"تم سے پچھلی دفعہ بات ہوئی تھی، اس سلسلے میں۔" ہاشم مبین یک دم سنجیدہ ہو گئے۔
"اور میں نے انکار کر دیا تھا۔میں۔"
ہاشم مبین نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔" میں نے تمہیں بتا دیا تھا کہ مجھے تمہارے انکار کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ میں اسجد کے گھر والوں سے بات کر چکا ہوں۔" ہاشم مبین نے تیز آواز میں کہا۔
ڈائیننگ ٹیبل پر یک دم گہری خاموشی چھا گئی کوئی بھی کھانا نہیں کھا رہا تھا۔
امامہ یک دم اپنی کرسی سے کھڑی ہو گئی۔" آئی ایم سوری بابا، مگر میں اسجد سے ابھی شادی نہیں کر سکتی۔آپ نے یہ شادی طے کی ہے۔ آپ ان سے بات کر کے اسے ملتوی کر دیں ورنہ میں خود ان سے بات کر لوں گی۔" ہاشم مبین کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
"تم اسجد سے شادی کرو گی اور اسی تاریخ کو جو میں نے طے کی ہے۔ تم نے سنا؟" وہ بے اختیار چلائے۔
“It’s not fair” امامہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
اب تم کل سے اپنی شاپنگ شروع کر دو۔"
امامہ نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔" شاپنگ؟کیسی شاپنگ؟"
"فرنیچر کی اور جیولر کے پاس پہلے چلے جانا تم لوگ۔ باقی چیزیں تو آہستہ آہستہ ہوتی رہیں گی۔"
ہاشم مبین نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس بار اپنی بیوی سے کہا۔
"بابا! مگر کس لئے؟" امامہ نے ایک بار پھر پوچھا۔"تمہاری امی نے بتایا نہیں تمہیں کہ ہم نے تمہاری شادی کی تاریخ طے کر دی ہے۔"
امامہ کے ہاتھ سے چمچ چھوٹ کر لپیٹ میں جا گرا۔ ایک لمحے میں اس کا رنگ فق ہو گیا تھا۔
"میری شادی کی تاریخ؟" اس نے بے یقینی سے باری باری سلمیٰ اور ہاشم کو دیکھا جو اس کے تاثرات پر حیران نظر آ رہے تھے۔
"ہاں تمہاری شادی کی تاریخ۔۔۔۔۔" ہاشم مبین نے کہا۔
"یہ آپ کیسے کر سکتے ہیں؟ مجھ سے پوچھے بغیر۔ مجھے بتائے بغیر۔" ہونق چہرے کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی۔
اگر میرے پیرنٹس نے مجھ پر اور دباؤ ڈالا تو پھر مجھے پنا گھر چھوڑنا پڑے گا، پھر مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہو گی۔"
"امامہ! میں اپنے پیرنٹس سے بات کروں گا۔ وہ رضامند ہو جائیں گے۔ میں جانتا ہوں میں انہیں منا سکتا ہوں۔ " جلال نے اسے یقین دلایا پوری گفتگو کے دوران پہلی بار امامہ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
اگلے چند ہفتے وہ اپنے پیپرز کے سلسلے میں مصروف رہی، جلال سے بات نہ ہو سکی۔ آخری پیپر والے دن وسیم اسے لینے کے لئے لاہور آ گیا تھا۔ وہ اسے وہاں یوں دیکھ کر حیران رہ گئی۔
"وسیم! میں ابھی تو نہیں جا سکتی۔ آج تو میں پیپرز سے فارغ ہوئی ہوں مجھے ابھی یہاں کچھ کام ہیں۔"
"میں کل تک یہیں ہوں۔ اپنے دوست کے ہاں ٹھہر جاتا ہوں جب تک تم اپنے کام نمٹا لو پھر اکٹھے چلیں گے۔" وسیم نے اس کے لئے مدافعت کا آخری راستہ بھی بند کر دیا۔
خود ان کا ہونے والا داماد اسجد بھی امامہ کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتا تھا۔ ہاشم مبین کے لئے اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے اسے گھر بٹھا لینا آسان نہیں تھا، کیونکہ اس صورت میں اسے اعظم مبین کو اس کی وجہ بتانی پڑتی اور امامہ سے سخت ناراض ہونے کے باوجود وہ نہیں چاہتے تھے کہ اعظم مبین اور ان کا خاندان امامہ کے ان بدلے ہوئے عقائد کے بارے میں جان کر برگشتہ اور بدظن ہوں اور پھر شادی کے بعد وہ اسجد کے ساتھ بری زندگی گزارے۔ انہوں نے ایک طرف اپنے گھر والوں کو اس بات کو راز رکھنے کی تاکید کی تو دوسری طرف امامہ کی منت سماجت پر اسے اپنی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
امامہ صبیحہ کے لیکچر اٹینڈ کرنے اور اس کے وہاں جانے یا جلال سے ملنے کے معاملے میں اس قدر محتاط تھی کہ اس کا یہ میل جول ان لوگوں کی نظروں میں نہیں آ سکا۔
ان کا یہ خیال اور اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا۔
امامہ کا ذہن واقعی تحریم کی طرف سے ہٹ گیا تھا۔ اسجد میں وہ پہلے بھی کچھ دلچسپی لیتی تھی مگر اس تعلق کے قائم ہونے کے بعد اس دلچسپی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ہاشم نے اسے بہت مطمئن اور مگن دیکھا تھا۔ وہ پہلے ہی کی طرح تمام مذہبی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتی تھی۔
مگر اس بار جو کچھ وسیم نے انہیں بتایا تھا اس نے ان کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال دی تھی۔ وہ فوری طور پر یہ نہیں جان سکے مگر انہیں یہ ضرور علم ہو گیا کہ امامہ کے عقائد اور نظریات میں خاصی تبدیلی آ چکی تھی اور یہ نہ صرف ان کے لئے بلکہ ان کے پورے خاندان کے لئے تشویش کا باعث تھا۔
وہ اپنی بڑی بیٹیوں کی طرح اسے بھی اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے اور یہ اس لئے بھی اہم تھا کہ اسے شادی کے بعد خاندان ہی میں جانا تھا۔ وہ خاندان بہت تعلیم یافتہ تھا۔
اگلے دن وہ واپس لاہور چلی آئی۔ ہاشم مبین نے اس سے اس سلسلے میں دوبارہ بات نہیں کی لاہور آ کر وہ قدرے مطمئن ہو گئی اور ہر خیال کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے اپنے امتحان کی تیاری میں مصروف ہو گئی۔
ہاشم مبین نے اس واقعہ کو ذہن سے نہیں نکالا تھا، وہ ایک محتاط طبیعت کے انسان تھے۔
وہ امامہ کے بارے میں پہلی بار اس وقت تشویش میں مبتلا ہوئے تھے، جب سکول میں تحریم کے ساتھ جھگڑے والا واقعہ پیش آیا تھا۔ اگرچہ وہ کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہیں تھا مگر اس واقعے کے بعد انہوں نے احتیاطی تدابیر کے طور پر امامہ کی نسبت اسجد کے ساتھ طے کر دی تھی۔ ان کا خیال تھا اس طرح اس کا ذہن ایک نئے رشتے کی جانب مبذول ہو جائے گا اور اگر اس کے ذہن میں کوئی شبہ یا سوال پیدا ہوا بھی تو اس نئے تعلق کے بعد وہ اس بارے میں زیادہ تردد نہیں کرے گی۔
تو میرے سارے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔"
"بہت سی لڑکیاں شادی کے بعد تعلیم مکمل کرتی ہیں۔ تم اپنی فیملی میں دیکھو ۔۔۔۔۔کتنی۔۔۔۔۔" ہاشم مبین نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
امامہ نے ان کی بات کاٹ لی۔ "وہ لڑکیاں بہت ذہین اور قابل ہوتی ہوں گی۔ میں نہیں ہوں۔ میں ایک وقت میں ایک ہی کام کر سکتی ہوں۔"
"میں اعظم بھائی سے بات کر چکا ہوں، وہ تو تاریخ طے کرنے کے لئے آنے والے ہیں۔" ہاشم مبین نے اس سے کہا۔
"آپ میری ساری محنت کو ضائع کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو میرے ساتھ یہی کرنا تھا تو آپ کو چاہئیے تھا کہ آپ اس طرح کا کوئی وعدہ ہی نہ کرتے۔" امامہ نے ان کی بات پر ناراضی سے کہا۔
"جب میں نے تم سے وعدہ کیا تھا تب کی بات اور تھی۔۔۔۔۔ تب حالات اور تھے اب۔۔۔۔۔"
امامہ نے ان کی بات کاٹی۔" اب کیا بدل گیا ہے۔۔۔۔۔حالات میں کون سی تبدیلی آئی ہے
مگر بہتر ہے تم اس سلسلے میں خود بابا سے بات کرو۔" بھابھی نے اسے مشورہ دیا۔
بھابھی کے کمرے سے جانے کے بعد بھی وہ کچھ پریشانی سے وہیں بیٹھی رہی۔ یہ اطلاع اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ اس کے پیروں کے نیچے سے محاورتاً نہیں حقیقتاً زمین نکل گئی تھی۔ وہ مطمئن تھی کہ اس کی ہاؤس جاب تک اس کی شادی کا مسئلہ زیر بحث نہیں آئے گا اور ہاؤس جاب کرنے کے بعد وہ اس قابل ہو جائے گی کہ خود کو سپورٹ کر سکے یا اپنی جلال سے شادی کے بارے میں فیصلہ کر سکے۔ تب تک جلال بھی اپنی ہاؤس جاب مکمل کر کے سیٹ ہو جاتا اور ان دونوں کے لئے کسی قسم کا کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا مگر اب اچانک اس کے گھر والے اس کی شادی کی بات کر رہے تھے۔ آخر کیوں؟"
"نہیں اسجد اور اس کے گھر والوں نے مجھ سے اس طرح کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ میں نے خودان سے بات کی ہے۔"
"یہ احمقانہ تجویز اسجد کے علاوہ کسی دوسرے کی ہو ہی نہیں سکتی۔ اسے احساس نہیں ہے کہ ابھی میں پڑھ رہی ہوں۔" امامہ نے اپنی بھابھی سے کہا۔
"نہیں اسجد نے یا اس کے گھر والوں نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ بابا خود تمہاری شادی کرنا چاہ رہے ہیں۔" امامہ کی بھابھی نے رسانیت سے جواب دیا۔
"بابا نے کہا ہے؟ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ جب میں نے میڈیکل میں ایڈمیشن لیا تھا تب ان کا دور دور تک ایسا کوئی خیال نہیں تھا۔ وہ تو انکل اعظم سے بھی یہی کہتے تھے کہ وہ میرے ہاؤس جاب کے بعد ہی میری شادی کریں گے۔ پھر اب اچانک کیا ہوا؟"امامہ نے بے یقینی سے کہا۔
"کوئی دباؤ ہو گا مگر مجھے تو امی نے یہی بتایا تھا کہ یہ خود بابا کی خواہش ہے۔" بھابھی نے کہا۔
"آپ انہیں بتا دیں کہ مجھے ہاؤس جاب سے پہلے شادی نہیں کرنی۔"
"ٹھیک ہے میں تمہاری بات ان تک پہنچا دوں گی
تو میں گھر سے باہر سہاروں کی تلاش میں ہوتی نہ ہی آپ سے اس طرح مدد مانگ رہی ہوتی۔"
دھیمے لہجے میں اپنے آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے اس نے جلال سے کہا۔
"امامہ! میں تمہاری مدد کروں گا۔۔۔۔۔ میرے پیرنٹس میری بات نہیں ٹالیں گے۔ سمجھانے میں کچھ وقت لگے گا مگر میں تمہاری مدد کروں گا۔ میں انہیں منا لوں گا۔ تم ٹھیک کہتی ہو کہ مجھے تمہاری مدد کرنی چاہئیے۔"
وہ پرسوچ مگر الجھے ہوئے انداز میں اس سے کہہ رہا تھا۔ امامہ کو عجیب سی ڈھارس ہوئی۔ اسے جلال سے یہی توقع تھی۔
امامہ نے سوچا۔" میرا انتخاب غلط نہیں ہے۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مالی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اسپیشلائزیشن کے بعد ہی میں واپس آ کر اپنی پریکٹس اسٹیبلش کر سکتا ہوں تین چار سال اپنی اسٹڈیز ختم کرنے میں بھی لگ جائیں گے۔"
جلال نے اسے یاد دلایا۔
"پھر؟" امامہ نے اسے مایوسی سے دیکھا۔
"پھر یہ کہ مجھے سوچنے کا وقت دو۔ شاید میں کوئی رستہ نکال سکوں، میں تمہیں چھوڑنا نہیں چاہتا مگر میں اپنا کیرئیر بھی خراب نہیں کر سکتا۔ میرا پرابلم صرف یہ ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے ماں باپ کا ہے اور وہ اپنی ساری جمع پونجی مجھ پر خرچ کر رہے ہیں یہ سوچ کر کہ میں کل کو ان کے لئے کچھ کروں گا۔"
وہ بات کرتے کرتے رکا۔"کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمہارے والدین اپنی مرضی سے تمہاری شادی مجھ سے کر دیں۔ اس صورت میں کم از کم میرے والدین کو یہ اعتراض تو نہیں ہو گا کہ تم نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف
قطع نظر اس کے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں یا نہیں۔"
"جلال! میں غیر مسلم نہیں ہوں۔"
"تم اب نہیں ہو مگر پہلے تو تھیں اور پھر تمہارا خاندان۔۔۔۔۔"
"میں ان دونوں چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتی۔" امامہ نے بے بسی سے کہا۔
جلال نے جواب میں کچھ نہیں کہا کچھ دیر وہ دونوں خاموش رہے۔
"کیا آپ اپنے پیرنٹس کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی نہیں کر سکتے؟" کچھ دیر بعد امامہ نے کہا۔
"یہ بہت بڑا قدم ہو گا۔" جلال نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔" اور بالفرض میں یہ کام کرنے کا سوچ لوں تو بھی نہیں ہو سکتا۔ تمہاری طرح میں بھی اپنے پیرنٹس پر ڈیپنڈنٹ ہوں۔" جلال نے اپنی مجبوری بتائی۔
"مگر آپ ہاؤس جاب کر رہے ہیں اور چند سالوں میں اسٹیبلش ہو جائیں گے۔" امامہ نے کہا۔
"میں ہاؤس جاب کے بعد اسپیشلائزیشن کے لئے باہر جانا چاہتا ہوں اور یہ میرے پیرنٹس کی
پھر میں آپ کو شادی کی پیشکش نہ کرتی تو اور کیا کرتی۔ آپ اس صورت حال کا اندازہ نہیں کر سکتے جس کا سامنا میں کر رہی ہوں۔۔۔۔۔ میری جگہ پر ہوتے تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ میں جھوٹ بولنے کے لئے کتنی مجبور ہو گئی تھی۔"
جلال کچھ کہے بغیر پاس موجود لکڑی کے بینچ پر بیٹھ گیا وہ اب پریشان نظر آرہا تھا۔ امامہ نے اپنی آنکھیں پونچھ لیں۔
"کیا آپ کے دل میں میرے لئے کچھ بھی نہیں ہے؟ صرف اس لئے میرے ساتھ انوالو ہیں، کیونکہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں؟"
جلال نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
"امامہ ! بیٹھ جاؤ۔۔ پورا پینڈورا باکس کھل گیا ہے میرے سامنے۔۔۔۔ اگر میں تمہاری صورت حال کا اندازہ نہیں کر سکتا تو تم بھی میری پوزیشن کو نہیں سمجھ سکتی۔"
امامہ اس سے کچھ فاصلے پر رکھی بینچ پر بیٹھ گئی۔
"میرے والدین کبھی غیر مسلم لڑکی سے میری شادی نہیں کریں گے۔
"نہیں، میں انہیں نہیں بتا سکتی۔ میری منگنی ہو چکی ہے۔ میں نے آپ کو اس بارے میں بھی نہیں بتایا۔۔۔۔۔" وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔"مگر میں وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ میں آ پ سے شادی کرنا چاہتی ہوں ۔ میں صرف اپنی تعلیم مکمل ہونے کا انتظار کر رہی ہوں۔ تب میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں گی اور پھر میں آپ سے شادی کروں گی۔"
"چار پانچ سال بعد جب میں ڈاکٹر بن جاؤں گی تو شاید میرے پیرنٹس آپ سے میری شادی پر اس طرح اعتراض نہ کریں جس طرح وہ اب کریں گے۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہو کہ وہ میری تعلیم ختم کروا کر میری شادی اسجد سے کر دیں گے تو شاید میں انہیں ابھی اس بات کے بارے میں بتا دیتی کہ میں اسلام قبول کر چکی ہوں مگر میں ابھی پوری طرح ان پر ڈپینڈنٹ ہوں۔ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ آپ وہ واحد راستہ تھے جو مجھے نظر آیا۔ مجھے واقعی آپ سے محبت ہے
اس بار جلال کچھ الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
"میں مانتی ہوں میں نے آپ کی طرف پیش قدمی خود کی۔ آپ کے بقول میں نے آپ کو ٹریپ کیا۔ میں نے ٹریپ نہیں کیا۔ میں صرف بے بس تھی۔ آپ کے معاملے میں مجھے خود پر قابو نہیں رہتا تھا۔ آپ کی آواز کی وجہ سے، آپ جانتے ہیں میں نے آپ کو بتایا تھا میں نے پہلی بار آپ کو نعت پڑھتے سنا تو میں نے کیا محسوس کیا تھا۔ آپ کو اگر میرے بارے میں پہلے ہی یہ سب کچھ پتا چل جاتا تو آپ میرے ساتھ یہی سلوک کرتے جو اب کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ مجھے صرف اس بات کا اندیشہ تھا جس کی وجہ سے میں نے آپ سے بہت کچھ چھپائے رکھا۔ بعض باتوں میں انسان کو اپنے اوپر اختیار نہیں ہوتا۔ مجھے بھی آپ کے معاملے میں خود پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔"
اس نے رنجیدگی سے کہا۔
"تمہارے گھر والوں کو اس بات کا پتا ہے؟"
ٹریپ کیا؟" اس نے زیرلب جلال کے لفظوں کو دہرایا۔
"تم جانتی تھیں کہ میں اپنے پیغمبر ﷺ سے عشق کرتا ہوں۔"
وہ شکست خوردہ انداز میں اسے دیکھتی رہی۔
"شادی تو دور کی بات ہے۔ اب جب میں تمہارے بارے میں سب کچھ جان گیا ہوں تو میں تم سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتا۔ تم دوبارہ مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا۔" جلال نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"جلال! میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔"امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔
"اوہ کم آن۔" جلال نے تحقیر آمیز انداز میں اپنا ہاتھ جھٹکا۔" یہاں کھڑے کھڑے تم نے میرے لئے اسلام قبول کر لیا۔" اس بار وہ مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔
"جلال! میں آپ کے لئے مسلم نہیں ہوئی۔ آپ میرے لئے ایک ذریعہ ضرور بنے ہیں، مجھے کئی ماہ ہو گئے ہیں اسلام قبول کیے اور اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں ہے تو میں آپ کو ثبوت دے سکتی ہوں۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔"
بالکل اسی طرح جس طرح تم بہت سی باتیں مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھتیں۔"
"میں؟" وہ اس کا منہ دیکھنے لگی۔"میں نے کون سی باتیں آپ کو نہیں بتائیں؟"
"یہ کہ تم مسلمان نہیں ہو۔"جلال نے بڑے تلخ لہجے میں کہا۔ امامہ سانس تک نہیں لے سکی۔
"کیا تم نے یہ بات مجھ سے چھپائی نہیں؟"
"جلال! میں بتانا چاہتی تھی۔" امامہ نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
"چاہتی تھی۔۔۔۔۔ مگر تم نے بتایا تو نہیں۔۔۔۔۔ دھوکا دینے کی کوشش کی تم نے۔"
"جلال! میں نے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش نہیں کی۔" امامہ نے جیسے احتجاج کیا۔" میں آپ کو کیوں دھوکا دوں گی؟"
"مگر تم نے کیا یہی ہے۔" جلال نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
"جلال میں۔۔۔۔۔" جلال نے اس کی بات کاٹ دی۔
"تم نے جان بوجھ کر مجھے ٹریپ کیا۔" امامہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
"نہیں ، میں کسی سے ناراض نہیں ہوں۔" جلال نے اسی رکھائی سے کہا۔
"کیا آپ دس منٹ باہر آ کر میری بات سن سکتے ہیں؟"
جلال کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے اپنا اوور آل اپنے بازو پر ڈال لیا اور کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر نکل آیا۔
باہر جاتے ہی جلال نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر ڈوڑائی۔ یہ شاید اس کے لئے بات شروع کرنے کا اشارہ تھا۔"آپ میرے ساتھ اس طرح مس بی ہیو کیوں کر رہے ہیں؟"
"کیا مس بی ہیو کر رہا ہوں؟" جلال نے اکھڑ انداز میں کہا۔
"آپ بہت دنوں سے مجھے اگنور کر رہے ہیں۔"
"ہاں، کر رہا ہوں۔"
امامہ کو توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی صفائی سے اس بات کا اعتراف کر لے گا۔
"کیونکہ میں تم سے ملنا نہیں چاہتا۔" وہ کچھ لمحوں کے لئے کچھ نہیں بول سکی۔"کیوں؟"
"یہ بتانا ضروری نہیں۔" اس نے اسی طرح اکھڑ انداز میں کہ
تو پہلے کی طرح اس سے نہیں ملتا تھا اور اگر ملتا بھی تو صرف رسمی سی علیک سلیک کے بعد واپس چلا جاتا۔ وہ شروع میں اس تبدیلی کو اپنا وہم سمجھتی رہی مگر پھر زیادہ پریشان ہونے پر وہ ایک دن جلال کے ہاسپٹل چلی آئی۔
جلال کا رویہ بے حد سرد تھا۔ امامہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ تک نہیں آئی۔
"کافی دن ہو گئے تھے ہمیں ملے ہوئے، اس لئے میں خود چلی آ ئی۔" امامہ نے اپنے سارے اندیشوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"میری تو شفٹ شروع ہو رہی ہے۔"
امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔"زینب بتا رہی تھی کہ اس وقت آپ کی شفٹ ختم ہوتی ہے، میں اسی لئے اس وقت آئی ہوں۔"
وہ ایک لمحہ کے لئے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔" ہاں صحیح ہے، مگر آج میری کوئی اور مصروفیت ہے۔"
وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی۔"جلال! آپ کسی وجہ سے مجھ سے ناراض ہیں؟" ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے کہا۔
یہ عقل سے پیدل ہے۔"
"میرا دل تو چاہ رہا تھا کہ میں اسے دو ہاتھ اور لگاؤں، اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ منہ اٹھا کر اپنے دوست کو لے کر پہنچ گیا ہے یہاں۔ بھئی! کس نے کہا ہے تم سے شکریہ ادا کرنے کو اور مجھے تو وہ دوسرا لڑکا بھی خاصا برا لگا اور وہ کہہ رہا تھا کہ تمہاری اس کے ساتھ بھی دوستی ہے۔" امامہ کو اچانک یاد آیا۔
"دوستی تو نہیں، بس جان پہچان ہے۔" وسیم نے وضاحت پیش کی۔" تمہیں ایسے لڑکوں کے ساتھ جان پہچان رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ حلیہ دیکھا تھا تم نے ان دونوں کا۔ نہ انہیں بات کرنے کی تمیز تھی، نہ لباس پہننے کا سلیقہ اور منہ اٹھا کر شکریہ ادا کرنے آ گئے ہیں۔ بہرحال تم اس سے مکمل طور پر قطع تعلق کر لو۔ کوئی ضرورت نہیں ہے اس طرح کے لڑکوں سے جان پہچان کی بھی تمہیں۔"
امامہ نے میگزین رکھتے ہوئے ایک بار پھر اسے تنبیہ کی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain