Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

اس بار امامہ کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔"میرا خیال تھا کہ انہیں کسی بھی طرح تم پر شک نہیں ہو گا۔مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے تمہیں اتنے پرابلمز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔"
"واقعی تمہاری وجہ سے مجھے بہت سے پرابلمز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔"
"میری کوشش تھی کہ میں پہلے خود کو محفوظ کر لوں پھر ہی تمہیں فون کروں اور اب میں واقعی محفوظ ہوں۔"
سالار نے کچھ تجسس آمیز دلچسپی کے ساتھ اس کی بات سنی۔"تمہارا موبائل اب میں استعمال نہیں کروں گی اور میں اسے واپس بھیجنا چاہتی ہوں ، مگر میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔"وہ اسے بتا رہی تھی۔"میں تمہیں کچھ پیسے بھی بھجواؤں گی۔ان تمام اخراجات کے لئے جو تم نے میرے لئے کئے۔۔۔۔۔"
سالار نے اس بار اس کی بات کاٹی۔"نہیں ، پیسے رہنے دو۔مجھے ضرورت نہیں ہے۔موبائل کی بھی ضرورت نہیں ہے۔میرے پاس دوسرا ہے۔

anusinha
 

پتا لگا۔۔۔۔۔؟مائی ڈئیر امامہ ! پولیس اسی دن میرے گھر پہنچ گئی تھی جس دن میں تمہیں لاہور چھوڑ کر آیا تھا۔"سالار نے کچھ استہزائیہ انداز میں کہا۔"تمہارے فادر نے میرے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی تھی تمہیں اغوا کرنے کے سلسلے میں۔"وہ ہنسا۔"ذرا سوچو میرے جیسا بندہ کسی کو اغوا کر سکتا ہے اور وہ بھی تمہیں۔۔۔۔۔جو کسی بھی وقت کسی کو شوٹ کر سکتی ہے۔"
اس کے لہجے میں اس بار طنز تھا۔"تمہارے فادر نے پوری کوشش کی ہے کہ میں جیل پہنچ جاؤں اور باقی کی زندگی وہاں گزاروں مگر بس میں کچھ خوش قسمت واقع ہوا ہوں کہ بچ گیا ہوں۔گھر سے کالج تک میری نگرانی کی جاتی ہے۔ڈمب کالز ملتی ہیں اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔اب تمہیں کیا کیا بتاؤں۔بہر حال تمہاری فیملی ہمیں خاصا زچ کر رہی ہے۔"اس نے جتانے والے انداز میں کہا۔
"میں نہیں جانتی تھی کہ وہ تم تک پہنچ جائیں گے۔"

anusinha
 

"تم اس وقت کہاں ہو؟"سالار نے کچھ تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔
"بچکانہ سوال مت کرو سالار ! جب تم جانتے ہو کہ میں تمہیں یہ نہیں بتاؤں گی تو پھر تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟"
"میرے گھر والے کیسے ہیں؟"
سالار کچھ حیران ہوا۔اسے امامہ سے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔
"بالکل ٹھیک ہیں ، خوش و خرم ہیں ، عیش کر رہے ہیں۔"اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔"تم واقعی بہت اچھی بیٹی ہو ، گھر سے جا کر بھی تمہیں گھر اور گھر والوں کا کتنا خیال ہے۔ہاؤ نائس۔"
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی پھر امامہ نے کہا۔"وسیم کیسا ہے؟"
"یہ تو میں نہیں بتا سکتا مگر میرا خیال ہے ٹھیک ہی ہو گا۔وہ خراب کیسے ہو سکتا ہے۔"اس کے انداز اور لہجے میں اب بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
"انہیں یہ تو پتا نہیں چلا کہ تم نے میری مدد کی تھی؟"سالار کو امامہ کا لہجہ کچھ عجیب سا لگا۔

anusinha
 

وہ اس رات کمپیوٹر پر بیٹھا تھا جب اس کے موبائل پر ایک کال آئی تھی۔اس نے کی بورڈ پر ہاتھ چلاتے ہوئے لاپرواہی سے موبائل اٹھا کر دیکھا اور پھر اسے ایک جھٹکا لگا تھا۔اسکرین پر موجود نمبر اس کے اپنے موبائل کا تھا۔امامہ اسے کال کر رہی تھی۔
"تو بالآخر آپ نے ہمیں یاد کر ہی لیا۔"اس نے بےاختیار سیٹی بجائی۔اس کا موڈ یک دم فریش ہو گیا تھا۔کچھ دیر پہلے والی بوریت یکسر غائب ہو گئی تھی۔
"میں تو سمجھ بیٹھا تھا کہ اب تم مجھے کبھی کال نہیں کرو گی۔اتنا لمبا عرصہ لگا دیا تم نے۔"رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے پوچھا۔
"میں بہت دنوں سے تمہیں فون کرنا چاہ رہی تھی مگر کر نہیں پا رہی تھی۔"دوسری طرف سے امامہ نے کہا۔
"کیوں ، ایسی کیا مجبوری آ گئی تھی۔فون تو تمہارے پاس موجود تھا۔"سالار نے کہا۔
"بس کوئی مجبوری تھی۔"اس نے مختصراً کہا۔

anusinha
 

سکندر عثمان مسلسل اس کی نگرانی کروا رہے تھے اور وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ وہ یہ نگرانی کروانے والے واحد نہیں ہیں۔ہاشم مبین احمد بھی یہی کام کروا رہے تھے اور اگر وہ لاہور جانے کا ارادہ کرتا تو اول تو سکندر عثمان اسے جانے ہی نہ دیتے اور بالفرض جانے کی اجازت دے بھی دیتے تو شاید خود بھی اس کے ساتھ چل پڑتے اور وہ یہ نہیں چاہتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سارے معاملے میں اس کی دلچسپی کم سے کم ہوتی جا رہی تھی۔اسے اب یہ سب کچھ ایک حماقت لگ رہا تھا۔ایسی حماقت جو اسے کافی مہنگی پڑ رہی تھی۔سکندر اور طیبہ اب ہمہ وقت گھر پر رہتے تھے اور اسے کہیں بھی جانے کے لیے اسے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی تھی۔حسن اب اس سے کم کم ملنے لگا تھا۔وہ اس کی وجہ بھی نہیں جانتا تھا۔اس صورت حال سے وہ بہت بور ہو رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

anusinha
 

بعض دفعہ وہ چڑ جاتا۔
"مجھے کیا پتا کہ وہ کہاں ہے اور مجھ سے رابطہ کیوں نہیں کر رہی۔بعض دفعہ مجھے لگتا ہے اسے مجھ سے زیادہ تمہیں دلچسپی ہے۔"
اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ حسن کا یہ تجسس اور دلچسپی کسی مجبوری کی وجہ سے تھی۔وہ بری طرح پھنسا ہوا تھا۔سالار کا خیال تھا کہ امامہ اب تک جلال کے پاس جا چکی ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے شادی بھی کر چکی ہو اگرچہ اس نے امامہ سے جلال کی شادی کے بارے میں جھوٹ بولا تھا مگر اسے یقین تھا کہ امامہ نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا ہو گا۔وہ اس کے پاس دوبارہ ضرور گئی ہو گی۔خود سالار بھی چاہتا تھا کہ وہ خود جلال سے رابطہ قائم کرے یا پھر ذاتی طور پر جا کر ایک بار اس سے ملے۔وہ جاننا چاہتا تھا کہ امامہ اس کے ساتھ رہ رہی ہے یا نہیں ، مگر فی الحال یہ دونوں کام اس کے لیے ناممکن تھے۔

anusinha
 

سالار چند دن گھر بیٹھا رہا تھا مگر پھر ضد کر کے اس نے کالج جانا شروع کر دیا۔ہاشم مبین اور اس کے گھر والے امامہ کی تلاش میں زمین آسمان ایک کئے ہوئے تھے۔اگرچہ وہ یہ سب کچھ بڑی رازداری کے ساتھ کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے ملازمین اور پولیس کے ذریعے سکندر کو ان کی کوششوں کی خبر مل رہی تھی۔وہ لاہور میں بھی امامہ کی ہر سہیلی سے رابطہ کر رہے تھے جسے وہ جانتے تھے۔
سالار نے ایک دن اخبار میں بابر جاوید نامی ایک شخص کا خاکہ دیکھا۔اس کے بارے میں معلومات دینے والے کے لئے انعام کا اعلان تھا۔وہ اس نام سے اچھی طرح واقف تھا۔یہی وہ فرضی نام تھا جو حسن نے وکیل کو امامہ کے شوہر کا دیا تھا اور وہ اشتہار یقیناً امامہ کے گھر والوں کی طرف سے تھا حالانکہ نیچے دیا گیا فون نمبر امامہ کے گھر کا نہیں تھا ، وہ اندازہ کر سکتا تھا

anusinha
 

اس نے پوری بات بتانے کا فیصلہ کیا۔
"اور اگر ضرورت پڑے تو بیلف کے ذریعے اس کو رہائی دلوائی جا سکے مگر یہ کوئی محبت وغیرہ کی شادی نہیں تھی۔وہ لڑکی ویسے بھی کسی اور لڑکے کو پسند کرتی تھی۔آپ اس نکاح نامے کو دیکھیں تو اس میں بھی اس نے طلاق کا حق پہلے ہی لے لیا ہے ، تاکہ ضرورت پڑنے پر وہ سالار سے رابطہ کئے بغیر ہی طلاق حاصل کر لے۔"
"بس یا کچھ اور؟"قاسم فاروقی نے اس سے کہا۔حسن کچھ نہیں بولا۔خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا۔
"میں قطعاً تمہاری کسی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوں۔تم نے بہت اچھی کہانی بنائی ہے مگر میں کوئی بچہ نہیں ہوں کہ اس کہانی پر یقین کر لوں۔تمہیں اب امامہ تک پہنچنے میں سکندر کی مدد کرنی ہے۔"قاسم فاروقی نے قطعی لہجے میں کہا۔
"پاپا ! یہ میں کیسے کر سکتا ہوں۔مجھے اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔"حسن نے احتجاج کیا۔

anusinha
 

"تم مجھے یا سکندر کو بےوقوف سمجھ رہے ہو ، اس نے اس لڑکی سے شادی کی اور پھر اسے ایک سڑک پر چھوڑ دیا۔بےوقوف مت بناؤ ہمیں۔"قاسم فاروقی بھڑک اٹھے۔
"میں سچ کہہ رہا ہوں پاپا ! اس نے کم از کم مجھ سے یہی کہا تھا کہ وہ اس لڑکی کو سڑک پر چھوڑ آیا تھا۔"
"تم نے اس سے پوچھا نہیں کہ پھر اس نے اس لڑکی کے ساتھ شادی کیوں کی ، اگر اسے یہی کرنا تھا۔"
"پاپا ! اس نے یہ شادی اس لڑکی کی مدد کے لیے کی تھی۔اس کے گھر والے زبردستی اس کی شادی کسی لڑکے سے کرنا چاہتے تھے وہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔اس نے سالار سے رابطہ کیا اور مدد مانگی اور سالار اس کی مدد پر تیار ہو گیا۔وہ صرف یہ چاہتی تھی کہ سالار واقتی طور پر اس سے نکاح کر لے تاکہ اگر اس کے والدین زبردستی اس کی شادی کرنا چاہیں تو وہ اس نکاح کا بتا کر انہیں روک سکے۔"
حسن اب سچائی پر پردہ نہیں ڈال سکتا تھا۔ا

anusinha
 

کچھ بھی چھپانے کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔وہ جھوٹ بولتا تو اپنی پوزیشن اور خراب کرتا۔
"میں نے اسے بہت سمجھایا تھا مگر۔۔۔۔۔"
قاسم فاروقی نے اس کی بات کاٹ دی۔"اس وقت تمہیں یہاں صفائیاں اور وضاحتیں پیش کرنے کے لئے نہیں بلایا۔تم مجھے صرف یہ بتاؤ کہ اس لڑکی کو اس نے کہاں رکھا ہوا ہے؟"
"پاپا ! مجھے اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔"حسن نے تیزی سے کہا۔
"تم پھر جھوٹ بول رہے ہو۔"
"آئی سویر پاپا ! مجھے واقعی کچھ پتا نہیں ہے۔وہ اسے لاہور چھوڑ آیا تھا۔"
"یہ جھوٹ تم کسی اور سے بولنا ، مجھے صرف سچ بتاؤ۔"قاسم فاروقی نے ایک بار پھر اسی تند و تیز لہجے میں کہا۔
"میں جھوٹ نہیں بول رہا پاپا ! "حسن نے احتجاج کیا۔
"لاہور کہاں چھوڑ آیا تھا؟"
"کسی سڑک پر۔اس نے کہا تھا وہ خود چلی جائے گی۔"

anusinha
 

"یہ میرے signatures ہیں ، مگر میں نے نہیں کیے۔"اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
"پھر کس نے کیے ہیں ، تمہارے فرشتوں نے یا سالار نے؟"قاسم فاروقی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
حسن کچھ بول نہیں سکا۔وہ حواس باختہ سا باری باری انہیں دیکھنے لگا۔اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سکندر عثمان اس طرح اس کے سامنے وہ نکاح نامہ نکال کر رکھ دیں گے۔وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ انہوں نے وہ نکاح نامہ کہاں سے حاصل کیا تھا ، سالار سے یا پھر۔۔۔۔۔اس کی ساری عقلمندی اور چالاکی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔
"تم یہ نہیں مانو گے کہ سالار کا امامہ کے ساتھ نکاح تمہاری موجودگی میں ہوا ہے۔"قاسم فاروقی نے اکھڑے ہوئے لہجے میں اس سے کہا۔
"پاپا ! اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔یہ سب سالار کی ضد پر ہوا تھا ، اس نے مجھے مجبور کیا تھا۔"حسن نے یک دم سب کچھ بتانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

anusinha
 

کچھ پتا نہیں ہے اور نہ ہی میری معلومات کے مطابق اس نے شادی کی ہے۔۔۔۔۔۔مجھے تو اس لڑکی کا بھی پتا نہیں ہے ، جس کا آپ نام لے رہے ہیں۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے سالار کی کسی لڑکی کے ساتھ انوالومنٹ ہو ، مگر میں اس کے بارے میں نہیں جانتا ، وہ ہر بات مجھے نہیں بتاتا۔"
سکندر عثمان اور قاسم فاروقی خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے۔وہ خاموش ہوا تو سکندر عثمان نے اپنے سامنے پڑا ہوا ایک لفافہ اٹھایا اور اس میں موجود چند کاغذ نکال کر اس کے سامنے رکھ دئیے۔حسن کا رنگ پہلی بار اترا۔وہ امامہ اور سالار کا نکاح نامہ تھا۔
"اس پر دیکھو۔۔۔۔۔۔تمہارے ہی signatures ہیں نا؟"سکندر نے سرد لہجے میں پوچھا۔اگر یہ سوال انہوں نے قاسم فاروقی کے سامنے نہ کیا ہوتا تو وہ ان دستخط کو اپنے دستخط ماننے سے انکار کر دیتا مگر اس وقت وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔

anusinha
 

ظاہر نہیں کرنا چاہئیے۔"اس نے پہلے اپنا لائحہ عمل طے کیا اور پھر بڑے اطمینان کے ساتھ اسٹڈی میں داخل ہو گیا۔اس کے والد قاسم فاروقی اور سکندر عثمان کافی پی رہے تھے ، لیکن ان کے چہرے کی غیر معمولی سنجیدگی اور اضطراب وہ ایک لمحے میں بھانپ گیا تھا۔
"کیسے ہیں انکل سکندر آپ ! اس بار بہت دنوں کے بعد آپ ہماری طرف آئے۔"باوجود اس کے کہ سکندر یا قاسم نے اس کی ہیلو کا جواب نہیں دیا۔حسن نے بہت بےتکلفی کا مظاہرہ کیا۔ اسے اس بار بھی جواب نہیں ملا تھا۔سکندر عثمان اسے غور سے دیکھ رہے تھے۔
"بیٹھو۔"قاسم فاروقی نے قدرے درشتی سے کہا۔
"سکندر تم سے کچھ باتیں پوچھنے آیا ہے تمہیں ہر بات کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا ہے۔اگر تم نے جھوٹ بولا تو میں سکندر عثمان سے کہہ چکا ہوں کہ وہ تمہیں پولیس کے پاس لے جائے۔میری طرف سے تم بھاڑ میں جاؤ۔

anusinha
 

حسن کچھ دیر پہلے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں تھا ، جب اچانک اسے اپنے والد کی کال ملی ، وہ جلد از جلد اپنے گھر پہنچنےکے لیے کہہ رہے تھے۔ان کا لہجہ بےحد عجیب تھا مگر حسن نے توجہ نہیں دی ، لیکن جب پندرہ منٹ بعد اپنے گھر پہنچا تو پورچ میں کھڑی سکندر عثمان کی گاڑی دیکھ کر چوکنا ہو گیا۔وہ سالار کے گھر کی تمام گاڑیوں اور ان کے نمبرز کو اچھی طرح پہچانتا تھا۔
"سکندر انکل کو میرے اس معاملے میں انوالو ہونے کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں اس لئے مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ سالار کا دوست سمجھ کر پوچھ گچھ کے لئے آئے ہوں گے۔میں بڑے اطمینان سے ان کی باتوں کا جواب دوں گا اور کسی بھی الزام کی تردید کر دوں گا لیکن میری پریشانی پاپا کے سامنے میری پوزیشن مشکوک کر دے گی ، اس لئے انکل سکندر کو دیکھ کر مجھے کوئی ردِ عمل

anusinha
 

تو اسے اپنی شادی کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا۔"
"اور اگر شادی کا اعتراف کرنے کے بعد بھی اس نے امامہ کو طلاق دینے سے انکار کر دیا تو۔"
"کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا پڑے گا اور وہ میں نکال لوں گا۔چاہے وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق دے یا پھر مجھے زبردستی کرنا پڑے۔میں یہ معاملہ ختم کر دوں گا ، اس طرح کی شادی انسان کو ساری عمر خوار کرتی ہے۔اس سے تو پیچھا چھڑانا ہی پڑے گا ، ورنہ میں اسے اس بار مکمل طور پر اپنی جائیداد سے عاق کر دینے کا ارادہ رکھتا ہوں۔"سکندر عثمان نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

anusinha
 

جھوٹ بولنے میں تو ماہر ہو چکا ہے۔"انہوں نے تنفر آمیز لہجے میں کہا۔
"بس چند ماہ میں اس کا بی اے مکمل ہو جائے گا پھر میں اسے باہر بھجوا دوں گا۔کم از کم ہر وقت ہاشم مبین احمد کی طرف سے جن اندیشوں کا میں شکار رہتا ہوں وہ تو ختم ہوں گے۔"انہوں نے سگریٹ کا ایک کش لگایا۔
"مگر آپ ایک چیز بھول رہے ہیں سکندر ! "طیبہ نے بڑی سنجیدگی سے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
"کیا؟"سکندر نے انہیں چونک کر دیکھا۔
"سالار کی امامہ کے ساتھ خفیہ شادی۔۔۔۔۔اس شادی کے بارے میں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ آپ کو خود ہی کرنا ہے۔آپ کیا کریں گے ، اس شادی کے بارے میں۔"
"طلاق کے علاوہ اس شادی کا اور کیا کیا جا سکتا ہے۔"سکندر عثمان نے قطعی لہجے میں کہا۔
"وہ شادی ماننے پر تیار نہیں ہے تو طلاق دینے پر رضامند ہو جائے گا۔"
"جب میں اسے ثبوت پیش کروں گا

anusinha
 

۔اب تو تم صرف یہ سوچو کہ تمہیں اس صورت حال سے کس طرح بچنا ہے۔"
"ابھی ہم اتنی بری طرح نہیں پھنسے ، جس طرح آپ سوچ رہے ہیں۔اس پر یہ جرم ثابت نہیں ہوا۔پولیس یا ہاشم مبین احمد کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اور ثبوت کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتے۔"
"اور جس دن ان تک کوئی ثبوت پہنچ گیا اس دن کیا ہو گا۔تم نے یہ سوچا ہے۔"سکندر عثمان نے کہا۔
"آپ پھر امکانات کی بات کر رہے ہیں۔ایسا ہوا تو نہیں ہے اور ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ہو بھی نا۔"
"اس نے اگر ہمیں اتنا بڑا دھوکا دے دیا ہے تو ہو سکتا ہے ایک اور دھوکا یہ ہو کہ اس کا رابطہ اس لڑکی کے ساتھ نہیں ہے۔ممکن ہے یہ ابھی بھی اس لڑکی کے ساتھ رابطے میں ہو۔"سکندر عثمان کو خیال آیا۔
"ہاں ہو سکتا ہے۔پھر کیا کیا جائے۔"
"میں اس سے بات کروں گا تو سمجھو پتھر کے ساتھ اپنا سر پھوڑوں گا ، وہ پھر جھوٹ بول دے گا ،

anusinha
 

ایک پرابلم ختم ہوتی ہے تو ہمارے لئے دوسری پرابلم شروع کر دیتا ہے۔یہ سارا چکر اسی وقت شروع ہوا ہو گا جب پچھلے سال اس نے خود کشی کی کوشش کے بعد اس کی جان بچائی تھی۔ہم بےوقوف تھے کہ ہم نے اس معاملے پر نظر نہیں رکھی ، ورنہ شاید یہ سب بہت پہلے سامنے آ جاتا۔"سکندر عثمان اپنی کنپٹی مسلتے ہوئے کہنے لگے۔
"اور یقیناً یہ لڑکی بھی اس کے ساتھ اپنی مرضی سے انوالو ہوئی ہو گی ورنہ اس طرح کوئی کسی کے ساتھ مرضی کے خلاف تو نکاح نہیں کر سکتا اور ہاشم مبین احمد کو دیکھیں ، وہ یوں شور مچا رہا ہے جیسے اس کی بیٹی کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے ، جو کیا ہے سالار نے ہی کیا ہے۔انہوں نے تو ایف آئی آر بھی اغواء کی درج کروائی ہے۔"طیبہ نئے سرے سے سلگنے لگیں۔
"جو بھی ہے قصور تمہارے بیٹے کا ہے۔نہ وہ ایسے کاموں میں پڑتا نہ اس طرح پھنستا

anusinha
 

سکندر عثمان پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر ٹہلنے لگے۔اس وقت ان کے سر پر واقعی آسمان ٹوٹ پڑا تھا اور اس وقت انہیں پہلی بار سالار کے ہاتھوں بےوقوف بننے کا احساس ہو رہا تھا۔وہ کس ڈھٹائی ، مہارت اور بےہودگی سے ان سے جھوٹ پر جھوٹ بولتا اور انہیں دھوکا دیتا گیا تھا اور انہیں اس کا احساس تک نہیں ہو سکا تھا اور اگر ملازمہ انہیں یہ سب کچھ نہ بتاتی تو وہ ابھی بھی ٹانگ پر ٹانگ رکھے مطمئن بیٹھے ہوتے۔یہی سوچ کر کہ سالار امامہ کے ساتھ انوالو نہیں ہے اور نہ ہی اس کی گمشدگی میں اس کا کوئی حصہ تھا۔وہ چند دن گھر پر رہ کر ایک بار پھر کالج جانا شروع کر چکا تھا۔
وہ جانتے تھے کہ سالار کی نگرانی کروائی جا رہی تھی اور ہاشم مبین احمد کو سب کچھ پتا چلنے کا مطلب کیا تھا۔وہ اچھی طرح جانتے تھے۔ان کا کچھ دیر پہلے کا اطمینان یک دم ختم ہو گیا تھا۔

anusinha
 

اپنا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر لو۔ورنہ اس بار میں نہ صرف تمہیں واقعی اس گھر سے نکال دوں گا بلکہ میں ہاشم مبین اور پولیس سے کہہ دوں گا کہ یہ سب کچھ تم نے کروایا ہے۔تم نے ہی ان دونوں کو گمراہ کیا تھا اور تم ہی ان دونوں کے پیغامات ایک دوسرے تک پہنچاتی رہیں ، پھر پولیس تمہارے ساتھ اور تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کرے گی تمہیں یاد رکھنا چاہئیے۔تمہاری ساری عمر جیل کے اندر ہی گزر جائے گی۔"وہ غصے کے عالم میں اسے دھمکا رہے تھے۔
"نہیں صاحب جی ! میں کیوں کسی کو کچھ بتاؤں گی۔آپ میری زبان کٹوا دیجئیے گا۔اگر میرے منہ سے دوبارہ اس کے بارے میں کچھ سنیں۔"
ناصرہ گھبرا گئی مگر سکندر عثمان نے رکھائی کے ساتھ اس کی بات کاٹ دی۔
"بس کافی ہے۔اب تم جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔"انہوں نے اسے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔