Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

امامہ ہاشم پردہ کرنے والی لڑکی اور ایک لڑکے کے لئے اپنے منگیتر ، اپنے خاندان اپنے گھر کو چھوڑ کر رات میں فرار ہوجانے والی لڑکی۔
جلال انصر۔۔۔۔۔ ڈاڑھی والا مرد، حضور ﷺ کی محبت میں سرشار ہو کر نعتیں پڑھنے والا اور ایک لڑکی سے افئیر چلانے والا اور پھر اسے بیچ راستے میں چھوڑ کر ایک طرف ہوجانے والا ، پھر دین الگ دنیا الگ کر بات کرنے ولا۔ سعد ظفر کے بارے میں اس کی رائے ایک اور واقعہ سے اور خراب ہوئی۔
وہ ایک دن اس کے اپارٹمنٹ پر آیا ہوا تھا۔ سالار اس وقت کمپیوٹر آن کئے اپنا کام کرتے ہوئے اس سے باتیں کرنے لگا۔ پھر اسے کچھ چیزین لانے کے لئے اپارٹمنٹ سے قریبی مارکیٹ جانا پڑا اور اسے پیدل وہاں آنے جانے اور شاپنگ کرنے میں تیس منٹ لگے تھے۔ سعد اس کے ساتھ نہیں آیا تھا۔ جب سالار واپس آیا تو سعد کمپیوٹر پر چیٹنگ میں مصروف تھا۔

anusinha
 

کہ سعد بات کرنا جانتا تھا اس کا انداز بیاں بے حد متاثر کن تھا۔ اور اس کے شناسا لوگوں میں صرف سالار تھا، جس پر اس کی نصیحت کوئی اثر نہیں کرتی تھی جو اس سے ذرہ برابر متاثر نہیں تھا اور نہ ہی کسی رشک کا شکار۔ جسے سعد کی داڑھی اس کے دین لئے استقامت کا یقین دلانے میں کامیاب ہوئی تھی نہ ہی دوسروں کے لئے اس کا ادب واحترام اس کا نرم انداز گفتگو۔
امامہ سے مذہبی لوگوں کے لئے اس کی نا پسندید گی کا آغاز ہوا تھا۔ جلال سے اسے آگے بڑھایا تھا اور سعد نے اسے انتہا پر پہنچا دیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مذہبی لوگوں سے بڑھ کر منافق کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ داڑھی رکھنے والا مرد اور پر دہ کرنے والی عورت کسی بھی قسم کی بلکہ ہر قسم کی برائی کا شکار ہوتے ہیں اور ان لوگوں سے زیادہ جو خود کو مذہبی نہیں کہتے۔
اتفاق سے ملنے والے تینوں لوگوں نے اس یقین کو مستحکم کیا ۔

anusinha
 

"گیارہ بجے کے قریب۔۔۔۔۔ تم اس وقت کسی لڑکی کے ساتھ مصروف تھے۔ میں نے تم لوگوں کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس لئے وہاں سے واپس آگیا۔"
وہ اندازہ کرسکتا تھا کہ سعد پر اس وقت سکتہ طاری ہوچکا ہوگا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ سالار اس طرح اس کا بھانڈا پھوڑ دے گا۔
"ویسے تم نے کبھی اپنی گرل فرینڈ سے ملوایا نہیں۔" اس نے مزید کہا۔ سعد کو سانس لینے میں جتنی دقت ہورہی ہوگی وہ اندازہ کرسکتا تھا۔
"بس ویسے ہی ملوادوں گا۔" اس نے دوسری طرف سے بے حد مدھم اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"مگر تم کسی اور سے اس کا ذکر مت کرنا۔" اس نے ایک ہی سانس میں کہا۔
"میں کیوں ذکر کروں گا، تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔"
سالار اس کی کیفیت سمجھ سکتا تھا۔ اسے اس وقت سعد پر کچھ ترس آرہا تھا۔
اس رات سعد نے چند منٹوں بعد ہی فون رکھ دیا۔

anusinha
 

سعد نے سرسری سے لہجے میں پوچھا۔
"نہیں رات کو سفر نہیں کیا؟"
"کیا مطلب؟"
"مطلب یہ کے فرائیڈے کی رات کو نہیں سیٹرڈے کی صبح گئے تھے ہم لوگ وہاں۔" سالار نے بتایا۔
" تم پھر سینڈ را کی طرف رہے تھے۔؟"
"نہیں دانش کے پاس۔"
"کیوں یہاں آجاتے اپنے اپارٹمنٹ پر۔"
"آیا تھا۔" سالار نے بڑے اطمینان سے کہا۔
دوسری طرف خاموشی چھاگئی۔ سالار دل ہی دل میں ہنسا۔ سعد کے پیروں نیچے سے یقیناً اس وقت زمین نکل گئی تھی۔
"آئے تھے۔۔۔۔۔؟ کب۔۔۔۔۔؟ اس بار وہ بے اختیار ہکلایا۔

anusinha
 

اتوار کی رات کو جب وہ واپس نیو ہیوں اپنے اپارٹمنٹ آیا تو سعد وہاں نہیں تھا، اس کے فلیٹ میں کہیں بھی ایسے آثار نہیں تھے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ وہاں کوئی عورت آئی تھی، وائن کی وہ بوتل بھی اسے کہیں نہیں ملی۔ وہ زیر لب مسکراتا ہوا پورے اپارٹمنٹ کا تفصیلی جائزہ لیتا رہا۔ وہاں موجو د ہر چیز ویسے ہی تھی جیسی وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ سالار نے اپنا سامان رکھنے کے بعد سعد کو فون کیا۔ کچھ دیر رسمی باتیں کرتے رہنے کے بعد وہ موضوع پر آگیا۔
"پھر اچھی رہی تمہاری اسٹڈیز۔۔۔۔۔ اسائمنٹ بن گئے۔؟
"ہاں یار! میں تو دو دن اچھا خاصا پڑھتا رہا، اسائمنٹس تقریبا ً مکمل کرلی ہیں۔ تم بتاؤتمہارا ٹرپ کیسا رہا؟" سعد نے جواباً پوچھا۔
"بہت اچھا۔۔۔۔۔"
"کتنی دیر میں پہنچ گئے تھے وہاں ، رات کو سفر کرتے ہوئے کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟

anusinha
 

وہ اندر داخل نہیں ہوا۔قدرے بے یقینی سے واپس مڑگیا اور تب اس کی نظر لونگ روم کی ٹیبل پر رکھی بوتل اور گلاس پر پڑی ، وہاں سے کچن کاؤنٹر جہاں کھانے کے برتن ابھی تک پڑے تھے۔ وہ مزید وہاں رُکے بغیر اسی طرح خاموشی سے وہاں سے نکل آیا۔
اس کے لئے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ سعد وہاں کسی لڑکی ساتھ رہنے کے لئے آیا تھا۔ بالکل نا قابل یقین۔ جو شخص حرام گوشت نہ کھاتا ہو۔ شراب نہ پیتا ہو پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہ،و ہر وقت اسلام کی بات کرتا رہتا ہو، دوسروں کو اسلام کی تبلیغ کرتا ہو، وہ کسی لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔۔ اپارٹمنٹ کے دروازے کو باہر سے بند کیے ہوئے اسی طرح شاک کے عالم میں تھا۔ بوتل اور گلاس ظاہر کر رہے تھے کہ اس نے پی بھی ہوئی ہےاور شاید کھانا وغیرہ بھی کھایا ہوگا۔ اسی فریزراور کچن میں جہاں کا وہ پانی تک پینے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا۔

anusinha
 

رات کو تقریباً گیارہ بجے سینڈرا کو اس کی رہائش گاہ پر ڈراپ کرنے کے بعد اپارٹمنٹ چلا آیا۔ اس نے سعد کو ایک چابی دی تھی۔ دوسری چابی اس کے پاس ہی تھی وہ جانتا تھا کہ سعد اس وقت بیٹھا پڑھ رہا ہوگا مگر اس نے اسے ڈسٹرب کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ اپارٹمنٹ کا بیرونی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا ، لونگ روم کی لائٹ آن تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی اسے کچھ عجیب سا احساس ہوا تھا وہ اپنے بیڈروم میں جانا چاہتا تھا مگر بیڈ روم کے دروازے پر ہی رُک گیا۔
بیڈ روم کا دروازہ بند تھا مگر اس کے باوجود اندر سے اُبھرنے والے قہقہے اور باتوں کی آوازیں سن سکتا تھا۔ سعد کے ساتھ اندر کوئی عورت تھی۔ وہ جامد ہوگیا۔ اس کے گروپ میں صرف سعد تھا جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ کسی لڑکی کے ساتھ اس کے تعلقات نہیں تھے۔وہ جتنا مذہبی آدمی تھا اس سے یہ توقع کی ہی نہیں جاسکتی تھی

anusinha
 

سالار نے کہا۔
"چلو اب میں کر بھی کیا کرسکتا ہوں۔ خیر آج کیا کر رہے ہو؟" سعد اب اس سے معمول کی باتیں کرنے لگا۔ دس پندرہ منٹ تک ان دونوں کے درمیان
گفتگو ہوتی رہی پھر سالار نے فون بند کردیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تم اس ویک اینڈ پر کیا کرہے ہو؟ اس دن سعد نے سالار سے پوچھا۔ وہ یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں موجود تھے۔
"میں اس ویک اینڈ پر نیویارک جارہا ہوں، سینڈرا کے ساتھ۔"سالار نے اپنا پروگرام بتایا۔
"کیوں۔۔۔۔۔؟" سعد نے وچھا۔
"اس کے بھائی کی شادی ہے۔ مجھے انوائٹ کیا ہے اس نے۔"
"واپس کب آؤ گے؟"
"اتوار کی رات کو۔"

anusinha
 

کیوں مجھے وہاں کیوں نہیں جانا تھا۔"سعد کے جواب نے سالار کو کچھ حیران کیا۔
"تم ساتھ چلتے؟"
"آف کورس۔۔۔۔۔"
مگر تمہیں وہاں جاکر کیا کرنا تھا۔ نہ تم ڈرنک کرتے ہو، نہ ڈانس کرتے ہو۔۔۔۔۔ پھر وہاں جاکر تم کیا کرتے۔۔۔۔۔ ہمیں نصیحتیں کرتے۔"
"ایسی بات نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ڈرنک اور ڈانس نہیں کرتا، مگر آؤٹنگ تو ہوجاتی ہے۔ میں انجوائے کرتا۔" سعد نے کہا۔
"مگر ایسی جگہوں پر جانا اسلام میں جائز نہیں ہے؟" سالار نےچبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ سعد چند لمحے کچھ کہہ نہیں سکا۔
"میں وہاں کوئی غلط کام کرنے تو نہیں جارہا تھا۔ تم سے کہہ رہا ہوں صرف آؤٹنگ کی غرض سے جاتا۔" چند لمحوں بعد اس نے قدرے سنبھلتے ہوئے کہا۔
"اوکے!اگلی بار ہمارا پروگرام بنے گا تو تمہیں بھی ساتھ لے لیں گےبلکہ مجھے پہلے پتہ ہوتا تو کل رات بھی تمہیں ساتھ لے لیتا ہم سب نے واقعی بہت انجوائے کیا۔"

anusinha
 

"تمہارا خیال ہی نہیں آیا ہمیں۔"سالار نے اطمینان سے کہا۔
"بہت گھٹیا آدمی ہو تم سالار ، بہت ہی گھٹیا۔۔۔۔۔یہ دانش بھی گیا تھا؟"
"ہم سب مائی ڈئیر ، ہم سب۔۔۔۔۔"سالار نے اسی اطمینان کے ساتھ کہا۔
"مجھے کیوں نہیں لے کر گئے تم لوگ ! " سالار کی خفگی میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
"تم ابھی بچے ہو۔۔۔۔۔ہر جگہ بچوں کو لے کر نہیں جا سکتے۔"سالار نے شرارت سے کہا۔
"میں ابھی آ کر تمہاری ٹانگیں توڑتا ہوں ، پھر تمہیں اندازہ ہو گا کہ یہ بچہ بڑا ہو گیا ہے۔"
"مذاق نہیں کر رہا یار ۔۔۔۔۔ہم نے تمہیں ساتھ جانے کو اس لیے نہیں کہا کیونکہ تم جاتے ہی نہیں۔"اس بار سالار واقعی سنجیدہ ہوا۔
"کیوں تم لوگ دوزخ میں جا رہے تھے کہ میں وہاں نہ جاتا۔"سعد کے غصے میں کوئی کمی نہیں آئی۔
"کم از کم تم اسے دوزخ ہی کہتے ہو۔ہم لوگ نائٹ کلب گئے ہوئے تھے اور تم کو وہاں نہیں جانا تھا۔"

anusinha
 

ہاں دس منٹ پہلے۔۔۔۔۔"
"رات کو دیر تک باہر رہے ہو گے۔اس لئے۔۔۔۔۔"سعد نے اندازہ لگایا۔
"ہاں۔۔۔۔۔ہم لوگ باہر گئے ہوئے تھے۔"سالار نے دانستہ طور پر نائٹ کلب کا نام نہیں لیا۔
"ہم لوگ کون۔۔۔۔۔؟تم اور سینڈرا؟"
"نہیں پورا گروپ ہی۔"سالار نے کہا۔
"پورا گروپ۔۔۔۔۔؟مجھے لے کر نہیں گئے۔میں مر گیا تھا؟"سعد نے چڑ کر کہا۔
"تمہارا خیال ہی نہیں آیا ہمیں۔"سالار نے اطمینان سے کہا۔
"بہت گھٹیا آدمی ہو تم سالار ، بہت ہی گھٹیا۔۔۔۔۔یہ دانش بھی گیا تھا؟"
"ہم سب مائی ڈئیر ، ہم سب۔۔۔۔۔"سالار نے اسی اطمینان کے ساتھ کہا۔
"مجھے کیوں نہیں لے کر گئے تم لوگ ! " سالار کی خفگی میں کچھ اور اضافہ ہوا۔

anusinha
 

تو تمہیں تو پھر اس کے ساتھ ہی جانا چاہئیے۔"سالار نے کہا۔
"نہیں سب لوگ چلتے ہیں ، زیادہ مزہ آئے گا۔"مائیک نے کہا۔
"سب لوگوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟"اس بار دانش نے گفتگو میں حصہ لیا۔
"جتنے دوست بھی ہیں ۔۔۔۔۔سب۔۔۔۔۔! "
"میں ، سالار ، تم ، سیٹھی اور سعد ۔"
"سعد کو رہنے دو۔۔۔۔۔۔وہ نائٹ کلب کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگانے لگے گا یا پھر ایک لمبا چوڑا وعظ دے گا۔"سالار نے مداخلت کی۔
"تو پھر ٹھیک ہے ہم لوگ ہی چلتے ہیں۔"دانش نے کہا۔
"سینڈرا کو بھی انوائیٹ کر لیتے ہیں۔"سالار نے اپنی گرل فرینڈ کا نام لیا۔
اس ویک اینڈ پر سب وہاں گئے اور تین چار گھنٹوں تک انہوں نے وہاں خوب انجوائے کیا۔اگلے روز سالار صبح دیر سے اٹھا۔وہ ابھی لنچ کی تیاری کر رہا تھا جب سعد نے اسے فون کیا۔
"ابھی اٹھے ہو؟"سعد نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔

anusinha
 

کہیں خاموشی کی زندگی گزار رہی ہو ، پھر آخر کیا وجہ ہے کہ امامہ کسی کے ساتھ بھی دوبارہ رابطہ نہیں کر رہی۔ اب تک جب ایک سال سے زیادہ گزر گیا ہے کیا وہ واقعی حادثے کا شکار ہو گئی ہے؟کیا حادثہ پیش آ سکتا ہے اسے۔۔۔۔۔؟
اس کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کی ذہنی رو ایک بار پھر بہکنے لگی۔
"اگر کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے تو میں کیا کروں۔۔۔۔۔وہ اپنے رسک پر گھر سے نکلی تھی اور حادثہ تو کسی کو کسی بھی وقت پیش آ سکتا ہے پھر مجھے اس کے بارے میں اتنا فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے؟پاپا ٹھیک کہتے ہیں جب میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر مجھے اس کے بارے میں اتنا تجسس بھی نہیں رکھنا چاہئیے۔خاص طور پر ایک ایسی لڑکی کے بارے میں جو اس حد تک احسان فراموش ہو جو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتی ہو اور جو مجھے اتنا گھٹیا سمجھتی ہو اس کے ساتھ جو بھی ہوا ہو گا

anusinha
 

اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مجھے حسن نے بتایا ہے یا کسی اور نے۔۔۔۔۔یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ اس بات کے بارے میں مجھے پتا نہ چلتا۔یہ صرف میری حماقت تھی کہ میں نے ہاشم مبین کے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور تمہارے جھوٹ پر یقین کر لیا۔"
سالار نے کچھ نہیں کہا ، وہ صرف ماتھے پر تیوریاں لئے انہیں دیکھتا اور ان کی بات سنتا رہا۔"اب جب میں نے تمہیں اس سارے معاملے سے بچا لیا ہے تو تمہیں دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئیے جس سے۔۔۔۔۔"
سکندر عثمان نے قدرے نرم لہجے میں کہنا شروع کیا مگر اس سے پہلے کہ ان کی بات مکمل ہوتی سالار ایک جھٹکے سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

anusinha
 

پہلی بات تو یہ ہے کہ میں یہ ماننے پر تیار نہیں ہوں کہ یہاں امریکہ میں کوئی میری نگرانی کر رہا ہو گا اور وہ بھی اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اور دوسری بات یہ کہ میں امامہ کے ساتھ تو کوئی رابطہ نہیں کر رہا کیونکہ میں واقعی نہیں جانتا وہ کہاں ہے ، پھر رابطے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"
"تو پھر تمہیں اس کے بارے میں اس قدر کانشس ہونے کی کیا ضرورت ہے۔وہ جہاں ہے جیسی ہے ، رہنے دو اسے۔"سکندر کو کچھ اطمینان ہوا۔
"آپ میرے موبائل کے بل چیک کریں۔وہ موبائل اس کے پاس ہے۔ہو سکتا ہے پہلے نہیں تو اب وہ اس سے کالز کر لیتی ہو۔"
"وہ اس سے کالز نہیں کرتی۔موبائل مستقل طور پر بند ہے۔جو چند کالز اس نے کی تھیں وہ سب میڈیکل کالج میں ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں کو ہی کی تھیں اور پولیس پہلے ہی انہیں انویسٹی گیٹ کر چکی ہے۔لاہور میں وہ ایک لڑکی کے گھر گئی تھی

anusinha
 

پاپا ! کیا اس نے واقعی کبھی گھر فون نہیں کیا مجھ سے بات کرنے کے لیے۔"سالار نے ان کی بات پر غور کیے بغیر کہا۔
"کیا وہ تمہیں فون کیا کرتی تھی؟"
وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگا۔"گھر سے چلے جانے کے بعد اس نے صرف ایک بار فون کیا تھا پھر میں یہاں آ گیا۔ہو سکتا ہے اس نے دوبارہ فون کیا ہو جس کے بارے میں آپ مجھے نہیں بتا رہے۔"
"اس نے تمہیں فون نہیں کیا۔اگر کرتی تو میں تمہاری اور اس کی شادی کے بارے میں بہت سے معاملات کو ختم کر دیتا۔میں تمہاری طرف سے اسے طلاق دے دیتا۔"
"یہ سب آپ کیسے کر سکتے ہیں۔"
سالار نے بہت پُر سکون انداز میں کہا۔
"یہاں تمہیں بھجوانے سے پہلے میں نے ایک پیپر پر تمہارے signatures لیے تھے ، میں طلاق نامہ تیار کروا چکا ہوں۔"سکندر نے جتاتے ہوئے کہا۔
"fake document (جعلی ڈاکومنٹ)۔"سالار نے اسی انداز میں تبصرہ کیا۔"

anusinha
 

"ہاں۔۔۔۔۔یہ اس صورت میں ہوتا اگر وہ مجھ سے رابطہ کرتی مگر اس نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔تمہیں یہ یقین کیوں ہے کہ اس نے مجھ سے ضرور رابطہ کیا ہو گا۔"اس بار سکندر نے سوال کر ڈالا۔
سالار کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے پوچھا۔
"پولیس کو اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا؟"
"نہیں ، پولیس کو پتا چلتا تو اب تک وہ ہاشم مبین کے گھر واپس آ چکی ہوتی مگر پولیس ابھی بھی اس کی تلاش میں ہے۔"سکندر نے کہا۔
"ایک بات تو طے ہے سالار کہ اب تم دوبارہ امامہ کے بارے میں کوئی تماشا نہیں کرو گے۔وہ جہاں ہے جس حال میں ہے تمہیں اپنا دماغ تھکانے کی ضرورت نہیں ، تمہارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔پولیس جیسے ہی اسے ڈھونڈے گی میں وہ پیپرز ہاشم مبین تک پہنچا دوں گا ، تاکہ تمہاری جان ہمیشہ کے لیے اس سے چھوٹ جائے۔"

anusinha
 

سکندر نے اس کی بات کاٹ دی۔"وہ اس کے پاس گئی یا نہیں۔ اس نے اس شادی کی یا نہیں۔یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔نہ ہی تمہیں اس میں انوالو ہونے کی ضرورت ہے۔"
"ہاں ، یہ میرا مسئلہ نہیں ہے مگر میں جاننا چاہتا ہوں کیا امامہ آپ کے پاس آئی تھی؟آپ نے اسے شادی کے پیپرز کیسے بھجوائے تھے۔میرا مطلب کس کے ذریعے۔"سالار نے کہا۔
"تم سے کس نے کہا کہ اس نے مجھ سے رابطہ کیا تھا؟"
وہ ان کے سوال پر حیران ہوا۔"میں نے خود اندازہ لگایا۔"
"اس نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا وہ رابطہ کرتی تو میں ہاشم مبین کو اس کے بارے میں بتا دیتا۔"
سالار ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔"میں نے تمہارے کمرے کی تلاشی لی تھی اور میرے ہاتھ وہ نکاح نامہ لگ گیا۔"
"مجھے یہاں بھجواتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ آپ وہ پیپرز امامہ تک بھجوا دیں گے۔"

anusinha
 

پاپا ! کیا امامہ واپس اپنے گھر آ گئی ہے؟"اس نے کسی تمہید کے بغیر سوال کیا۔
اور اس کے سوال نے کچھ دیر کے لیے سکندر کو خاموش رکھا۔
"تم کیوں پوچھ رہے ہو؟"چند لمحوں کے بعد انہوں نے درشتی سے کہا۔
"بس ایسے ہی۔"
"اس کے بارے میں اتنا غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔تم اپنی اسٹڈیز پر اپنا دھیان رکھو تو بہتر ہے۔"
"پاپا ! پلیز آپ میرے سوال کا جواب دیں۔"
"کیوں جواب دوں۔۔۔۔۔تمہارا اس کے ساتھ تعلق کیا ہے؟"سکندر کی ناراضی میں اضافہ ہو گیا۔
"پاپا ! اس کا ایک بوائے فرینڈ مجھے آج ملاہے یہاں ، وہی جس کے ساتھ وہ شادی کرنا چاہتی تھی۔"
"تو پھر۔۔۔۔۔؟"
"تو پھر یہ کہ ان دونوں نے شادی نہیں کی۔وہ بتا رہا تھا کہ امامہ اس کے پاس گئی ہی نہیں۔جب کہ میں سمجھ رہا تھا کہ لاہور جانے کے بعد وہ اسی کے پاس گئی ہو گی۔"

anusinha
 

امامہ جلال کے پاس جائے گی۔
مگر سالار کو اب پتا چلا تھا کہ اس کی توقع یا اندازے کے برعکس وہ وہاں گئی ہی نہیں۔
ویٹر اب کھانا سرو کر رہا تھا ، اس کا کزن آ چکا تھا ، وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے کھانا کھاتے رہے مگر سالار کھانا کھاتے اور باتیں کرتے ہوئے بھی مسلسل امامہ اور جلال کے بارے میں سوچتا رہا۔کئی ماہ بعد یک دم وہ اس کے ذہن میں پھر تازہ ہو گئی تھی۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ دوبارہ اپنے گھر واپس چلی گئی ہو؟"کھانا کھاتے کھاتے اسے اچانک خیال آیا۔
"ہاں یہ ممکن ہے۔۔۔۔۔"اس کا ذہن متواتر ایک ہی جگہ اٹکا ہوا تھا۔مجھے پاپا سے بات کرنی چاہئیے۔انہیں یقیناً اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ پتا ہو گا۔"سکندر عثمان بھی ان دنوں شادی میں شرکت کی غرض سے وہیں تھے۔
واپس گھر آنے کے بعد رات کے قریب جب اس نے سکندر کو تنہا دیکھا تو اس نے ان سے امامہ کے بارے میں پوچھا۔