"ہاں!"
"کوئی تک بنتی ہے اس حرکت کی۔" وہ جھلایا۔
"نہیں ، کوئی تک نہیں بنتی۔" سالار نے اسی طرح سیدھا بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا۔
"کچھ کھایا ہے؟"
"نہیں۔"
"تو کھانا کھا لو۔"
"نہیں، بھوک نہیں ہے۔" وہ اب چھت پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ سعد اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا۔
"تمہارے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟ بتا سکتے ہو مجھے۔" سالار نے گردن کو ہلکی سی حرکت سے کر اسے دیکھا۔
"کوئی مسئلہ نہیں ہے۔" بے تاثر لہجے میں کہا گیا۔" میں سمجھا، تم اپنے اپارٹمنٹ چلے گئے ہو، مگر وہاں بار بار رنگ کرنے پر بھی تم نہ ملے۔" سعد بڑبڑا رہا تھا۔ سالار کی نظریں چھت پر ہی تھیں۔
"اس سے بہتر تھا کہ میں تمہیں اپنے ساتھ نماز پڑھنے لے کر ہی نہ جاتا۔ آئندہ میرے ساتھ مت جانا تم۔" سعد نے ناراضی سے کہا۔ وہ اب اس کے بیڈ سے اٹھ گیا تھا۔ کچھ دیر تک وہ اپنے کام نبٹاتا رہا
کہاں چلے گئے تھے تم؟"سعد اسے دیکھتے ہی چلایا۔ وہ کچھ کہے بغیر اندر چلا آیا۔
"میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔" سعد دروازہ بند کر کے اس کے پیچھے آ گیا۔ سالار اپنی جیکٹ اتار رہا تھا۔
"کہیں نہیں گیا تھا۔" اس نے جیکٹ لٹکاتے ہوئے کہا۔
"تمہیں پتا ہے کہ میں نے تمہیں کتنا تلاش کیا ہے، کہاں کہاں فون کئے ہیں اور اب تو میں اتنا پریشان ہو چکا تھا کہ پولیس کو فون کرنے والا تھا۔۔۔۔۔ تم آخر اس طرح نماز چھوڑ کر گئے کہاں تھے؟"
سالار کچھ کہے بغیر اپنے جاگرز اتارنے لگا۔
"میں نے تمہیں بتایا ہے، کہیں نہیں۔"
"تو پھر اب تک کہاں تھے؟" سعد اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
"وہیں تھا، مسجد کے پچھلے حصے میں فٹ پاتھ پر۔" اس نے اطمینان سے کہا۔
"واٹ! اتنے گھنٹے تم وہاں فٹ پاتھ پر برف میں بیٹھے رہے ہو۔" سعد دم بخود رہ گیا۔
جب سڑک کے پار دوکانوں کے اندر کی لائیٹس اس نے یک بعد دیگرے بند ہوتے دیکھیں تو وہ اپنی جیکٹ اور جینز سے برف جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر وقفے وقفے سے وہ اپنی ٹانگیں ہلا نہ رہا ہوتا تو اس وقت تک وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کے باوجود کھڑا ہو کر قدم اٹھانے میں اسے کچھ دقت ہوئی۔ چند منٹ وہیں کھڑا اپنے پیروں کو جھٹکتا رہا اور پھر اسی طرح جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر واپس اپارٹمنٹ کی طرف جانے لگا۔ وہ جانتا تھا سعد نے اسے مسجد سے نکل کر بہت ڈھونڈا ہو گا اور اس کے بعد وہ واپس چلا گیا ہو گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔ اس کی نظریں ایک بار پھر اس کی ٹانگوں پر گئیں۔ کئی سالوں میں پہلی بار اسے کسی پر ترس آیا۔ کیا مجبوری تھی کہ وہ اس برف باری میں بھی اس طرح برہنہ پھرنے پر مجبور تھی، جبکہ وہ اس موٹی جینز میں بھی سردی کو اپنی ہڈیوں میں گھستے محسوس کر رہا تھا۔"Ok 40 dollars۔"
اس خاموش دیکھ کر اس عورت کو اندیشہ ہوا کہ شاید وہ قیمت اس کے لئے قابلِ قبول نہیں تھی، اس لئے اس نے فوراً اس میں کمی کر دی۔ سالار جانتا تھا چالیس ڈالرز بھی زیادہ تھے۔ وہ سڑک پر بیس ڈالرز میں بھی ایک گھنٹہ کے لئے کسی لڑکی کو حاصل کر سکتا تھا وہ پینتیس چالیس سال کی تھی اور بات کرتے ہوئے محتاط نظروں سے سڑک پر اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ سالار جانتا تھا یہ احتیاط کسی پولیس کا یا پولیس والے کے لئے تھی۔
"Ok 30…. No more bargaining۔"
"Take it or leave it"
اس کے بعد وہ سیڑھیاں اتر گیا۔ پاؤں میں جرابیں اور ہاتھ میں جاگرز پکڑے وہ خالی الذہنی کے عالم میں عمارت کی عقبی دیوار کی طرف آ گیا۔ وہاں بھی ایک دروازہ اور کچھ سیڑھیاں نظر آ رہی تھیں مگر وہ سیڑھیاں برف سے اٹی ہوئی تھیں۔ دروازے پر موجود لائٹ بھی روشن نہیں تھی۔ اس نے جھک کر سب سے اوپر والی سیڑھی کو اپنے جاگرز کے ساتھ صاف کیا اور برف صاف کرنے کے بعد وہاں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر پہلے ہونے والی برف باری اب ختم ہو چکی تھی۔ اس نے سیڑھی پر بیٹھ کر اپنے جاگرز پہن لئے۔ تسمے کسنے کے بعد وہ ایک بار پھر سیدھا ہو کر دروازے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اس کے دونوں ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں تھے۔ جیکٹ سے ساتھ لگے ہوئے hoed کو وہ سر پر چڑھا چکا تھا۔ سامنے سڑک پر اِکا دُکا گاڑیوں کی آمدورفت جا ری تھی۔
وہ سیڑھیوں پر اپنی ٹانگیں پھیلائے
۔ اس نے چند دن پہلے ہی پڑھا تھا۔
"اھدنا الصراط المستقیم۔"سیدھا راستہ) اس نے ذہن میں دہرایا۔
" لصراط المستقیم۔۔۔۔۔ سیدھا راستہ؟" اس کا دل چاہا وہاں سے بھاگ جائے۔ اس نے وہاں نماز جا ری رکھنے کی ایک آخری کوشش کی۔
"صراط الذین انعمت۔" اس کا ذہن ایک بار پھر پیچھے گیا۔
"علیہم غیر المغضوب علیہم و الضالین۔" اس نے اپنے بندھے ہوئے ہاتھ کھولے، وہ آخری صف میں کھڑا تھا، بہت آہستگی سے چند قدم پیچھے گیا اور صف سے نکل گیا۔
"یہ کام میں نہیں کر سکتا، میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔" اس نے جیسے اعتراف کیا۔ بہت خاموشی کے ساتھ وہ پیچھے ہوتا گیا۔ باقی لوگ اب رکوع میں جا رہے تھے، وہ مڑ کر دبے قدموں مگر تیز رفتاری سے باہر نکل گیا۔
مسجد سے نکلتے ہوئے اس کے جاگرز اس کے ہاتھ میں تھے۔ غائب دماغی کے عالم میں وہ باہر سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر چند لمحے اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔
ہر سجدے کے ساتھ اس کے دل و دماغ کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے پہلی چار رکعتیں بمشکل ختم کیں۔ سلام پھیرنے کے دوران اس نے اپنے دائیں جانب والے ادھیڑ عمر شخص کے گالوں پر آنسو دیکھے، اس کا دل وہاں سے بھاگ جانے کو چاہا۔ وہ جی کڑا کر کے ایک بار پھر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک بار پھر نماز میں پوری طرح منہمک ہونے کی کوشش کی۔
"اس بار میں پڑھی جانے والی آیات کے ہر لفظ پر غور کروں گا۔ شاید اس طرح۔۔۔۔۔" اس کی سوچ کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ نیت کی جا رہی تھی۔ اس کا دل مزید اچاٹ ہو گیا۔ سر کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے آیات کے مفہوم پر غور کرنے کی کوشش کی۔
"الحمدللہ رب العالمین۔" سورۃ فاتحہ کی تلاوت شروع ہوئی۔
"الرحمنٰ الرحیم۔" اس نے توجہ مزکور رکھنے کی پوری کوشش کی۔
"مالک یوم الدین۔" توجہ بھٹکی۔
"ایاک نعبد و ایاک نستعین۔" اسے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ آتا تھا۔
ٹھنڈا پانی گرم میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اپنے بالوں کا مسح کرتے کرتے وہ ایک بار پھر ٹھٹکا۔ سعد سمجھا اسے صحیح طریقہ نہیں پتا، اس نے ایک بار پھر اسے ہدایت دی۔ وہ خالی الذہنی کے عالم میں اپنے ہاتھوں کو ایک بار پھر حرکت دینے لگا۔
گدی تک ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کا ہاتھ گردن میں موجود زنجیر سے ٹکرایا تھا۔ اس کی نظر بے اختیار سامنے آئینے میں گئی۔ وہ ایک بار پھر کہیں اور پہنچ چکا تھا۔ سعد نے اس سے کچھ کہا تھا۔ اس بار اس نے نہیں سنا۔
کمرے میں موجود دس افراد دو صفوں میں کھڑے ہو رہے تھے۔ وہ سعد کے ساتھ پچھلی صف میں کھڑا ہو گیا۔ امام صاحب نے امامت شروع کر دی، سب کے ساتھ اس نے بھی نیت کی۔
"نماز سے واقعی سکون ملتا ہے؟" اس نے کوئی دو ہفتے پہلے ایک لڑکے کو نامز کے مسئلے پر سعد کے ساتھ بحث میں الجھا پایا تھا۔
"مجھے تو ملتا ہے۔" سعد نے کہا۔
۔ بعض دفعہ وہاں نمازیوں کی تعداد دس پندرہ کے درمیان ہی رہتی تھی۔
سعد مسجد تک پہنچنے تک سالار کو ان تفصیلات سے آگار کرتا رہا۔ سالار خاموشی اور کچھ لاتعلقی کے عالم میں سڑک پر احتیاط سے پھسلتی گاڑیوں اور ہر طرف موجود برف کے ڈھیر پر نظریں دوڑاتا اس کے ساتھ چلتا رہا۔
پانچ سات منٹ چلتے رہنے کے بعد ایک موڑ مڑ کر سعد ایک گھر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ دروازہ بند تھا مگر لاک نہیں تھا اور سعد نے دروازے پر دستک دی تھی نہ ہی کسی سے اجازت مانگی تھی۔ بڑے مانوس سے انداز میں اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا اور پھر اندر داخل ہو گیا۔ سالار نے اس کی پیروی کی۔
"تم وضو کر لو۔" سعد نے اچانک اسے مخاطب کیا اور پھر اسے ساتھ لے کر ایک دروازہ کھول کر ایک باتھ روم میں داخل ہو گیا۔
سعد کی زیر نگرانی جب تک وہ وضو کے آخری حصے تک پہنچتا،
میرے ساتھ مسجد چلو گے؟" وہ حیران ہوا۔
"ہاں۔" وہ کھڑا ہو گیا۔
"نماز پڑھنے کے لئے؟"
"ہاں!" سالار نے کہا۔" اس طرح دیکھنے کی کیا ضرورت ہے، میں کافر تو نہیں ہوں۔"
"کافر تو نہیں ہو مگر۔۔۔۔۔ چلو خیر، پڑھ لینا آج۔" سعد نے کچھ کہتے کہتے بات بدل دی۔
"میں تو تمہیں پہلے ہی کتنی بار ساتھ چلنے کے لئے کہہ چکا ہوں۔"
سالار نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ خاموشی سے چلتے ہوئے اس کے ساتھ باہر آ گیا۔
"اب اگر آج مسجد جا ہی رہے ہو تو پھر جاتے رہنا۔ یہ نہ ہو کہ بس آج پہلا اور آخری وزٹ ہی ہو۔" سعد نے عمارت سے باہر نکلتے ہوئے اس سے کہا۔ باہر اس وقت برف باری ہو رہی تھی۔ مسجد، رہائش کی عمارت سے کچھ فاصلے پر تھی۔ وہ ایک مصری خاندان کا گھر تھا جس کا نچلا حصہ مسجد کے طور پر ان لوگوں نے استعمال کے لئے دیا ہوا تھا جبکہ اوپر والے حصے میں وہ لوگ خود رہتے تھے۔
ڈیپریشن سے نجات کے لئے وہ بہت سے لوگوں کو یہی کام کرتے دیکھتا تھا۔ اس نے بھی یہی کام شروع کر دیا۔ اس نے اسلام کے بارے میں کچھ کتابیں پڑھنے کی کوشش کی۔ تمام کتابیں اس کے سر کے اوپر سے گزر گئیں۔ کوئی لفظ، کوئی بات اسے اپنی طرف نہیں کھینچ رہی تھی۔ وہ خود پر جبر کر کے چند صفحات پڑھتا اور ان کتابوں کو رکھ دیتا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر اٹھاتا پھر رکھ دیتا۔
"نہیں، شاید مجھے عملی طور پر عبادت شروع کرنی چاہئیے۔ اس سے ہو سکتا ہے کہ مجھے کچھ فائدہ ہو۔"
وہ اپنے آپ کو خود ہی سمجھاتا اور ایک دن جب وہ سعد کے پاس تھا تو اس نے یہی کیا۔
"میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔" اس نے سعد کو باہر نکلتے دیکھ کر کہا۔
"مگر میں تو عشاء کی نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔" سعد نے اسے یادہانی کروائی۔
"میں جانتا ہوں۔" اس نے اپنے جاگرز کے تسمے کستے ہوئے کہ
زندہ رہتے ہوئے مردہ، مردہ ہوتے ہوئے زندہ۔۔۔۔۔ وہ سرشاری کی انتہا پر پہنچ رہا تھا لمحہ بہ لمحہ۔ +150 آئی کیو لیول رکھنے والا وہ شخص جو اپنے سامنے کہی اور سنی جانے والی کوئی بھی چیز نہیں بھلا سکتا تھا۔ سگریٹ کا دھواں اڑاتے، بئیر کے گھونٹ لیتے، نائٹ کلب میں رقص کرتے، مہنگے ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتے، اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ وقت گزارتے، وہ صرف ایک بات سوچتا رہتا۔
"کیا زندگی کا مقصد یہی ہے؟"
"عیش اور آسائش۔۔۔۔۔؟ شاندار لباس، بہترین خوراک، اعلیٰ ترین سہولتیں۔ ساٹھ ستر سال کی ایک زندگی اور پھر؟"
اس کے بعد اس پھر کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ مگر اس"پھر" کی وجہ سے اس کی زندگی کے معمولات بگڑ گئے تھے۔ وہ رفتہ رفتہ بے خوابی کا شکار ہو رہا تھا اور یہ ان ہی دنوں تھا کہ اس نے اچانک مذہب میں دلچسپی لینا شروع کی۔
جس کے لئے مجھے زمین پر اتارا گیا۔۔۔۔۔+150 آئی کیو لیول کے ساتھ۔۔۔۔۔ کہ میں چند اور ڈگریاں لوں، شاندار سا بزنس کروں، شادی کروں، بچے پیدا کروں، عیش کروں پھر مر جاؤں، بس۔۔۔۔۔
اس نے زندگی میں چار دفعہ صرف اپنے تجسس کے لئے موت کے تجربے سے گزرنے کی کوشش کی تھی مگر اب شدید ڈیپریشن کے عالم میں بھی وہ خود کشی کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ چوبیس گھنٹے موت کے بارے میں سوچنے کے باوجود بھی وہ اسے چھونا نہیں چاہتا تھا۔
لیکن اگر اس سے کوئی یہ پوچھ لیتا کہ کیا وہ زندہ رہنا چاہتا ہے تو وہ ہاں میں جواب دینے میں بھی تامل کرتا۔ وہ زندہ رہنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ زندگی کے مفہوم کو نہیں جانتا تھا۔
وہ مرنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ موت کے مفہوم سے بھی واقف نہیں تھا۔
وہ کسی خلا میں معلق تھا، کسی درمیان والی جگہ میں، کسی بیچ والی کیفیت میں۔
اسے امامہ ہاشم کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ، ہر حرف، ہر جملے سے نفرت تھی۔ اسے اس کی باتیں یاد آتیں اور اس کی نیند غائب ہو جاتی۔ ایک عجیب سی وحشت اسے گھیر لیتی۔ اس نے اس رات جن باتوں کا مذاق اڑایا تھا، وہ اب ہر وقت اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھیں۔
"کیا میں پاگل ہو رہا ہوں، کیا میں اپنے ہوش و حواس آہستہ آہستہ کھوتا جا رہا ہوں، کیا میں شیزوفرینیا کا شکار ہوں۔" بعض دفعہ اسے بیٹھے بٹھائےخوف محسوس ہونے لگتا۔
ہر چیز کی بے معنویت بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر چیز کی بے مقصدیت اور عیاں ہو رہی تھی۔ وہ کہاں تھا، کیا تھا، کیو ں تھا، کہاں کھڑا تھا، کیوں کھڑا تھا؟ اسے ہر وقت یہ سوالات تنگ کرنے لگے۔ کیا ہو گا اگر میں Yale سے ایک ایم بی اے کی ڈگری لے لوں گا۔ بہت اچھی جاب مل جائے گی، کوئی فیکڑی شروع کو لوں گا پھر۔۔۔۔۔ کیا یہ وہ کام تھا
ایک دن جاتا، دو دن غائب رہتا۔ ایک پیریڈ لیتا، اگلے دو پیریڈ چھوڑ دیتا۔
اپنے اپارٹمنٹ میں کبھی کبھار وہ سارا دن بیڈ پر لیٹے ہوئے گزار دیتا، بعض دفعہ وہ فلم دیکھنا شروع کرتا اور ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد بھی اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ ٹی وی چینلز گھماتے ہوئے وہ اسی کیفیت کا شکار رہتا۔ اس کی بھوک ختم ہو گئی تھی۔ وہ کوئی چیز کھانا شروع کرتا اور پھر یک دم اس کا دل ڈوب جاتا۔ وہ اسی طرح اسے چھوڑ دیتا ۔ بعض دفعہ وہ پورا پورا دن کچھ بھی نہیں کھاتا تھا۔ صرف یکے بعد دیگرے کافی کے کپ اپنے اندر انڈیلتا رہتا۔
وہ چین سموکر نہیں تھا مگر ان دنوں بن گیا تھا۔ وہ اپنی چیزیں بہت قرینے سے رکھنے کا عادی تھا مگر ان دنوں اس کا اپارٹمنٹ گندگی کی مثال تھا اور اسے ان بکھری ہوئی چیزوں کو دیکھ کر کوئی الجھن نہیں ہوتی تھی۔
وہ ڈیپریشن کے اس فیز سے باہر آ جائے گا جس کا وہ تب تک شکار تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ یوینورسٹی میں بھی مکمل طور پر اس ذہنی انتشار کا شکا تھا جس میں وہ اتنے دنوں سے تھا پہلی بار اس کا دل پڑھائی سے بھی اچاٹ ہو رہا تھا۔ وہاں ہر چیز اسے مصنوعی لگ رہی تھی۔ وہ زندگی میں پہلی بار صحیح معنوں میں ڈیپریشن کا شکار ہوا تھا۔ اسٹڈیز، یونیورسٹی، فرینڈز، کلب ، پارٹیز، ریسٹورنٹس، سیرو تفریح ہر چیز اس کے لئے بے معنی ہو کر رہ گئی تھی۔ اس نے دوستوں سے ملنایک دم چھوڑ دیا۔ answer phone پر اکثر اس کا پیغام ہوا کرتا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔وہ فرینڈز کے اصرار پر ان کے ساتھ کہیں جانے کا پروگرام بنا لیتا تھا اور پھر ایک دم جانے سے انکار کر دیتا۔ چلا بھی جاتا تو کسی وقت بھی بغیر بتائے اٹھ کر واپس آ جاتا۔ وہ یونیورسٹی میں بھی یہی کر رہا تھا۔
بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
"کلاس ختم ہو گئی، وہ چلے گئے۔" سینڈرا نے کچھ حیران ہوتے ہوئے اسے دیکھا۔
"کلاس ختم ہو گئی؟" اسے جیسے یقین نہیں آیا۔
"ہاں!" سالار نے بے اختیار اپنی آنکھوں کو مسلا اور پھر اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ واحد چیز جو اسے پروفیسر روبنسن کے لیکچر کے بارے میں یاد تھی، وہ صرف ٹاپک تھا۔ اس کے بعد وہ نہیں جانتا تھا کہ انہوں نے کیا کہا تھا۔
"تم کچھ اپ سیٹ ہو؟" سینڈرا نے پوچھا۔
"نہیں، کچھ نہیں، میں کچھ دیر کے لئے یہاں اکیلا بیٹھنا چاہتا ہوں۔"
"اوکے۔" سینڈرا نے اسے دیکھتے ہوئے کہا اور اپنی چیزیں اٹھا کر باہر چلی گئی۔
وہ اپنے سینے پر بازو باندھے سامنے نظر آنے والے رائیٹنگ بورڈ کو دیکھنے لگا۔ آج یہ تیسری کلاس تھی جس میں اس کے ساتھ یہ ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا یونیورسٹی دوبارہ جوائن کرنے کے بعد سب کچھ معمول پر آ جائے گا،
پروفیسر روبنسن اپنا لیکچر شروع کر چکے تھے۔ سالار نے اپنے سامنے پڑے پیپر پر تاریخ اور ٹاپک لکھا۔ وہ اکنامک Recession کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔ سالار ہمیشہ کی طرح ان پر نظریں جمائے ہوئے تھا مگر اس کا ذہن غیر حاضر تھا اور یہ اس کے ساتھ زندگی میں پہلی بار ہوا تھا۔ وہ انہیں دیکھتے ہوئے کہیں اور پہنچ گیا تھا۔ کہاں، وہ یہ بھی نہیں بتا سکتا تھا۔ ایک امیج سے دوسرے امیج، دوسرے سے تیسرے۔۔۔۔۔ ایک سین سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے۔۔۔۔۔ ایک آواز سے دوسری، دوسری سے تیسری۔۔۔۔۔ اس کا سفر کہاں سے شروع ہوا، کہاں نہیں۔
"سالار، چلنا نہیں ہے؟" سینڈرا نے اس کا کندھا ہلایا۔
وہ چونک گیا، کلاس خالی تھی، صرف سینڈرا اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے بے یقینی سے خالی کلاس کو اور پھر وال کلاک کو دیکھا پھر اپنی رسٹ واچ کو۔
"پروفیسر روبنسن کہاں گئے؟"
مووی دیکھنے کا پروگرام ہے اس ویک اینڈ پر، چلو گے؟" دانش اس دن اس کے پاس آیا ہوا تھا۔
"ہاں چلوں گا۔" سالار تیار ہو گیا۔
"پھر تم تیار رہنا، میں تمہیں پک کر لوں گا۔" دانش نے پروگرام طے کیا۔
دانش پروگرام کے مطابق اسے لینے کے لئے آ گیا تھا۔ وہ کئی ہفتوں کے بعد کسی سینما میں مووی دیکھنے کے لئے آیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ کم از کم اس رات وہ ایک اچھی تفریح میں کچھ وقت گزار سکے گا مگر مووی شروع ہونے کے دس منٹ بعد اسے وہاں بیٹھے بیٹھے اچانک شدیش قسم کی گھبراہٹ ہونے لگی۔ سامنے اسکرین پر نظر آنے والے کردار اسے کٹھ پتلیاں نظر آنے لگے جن کی حرکات اور آوازوں کو وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ کچھ بھی کہے بغیر بہت آہستگی کے ساتھ اٹھ کر باہر آ گیا۔ وہ پارکنگ میں بہت دیر تک دانش کی گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا رہا، پھر ایک ٹیکسی لے کر اپنے اپارٹمنٹ پر واپس آ گیا۔
٭
تبصرے یا تاثرات دئیے تھے۔
وہ دن ختم ہونے تک بری طرح جھنجھلاہٹ کا شکار ہو چکا تھا اور کسی حد تک مشتعل بھی۔ وہ کم از کم ان سوالوں کو سننے کے لئے یونیورسٹی نہیں آیا تھا۔ اس طرح کے تبصرے اسے بار بار یادہانی کروا رہے تھے کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہو چکا ہے اور وہ ان احساسات سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain