Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

اگر سینے یا پیٹ کا وہ درد ختم نہ ہوتا۔۔۔۔۔ اپنے ذہن سے وہ یہ سب کچھ جھٹکنے کی کوشش کرتا لیکن ناکام رہتا یہ تکلیف سے زیادہ خوف تھا جس کا شکار وہ اس اچانک بیماری کےدوران ہوا تھا۔"شاید میں کچھ زایدہ حساس ہوتا جا رہا ہوں۔" وہ سوچتا ورنہ ایک معمولی سی بے ہوشی کو خواہ مخواہ ہوا بنا کر سر پر کیوں سورا کر رہا ہوں۔
وہ جھنجھلاتا۔
"کم از کم اب تو ٹھیک ہو چکا ہوں پھر آخر اب مجھے کیا تکلیف ہے کہ میں اس طرح موت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ آخر پہلے بھی تو کئی بار بیمار ہو چکا ہوں۔ خود کشی کی کوشش کر چکا ہوں، جب مجھے کسی خوف نے تنگ نہیں کیا تو اب کیوں مجھے اس طرح کے خوف تنگ کرنے لگے ہیں۔"
اس کی الجھن اور اضطراب میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
"اور پھر مجھے تو بخار کی وہ تکلیف ٹھیک سے یاد بھی نہیں۔ میرے لئے تو یہ صرف خواب یا کوما کی طرح ہے

anusinha
 

وہ کچھ غائب دماغی کے عالم میں ان کی باتیں سنتا رہا۔
"تم انجوائے کر رہے ہو اپنی چھٹیاں؟"
بہت لمبی چوڑی بات کے بعد طیبہ نے بالآخر اس سے پوچھا۔
"میں؟ہاں، بہت۔۔۔۔۔" وہ صرف تین لفظٖ بول سکا۔
وہ واقعی نہیں جنتا تھا کہ اسے طیبہ سے کیا کہنا، کیا بتانا چاہئیے۔"
باری باری سب سے بات کرتے ہوئے وہ پہلی بار اس قسم کی صورت حال اور کیفیت سے دوچار ہوا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کو بنیادی طور پر صرف زپنی زندگی سے دلچسپی تھی۔ شاید وہ انہیں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بتاتا تو وہ اس کے لئے تشویش کا اظہار کرتے۔ پریشان ہو جاتے مگر وہ سب بعد میں ہوتا۔ اس کے بتانے کے بعد، اس سے پہلے ان کی زندگی کے دائرے میں اس کی زندگی کہاں آتی تھی۔ کس کو دلچسپی تھی یہ سننے میں کہ اس کے چند دن کس طرح غائب ہو گئے۔
اور شاید تب ہی اس نے پہلی بار سوچا اگر میری زندگی ختم بھی ہو گئی

anusinha
 

وہ اس رات ایک ایک گھنٹے کے بعد اپنے answer phone کو چیک کرتا رہا۔ اگلا پورا ہفتہ اس نے اسی بے یقینی کے عالم میں اپنے اپارٹمنٹ میں گزارا، پورے ہفتے کے دوران اسی کہیں سے کوئی کال نہیں ملی۔
"کیا یہ سب لوگ مجھے بھول گئے ہیں؟"
وہ وحشت زدہ ہو گیا۔ ایک ہفتہ تک بے وقوفوں کی طرح کسی کی کال کا انتظار کرتے رہنے کے بعد اس نے خود سب سے رابطہ کی کوشش کی۔
وہ ا نہیں فون پر بتانا چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وہ کس کیفیت سے گزرا تھا۔ وہ ان کے ساتھ شکوہ کرنا چاہتا تھا ، مگر ہر ایک سے رابطہ کرنے پر اسے پہلی بار یوں محسوس ہوا جیسے کسی کو اس میں کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ ہر ایک کے پاس اپنی مصروفیات کی تفصیلات تھیں۔
سکندر اور طیبہ اسے اسٹریلیا میں اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہے۔ وہ وہاں کیا کر رہے تھے، کتنا انجوائے کر رہے تھے۔

anusinha
 

کوئی ماں باپ ، کوئی بہن بھائی، کوئی دوست نہیں ہوتا۔ پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے پیروں کے نیچے زمین ہے نہ ہمارے سر کے اوپر کوئی آسمان، بس صرف ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلا میں بھی تھامے ہوئے ہے۔ پھر پتا چلتا ہے ہم زمین پر پڑی مٹی کے ڈھیر میں ایک ذرے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے۔ پھر پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے۔ صرف ہمارا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔"
سالار کو اپنے سینے میں عجیب سا درد محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے بہتے ہوئے پانی کو منہ میں ڈالا اسے ایک بار پھر ابکائی آئی۔
"اس کے بعد ہماری عقل ٹھکانے آ جاتی ہے۔"
وہ اس آواز کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے حیرانی ہو رہی تھی وہ اسے اس وقت کیوں یاد ئی تھی۔

anusinha
 

“And what comes next to nothingness”
“Hell”
سالار کو یک دم ابکائی آئی۔وہ واش بیسن پر بے اختیار دوہرا ہو گیا۔ چند منٹ پہلے کھائی گئی خوراک ایک بار پھر باہر آ گئی تھی۔ اس نے نل کھول دیا۔ اس نے اس کے بعد کیا پوچھا تھا۔ اس نے اس کے جواب میں کیا کہا تھا اسے یاد تھا۔
"ابھی تمہیں کوئی چیز سمجھ میں نہیں آ رہی۔ آئے گی بھی نہیں۔ ایک وقت آئے گا جب تم سب کچھ سمجھ جاؤ گے۔ ہر شخص پر ایک وقت آتا ہے جب وہ سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ جب کوئی معمہ، معمہ نہیں رہتا۔ میں اس دور سے گزر رہی ہوں۔ تم پر وہ دور آئندہ کبھی آئے گا۔ اس کے بعد تم دیکھنا۔ کیا تمہیں ہنسی آتی ہے۔"
سالار کو ایک اور ابکائی آئی، اسے اپنی آنکھوں سے پانی بہتا ہوا محسوس ہوا۔
"زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔ وہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور اللہ ہوتا ہے۔

anusinha
 

آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے اسے خشک کرنے لگا۔ جب اسے ان زخموں سے رستے ہوئے خون کا احسا س ہوا تو اس نے چہرے کو تولیے سے تھپتھپانا بند کر دیا۔ خالی الذہنی کے عالم میں وہ آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھنے لگا۔
اس کے گالوں پر آہستہ آہستہ ایک بار پھر خون کے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔ گہرا سرخ رنگ، وہ پلکیں جھپکائے بغیر ان قطروں کو دیکھتا رہا۔ تین ننھے ننھے سرخ قطرے۔
“What is next to estacy?”
“Pain”
سرد اور مدھم آواز آئی ۔ وہ پتھر کے بت کی طرح ساکت ہو گیا۔
“What is next to pain?”
“Nothingness”
اسے ایک ایک لفظ یاد تھا
“Nothingness”
وہ آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔ اس کے گالوں کی حرکت سے خون کے قطرے اس کے گالوں پر پھسلنے لگے۔

anusinha
 

کیا واقعی وہ پانچ دن یہاں اکیلا اس طرح پڑا رہا تھا کہ اسے خود اپنے بارے میں پتا تھا اور نہ ہی کسی اور کو۔
وہ ایک بار پھر واش روم میں چلا گیا۔ اس کا چہرہ کچھ دیر پہلے جیسا نہیں لگ رہا تھا۔ نہانے سے وہ کچھ بہتر ہو گیا تھا مگر اس کی شیو اور آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقے اب بھی اسی طرح موجود تھے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ کچھ دیر تک اپنی آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقوں کو چھوتا رہا جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ وہ واقعی وہاں موجود تھے یا پھر اس کا وہم ہے۔ اسے یک دم اپنے چہرے پر موجود بالوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔
وہیں کھڑے کھڑے اس نے شیونگ کٹ نکالی اور شیو کرنے لگا۔ شیو کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ یکے بعد دیگرے اسے تین کٹ لگے۔ اس نے شیو کے بعد اپنا چہرہ دھویا اور اس کے بعد تولیے سے آئینے میں

anusinha
 

اس نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر دوڑائی جو لونگ روم کی میز پر پڑی تھی۔ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس نے نوڈلز کا پیالہ میز پر رکھ دیا یک لخت ہی جیسے اس کی بھوک اڑ گئی تھی۔ وہاں موجود تاریخ نے اسے جیسے ایک اور جھٹکا دیا تھا۔
"کیا مطلب ہے ، کیا میں پانچ دن بخار میں مبتلا رہا ہوں۔ پانچ دن ہوش و حواس سے بے خبر رہا ہوں ؟ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟" وہ بڑا بڑارہا تھا۔
"پانچ دن ، پانچ دن تو بہت ہوتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھے، مجھے پانچ دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلے۔۔۔۔۔ میں پانچ دن تک اس طرح بے ہوش کیسے رہ سکتا ہوں۔"
وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ تیزی سے answer phone کی طرف بڑھ گیا، فون پر اس کے لئے کوئی ریکارڈ پیغام نہیں تھا۔
"پاپا نے مجھے کوئی کال نہیں کی اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔ سعد سب کو کیا ہو گیا۔۔۔۔۔کیا میں انہیں یاد نہیں رہا۔"

anusinha
 

الجھی ہوئی نظروں سے ٹاک شو کو دیکھتے ہوئے اس نے ریموٹ کو ایک بار پھر اٹھالیا۔ ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے وہ ایک بار پھر چینل سرچ کرنے لگا مگر اس بار وہ ہر چینل کو پہلے سے زیادہ ٹھہر ٹھہر کر دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے کی الجھن بڑھتی جارہی تھی۔
"یہ کیا ہے؟" وہ بڑ بڑایا۔
اسے اچھی طرح یاد تھا وہ جمعہ کی رات کو سڑک پر بے ہوش ہونے کے بعد ہاسپٹل گیا تھا۔ ہفتہ کا سارا دن اس نے وہیں گزارا تھا اور اتوار کی سہ پہر کو وہ واپس آیا تھا۔ اتوار کی سہ پہر کو سونے کے بعد وہ اگلے دن گیارہ بجے کے قریب اٹھا تھا۔ پھر اسی رات اسے بخار ہوگیا تھا۔ شاید اس نے منگل کا سارا دن بخار کی حالت میں گزارا تھا اور اب یقیناً منگل کی رات تھی مگر ٹی وی چینلز اسے کچھ اور بتارہے تھے وہ ہفتہ کی رات تھی اور اگلا طلوع ہونے والا دن اتوار کا تھا۔

anusinha
 

ان ہی لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ سوچے سمجھے بغیر باتھ روم میں گھس گیا۔
باتھ روم میں موجود بڑے آئینے کے سامنے اپنے چہرے پر نظر پڑتے ہی اسے جیسے شاک لگا تھا۔ اسکی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں اور ان کے گرد پڑنے والے حلقے بہت نمایاں تھے اور چہرہ بالکل زرد تھا۔ اس کے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ اسے اس وقت دیکھنے والا یہی سوچتا کہ وہ کسی لمبی بیماری سے اٹھا ہے۔
"چوبیس گھنٹوں میں اتنی شیو بڑھ گئی ہے؟" اس نے حیرانی کے عالم میں اپنے گالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔" اتنی بری شکل تو میری فوڈ پوائزنگ کے بعد ہاسپٹل میں رہ کر بھی نہیں ہوئی تھی جتنی ایک دن کے اس بخار نے کردی ہے۔"
وہ بے یقینی کے عالم میں اپنے حلقوں کو دیکھتے ہوئے بڑ بڑایا۔ ٹب میں پانی بھر کر وہ اس میں لیٹ گیا۔ اسے حیرانی ہورہی تھی کہ بخار کی حالت میں بھی

anusinha
 

کمرے کی چھت کو کچھ دیر گھورنے کے بعد اس نے لیٹے لیٹے اندھیرے میں سائیڈ لیمپ کو ڈھونڈ کر آن کردیا۔ روشنی نے کچھ دیر کے لئے اس کی آنکھوں کو چندھیا کر بند ہوجانے پر مجبور کردیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر آنکھوں کے بند پپوٹوں کو چھوا۔ وہ سوجے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں چبھن ہورہی تھی۔ سوجے ہوئے تمام پپوٹوں کو بمشکل کھلے رکھتے ہوئے وہ اب ارد گرد کی چیزوں پر غور کرتا رہا تھا اور اپنے ساتھ ہونے والے تمام واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہلکے ہلکے جھماکوں کے ساتھ اسے سب کچھ یاد آتا جارہا تھا۔
اسے بے اختیار اپنے آپ سے گھن آئی بیڈ پر بیٹھے بیٹھے اس نے اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر اسے اتار کر پھینک دیا۔ پھر لڑکھڑاتے ہوئے بیڈ سے اتر گیا اور کمبل اور بیڈ شیٹ بھی کھینچ کر اس نے بیڈ سے اتار کر فرش پر ڈال دئیے۔

anusinha
 

غشی کی کیفیت میں کراہوں کے ساتھ اس کے منہ میں جو کچھ آرہا تھا وہ بولتا جارہا تھا۔
غشی کا یہ سلسلہ کتنے گھنٹے جاری رہا تھا اسے یاد نہیں۔ ہاں البتہ اسے یہ ضرور یا د تھا اس کی کیفیت کے دو ران اسے ایک بار یوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ مر رہاہے اور اسی وقت زندگی میں پہلی بار موت سے عجیب سا خوف محسوس ہوا تھا وہ کسی نہ کسی طرح فون تک پہنچنا چاہتا تھا وہ کسی کو بلانا چاہتا تھا مگر وہ بستر سے نیچے نہیں اتر سکا ۔ شدید بخار نے اسے مکمل طور مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔
اور پھر بالاآخر وہ خود ہی اس کیفیت سے باہر آگیا تھا اس وقت رات کا پچھلا پہر تھا جب وہ اس غنودگی سے باہر نکلا تھا۔ آنکھیں کھولنے پر اس نے کمرے میں وہی تاریکی دیکھی تھی مگر اس کا جسم اب پہلے کی طرح گرم نہیں تھا۔ کپکپی مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی اس کے سر اور جسم میں ہونے والا درد بھی بہت ہلکا تھا۔

anusinha
 

اسے اپنے سینے اور پیٹ میں ایک بار پھر درد محسوس ہونے لگا۔
اس کی کراہوں میں اب شدت آتی جارہی تھی۔ ایک بار پھر متلی محسوس کرنے پر اس نے اٹھنے اور تیزی سے واش روم تک جانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوا تھا ۔ چند لمحوں کے لئے وہ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھنے میں کامیاب ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ بیڈ سے اترنے کی کوشش کرتا اسے ایک زور کی ابکائی آئی۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں اندر رہ جانے والی تھوڑی بہت خوراک بھی باہر آگئی تھی ۔ وہ غشی کے عالم میں بھی اپنے کپڑوں اور کمبل سے بے نیا ز نہیں تھا مگر وہ مکمل طور پر گندگی سے لتھڑے ہوئے بے بس تھا اسے اپنا پورا وجود مفلوج محسوس ہورہا تھا۔ بے جان سی حالت میں وہ اسی طرح دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔ اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ وہ ارد گرد کے ماحول سے مکمل طور بے نیاز ہوچکا تھا۔

anusinha
 

تکلیف کو برداشت کرنے کی کوشش میں وہ کب دوبارہ نیند کی آغوش میں گیا اسے اندازہ نہیں ہوا۔ پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو اس وقت کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ رات ہوچکی تھی اور صرف کمرہ ہی نہیں پورا گھر تاریک تھا وہ پہلے سے زیادہ تکلیف میں تھا۔ چند منٹوں تک بیڈ سے اٹھنے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد وہ دوبارہ لیٹ گیا۔ ایک بار پھر اس نے اپنے ذہن کو تاریکی میں ڈوبتے محسوس کیا مگر اس بار یہ نیند نہیں تھیں۔ وہ غنودگی کی کسی درمیانی کیفیت میں گزر رہا تھا ۔ وہ اب خود کو کراہتے ہوئے سن رہا تھا مگر وہ اپنی آواز کا گلا نہیں گھونٹ پارہا تھا۔ سینٹرل ہیٹنگ ہونے کے باجود اسے بے تحاشا سردی محسوس ہورہی تھی۔ اس کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا اور کمبل اس کی کپکپاہٹ کو ختم کرنے میں ناکام تھا وہ جسمانی طور پر خود کو اٹھ کر کچھ بھی پہننے یا اوڑھنے کے قابل نہیں تھا۔

anusinha
 

تھا اور شام تک وہ اگر مکمل طور نہیں تو کافی حد تک ٹھیک ہوچکا ہوگا۔
اس کا اندازہ بالکل غلط ثابت ہوا ۔ شام کے وقت میڈیسن کے زیر اثر آنے والی نیند سے بیدار ہوا تو اس کا جسم بری طرح بخار میں پھنک رہا تھا۔ اس کی زبان اور ہونٹ خشک تھے اور اسے اپنا حلق کانٹوں سے پھرا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ پورے جسم کے ساتھ ساتھ اس کا سر درد بھی شدید درد کی گرفت میں تھا اور شاید اس کے اس طرح بیدار ہونے کی وجہ یہ شدید بخار اور تکلیف ہی تھی۔
اس بار وہ اوندھے منہ بیڈ پر لیٹےہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ تکیے پر ماتھے کے نیچے رکھتے ہوئے ہاتھوں کے انگوٹھوں سے کنپٹیوں کو مسلتے ہوئے سر میں اُٹھنے والی درد کی ٹیسوں کو کم کرنے کی کوشش کی مگر وہ بری طرح ناکام رہا۔ چہرہ تکیے میں چھپائے وہ بے حس و حرکت پڑا رہا۔

anusinha
 

اس سے ملنے کے لئے بار بار اسے رنگ کیا تھا اور پھر آخری کال میں اس کے اس طرح غائب ہونے پر اسے اچھی خاصی صلواتیں سنائی تھیں۔
سینڈرا کا اندازہ تھا کہ وہ اس سے ملے بغیر سکینگ کے لئے چلا گیا تھا۔ یہی خیال سکندر اور کامران کا تھا۔ انہوں نے بھی اسے چند کالز کی تھیں۔ چند کالز اس کے کچھ کلاس فیلوز کی تھیں۔ وہ بھی چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے گھروں کو جانے سے پہلے کی گئی تھیں۔ ہر ایک نے اسے تاکید کی تھی کہ وہ انہیں جوابی کال کرے مگر اب وہ جانتا تھا کہ اب وہ سب واپس جا چکے ہوں گے البتہ وہ سکندر اور کامران اور سعد کو پاکستان میں کال کرسکتا تھا مگر اس وقت وہ یہ کام کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
کافی کے ایک مگ کے ساتھ دو سلائس کھانے کے بعد اس نے گھر پر موجود چند میڈیسنز لیں اور پھردوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ بخار کے لئے اتنا ہی کافی تھا

anusinha
 

اس نے دو دن ہاسپٹل میں گزارے تھے۔ وہاں سے گاڑی میں گزرنے والے کسی جوڑے نے اسے گرتے دیکھا تھا اور وہی سے اُٹھا کر ہاسپٹل لے آئے تھے۔ ڈاکٹرز کے مطابق وہ فوڈ پوائزن کا شکار ہوا تھا۔ وہ ہاسپٹل آنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہوش میں آگیا تھا اور وہاں سے چلے جانے کی خواہش رکھنے کے باجود وہ جسمانی طور پر اپنے آپ کو اتنی بری حالت میں محسوس کر رہا تھا کہ وہاں سے جا نہیں سکا ۔
اگلے دن شام تک اس کی حالت کچھ بہتر ہونے لگی مگر ڈاکٹرز کی ہدایت پر سالار نے وہ رات بھی وہیں گزاردی۔ اتوار کو سہ پہر وہ گھر آگیا تھا اور گھر آتے ہی اس نے ٹور آپریٹر کے ساتھ طے پایا جانے والا پروگرام چند دنوں کے لئے ملتوی کر دیا۔اسے پیر کی صبح نکلنا تھا اور اس نے طے کیا تھا کہ جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر سینڈرا کو کال کرے گا لیکن اب پروگرام کینسل کرنے کے ساتھ ساتھ

anusinha
 

اسے اب اپنے سینے اور پیٹ میں ہلکا ہلکا درد بھی محسوس ہورہا تھا۔
یہ کھانے کا اثر تھا یا پیگ کا۔ فوری طور پر اسے کچھ اندازہ نہیں ہوا۔ اب اس کا سر بری طرح چکرا رہا تھا۔ یک دم جھکتے ہوئے اس نے بے اختیارقے کی اور پھر چند منٹ اسی طرح جھکا رہا۔ معدہ خالی ہوجانے کے بعد بھی اس کو اپنی حالت بہتر محسوس نہیں ہوئی۔ سیدھا کھڑے رہنےکی کوشش میں اس کے پیر لڑکھڑا گئے۔ اس نے مڑ کر کر اپنی گاڑی کی طرف جانے کی کوشش کی مگر اس کا سر اب پہلے سے زیادہ چکرا رہا تھا۔ چند گز دور کھڑی گاڑی کو دیکھنے میں بھی اسے دقت ہورہی تھی۔ اس نے بمشکل چند قدم اٹھائے مگر گاڑی کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی وہ چکرا کر زمین پر گر پڑا اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اس کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا جارہا تھا ۔مکمل طور پر ہوش کھونے سے پہلے اس نے کسی کو اپنے آپ کو جھنجھوڑتے محسوس کیا۔

anusinha
 

پھر تمہاری کیا پلاننگ ہے؟ پاکستان آنےکا ارادہ ہے"
وہ اس دن فو ن پر سکندر سے بات کررہا تھا۔ سکندر نے اسے بتایا تھا کہ وہ طیبہ کے ساتھ کچھ ہفتوں کے لئے آسٹریلیا جارہے ہیں۔ انہیں وہاں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ہونے والی شادی کی کچھ تقریبا میں شرکت کرنی تھی۔
آپ دونوں وہاں نہیں ہوں گے تو میں پاکستان آکر کیا کروں گا۔" اسے مایوسی ہوئی۔
"یہ کیا بات ہوئی ۔ تم بہن بھائیوں سے ملنا، انیتا تمہیں بہت مس کر رہی ہے۔ سکندر نے کہا۔
پاپا!میں ادھر ہی چھٹیاں گزاروں گا۔ پاکستان آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔"
"تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہمارے ساتھ آسٹریلیا چلو، معیز بھی جارہا ہے۔" انہوں نے اس کے بڑے بھائی کا نام لیتے ہوئے کہا۔
"میرا دماغ خراب نہیں ہے کہ میں اس طرح منہ اٹھا کر آپ کے ساتھ آسٹریلیاچلوں۔ معیز کے ساتھ میری کون سی انڈر اسٹینڈنگ ہے،

anusinha
 

وہ کچھ دیر مزید اس کے پاس بیٹھا گپ شپ کرتا رہا پھر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد سالار نے لنچ کیا اور ایک بار پھر کمپیوٹر پر آکر بیٹھ گیا۔
وہ بھی کچھ دیر چیٹنگ کرنا چاہتا تھا اور یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس نے لاشعوری طور پر کمپیوٹر چلاتے ہوئے اس کی ہسٹری دیکھی۔ وہاں ان ویب سائٹس اور پیجز کی کچھ تفصیلات تھیں جو کچھ دیر پہلے اس نے یا سعد نے دیکھی تھیں۔
سعد نے جن چند ویب سائٹس کو دیکھا تھا وہ بیہودہ تھیں ۔ اسے اپنے یا کسی دوسرے دوست کے ان پیجز دیکھنے یا ان ویب سائٹس کو وزٹ کرنے پر حیرت نہ ہوتی نہ اعتراض ۔ وہ خود ایسی ویب سائٹس کا وزٹ کرتا رہتا تھا مگر سعد کے ان ویب سائٹس کو وزٹ کرنے پر اسے حیرت ہوئی تھی۔ اس کی نظروں میں وہ کچھ اور نیچے آگیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭