رنگ برسات نے بھرے کچھ تو زخْم دِل کے ہُوئے ہرے کچھ تو فُرصتِ بے خودی غنیمت ہے گردِشیں ہو گئیں پرے کچھ تو کتنے شورِیدہ سر تھے پروانے شام ہوتے ہی جل مَرے کچھ تو ایسا مُشکِل نہیں تِرا مِلنا ! دِل مگر جستجو کرے کچھ تو آؤ ناصر کوئی غزل چھیڑیں ! جی بہل جائے گا ارے کچھ تو
ہم کو معلوم ہے انجام ہمارا مر شد اس سمندر کا نہیں کو ئی کنارا مر شد ہم ہی اے عشق تیرے پا ؤں پڑے تھے آکر دوش اب اس میں نہیں کو ئی تمہارا مر شد اب تو جو کچھ ہے شب ہجر تیرے ہا تھ میں ہے خا ک کر دے یا بنا دے مجھے تارا مر شد میں اگر دشت نہیں دشت نما بن جا ؤں اس سے کم پر نہیں ہو نا گزارہ مر شد دشت کی خاک اڑانے پہ ہوا ہوں معمور کو ئی تنبیہ مجھے کو ئی اشارہ مر شد یہی کا فی ہے تیرا ہجر نظر آتا ہے اس کی تد فین نہیں ہم کو گوارہ مر شد آج سمجھا ہوں محبت کی کہا نی محسن آج سمجھا ہوں کسے کہتے ہیں خسا رہ مر شد
جن کا دعویٰ تھا کہ لائیں گے وہ آدھا کر کے وہ بھی لے آئے مرا درد زیادہ کر کے کل جو آیا تو اداسی کے سوا ،،، آؤں گا آج لوٹا ہوں سمندر سے یہ وعدہ کر کے اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ اسے جانا تھا وہ تو آیا تھا ،، بچھڑنے کا ارادہ کر کے اپنے پیروں میں ،، وفاؤں کو کچلنے والے کیسے پھرتے ہیں وہ سینے یوں کشادہ کر کے روز جاتا ہوں ذکی ،، جانبِ نفرت لیکن لوٹ آتا ہوں ، محبت کا اعادہ کر کے
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی چلے آؤ کہ دنیا سے جارہاہے کوئی ازل سے کہہ دو کہ رک جائے دو گھڑی کیلئے سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی وہ اس ناز سے بیٹھے ہیں لاش کے پاس جیسے روٹھے ہوئے کو منا رہا ہے کوئی پلٹ کر نہ آجاے سانس نبضوں میں اتنے حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی اے خدا دو پل کی مہلت اور دے دے میری قبر سے مایوس جا رہا ہے کوئی غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی چلے آؤ کہ دنیا سے جارہاہے کوئی
کسی رنجش کو ہوا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی مجھ کو احساس دلا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی_! میرے رکنے سے میری سانسیں بھی رک جائیں گی فاصلے اور بڑھا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی_! زہر پینے کی تو عادت تھی زمانے والو_! اب کوئی اور دوا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی چلتی راہوں میں یونہی آنکھ لگی ہے فاقر بھیڑ لوگوں کی ہٹا دو کہ میں زندہ ہوں ابھی_!