Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

کہ اسے میری بات پر یقین نہیں ہے۔
وہ کرسی کھینچ کر دوبارہ بیٹھ گیا۔
اور اگر جلال کے پاس نہیں گئی تو پھر وہ کہاں گئی۔کیا کسی اور شخص کے پاس؟جس سے اس نے مجھے بےخبر رکھا ، مگر یہ ممکن نہیں ہے اگر کوئی اور ہوتا تو وہ مجھے اس سے بھی رابطہ کرنے کے لیے کہتی۔اگر وہ فوری طور پر جلال کے پاس نہیں بھی گئی تھی تو سکندر سے نکاح نامہ لینے اور طلاق کے حق کے بارے میں جاننے کے بعد اسے اسی کے پاس جانا چاہئیے تھا ، وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے جلال کی اس فرضی شادی کے بارے میں اسے کیوں بتایا۔شاید وہ اسے پریشان کرنا چاہتا تھا یا پھر یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اب کیا کرے گی یا پھر شاید وہ بار بار اس کے اس مطالبے سے تنگ آ گیا تھا کہ وہ پھر جلال کے پاس جائے ، پھر جلال سے رابطہ کرے ، وہ ایسا کرنے کی وجہ نہیں جانتا تھا، جو بھی تھا بہر حال اسے یقین تھا !

anusinha
 

کیونکہ وہ آپ کی بیوی ہے۔"
"میری بیوی؟"جلال کو جیسے کرنٹ لگا۔
"آپ کیا کہہ رہے ہیں۔میری بیوی کیسے ہو سکتی ہے وہ۔میں نے اس سے شادی سے انکار کر دیا تھا۔آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ایک سال پہلے آپ ہی تو آئے تھے اس سلسلے میں مجھ سے بات کرنے کے لیے۔"جلال نے جیسے اسے کچھ یاد دلایا۔"میں نے تو آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ آپ خود اس سے شادی کر لیں۔"
سالار بےیقینی سے اسے دیکھتا رہا۔
"میں تو یہ سوچ کر آپ کے پاس آیا تھا کہ شاید آپ نے اس سے شادی کر لی ہو گی۔"وہ اب وضاحت کر رہا تھا۔
"آپ نے اس سے شادی نہیں کی؟"سالار نے پوچھا۔
"نہیں۔۔۔۔۔آپ سے تو ساری بات ہوئی تھی میں نے انکار کر دیا پھر اس سے میری شادی کیسے ہو سکتی تھی؟پھر میں نے سنا کہ وہ گھر سے چلی گئی۔میں نے سوچا آپ کے ساتھ کہیں چلی گئی ہو گی۔اسی لیے تو آپ کو دیکھ کر آپ کی طرف آیا تھا۔"

anusinha
 

سالار نے کھڑے ہو کر اس سے ہاتھ ملایا۔ایک سال پہلے کا ایڈونچر ایک بار پھر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے جلال کو رسماً کھانے کی دعوت دی۔
"نہیں ، مجھے ذرا جلدی ہے۔بس آپ پر اتفاقاً نظر پڑ گئی تو آ گیا۔"جلال نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
"امامہ کیسی ہے؟"جلال نے بات کرتے کرتے اچانک کہا۔سالار کو لگا وہ اس کا سوال ٹھیک سے سن نہیں سکا۔
"سوری۔۔۔۔۔"اس نے معذرت خواہانہ انداز میں استفسار کیا۔جلال نے اپنا سوال دُہرایا۔
"میں امامہ کا پوچھ رہا تھا۔وہ کیسی ہے؟"
سالار پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔وہ امامہ کے بارے میں اس سے کیوں پوچھ رہا تھا۔
"مجھے نہیں پتا یہ تو آپ کو پتا ہونا چاہئیے۔"اس نے کچھ اُلجھتے ہوئے انداز میں کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
اس بار جلال حیران ہوا۔"مجھے کس لئے؟"

anusinha
 

اگلے چند ماہ وہ پڑھائی میں بےحد مصروف رہا ، اتنا مصروف کہ امامہ کو یاد رکھنے اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کو کل پر ٹالتا رہا شاید یہ سلسلہ ابھی چلتا رہتا اگر اس شام اچانک اس کی ملاقات جلال انصر سے نہ ہو جاتی۔
وہ ویک اینڈ پر بوسٹن گیا ہوا تھا جہاں اس کے چچا رہتے تھے وہ وہاں اپنے ایک کزن کی شادی اٹینڈ کرنے آیا تھا۔
اس شام سالار اپنے کزن کے ہمراہ تھا جو ایک ریسٹورنٹ چلا رہا تھا۔وہ وہاں کھانا کھانے آیا ہوا تھا۔اس کا کزن آرڈر دینے کے بعد کسی کام سے اٹھ کر گیا تھا۔سالار کھانے کا انتظار کر رہا تھا جب کسی نے اس کا نام لے کر پکارا۔
"ہیلو۔۔۔۔۔! " سالار نے بےاختیار مڑ کر اسے دیکھا۔
"آپ سالار ہیں؟"اس آدمی نے پوچھا۔
وہ جلال انصر تھا۔اسے پہچاننے میں لحظہ بھر کے لیے دقت اس لیے ہوئی تھی کیونکہ اس کے چہرے سے اب داڑھی غائب تھی۔

anusinha
 

اس کی وجہ سے اس کی رات خراب ہو گئی تھی ، اس نے سینٹر ٹیبل پر پڑا ہوا ایک کرسٹل کا گلدان اُٹھایا اور پوری قوت سے اسے دیوار پر دے مارا۔
ویک اینڈ کے بعد وینس سے اس کی دوبارہ ملاقات ہوئی ، لیکن وہ اس سے بڑے روکھے اور اکھڑے ہوئے انداز میں ملا۔یہ اس سے تعلقات شروع کرنے سے پہلے ہی ختم کرنے کا واحد راستہ تھا۔اسے ہر اس عورت سے جھنجلاہٹ ہوتی تھی جو اسے کسی بھی طرح سے امامہ کی یاد دلاتی اور وینس ان عورتوں میں شامل ہو گئی تھی۔وینس جو اس کی طرف سے کسی معذرت اور اگلی دعوت کا انتظار کر رہی تھی وہ اس کے اس رویے سے بری طرح دلبرداشتہ ہوئی تھی۔Yale میں یہ اس کا پہلا افئیر تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

anusinha
 

سالار کو اس کی نظروں سے جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔
"میں ۔۔۔۔۔میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔"
گلاس کو شیلف پر رکھتے ہوئے اس نے وینس سے کہا۔وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔وہ بالواسطہ طور پر اسے وہاں سے جانے کے لیے کہہ رہا تھا۔وینس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔سالار کا رویہ بےحد توہین آمیز تھا۔وہ چند لمحے اسے گھورتی رہی پھر تیزی کے ساتھ اپنا سویٹر اور بیگ اٹھا کر اپارٹمنٹ کا دروازہ دھماکے سے بند کر کے باہر نکل گئی۔وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر صوفہ پر بیٹھ گیا۔
وینس اور امامہ میں کہیں کسی قسم کی کوئی مشابہت نہیں تھی۔دونوں کی گردنوں میں موجود موتی بھی بالکل ایک جیسا نہیں تھا اس کے باوجود اس وقت اس کی گردن میں جھولتے اس موتی کو دیکھ کر بےاختیار وہ یاد آئی تھی۔کیوں۔۔۔۔۔؟اب پھر کیوں۔۔۔۔۔؟آخر اس وقت کیوں۔۔۔۔۔؟وہ بےحد مشتعل ہو رہا تھ

anusinha
 

اور کاؤنٹر پر پڑا ہوا گلاس اٹھا لیا۔وینس ہکا بکا اسے دیکھ رہی تھی۔
"کیا ہوا؟"وہ چند قدم آگے بڑھ آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ تشویش سے پوچھا۔
سالار نے کچھ کہے بغیر ایک ہی سانس میں خالی کیا۔وینس اس کے جواب نہ دینے پر اب کچھ اُلجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔
وینس میں اس کی دلچسپی ختم ہونے میں صرف چند منٹ لگے تھے۔وہ نہیں جانتا اسے کیوں اس کے وجود سے اُلجھن ہونے لگی تھی۔وہ پچھلے دو گھنٹے ایک نائٹ کلب میں اس کے ساتھ ڈانس کرتا رہا تھا اور وہ اس کے ساتھ بےحد خوش تھا اور اب چند منٹوں میں۔۔۔۔۔۔"
سالار نے اپنے کندھے جھٹکے اور سنک کی طرف چلا گیا۔وہ اپنا گلاس دھونے لگا۔وینس دوسرا گلاس لے کر اس کے پاس چلی آئی۔سالار نے اس سے گلاس لے لیا۔وہ اپنے سینے پر دونوں بازو لپیٹے اس کے بالکل پاس کھڑی اسے دیکھتی رہی۔

anusinha
 

سالار نے اسے اپنے کچھ اور قریب کیا اور پھر یک دم ساکت ہو گیا۔اس کی نظریں وینس کی گردن کی زنجیر میں جھولتے اس موتی پر پڑی تھیں ، جسے آج اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔سردی کے موسم کی وجہ سے وینس بھاری بھرکم سویٹرز اور جیکٹس پہنا کرتی تھی۔اس نے ایک دو بار اس کے کھلے کالر سے نظر آنے والی اس زنجیر کو دیکھا تھا مگر اس زنجیر میں لٹکا ہوا وہ موتی آج پہلی بار اس کی نظروں میں آیا تھا کیونکہ آج پہلی بار وینس ایک گہرے گلے کی شرٹ میں ملبوس تھی۔وہ اس شرٹ کے اوپر ایک سویٹر پہنے ہوئے تھی جسے اس نے سالار کے اپارٹمنٹ میں آ کر اُتار دیا تھا۔
اس کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ایک جھماکے کے ساتھ وہ موتی اسے کہیں اور۔۔۔۔۔کہیں بہت پیچھے ۔۔۔۔۔کسی اور کے پاس لے گیا تھا۔۔۔۔۔مسح کرتے ہاتھ اور انگلیاں ۔۔۔۔۔ہاتھ اور کلائی۔۔۔۔۔کلائی سے کہنی تک کا سفر کرتی انگلیاں۔۔۔۔

anusinha
 

مگر اس وقت وینس کو یہ سب کچھ بتانا اسے خوش فہمی کا شکار کرنے کے مترادف تھا۔
"اگر میں آپ کو کافی کی دعوت دوں تو؟"وینس نے اپنا تعارف کروانے کے بعد کہا۔
"تو میں اسے قبول کر لوں گا۔"
وہ اس کی بات پر ہنسی۔"تو پھر چلتے ہیں ، کافی پیتے ہیں۔"سالار نے کندھے اُچکائے اور کتاب کو دوبارہ شیلف میں رکھ دیا۔
کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر وہ دونوں تقریباً آدھہ گھنٹہ تک ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔یہ وینس کے ساتھ اس کی شناسائی کا آغاز تھا۔سالار کے لیے کسی لڑکی کے ساتھ تعلقات بڑھانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔وہ یہ کام بہت آسانی سے کر لیا کرتا تھا۔اس بار مزید آسانی یہ تھی کہ پہل وینس کی طرف سے ہوئی تھی۔
تین چار ملاقاتوں کے بعد اس نے ایک رات وینس کو اپنے فلیٹ پر رات گزارنے کے لیے انوائٹ کر لیا تھا اور وینس نے کسی تامل کے بغیر اس کی دعوت قبول کر لی۔

anusinha
 

وینس نے بڑی گرم جوشی سے کہا۔سالار نے اسے یہ نہیں کہا کہ اسے بھی تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔وہ اپنی کلاس کے پچاس کے پچاس لوگوں کو ان کے نام سے جانتا اور پہچانتا تھا۔نہ صرف یہ بلکہ وہ بریف بائیوڈیٹا بھی بغیر اٹکے کسی غلطی کے بتا سکتا تھا۔جیسے وہ اس وقت وینس کو یہ بتا کر حیران کر سکتا تھا کہ وہ نیو جرسی سے آئی تھی۔وہاں وہ سال ایک ہیوریج کمپنی میں کام کرتی رہی تھی۔اس کے پاس مارکیٹنگ میں ایک ڈگری تھی اور وہ اب دوسری ڈگری کے لیے وہاں آئی تھی اور وہ اس سے کم از کم چھ سات سال بڑی تھی۔اگرچہ اپنے قدوقامت سے سالار اس سے بہت بڑا لگتا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ وہ اس وقت اپنے بیچ میں سب سے کم عمر تھا۔اپنے بیچ میں صرف وہی تھا جو کسی قسم کی جاب کیے بغیر سیدھا ایم بی اے کے لیے آیا تھا۔باقی سب کے پاس کہیں نہ کہیں کچھ سال کام کرنے کا تجربہ تھا

anusinha
 

اور پھر اگلے ہی لمحے خود کو جھڑکا۔"فارگاڈ سیک سالار ! دفع کرو اسے ، جانے دو ، کیوں خوامخواہ اس کے پیچھے پڑ گئے ہو۔یہ جان کر آخر کیا مل جائے گا کہ ہاشم مبین اس تک پہنچے ہیں یا نہیں۔"اس نے بےاختیار خود کو جھڑکا مگر اس کا تجسس ختم نہیں ہوا۔
"واقعی میں نے یہاں آنے کے بعد یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ ہاشم مبین اب تک اس تک پہنچے ہیں یا نہیں۔"اسے حیرانی ہو رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"میرا نام وینس ایڈورڈ ہے۔"
وہ لڑکی اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولی تھی۔وہ اس وقت لائبریری کی بک شیلف سے ایک کتاب نکال رہا تھا ، جب وہ اس کے قریب آئی تھی۔
"سالار سکندر ! "اس نے وینس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
"میں جانتی ہوں ، تمہیں تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔"
وینس نے بڑی گرم جوشی سے کہا۔سالار نے اسے یہ نہیں کہا کہ اسے بھی تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔

anusinha
 

جو وہ لڑکی چاہتی تھی۔شاید اسے کسی حد تک یہ تسکین ہوئی تھی کہ اس نے امامہ کی بات نہیں مانی مگر۔۔۔۔۔وہ امامہ نہیں تھی۔
"آخر کیا ہو رہا ہے مجھے ، اس طرح تو۔۔۔۔۔"اس نے حیران ہوتے ہوئے سوچا۔وہ جیب میں سے ایک سگریٹ نکال کر سلگانے لگا۔سگریٹ کے کش لیتے ہوئے وہ ایک بار پھر اس لڑکی کو دیکھنے لگا جو اپنے بچے کو فٹ بال کے ساتھ کھیلتے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔سالار اسے دیکھ رہا تھا اور اس کے علاوہ ہر شے سے بےنیاز نظر آ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس رات وہ کافی دیر تک امامہ کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔اس کے اور جلال انصر کے بارے میں اسے یقین تھا اب تک وہ دونوں شادی کر چکے ہوں گے ، کیونکہ اپنا نکاح نامہ سکندر سے حاصل کرنے کے بعد وہ یہ جان چکی ہو گی کہ طلاق کا حق پہلے ہی اس کے پاس تھا۔اسے اس سلسلے میں سالار کی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔

anusinha
 

جو تیز رفتاری سے اس بال کے پیچھے اس کی طرف آیا تھا۔
اس کے بالکل پاس آنے کی بجائے وہ کچھ دُور رک گیا۔شاید وہ توقع کر رہا تھا کہ سالار بال کو اس کی طرف لڑھکا دے گا مگر سالار اسی طرح فٹ بال پر ایک پاؤں رکھے بائیں ہاتھ سے آئس کریم کھاتے ہوئے دور کھڑی اس لڑکی کو دیکھتا رہا۔شاید اسے توقع تھی کہ اب وہ قریب آئے گی۔ایسا ہی ہوا تھا۔کچھ دیر تک اسے فٹ بال نہ چھوڑتے دیکھ کر وہ لڑکی کچھ حیرانی سے آگے اس کی طرف آئی تھی۔
"یہ فٹ بال چھوڑ دیں۔"
اس نے قریب آ کر بڑی شائستگی سے کہا۔سالار چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے فٹ بال سے اپنا پاؤں اٹھایا اور وہیں بیٹھے بیٹھے فٹ بال کو ایک زور دار کک لگائی۔
فٹ بال اڑتے ہوئے بہت دور جا گری۔کک لگانے کے بعد اس نے اطمینان سے اس لڑکی کو دیکھا۔اس کا چہرا اب سُرخ ہو رہا تھا جبکہ وہ بچہ ایک بار پھر

anusinha
 

بہت لاپرواہی سے ایک آئس کریم اسٹک کھاتے ہوئے وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے میں مصروف تھا جب اس کی توجہ تین سال کے ایک بچے نے اپنی طرف مبذول کر لی۔وہ بچہ ایک فٹ بال کے پیچھے دوڑ رہا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر سیاہ حجاب اوڑھے ایک لڑکی کھڑی تھی جو مسکراتے ہوئے اس بچے کو دیکھ رہی تھی۔وہ وہاں موجود بہت سے ایشین میں سے ایک تھی مگر حجاب میں ملبوس واحد لڑکی تھی۔وہ لاشعوری طور پر اسے دیکھے گیا۔وہ بچہ فٹ بال کو پاؤں سے ٹھوکر لگاتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کی بینچ کی طرف آ گیا تھا۔ایک اور ٹھوکر نے بال کو سیدھا سالار کی طرف بھیج دیا۔کسی غیر ارادی عمل کے تحت سالار نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے اپنے دائیں پاؤں میں پہنے ہوئے جاگر کی مدد سے اس بال کو روکا اور پھر پاؤں ہٹایا نہیں بلکہ اسی طرح فٹ بال پر ہی رکھا مگر اس بار اس کی نظر اس لڑکی کی بجائے اس بچے پر تھی

anusinha
 

مگر تم کو تو شاید کوئی فوبیا ہو گیا ہے۔تم اس طرح ری ایکٹ کر رہے ہو جیسے میں نے اپنے پورے فلیٹ میں اس جانور کو پالا ہوا ہے اور رات دن ان ہی کے ساتھ رہتا ہوں۔"سالار ناراض سا ہو گیا۔
"چلو باہر چلتے ہیں۔"سعد نے اس کی ناراضی کو ختم کرتے ہوئے کہا۔
"باہر چل کر کچھ کھائیں گے تو میں بل پے نہیں کروں گا ، تم کرو گے۔"سالار نے کہا۔
"ٹھیک ہے ، میں کر دوں گا ، نو پرابلم۔تم چلو۔"سعد نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔
"اور اگلی دفعہ تم میرے اپارٹمنٹ پر آتے ہوئے گھر سے کچھ کھانے کے لیے لے کر آنا۔"سالار نے قدرے طنزیہ لہجے میں اس سے کہا۔
"اچھا لے آؤں گا۔"سعد نے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس ویک اینڈ پر جھیل کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔اس کی طرح بہت سے لوگ وہاں پھر رہے تھے۔وہ کچھ دیر اِدھر اُدھر پھرنے کے بعد ایک بینچ پر آ کر بیٹھ گیا۔

anusinha
 

"کیا ہوا؟"سالار نے اس سے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
سعد نے جواب میں کچھ نہیں کہا وہ اسی طرح کلمہ پڑھتے ہوئے ہاتھ دھوتا رہا۔سالار چھبتی ہوئی نظروں سے ہونٹ بھینچے اسے دیکھتا رہا۔ہاتھ دھونے کے بعد اس نے سالار سے کہا۔
"میں تو اس فریج میں رکھی کوئی چیز نہیں کھا سکتا ، بلکہ تمہارے برتنوں میں بھی نہیں کھا سکتا۔اگر تم یہ برگر کھا لیتے ہو تو اور بھی کیا کچھ نہیں کھا لیتے ہو گے۔چلو باہر چلتے ہیں ، وہیں جا کر کچھ کھاتے ہیں۔"
"یہ بہت انسلٹنگ ہے۔"سالار نے قدرے ناراضی سے کہا۔
"نہیں ، انسلٹ والی تو کوئی بات نہیں ہے۔بس میں یہ حرام گوشت نہیں کھانا چاہتا اور تم اس معاملے میں پرہیز کے عادی نہیں ہو۔"سعد نے کہا۔
"میں نے تمہیں یہ گوشت کھلانے کی کوشش نہیں کی۔تم نہیں کھاتے ، اس لیے میں نے وہ برگر پکڑتے ہی تمہیں منع کر دیا۔"سالار نے کہا۔"

anusinha
 

سالار پچھلی رات ایک فاسٹ فوڈ outlet سے اپنا پسندیدہ برگر لے کر آیا تھا۔وہ فریج میں پڑا تھا۔سعد نے اسے نکال لیا۔
"اسے رکھ دو ، یہ تم نہ کھانا۔"سالار نے جلدی سے کہا۔
"کیوں؟"سعد نے مائیکروویو کی طرف جاتے ہوئے پوچھا۔
"اس میں پورک (سؤر کا گوشت) ہے۔"سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"مذاق مت کرو۔"سعد ٹھٹک گیا۔
"اس میں مذاق والی کون سی بات ہے۔"سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا۔سعد نے جیسے پھینکنے والے انداز میں پلیٹ شیلف پر رکھ دی۔
"تم پورک کھاتے ہو؟"
"میں پورک نہیں کھاتا۔میں صرف یہ برگر کھاتا ہوں کیونکہ یہ مجھے پسند ہے۔"سالار نے برنر جلاتے ہوئے کہا۔
"تم جانتے ہو ، یہ حرام ہے؟"

anusinha
 

اس طرح تم بھی مجھ سے یہ نہ کہو کہ میں نماز پڑھوں۔"سالار نے انتہائی صاف گوئی سے کہا تو سعد خاموش ہو گیا۔
مگر کچھ دنوں بعد وہ اس کے اپارٹمنٹ پر آیا۔سالار اس کی تواضع کے لیے کچھ لانے کے لیے کچن میں گیا تو سعد بھی اس کے پیچھے ہی آ گیا۔اس نے باتوں کے دوران فریج کھول لیا اور اس میں موجود کھانے کی چیزوں پر نظر دوڑانے لگا۔سالار پچھلی رات ایک فاسٹ فوڈ outlet سے اپنا پسندیدہ برگر لے کر آیا تھا۔وہ فریج میں پڑا تھا۔سعد نے اسے نکال لیا۔
"اسے رکھ دو ، یہ تم نہ کھانا۔"سالار نے جلدی سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

anusinha
 

یہ کچھ اوور ایکٹنگ ٹائپ چیز ہو جاتی ہے۔"سالار نے بڑی صاف گوئی کے ساتھ کہا۔"تم تھکتے نہیں ہو ہر وقت نمازیں پڑھ کر۔"
"یہ فرض ہے۔اللہ کی طرف سے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں ، اسے ہر وقت یاد رکھیں۔"سعد نے زور دیتے ہوئے کہا۔سالار نے ایک جماہی لی۔
"تم بھی عبادت کیا کرو ، آخر تم بھی مسلمان ہو۔"سعد نے اس سے کہا
"میں جانتا ہوں اور عبادت نہ کرنے سے کیا میں مسلمان نہیں رہوں گا۔"اس نے کچھ تیکھے لہجے میں سعد سے کہا۔
"صرف نام کا مسلمان بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہو تم؟"
"سعد ! پلیز اس قسم کے فضول ٹاپک پر بات مت کرو۔میں جانتا ہوں تمہیں مذہب میں دلچسپی ہے مگر مجھے نہیں ہے۔بہتر ہے ہم ایک دوسرے کی رائے اور جذبات کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے پر کچھ ٹھونسنے کی کوشش نہ کریں۔جیسے میں تم سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تم نماز چھوڑ دو ،

anusinha
 

ان چار میں سے دو عرب اور ایک بنگلہ دیشی کے علاوہ ایک اور پاکستانی تھا۔وہ تمام اسٹوڈنٹس تھے۔
سعد پہلی ہی ملاقات میں سالار سے بہت بےتکلف ہو گیا تھا۔سالار کے امریکی دوست جیف نے جب سعد کو سالار کی اکیڈیمک کامیابیوں کے بارے میں بتایا تو ہر ایک کی طرح سعد بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکا۔
سالار کو سعد کا چہرہ دیکھ کر اور خاص طور پر اس کی داڑھی دیکھ کر ہمیشہ جلال کا خیال آتا۔داڑھی کی وجہ سے دونوں میں عجیب سی مماثلت اور مشابہت نظر آتی۔کئی بار دوسرے دوستوں کے علاوہ سعد بھی ویک اینڈ پر اس کے ساتھ ہوتا۔
"تم مسلمان ہو لیکن مذہب کی سرے سے پابندی نہیں کرتے۔"سعد نے ایک دفعہ سالار سے کہا تھا۔
"اور تم ضرورت سے زیادہ مذہبی ہو۔"سالار نے جواباً کہا۔
"کیا مطلب؟"
"مطلب یہ کہ جس طرح تم پانچ وقت کی نمازیں پڑھتے رہتے ہو اور ہر وقت اسلام کی بات کرتے رہتے ہو