وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں اس کے حلقہ احباب میں اضافہ ہونے لگا اور اسی حلقہ احباب میں ایک نام سعد کا تھا۔اس کا تعلق کراچی سے تھا۔سالار کی طرح وہ بھی امیر کبیر گھرانے سے تعلق تھا مگر سالار کے برعکس اس کا گھرانہ خاصا مذہبی تھا۔یہ سالار کا اندازہ تھا۔سعد کی حس مزاح بہت اچھی تھی اور وہ بہت ہینڈسم بھی تھا۔نیوہیون میں ایک امریکی دوست کے توسط سے اس کی ملاقات سعد سے ہوئی تھی اور اس کی طرف دوستی میں پہل کرنے والا سعد ہی تھا۔سالار نے اس دوستی کو قبول کرنے میں قدرے تامل کیا کیونکہ اسے یوں لگتا تھا جیسے سعد اور اس کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔سعد وہاں سے ایم فل کر رہا تھا۔سالار کے برعکس وہ پڑھائی کے ساتھ جاب بھی کرتا تھا۔اس کا حلیہ اس کی مذہب سے جذباتی وابستگی بتانے کے لیے کافی تھا۔اس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور مذہب کے بارے میں اس کا علم
اب اسے وہ سب کچھ ایک ایڈونچر سے زیادہ حماقت لگتا۔وہ کسی سائیکالوجسٹ کی طرح امامہ کے بارے میں اپنے رویے کا تجزیہ کرتا اور مطمئن ہو جاتا۔
"جوں جوں وقت گزرتا جائے گا وہ مکمل طور پر میرے ذہن سے نکل جائے گی نہ بھی نکلی تب بھی مجھے کیا فرق پڑے گا۔"وہ سوچتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کہ آخر وہ امامہ جیسی لڑکی مدد کرنے پر تیار کیسے ہو گیا تھا اور اس حد تک مدد کہ۔۔۔۔۔
وہ اب ان تمام واقعات کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی کوفت محسوس کرتا تھا۔آخر میں نے اس کی مدد کیوں کی جبکہ مجھے جو کرنا چاہئیے تھا کہ اس کے رابطہ کرنے پر میں وسیم کو ، اس کے والدین کو یا خود اپنے والدین کو اس سارے معاملے کے بارے میں بتا دیتا یا پھر جلال کے بارے میں انہیں بتا دیتا یا پھر اس کے کہنے پر اس کے ساتھ سرے سے نکاح کرتا ہی نہ یا اسے گھر سے فرار ہونے میں تو کبھی اس طرح مدد نہ کرتا۔
بعض دفعہ اسے لگتا کہ جیسے وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح اس کے ہاتھوں میں استعمال ہوا تھا۔اتنی فرنبرداری ، اتنی تابع داری آخر کیوں۔۔۔۔۔؟جبکہ وہ اس کے ساتھ کوئی تعلق یا واسطہ نہیں رکھتی تھی اور وہ کسی طرح سے بھی اس کی مدد کرنے پر مجبور نہیں تھا۔
پڑھائی سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنا زیادہ تر وقت بے کار پھرنے میں ضائع کرتا تھا۔خاص طور پر ویک اینڈز۔۔۔۔۔سینما ، کلبز ، ڈسکوز ، تھیٹرز ۔۔۔۔۔اس کی زندگی ان ہی چاروں کے درمیان تقسیم شدہ تھی۔ہر نئی فلم ، ہر نیا اسٹیج پلے ، ہر نیا کنسرٹ ، اور کوئی بھی نئی انسسٹر و مینٹل پرفارمنس وہ نہیں چھوڑتا تھا یا پھر ہر نیا چھوٹا ، بڑا ریسٹورنٹ ، مہنگے سے مہنگا اور سستے سے سستا ۔۔۔۔۔اسے ہر ایک کے بارے میں مکمل معلومات تھیں۔
اور سب کے درمیان وہ ایڈونچر اس کے ذہن میں اب تک تھا جس کی وجہ سے وہ امریکہ میں موجود تھا۔سکندر کو اس کے نکاح کا پتا کب چلا تھا ، کیسے چلا تھا ، سالار نے جاننے کی کوشش نہیں کی مگر وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ سکندر عثمان کو اس کے بارے میں کیسے پتا چلا ہو گا
نہ ہی اس کا سارا وقت پڑھائی میں گزرتا تھا۔پہلے کی نسبت اسے کچھ زیادہ وقت دینا پڑتا تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے لئے اور اپنی سرگرمیوں کے لئے وقت نکال لیا کرتا تھا۔
وہ وہاں کسی ہوم سکنیس کا شکار نہیں تھا کہ چوبیس گھنٹے پاکستان کو یاد کرتا رہتا یا پاکستان کے ساتھ اس طرح کے عشق میں مبتلا ہوتا کہ ہر وقت اس کے کلچر کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کرتا نہ ہی امریکہ اس کے لیے کوئی نئی اور اجنبی جگہ تھی اس لیے اس نے وہاں موجود پاکستانیوں کو تلاش کرنے اور ان کے ساتھ روابط بڑھانے کی دانستہ طور پر کوئی کوشش نہیں کی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود بخود وہاں موجود کچھ پاکستانیوں سے اس کی شناسائی ہو گئی۔
یونیورسٹی کی دوسری بہت سی سوسائٹیز ، ایسوسی ایشنز اور کلبز میں اس کی دلچسپی تھی اور اس پاس ان کی ممبر شپ بھی تھی۔
میں فطری طور پر لے کر آتے ہیں۔اس نے بچپن ہی سے بہترین اداروں میں پڑھا تھا۔ایسے ادارے جہاں پڑھانے والے زیادہ تر غیر ملکی تھے اور وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ بھی کوئی علم کے بہتے ہوئے سر چشمے نہیں ہوتے۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ Yale نے اسکالر شپ دے کر اس پر کوئی احسان نہیں کیا وہ اگر باقی دونوں یونیورسٹیز میں سے کسی کا انتخاب کرتا تو اسکالر شپ اسے وہاں سے بھی مل جاتا اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تب بھی اسے یہ معلوم تھا کہ اس کے ماں باپ کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ وہ جہاں چاہتا ایڈمیشن لے سکتا تھا۔اگر اپنے فیملی بیک گراؤنڈ اسٹیٹس اور قابلیت کا زعم نہ ہوتا تب بھی سالار سکندر اس قدر تلخ اور الگ تھلگ نیچر رکھتا تھا کہ وہ کسی کو اپنی خوش اخلاقی کے جھوٹے مظاہرہ سے متاثر نہیں کر سکتا تھا۔رہی سہی کسر اس کے آئی کیو لیول نے پوری کر دی تھی۔
دوسری طرف سکندر اور طیبہ واپس پاکستان جاتے ہوئے بےحد فکرمند بلکہ کسی حد تک خوفزدہ بھی تھے۔
وہ Yale سے فنانس میں ایم بی اے کرنے آیا تھا اور اس نے وہاں آنے کے چند ہفتوں کے اندر ہی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا۔
پاکستان میں جن اداروں میں وہ پڑھتا رہا تھا اگرچہ وہ بھی بہت اچھے تھے مگر وہاں تعلیم اس کے لیے کیک واک تھی۔Yale میں مقابلہ بہت مشکل تھا وہاں بےحد قابل لوگ اور ذہین اسٹوڈنٹ موجود تھے۔اس کے باوجود وہ بہت جلد نظروں میں آنے لگا تھا۔
اس میں اگر ایک طرف اس کی غیر عمولی ذہنی صلاحیتوں کا دخل تھا تو دوسری طرف اس کے رویے کا بھی۔ایشین اسٹوڈنٹس والی روایتی ملنساری اور خوش اخلاقی اس میں مفقود تھی۔اس میں لحاظ و مروت بھی نہیں تھی اور نہ ہی وہ احساسِ کمتری اور مرعوبیت تھی جو ایشین اسٹوڈنٹس امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیز
کہ وہ سالار پر نظر کیسے رکھ سکیں گے۔سالار نے ان یونیورسٹیز میں سے Yale کو چُنا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ صرف Yale میں ان کا کوئی شناسا اور واقف کار نہیں تھا ، بلکہ New Haven میں بھی سکندر عثمان کا کوئی رشتہ دار اور دوست نہیں تھا۔
رزلٹ آنے کے بعد اسے یونیورسٹی سے میرٹ اسکالر شپ بھی مل گیا تھا۔اپنے باقی بھائیوں کے برعکس اس نے ضد کر کے ہوسٹل میں رہنے کے بجائے ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا تھا۔سکندر عثمان اسے اپارٹمنٹ میں رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے ، مگر اسکالرشپ ملنے کی وجہ سے اس کے پاس اتنی رقم آ گئی تھی کہ وہ خود ہی کوئی اپارٹمنٹ لے لیتا کیونکہ یونیورسٹی کے اخراجات کے لیے سکندر اس کے کاؤنٹ میں پہلے ہی ایک لمبی چوڑی رقم جمع کروا چکے تھے حالانکہ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا بھی اسکالر شپ لے رہا تھا
وہ اپنی فیملی سے اتنا اٹیچ نہیں تھا کہ ان کی کمی محسوس کرتا یا ہوم سکنیس کا شکار ہوتا۔یہ صرف اس طرح اچانک وہاں بھجوائے جانے کا نتیجہ تھا کہ وہ اس طرح اضطراب کا شکار ہو رہا تھا۔
کامران سارا دن یونیورسٹی میں ہوتا اور اگر وہ گھر آتا بھی تو اپنی اسٹڈیز میں مصروف ہو جاتا۔اس کے ایگزامز قریب تھے جبکہ سالار سارا دن یا تو اپارٹمنٹ میں بیٹھا فلمیں دیکھتا رہتا یا پھر چینلز گھمانے میں مصروف رہتا اور جب وہ ان دونوں کاموں سے بیزار ہو جاتا تو آوارہ گردی کے لیے نکل جاتا۔اس نے وہاں اپنے قیام کے دوران نیو یارک میں اس علاقے کا چپہ چپہ چھان مارا تھا جہاں کامران رہ رہا تھا۔وہاں کا کوئی نائٹ کلب ، ڈسکو ، پب ، بار ، تھیٹر ، سینما یا میوزیم اور آرٹ گیلری ایسی نہیں تھی جہاں وہ نہ گیا ہو۔
اس کا اکیڈیمک ریکارڈ ایسا تھا
یہ سمجھتے ہوئے کہ مجھے تو کبھی حقیقت کا پتا ہی نہیں چلے گا۔میرا دل تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں امریکہ بھیجنے کی بجائے ہاشم مبین کے حوالے کر دوں تاکہ تمہیں اندازہ ہو اپنی حماقت کا ، مگر میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تمہارا باپ ہوں ، مجھے تمہیں بچانا ہی ہے۔تم میری اس مجبوری کا آج تک فائدہ اٹھاتے رہے ہو مگر آئندہ نہیں اٹھا سکو گے۔میں تمہارا نکاح نامہ امامہ کے حوالے کر دوں گا اور اگر مجھے دوبارہ یہ پتا چلا کہ تم نے اس سے رابطہ کیا ہے یا رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو تو میں اس بار جو کروں گا تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔تم میرے لیے کافی مصیبتیں کھڑی کر چکے ہو ، اب ان کا سلسلہ بند ہو جانا چاہئیے سمجھے تم۔"
انہوں نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔وہ جواب میں کچھ کہنے کی بجائے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔اس کے انداز میں عجیب طرح کی لاپرواہی اور اطمینان تھا
رات کو ائیر پورٹ چھوڑنے کے لیے صرف سکندر اس کے ساتھ آئے تھے ، طیبہ نہیں۔ان کا لہجااور انداز بےحد روکھا اور خشک تھا۔سالار نے بھی اس بار کوئی سوال نہیں کیا۔ائیرپورٹ جاتے ہوئے سکندر عثمان نے اپنا بریف کیس کھول کر ایک سادہ کاغذ اور قلم نکالا اور بریف کیس کے اوپر رکھ کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
"اس پر سائن کر دو۔"
"یہ کیا ہے؟"سالار نے حیرانی سے اس سادہ کاغذ کو دیکھا۔
"تم صرف سائن کرو ، سوال مت کرو۔"انہوں نے بے حد روکھے انداز میں کہا۔سالار نے مزید کچھ کہے بغیر ان کے ہاتھ میں پکڑا ہوا قلم لے کر اس کاغذ پر سائن کر دیے۔سکندر نے اس کاغذ کو تہہ کر کے بریف کیس میں رکھا اور بریف کیس کو دوبارہ بند کر دیا۔
"جو کچھ تم کر چکے ہو ، اس کے بعد تم سے کچھ کہنا یا کوئی بات کرنا بےکار ہے۔تم مجھ سے ایک کے بعد دوسرا ، اور دوسرے کے بعد تیسرا جھوٹ بولتے رہے۔
دوبارہ دیکھنے کی زحمت کی ، ورنہ وہ بہت پہلے وہاں اس کی عدم موجودگی سے واقف ہو جاتا۔
جس دن وہ آخری پیپر دے کر واپس گھر آیا۔سکندر عثمان کو اس نے اپنا منتظر پایا۔
"تم اپنا سامان پیک کر لو ، آج رات کی فلائٹ سے تم امریکہ جا رہے ہو ، کامران کے پاس۔"
"کیوں پاپا ! اس طرح اچانک۔۔۔۔۔سب کچھ ٹھیک تو ہے؟"
"تمہارے علاوہ سب کچھ ٹھیک ہے۔"سکندر نے تلخی سے کہا۔
"مگر پھر آپ مجھے اس طرح اچانک کیوں بھیج رہے ہیں؟"
"یہ میں تمہیں رات کو ائیرپورٹ چھوڑنے کے لیے جاتے ہوئے بتاؤں گا۔فی الحال تم جا کر اپنا سامان پیک کرو۔"
"پاپا پلیز ! آپ مجھے بتائیں آپ اس طرح مجھے کیوں بھجوا رہے ہیں؟"سالار نے کمزور احتجاج کیا۔
"میں نے کہا نا میں تمہیں بتا دوں گا۔تم جا کر اپنا سامان پیک کرو ، ورنہ میں تمہیں سامان کے بغیر ہی ائیرپورٹ چھوڑ آؤں گا۔"
سکندر نے اسے دھمکایا۔
اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھے کہ سالار اور امامہ کے درمیان کوئی رابطہ نہیں تھا۔سالار کی طرح خود انہوں نے موبائل پر بار بار اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔
سکندر نے سالار کو امریکہ میں مختلف یونیورسٹیز میں اپلائی کرنے کے لیے کہہ دیا تھا۔وہ جانتے تھے کہ اس کا اکیڈیمک ریکارڈ ایسا تھا کہ کوئی بھی یونیورسٹی اسے لینے میں خوشی محسوس کرے گی
امامہ نے سالار کو دوبارہ فون نہیں کیا تھا حالانکہ سالار کا خیال تھا کہ وہ اسے دوبارہ فون کرے گی اور تب وہ اسے بتا دے گا کہ وہ اسے نکاح نامے میں پہلے ہی طلاق کا حق دے چکا ہے اور وہ نکاح نامے کی کاپی بھی اس کے حوالے کر دے گا۔وہ اس سے یہ بھی کہہ دے گا کہ اس نے اس کے ساتھ صرف ایک مذاق کیا تھا مگر امامہ نے اس سے دوبارہ رابطہ قائم نہیں کیا ، نہ ہی سالار نے اپنے پیپرز میں اس نکاح نامے کو
میری زندگی میں آئے۔جلال مجھے نہیں ملا مگر میں تمہارے ساتھ بھی زندگی نہیں گزاروں گی۔"اس نے بے حد تلخ انداز میں تمام لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا۔
"شاید اسی لیے جلال نے بھی تم سے شادی نہیں کی ، کیونکہ نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں ہوتی ہیں ، تمہارے جیسی نہیں۔"سالار نے اسی ٹکڑا توڑ انداز میں جواب دیا۔
دوسری طرف خاموشی رہی۔اتنی لمبی خاموشی کہ سالار کو اسے مخاطب کرنا پڑا۔"ہیلو۔۔۔۔۔تم سن رہی ہو؟"
"سالار ! مجھے طلاق دے دو۔"اسے امامہ کی آواز بھرائی ہوئی لگی۔سالار کو ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا۔
"تم کورٹ میں جا کر لے لو ، جیسے تم مجھ سے کہہ چکی ہو۔"سالار نے ترکی بہ ترکی کہا اور دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔
حسن نے ان چند ماہ میں سالار سے امامہ کے بارے میں جاننے کی بےحد کوشش کی تھی (حسن کے اپنے بیان کے مطابق ) مگر وہ ناکام رہا تھا۔
اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔کم از کم تم تو میری مشکلات کو نہ بڑھاؤ۔"اس بار امامہ کے لہجے میں رنجیدگی و بےچارگی تھی۔وہ کچھ اور محفوظ ہوا۔
"میں تمہارے مسائل میں اضافہ کر رہا ہوں۔۔۔۔۔؟مائی ڈئیر ! میں تو تمہاری ہمدردی میں گھل رہا ہوں ، تمہارے مسائل کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔تم خود سوچو ، میرے ساتھ رہ کر تم کتنی اچھی اور محفوظ زندگی گزار سکتی ہو۔"وہ بظاہر بڑی سنجیدگی سے بولا۔
"تم جانتے ہو نا ، میں نے اتنی مشکلات کس لیے سہی ہیں۔تم سمجھتے ہو ، میں ایک ایسے شخص کے ساتھ رہنے پر تیار ہو جاؤں گی جو ہر وہ کبیرہ گناہ کرتا ہے جسے میرے پیغمبر ﷺ نا پسند کرتے ہیں۔نیک عورتیں نیک مردوں کے لیے ہوتی ہیں اور بری عورتیں برے مردوں کے لیے۔میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں مگر میں اتنی بری نہیں ہوں کہ تمہارے جیسا برا مرد
میرے لیے کوئی بھی شخص جلال جیسا نہیں ہو سکتا اور تم۔۔۔۔۔تم تو کسی صورت بھی نہیں۔"اس کی آواز میں پہلی بار نمایاں خفگی تھی۔
"کیوں؟"سالار نے بےحد معصومیت سے پوچھا۔
"تم مجھے اچھے نہیں لگتے ہو۔آخر تم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے۔دیکھو ، تم نے اگر مجھے طلاق نہ دی تو میں کورٹ میں چلی جاؤں گی۔"وہ اب اسے دھمکا رہی تھی۔سالار اس کی بات پر بےاختیار ہنسا۔
"یو آر موسٹ ویلکم۔جب چاہیں جائیں۔کورٹ سے اچھی جگہ میل ملاقات کے لیے اور کون سی ہو گی۔آمنے سامنے کھڑے ہو کر بات کرنے کا مزہ ہی اور ہو گا۔"وہ محفوظ ہو رہا تھا۔
"ویسے تمہیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئیے کہ کورٹ میں صرف میں نہیں پہنچوں گا ، بلکہ تمہارے پیرنٹس بھی پہنچیں گے۔"وہ استہزائیہ انداز میں بولا۔
"سالار ! میرے لیے پہلے ہی بہت سے پرابلمز ہیں تم ان میں اضافہ نہ کرو۔میری زندگی بہت مشکل ہے
زندگی کی فلاسفی ہی مختلف ہے۔ہم دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔"اس بار وہ جھنجلائی۔
"نہیں۔۔۔۔۔نہیں میری اور تمہاری فلاسفی آف لائف بہت ملتی ہے۔تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر یہ ملتی نہ بھی ہوئی تو بھی ذرا سے ایڈجسٹمنٹ کے بعد ملنے لگے گی۔"وہ اس طرح بولا جیسے اپنے بہترین دوست سے گفتگو کر رہا ہو۔
"ویسے بھی مجھ میں کمی کیا ہے۔میں تمہارے پُرانے منگیتر اسجد سے خوبصورت نہ سہی مگر جلال انصر جیسا معمولی شکل و صورت کا بھی نہیں ہوں۔میری فیملی کو تم اچھی طرح جانتی ہو۔کیرئیر میرا کتنا برائٹ ہو گا ، اس کا تمہیں اندازہ ہے۔میں ہر لحاظ سے جلال سے بہتر ہوں۔"وہ اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے بولا۔اس کی آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔وہ امامہ کو بری طرح زچ کر رہا تھا اور وہ ہو رہی تھی۔
"
یا مجھے تم سے یہ ریکویسٹ کرنی چاہئیے کہ آؤ ! اس نا ممکن کو مل کر ممکن بنائیں۔"وہ اب مذاق اڑا رہا تھا۔
"تم نے مجھ پر بہت احسان کیے ہیں ، ایک احسان اور کرو۔مجھے طلاق دے دو۔"
"نہیں ، میں تم پر احسان کرتے کرتے تھک گیا ہوں ، اب اور نہیں کر سکتا اور یہ والا احسان یہ تو نا ممکن ہے۔"سالار ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا تھا۔
" میں تمہارے ٹائپ کی لڑکی نہیں ہوں سالار ! تمہارا اور میرا لائف اسٹائل بہت مختلف ہے ، ورنہ شاید میں تمہاری پیشکش پر غور کرتی مگر اب اس صورت میں یہ ممکن نہیں ہے۔تم پلیز ، مجھے طلاق دے دو۔"وہ اب نرم لہجے میں کہہ رہی تھی۔سالار کا دل بےاختیار ہنسنے کو چاہا۔
"تم اگر میری پیش کش پر غور کرنے کا وعدہ کرو تو میں اپنا لائف اسٹائل بدل لیتا ہوں۔"سالار نے اسی انداز میں کہا۔
"تم سمجھنے کی کوشش کرو ، تمہاری اور میری ہر چیز مختلف ہے۔
وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ دوسری طرف اس وقت امامہ کے پیروں کے نیچے سے حقیقتاً زمین نکل گئی ہو گی۔
"تم کیا کہہ رہے ہو؟"
"میں یہ کہہ رہا ہوں امامہ ڈئیر ! میں تمہیں طلاق دینا نہیں چاہتا ، نہ ہی دوں گا۔"اس نے ایک اور دھماکہ کیا۔
"تم۔۔۔۔۔تم طلاق کا حق پہلے ہی مجھے دے چکے ہو۔"امامہ نے بےاختیار کہا۔
"کب کہاں۔۔۔۔۔۔کس وقت۔۔۔۔۔۔کس صدی میں۔"سالار نے اطمینان سے کہا۔
"تمہیں یاد ہے ، میں نے نکاح سے پہلے تمہیں کہا تھا کہ نکاح نامے میں طلاق کا حق چاہتی ہوں میں۔اگر تم طلاق نہیں بھی دیتے تو میں خود ہی وہ حق استعمال کر سکتی ہوں۔تمہیں یہ یاد ہونا چاہئیے۔"وہ جتا رہی تھی۔
"اگر میں تمہیں یہ حق دیتا تو تم یہ حق استعمال کر سکتی تھی مگر میں نے تو تمہیں ایسا کوئی حق دیا ہی نہیں۔تم نے نکاح نامہ دیکھا وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔خیر تم نے دیکھا ہی ہو گا
تم چاہو تو اسے استعمال کرتی رہو۔"
"نہیں ، میں اب اسے استعمال نہیں کروں گی۔میری ضرورت ختم ہو چکی ہے۔"
اس نے کہا۔کچھ دیر وہ خاموش رہی پھر اس نے کہا۔"میں چاہتی ہوں کہ تم اب مجھے طلاق کے پیپرز بھجوا دو اور طلاق کے پیپرز کے ساتھ نکاح نامہ کی ایک کاپی بھی جو میں پہلے تم سے نہیں لے سکی۔"
"کہاں بھجواؤں؟"سالار نے اس کے مطالبے کا جواب کہا۔اس کے ذہن میں یک دم ایک جھماکا ہوا تھا۔وہ اگر اب طلاق کا مطالبہ کر رہی تھی تو اس کا مطلب یہی تھا کہ اس نے ابھی تک کسی سے شادی نہیں کی تھی نہ ہی طلاق کے اس حق کو استعمال کیا تھا ، جو نکاح نامہ میں وہ اس کی خواہش پر اسے تفویض کر چکا تھا۔
"تم اسی وکیل کے پاس وہ پیپرز بھجوا دو جس کو تم نے ہائر کیا تھا اور مجھے اس کا نام اور پتا لکھوا دو ، میں وہ پیپرز اس سے لے لوں گی۔"
سالار مسکرایا۔وہ بےحد محتاط تھی۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain