتا ہوں
ہر شخص دے جاتا ہے فریب مجھ کو
اس لیے میں اب عقل چاہتا ہوں دانائی چاہتا ہوں
نہ درد ہجر ہے نہ میسر وصال مجھ کو
اب کی بار میں تجھ سے جدائی چاہتا ہوں
تیرے ہونے سے ملے گی مجھ کو شفا
تیرا بیمار ہوں تجھ سے مسیحائی چاہتا ہوں
کوئی سنتا ہی نہیں اس مطلب بهری دنیا میں
اے رب میں تجھ تک رسائی چاہتا ہوں
اب کے تو سانس لینا بھی عذاب ہواجاتا ہے عاصی~
اے زندگی اب تیری قید سے رہائی چاہتا ہوں
ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻘﻂ ﺗﺮﮎ ﺗﻌﻠﻖ ﮨﯽ ﻣﺎﻧﮕﺎ .
.. ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﺩﯾﻨﮯ ﭘﺮ ﺭﺍﺿﯽ ﺗﮭﺎ
میرا قلم واقف ہے میرے حال سے
میں خوش ہوں لکھنا بھی چاہوں تو لکھا نہیں جات
ﻭﻗﺖ ﻧﺰﺍﻉ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﯿﺮﯼ ﺩﯾﺪ .
ﭘﻬﺮ ﮐﻮﻥ ﺑﻼﺋﮯ ﮔﺎ ... ﺁﺧﺮﯼ ﺑﺎﺭ ﺁ ﺟﺎﻭ
خوشیاں روٹهیں غم بڑهے اور تم آئے
ارمان بکهرے خواب ٹوٹے اور تم آئے
ہم تو خود سے ہی مایوس ہوئے تھے
پھر امید ختم ہوئی درد جاگے اور تم آئے
کانچ ہوتے ہیں ہم غریبوں کے دل
کبھی ٹوٹ جاتے ہیں کبھی توڑ دیئے جاتے ہیں
منزلوں کے راستوں کو دشوار پایا
ہم نے خود کو ہمیشہ بے کار پایا
دھندلے دھندلے سے ہیں چہرے سارے
ہم نے منظر کیا میرے یار پایا
کسی کو گھر سے نکلتے ہی منزل مل گئی
کسی نے عمر بھر کا انتظار پایا
بیچنی تھیں میں نے اپنی آنکھیں
غم کے سوا نہ کوئی خریدار پایا
کر رہا تھا ہر شخص میری ذات پر تبصرے
میں نے خود کو اپنی حالت کا ذمہ دار پایا
کوئی کمی مجھ میں تھی شاید عاصی~
ہر شخص کو خود سے بے زار پایا
سنا تھا سب زخم بھر جائیں گے
ہمیں کیا خبر تھی کہ ہم بکهر جائیں گے
سیلاب زدہ رہیں گی کب تک آنکھیں
چڑتے دریا تو اتر جائیں گے
بهر بهر کر پیتے رہے جام رات بھر
ہمیں خبر نہیں تھی کہ صبح بچھڑ جائیں گے
کہاں کرے گے تدفین کچھ تو بتاو
لگتا ہے خواب سارے آنکھوں میں مر جائیں گے
اگر ہوا کوئی اپنا بھی منتظر تو عاصی~
ہم بھی شام کے بعد گھر جائیں گے
ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﯽ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﻭﻓﺎ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺗﻠﺨﯿﺎﮞ
ﺗﻢ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﺭﺍﺱ ﺁﺗﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﭘﻞ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ
ﭼﻬﻮﮌﻭ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﻮ ﺍﻧﮩﯽ ﻋﺬﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻧﮧ ﭘﺎﻭ ﮔﺌﮯ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﮨﯽ ﺑﮑﻬﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﺗﻢ ﺍﺱ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﮔﻼﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﭨﮭﻮﮐﺮ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﻟﻮﭦ ﮨﯽ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﻋﺎﺻﯽ ~
ﺍﺑﮭﯽ ﻧﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﻧﮩﯽ ﺳﺮﺍﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﮎ ﻋﺠﺐ ﺭﺍﮦ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺳﻔﺮ ﮐﺎ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮨﻤﺴﻔﺮ ﮐﺎ ﭘﺘﺎ ﮨﮯ
مرشد آپ تو واقف تھے میرے حال سے
مرشد آپ تو میرے درد پر واہ نہ کرتے
https://free.facebook.com/ایک-فرقہ-اداس-لوگوں-کا-101877104725532/?ref=opera_speed_dial_freefb
Please like my Facebook page for my own poetry
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain