مگر اسے حیرانی اس بات پر ہو رہی تھی کہ اس سب کا اسے پہلے پتا کیوں نہیں چلا۔۔۔۔۔ اور پھر امامہ۔۔۔۔۔ اس کی تو شادی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ پھر وہ کیوں اس طرح کی حرکتیں کر رہی تھی۔
"اور دیکھو ذرا مجھے، میں امامہ بی بی کو کتنا سیدھا سمجھتی رہی۔" ناصرہ کو اب اپنی بے خبری پر افسوس ہو رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"ابو! میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔" جلال رات کو اپنے والد کے کمرے میں چلا آیا۔ اس کے والد اس وقت اپنی ایک فائل دیکھنے میں مصروف تھے۔
"ہاں آؤ، کیابات ہے۔" انہوں نے جلال کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ ان کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہا، اس کے والد نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا، انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کچھ پریشان ہے۔" انہیں یک دم تشویش ہونے لگی۔
"ابو! میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔" جلال نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔
لیکن اگر تم اپنا منہ بند رکھو گی تو نہ صرف کسی کو پتا نہیں چلے گا بلکہ تمہیں بھی خاصا فائدہ ہو گا۔"
ناصرہ نے اس بار کچھ کہے بغیر خاموشی سے وہ موبائل پکڑ لیا۔" میں پھر کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔ کسی کو اس موبائل کے بارے میں پتا نہیں چلنا چاہئیے۔" وہ اپنا والٹ نکال رہا تھا۔
ناصرہ سر ہلاتے ہوئے جانے لگی۔"ایک منٹ ٹھہرو۔" سالار نے اسے روکا۔ وہ اب اپنے والٹ سے کچھ کرنسی نوٹ نکال رہا تھا۔
"یہ لے لو۔" اس نے انہیں ناصرہ کی طرف بڑھا دئیے۔ ناصرہ نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ نوٹ پکڑ لئے۔ وہ جن گھروں میں کام کرتی رہی تھی وہاں کے بچوں کے ایسے بہت سے رازوں سے واقف تھی، اسے بھی پیسے کمانے کا موقع مل گیا تھا۔ اس نے فوری اندازہ یہی لگایا تھا کہ امامہ اور سالار کا چکر چل رہا تھا اور یہ موبائل وہ تحفہ تھا جو اسے امامہ کو دینا تھا،
"اس وقت ان کے گھر پر ہی ہے۔۔۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ سالار صاحب؟" ناصرہ اب کچھ پریشان نظر آنے لگی۔
"کچھ نہیں۔۔۔۔۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم اس کے پاس جاؤ، یہ موبائل اسے دو اور اس سے کہو کہ یہ امامہ کو دےدے۔" سالار نے بڑے لاپرواہ انداز میں اپنا موبائل اٹھا کر اس کی طرف بڑھایا۔
ناصرہ ہکا بکا رہ گئی۔ میں آپ کی بات نہیں سمجھی۔
"یہ موبائل اپنی بیٹی کو دو اور اس سے کہو کسی کو بتائے بغیر یہ امامہ تک پہنچا دے۔"
"مگر کیوں؟"
"یہ جاننا تمہارے لئے ضروری نہیں ہے، تمہیں جو کہا ہے وہی کرو۔" سالار نے ناگواری کے عالم میں اسے جھڑکا۔
"لیکن اگر کسی کو وہاں پتا چل گیا تو۔۔۔۔۔" ناصرہ کی بات کو اس نے درشتی سے کاٹ دیا۔
"کسی کو پتا تب چلے گا جب تم اپنا منہ کھولو گی۔۔۔۔۔ اور تم اپنا منہ کھولو گی تو صرف تمہیں اور تمہاری بیٹی کو نقصان ہو گا اور کسی کو نہیں۔۔۔۔۔
سالار صبح خلاف معمول دیر سے اٹھا۔ گھڑی دیکھتے ہوئے اس نے کالج نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ سکندر اور طیبہ کراچی گئے ہوئے تھے اور وہ گھر پر اکیلا ہی تھا، ملازم جس وقت ناشتہ لے کر آیا وہ ٹی وی آن کئے بیٹھا تھا۔
"ذرا ناصرہ کو اندر بھیجنا۔" اسے ملازم کو دیکھ کر کچھ یاد آیا۔ اس کے جانے کے چند منٹ بعد ناصرہ اندر داخل ہوئی۔
"جی صاحب! آپ نے بلایا ہے؟" ادھیڑ عمر ملازمہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"ہاں، میں نے بلایا ہے۔۔۔۔ تم سے ایک کام کروانا ہے۔" سالار نے ٹی وی کا چینل بدلتے ہوئے کہا۔
"ناصرہ! تمہاری بیٹی وسیم کے گھر کام کرتی ہے نا؟" سالار اب ریموٹ رکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"ہاشم صاحب کے گھر؟" ناصرہ نے کہا۔
"ہاں، ان ہی کے گھر۔"
"ہاں جی کرتی ہے۔" وہ کچھ حیران ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگی۔
"کس وقت جاتی ہے وہ ان کے گھر؟"
جو لوگ "میرا جسم میری مرضی" جیسے بیہودہ مارچ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ وہ قرآن پاک میں اللہ پاک کے اس حکم کو دھیان سے پڑھ لیں۔
ترجمہ
"بیشک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ پاک(ایسے لوگوں کے عزائم کو) جانتےہیں اور تم نہیں جانتے۔"
👈 النُّوْر سورہ آیت نمبر 19
جب سے تم لاہور گئی ہو بہت عجیب ہو گئی ہو۔"
"اور ہمارے چاہنے سے ویسے بھی کچھ نہیں ہو گا۔ میں نے تمہیں بتایا ہے، تمہارے بابا نے طے کیا ہے یہ سب کچھ۔"
"آپ انہیں سمجھا تو سکتی تھیں۔" امامہ نے سلمیٰ کی بات پرا حتجاج کیا۔
"کس بات پر؟" سمجھاتی تو تب اگر مجھے کوئی بات قابلِ اعتراض لگتی اور مجھے کوئی بات قابلِ اعتراض نہیں لگی۔" سلمیٰ نے بڑے آرام سے کہا۔ امامہ غصہ کے عالم میں وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تم مجھے بتا دو کہ میں تمہیں کب رنگ کروں؟"
"کل فون کر لو، تمہاری شادی کی تاریخ کب طے کی گئی ہے۔" جلال کی آواز میں پریشانی تھی۔
"یہ مجھے نہیں پتا۔"امامہ نے کہا۔
"ٹھیک ہے امامہ! میں آج ہی ا پنے پیرنٹس سے بات کرتا ہوں۔۔۔۔۔ اور تم پریشان مت ہونا۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔" اس نےا مامہ کو تسلی دیتے ہوئے فون بند کر دیا۔
امامہ نے شکر ادا کیا کہ اس کی بھابھی یا امی کو یہ شک نہیں ہو سکا کہ وہ اسجد سے نہیں کسی اور سے بات کر رہی تھی۔
"یہ شادی تمہارے بابا اور اعظم بھائی نے مل کر طے کی ہے۔ تمہارے یا اسجد کے کہنے پر وہ اسے ملتوی نہیں کریں گے۔" سلمیٰ نے اس بار قدرے نرم لہجے میں کہا۔
"امی! میں مارکیٹ تک جا رہی ہوں، مجھے کچھ ضروری چیزیں لینی ہیں۔" امامہ نے ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے کہا۔
"میں اسجد کو فون کر رہی ہوں۔"
"کس لئے؟"
"میں اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
"وہی فضول باتیں جو تم رات کو کر رہی تھیں۔" سلمیٰ نے تیز لہجے میں کہا۔
"میں آپ کے سامنے بات کر رہی ہوں، آپ مجھے بات کرنے دیں۔۔۔۔۔ اگر میں نے کوئی غلط بات کی تو آپ فون بند کر سکتی ہیں۔" اس نے پرسکون انداز میں کہا اور شاید یہ اس کا انداز ہی تھا جس نے سلمیٰ کو کچھ مطمئن کر دیا۔
امامہ نے نمبر ڈائل کیا مگر وہ ا سجد کو فون نہیں کر رہی تھی۔ چند بار بیل بجنے کے بعد دوسری طرف فون اٹھا لیا گیا۔ فون اٹھانے والا جلال ہی تھا۔ خوشی کی ایک لہر امامہ کے اندر سے گزر گئی۔
"ہیلو! میں امامہ بول رہی ہوں۔" اس نے جلال کا نام لیے بغیر اعتماد سے کہا۔
"تم بتائے بغیر اسلام آباد کیوں چلی گئیں میں کل تم سے ملنے ہاسٹل گیا تھا۔" جلال نے کہا۔
"میں اسلام آباد آئی ہوں اسجد!" امامہ نے کہا۔
اسی طرح وسیم کے خاندان کی بھی اپنی روایات تھیں۔ اسے امامہ کے موڈ اور ٹمپرامنٹ کا تھوڑا اندازہ تھا۔
مگر اس طرح اچانک امامہ کی کال وصول کر کے وہ اس حیرت کے جھٹکے سے سنبھل نہیں پا رہا تھا جو اسے لگا تھا۔
جب وہ کافی دیر تک سونے میں کامیاب نہیں ہوا تو وہ کچھ جھنجھلا گیا۔
To hell with Imama and all the rest (بھاڑ میں جائے امامہ اور یہ سارا قصہ) وہ بڑبڑایا اور کروٹ لے کر اس نے تکیہ اپنے چہرے کے اوپر رکھ دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار نے اس نمبر اور ایڈریس کو نو ٹ نہیں کیا۔ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس نے پوچھا۔
"اور اگر میرے فون کرنے پر بھی کسی نے فون نہیں اٹھایا تو؟" جب وہ خاموش ہو گئی تو اس نے پوچھا۔
دوسری طرف لمبی خاموشی رہی پھر امامہ نے کہا۔" تم لاہور جا کر اس آدمی سے مل سکتے ہو۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ یہ میرے لئے بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔" اس بار امامہ کی آواز ملتجیانہ تھی۔
"اور اگر اس نے پوچھا کہ میں کون ہوں تو؟"
"تم جو چاہے اسے بتا دینا۔۔۔۔۔ مجھے اس سے دلچسپی نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں صرف اس مصیبت سے چھٹکارا چاہتی ہوں۔"
"کیا یہ بہتر نہیں کہ ہے تم اس آدمی سے خود بات کرو۔" سالار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ شاید مجھے دوبارہ فون کا موقع نہ ملے اور فی الحال تو آدمی فون ریسیو نہیں کر رہا۔"
سالار نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا
میں لاہور میں کسی سے رابطہ کرنا چاہتی ہوں مگر کر نہیں پا رہی۔"
"کیوں؟"
"وہاں سے کوئی فون نہیں اٹھا رہا۔"
"تم رات کے اس وقت۔۔۔۔۔"
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔" پلیز! اس وقت صرف میری بات سنو، میں دن کے وقت فون نہیں کر سکتی اور شاید کل رات کو بھی نہ کر سکوں۔ میرے گھر والے مجھے فون نہیں کرنے دیں گے، میں چاہتی ہوں کہ تم ایک ایڈریس اور فون نمبر نوٹ کر لو اور اس پر ایک آدمی سے کانٹیکٹ کرو، اس کا نام جلال انصر ہے، تم اس سے صرف یہ پوچھ کر بتا دو کہ میرے پیرنٹس نے یہاں میری شادی طے کر دی ہے اور وہ مجھے اب شادی کے بغٖیر لاہور آنے نہیں دیں گے۔"
سالار کو اچانک اس سارے معاملے سے دلچسپی پیدا ہونے لگی۔ کمبل کو اپنے گھٹنوں سے اوپر تک کھینچتے ہوئے وہ امامہ کی بات سنتا رہا۔ وہ ایک ایڈریس اور فون نمبر دہرا رہی تھی۔
اس نے ذہن میں موبائل نمبر کو دہرایا، اسے کوئی دقت نہیں ہوئی۔ کاغذ کا ایک ٹکڑا لے کر اس نے احتیاط کے طور پر اس نمبر کو لکھ لیا۔ تین بجے کے قریب وہ آہستہ آہستہ ایک بار پھر لاؤنج میں آ گئی اور اس نے وہ نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار نے نیند میں اپنے موبائل کی بیپ سنی تھی۔ جب لگاتار موبائل بجتا رہا تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور قدرے ناگواری کے عالم میں بیڈ سائیڈ ٹیبل کو ٹٹولتے ہوئے موبائل اٹھایا۔
"ہیلو!" امامہ نے سالار کی آواز پہچان لی تھی، وہ فوری طور پر کچھ نہیں بول سکی۔
"ہیلو۔" اس کی خوابیدہ آواز دوبارہ سنائی دی۔"سالار!" اس نے اس کا نام لیا۔
"بول رہا ہوں۔" اس نے اسی خوابیدہ آواز میں کہا۔
"میں امامہ بول رہی ہوں۔" وہ کہنے والا تھا ۔"کون امامہ۔۔۔۔۔ میں کسی امامہ کو نہیں جانتا۔"
اور خالی الذہنی کے عالم میں بند کھڑکیوں کے شیشوں سے باہر دیکھنے لگی۔
نیچے اس کے گھر کا لان نظر آ رہا تھا اور پھر لاشعوری طور پر اس کی نظر دوسرے گھر پر پڑی۔ وہ سالار کا گھر تھا۔ اس کا کمرہ نچلی منزل پر تھا۔ دور سے کچھ بھی واضح نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ اس گھر میں ایک دفعہ جانے کے بعد اس کی لوکیشن اور کمرے میں پھرنے والے کے حیلے اور جسامت سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ سالار کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔
"ہاں! یہ شخص میری مدد کر سکتا۔ اگر میں اسے ساری صورت حال بتا دوں اور اس سے کہوں کے لاہور جا کر جلال سے رابطہ کرے تو۔۔۔۔۔ تو میرا مسئلہ حل ہو سکتا ہے مگر اس سے رابطہ کیسے۔۔۔۔۔؟"
اس کے ذہن میں ایک دم اس کی گاڑی کے پچھلے شیشے پر لکھا ہوا اس کا موبائل نمبر اور نام یاد آیا۔
وہ ہاشم مبین کی سب سے لاڈلی بیٹی تھی پھر بھی انہوں نے۔۔۔۔۔ اس کے گالوں پر آنسو بہہ نکلے تھے۔
"اسجد کے علاوہ میں تمہاری شادی کہیں اور نہیں ہونے دوں گا۔ تم اگر کسی اور لڑکے میں انٹرسٹد ہو بھی تو اسے ابھی اور اسی وقت بھول جاؤ۔ میں کبھی۔۔۔۔۔ کبھی۔۔۔۔۔ کبھی تمہاری کہیں اور شادی نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔ اپنے کمرے میں چلی جاؤ۔۔۔۔۔ اور دوبارہ اگر میں نے تمہیں فون کے پا س بھی دیکھا تو میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا۔"
وہ اسی طرح گال پر ہاتھ رکھے میکانکی انداز میں چلتے ہوئے اپنے کمرے میں آ گئی۔ اپنے کمرے میں آ کر وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔" کیا بابا مجھے ۔۔۔۔۔ مجھے اس طرح مار سکتے ہیں؟" اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔ بہت دیر تک اسی طرح روتے رہنے کے بعد اس کے آنسو خود بخود خشک ہونے لگے۔ وہ اٹھ کر اضطراب کے عالم میں اپنے کمرے کی کھڑکی کی طرف آ گئی
۔" اس نے تحمل سے کہا۔
"تم مجھے وہ پیغام دے دو، میں جویریہ تک پہنچا دوں گا، بلکہ ذاتی طور پر خود لاہور دے کر آوں گا۔"
"امامہ! مجھے صاف صاف بتاؤ کسی اور لڑکے میں انٹرسٹڈ ہو تم؟" انہوں نے کسی تمہید کے بغیر اچانک اس سے پوچھا۔ وہ انہیں کچھ دیر دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
"ہاں!"
ہاشم مبین دم بخود رہ گئے۔"کسی اور لڑکے میں انٹرسٹڈ ہو؟" انہوں نے بے یقینی سے اپنا جملہ دہرایا۔ امامہ نے پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔ ہاشم مبین نے بے ختیار اس کے چہرے پر تھپڑ کھینچ مارا۔
"مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا تم سے، مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا۔" وہ غصہ میں تنتنا سے گئے۔ امامہ گم صم اپنے گال پر ہاتھ رکھے انہیں دیکھ رہی تھی۔ یہ پہلا تھپڑ تھا جو ہاشم مبین نے اس کی زندگی میں اسے مارا تھا اور امامہ کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ تھپڑ اسے مارا گیا تھا۔
"دوست کو کر رہی تھی۔" امامہ نے ان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ وہ ان سے نظریں ملا کر جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔
"میں ملا دیتا ہوں۔" انہوں نے سرد آواز میں کہتے ہوئے ری ڈائل کا بٹن دبا دیا اور ریسیور کان سے لگا لیا۔ امامہ زرد چہرے کے ساتھ انہیں دیکھنے لگی۔ وہ کچھ دیر تک اسی طرح ریسیور کان سے لگائے کھڑے رہے پھر انہوں نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ یقیناً دوسری طرف کال ریسیو نہیں کی گئی تھی۔
"کون سی دوست ہے یہ تمہاری جس کو تم اس وقت فون کر رہی ہو۔" انہوں نے درشت لہجے میں امامہ سے پوچھا۔
"زینب۔۔۔۔۔" فون کی ا سکرین پر زینب کا نمبر تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہاشم مبین کو زینب پر کسی قسم کا شک ہو اور وہ جلال تک جا پہنچیں، اس لئے اس نے ان کے استفار پر جلدی سے اس کا نام بتا دیا۔
"کس لئے کر رہی ہو؟"
"میں اس کے ذریعے جویریہ تک ایک پیغام پہنچانا چاہتی ہوں۔"
اس نے صبیحہ کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔ اس کے والد نے فون اٹھایا۔
"بیٹا! صبیحہ تو پشاور گئی ہے اپنی امی کے ساتھ۔" صبیحہ کے والد نے امامہ کو بتایا۔
"پشاور۔" امامہ کے دل کی دھڑکن رک گئی۔
"اس کے کزن کی شادی ہے۔ وہ لوگ ذرا پہلے چلے گئے ہیں۔ میں بھی کل چلا جاؤں گا۔" اس کے والد نے بتایا۔"کوئی پیغام ہو تو آپ مجھے دے دیں میں صبیحہ کو پہنچا دوں گا۔"
"نہیں شکریہ انکل!" وہ ان کے ساتھ اس سارے معاملے میں کیا بات کر سکتی تھی۔
اس نے فون رکھ دیا۔ اس کے ڈیپریشن میں اضافہ ہونے لگا۔ اگر میرا جلال سے کانٹیکٹ نہ ہوا تو، اس کا دل ایک بار پھر ڈوبنے لگا۔
ایک بار پھر اس نے جلال کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا اور تب ہی کسی نے اس کے ہاتھ سے ریسیور لے لیا۔ وہ سن ہو گئی ہاشم مبین اس کے پیچھے کھڑے تھے۔
"کس کو فون کر رہی ہو؟" ان کے لہجے میں بے حد ٹھہراؤ تھا۔
کہ یہ سب اس کے ساتھ ہو رہا تھا۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ مجھے اس صورت حال کا سامنا کرنا ہے۔ مجھے ہمت نہیں ہارنی۔ مجھے کسی نہ کسی طرح فوری طور پر جلال سے کانٹیکٹ کرنا ہے۔ وہ یقیناً اب تک اپنے پیرنٹس سے بات کر چکا ہو گا۔ اس سے بات کر کے کوئی نہ کوئی رستہ نکل آئے گا۔
وہ بے چینی سے کمرے میں ٹہلتے ہوئے سوچتی رہی۔ اس کے کمرے میں دوبارہ کوئی نہیں آیا۔
رات بارہ بجے کے بعد وہ اپنے کمرے سے نکلی۔ وہ جانتی تھی اس وقت تک سب سونے کے لئے جا چکے ہوں گے۔ اس نے جلال کے گھر کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔ فون کسی نے نہیں اٹھایا۔ اس نے یکے بعد دیگرے کئی بار نمبر ملایا۔ آدھ گھنٹہ تک اسی طرح کالز کرتے رہنے کے بعد اس نے مایوسی کے ساتھ فون رکھ دیا۔ وہ جویریہ یا رابعہ کو فون نہیں کر سکتی تھی۔ وہ دونوں اس وقت ہاسٹل میں تھی۔ کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد
کیوں؟ میں نے کیا کیا ہے؟"
"جھوٹ بول کر اور دھوکا دے کر تم مجھے یہاں لے آئے ہو۔ مجھے اگر لاہور میں پتا چل جاتا کہ تم اس لئے مجھے اسلام آباد لا رہے ہو تو میں کبھی یہاں نہ آتی۔" وہ دھاڑی۔
"میں نے وہی کیا جو مجھ سے بابا نے کہا۔ بابا نے کہا تھا میں تمہیں نہ بتاوں۔" وسیم نے وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی۔
"پھر تم یہاں میرے پاس کیوں آئے ہو۔ بابا کے پاس جاؤ۔ ان کے پاس بیٹھو۔ بس یہاں سے دفع ہو جاؤ۔" وسیم ہونٹ بھینچتے ہوئے اسے دیکھتا رہا پھر کچھ کہے بنا کمرے سے نکل گیا۔
امامہ اپنے کمرے میں جا کر کمرے میں بیٹھ گئی۔ اس وقت اس کے پیروں سے صحیح معنوں میں زمین نکل چکی تھی۔ یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے گھر والے اس کے ساتھ اس طرح کر سکتے ہیں۔ وہ اتنے قدامت پرست یا کٹر نہیں تھے جتنے وہ اس وقت ہو گئے تھے۔ اسے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا
اب تم مجھے یہ بتاؤ گی کیا فئیر ہے اور کیا نہیں۔ تم بتاؤ گی مجھے؟" ہاشم مبین کو اس کی بات پر اور غصہ آیا۔
"بابا! جب میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی تو آپ زبردستی کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ۔" امامہ بےا ختیار رونے لگی۔
"کر رہا ہوں زبردستی پھر میں حق رکھتا ہوں۔" وہ چلائے۔ امامہ اس بار کچھ کہنے کے بجائے اپنے ہونٹ بھنیچتے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ تیزی سے ڈائیننگ روم سے نکل آئی۔
"میں اس سے بات کرتی ہوں، آپ پلیز کھانا کھائیں۔ اتنا غصہ نہ کریں۔ وہ جذباتی ہے اور کچھ نہیں۔" سلمیٰ نے ہاشم مبین سے کہا اور خود وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
ا ن کے کمرے سے نکلتے ہی وسیم کو دیکھ کر امامہ بے ختیار اٹھ کھڑی ہوئی۔
"تم دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ نکل جاؤ۔"اس نے تیزی سے وسیم کے پاس جا کر اسے دھکا دینے کی کوشش کی وہ پیچھے ہٹ گیا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain