"وہ کون لوگ تھے ، انہیں پہچانتی ہو؟"سکندر عثمان نے بےحد اضطراب کے عالم میں کہا۔
"بس ایک کو۔۔۔۔۔حسن صاحب تھے۔"اس نے سالار کے ایک دوست کا نام لیا۔"باقی اور کسی کو میں نہیں پہچانتی۔"ناصرہ نے کہا۔
"میں بہت پریشان تھی۔آپ کو بتانا چاہتی تھی مگر ڈرتی تھی کہ آپ میرے بارے میں کیا سوچیں گے مگر اب مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔"
"اور کون کون اس کے بارے میں جانتا ہے؟"سکندر عثمان نے کہا۔
"کوئی بھی نہیں۔بس میں ، میری بیٹی اور میرا شوہر۔"ناصرہ نے جلدی سے کہا۔
"ملازموں میں سے کسی اور کو کچھ پتا ہے؟"
"توبہ کریں جی ! میں کیوں کسی کو کچھ بتاتی۔۔۔۔۔میں نے کسی کو کچھ بھی نہیں بتایا۔"
"تم نے جو کچھ کیا اس کے بارے میں تو میں بعد میں طے کروں گا مگر فی الحال تم ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو تم کسی کو بھی اس سارے معاملے کے بارے میں نہیں بتاؤ گی۔
اور پھر اسی وقت ان کاغذات کو واپس لے آؤں۔میں نے اپنی بیٹی کے ذریعے وہ کاغذات بھی امامہ بی بی کے پاس پہنچا کر واپس منگوا لیے اور سالار صاحب کو دے دیئے۔میں نے سالار صاحب سے ان کاغذات کے بارے میں پوچھا مگر انہوں نے نہیں بتایا مگر مجھے شک تھا کہ شاید وہ نکاح نامہ تھا کیونکہ اس وقت سالار صاحب کے کمرے میں پانچ لوگ موجود تھے۔ان میں سے ایک کوئی مولوی بھی تھا۔"
سکندر عثمان کو وہاں بیٹھے بیٹھے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔"اور یہ کب کی بات ہے؟"
"امامہ بی بی کے جانے سے چند دن پہلے۔"ناصرہ نے کہا۔
"تم نے مجھے اس بارے میں کیوں نہیں بتایا؟"سکندر عثمان نے درشت لہجے میں کہا۔
"میں بہت خوفزدہ تھی صاحب جی۔۔۔۔۔سالار صاحب نے مجھے دھمکیاں دی تھیں کہ اگر میں نے آپ کو یا کسی اور کو اس سارے معاملے کے بارے میں بتایا تو وہ مجھے یہاں سے باہر پھینکوا دیں گے۔"ناصرہ نے کہا
رابطے کا ذریعہ وہ تھی اور پھر اسے اور اس کے پورے خاندان کو پولیس کا سامنا کرنا پڑے۔ اسی لیے اپنے شوہر سے مشورے کے بعد اس نے سکندر عثمان کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کر لیا تھا تاکہ کم از کم وہ دونوں گھر والوں میں سے کسی ایک کی ہمدردی اپنے ساتھ رکھے۔
"چپ کیوں ہو ، بولو۔۔۔۔۔"سکندر عثمان نے اسے خاموش پا کر ایک بار پھر اس سے کہا۔ان کی نظریں ابھی بھی اخبار پر جمی ہوئی تھیں۔
"سکندر صاحب ! میں آپ کو سالار صاحب کے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔"ناصرہ نے بالآخر ایک طویل توقف کے بعد کہا۔
سکندر عثمان نے بےاختیار اخبار اپنے چہرے کے سامنے سے ہٹا کر اسے دیکھا۔
"سالار کے بارے میں۔۔۔۔۔؟کیا کہنا چاہتی ہو؟"انہوں نے اخبار کو سامنے سینٹر ٹیبل پر پھینکتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
"سالار صاحب اور امامہ بی بی کے بارے میں کچھ بتانا چاہتی ہوں۔"
اور وہ گھر میں بند نہیں ہونا چاہتا تھا۔اس کا موڈ یک دم آف ہو گیا۔ناشتہ کرتے کرتے اس نے اسے ادھورا چھوڑ دیا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سکندر صاحب ! میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں۔"وہ لاؤنج میں بیٹھے تھے جب ملازمہ کچھ جھجکتے ہوئے ان کے پاس آئی۔
"ہاں کہو۔۔۔۔۔پیسوں کی ضرورت ہے؟"سکندر عثمان نے اخبار پڑھتے ہوئے کہا۔وہ اس معاملے میں خاصے فراخ دل تھے۔
"نہیں صاحب جی ! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔میں کچھ اور کہنا چاہتی ہوں آپ سے۔"
"بولو۔۔۔۔۔"وہ ہنوز اخبار میں منہمک تھے۔ملازمہ کچھ پریشان ہونے لگی۔ناصرہ نے بہت سوچ سمجھ کر سالار اور امامہ کے بارے میں سکندر عثمان کو بتانے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ اسے یہ سب کچھ اب بہت پریشان کن لگ رہا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ جلد یا بدیر یہ پتا چل جائے کہ ان دونوں کے درمیان
تمہیں پتا ہے تم کتنے خطرے میں ہو؟"
"کیسا خطرہ؟"وہ ٹھٹکا۔
"میں نہیں چاہتا ہاشم مبین تمہیں کوئی نقصان پہنچائے۔اس لیے فی الحال تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم گھر پر رہو۔"سکندر عثمان نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔"اس کی بیٹی مل جائے پھر تم دوبارہ کالج جانا شروع کر دینا۔"
"اس کی بیٹی اگر ایک سال نہیں ملے گی تو کیا میں ایک سال تک اندر بیٹھا رہوں گا۔آپ نے اسے میرے بیان کے بارے میں بتایا نہیں ہے۔"سالار نے تیز لہجے میں کہا۔
"میں اسے بتا چکاہوں۔سنعیہ نے بھی تمہاری بات کی تصدیق کر دی تھی۔"ان کے لہجے میں سنعیہ کا نام لیتے ہوئے تلخی تھی۔"مگر ہاشم مبین ابھی بھی مصر ہے کہ اس کی بیٹی کو تم نے ہی اغوا کیا ہوا ہے۔"
"تو میں کیا کروں۔۔۔۔۔اسے یقین نہیں آتا تو نہ آئے۔مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔سالار نے لاپرواہی سے کہتے ہوئے ناشتہ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں؟"وہ بےحد بےبس نظر آ رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اگلے روز صبح معمول کے مطابق اُٹھا اور کالج جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔ناشتہ کرنے کے لیے وہ ڈائیننگ ٹیبل پر آیا تو اس نے خلافِ معمول وہاں سکندر عثمان کو موجود پایا۔وہ عام طور پر اس وقت ناشتہ نہیں کیا کرتے تھے۔ذرا دیر سے فیکٹری جایا کرتے تھے۔سالار کو اس وقت انہیں وہاں موجود پا کر کچھ حیرت ہوئی ، مگر ان کے ستے ہوئے چہرے اور سُرخ آنکھوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید وہ ساری رات نہیں سو سکے۔
سالار کو صبح صبح باہر نکلنے کے لیے تیار دیکھ کر انہوں نے قدرے درشتی سے سے اس سے کہا۔"تم کہاں جا رہے ہو؟"
"کالج۔"
"دماغ ٹھیک ہے تمہارا۔۔۔۔۔۔میرے گلے میں یہ مصیبت ڈال کر تم خود کالج جا رہے ہو۔جب تک یہ معاملہ ختم نہیں ہو جاتا تم کہیں نہیں جاؤ گے۔
یہاں معاملہ گھر کا نہیں تھا، مالک کا تھا۔" سکندر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔" اور پھر اس میں سے کسی نے بھی کسی لڑکی کو یہاں آتے نہیں دیکھا۔ وہ کہتا ہے وہ اسے اسی دن لایا تھا، چوکیدار کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہوا اس نے اس کے ساتھ کسی لڑکی کو آتے نہیں دیکھا۔ہاں ! جاتے ضرور دیکھا ہے ملازموں کا بھی یہی کہنا ہے۔انہوں نے نہ تو کسی لڑکی کو آتے دیکھا ہے نہ ہی جاتے دیکھا ہے۔"سکندر نے کہا۔
"اس کا مطلب ہے کہ وہ یقیناً اس لڑکی کو اچھی طرح چھپا کر لایا ہو گا۔"
"شیطانی دماغ ہے اس کا۔۔۔۔۔یہ تم جانتی ہو تم صرف یہ دعا کرو کہ یہ سارا معاملہ ختم ہو جائے۔ہاشم مبین کی بیٹی مل جائے اور ہماری جان چھوٹ جائے تاکہ ہم اس کے بارے میں کچھ سوچ سکیں۔"سکندر عثمان نے کہا۔
"میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر مجھ سے ایسی کون سی غلطی ہو گئی ہے ، جس کی مجھے یہ سزا مل رہی ہے۔
سالار کو اس کی بات پر اچانک غصہ آ گیا۔
"ابھی میں نے تمہیں کچھ بھی نہیں کہا ہے۔ تم کس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہو۔ یہ ٹیسٹ والی بات کی طرف یا دماغ خراب ہونے والی بات کی طرف؟" حسن نے اسی انداز میں اس کی بات سے متاثر ہوئے بغیر پوچھا۔
"اچھا اب منہ بند کر لو۔ فضول بحث مت کرو۔"
"اس وقت ان تمام باتوں کو کرنے کا مطلب گڑے مردے اکھاڑنا ہے۔" حسن اب سنجیدہ تھا۔
"فرض کرو پولیس کسی صورت ہم تک پہنچ جاتی ہے اور پھر وہ امامہ کا اتا پتا جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کیا بتائیں گے اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ کبھی بھی اس بات پر یقین کریں گے کہ امامہ کے بارے میں تمہیں کچھ پتا نہیں ہے۔ اس وقت تم کیا کرو گے؟"
"کچھ بھی نہیں کروں گا۔ میں ان سے بھی وہی کہوں گا جو میں تم سے کہہ رہا ہوں۔" اس نے بلند آواز میں کہا۔
"ہاں اور سارا مسئلہ تمہارے اس بیان سے ہی شروع ہو گا۔
میں حیران ہوں کہ تم اب کس طرح کے معاملات میں نوالو ہونے لگے ہو، اپنی ٹائپ کی لڑکیوں کے ساتھ انوالو ہونا دوسری بات ہے مگر وسیم کی بہن جیسی لڑکیوں کے ساتھ انوالو ہو جانا۔۔۔۔۔ تمہارا ٹیسٹ بھی دن بدن گرتا جا رہا ہے۔"
"میں"انوالو" ہوا ہوں۔۔۔۔۔" تم واقعی عقل سے پیدل ہو ورنہ کم از کم اس طرح کی بات مجھ سے نہ کرتے۔۔۔۔۔ ایڈونچر اور انوالومنٹ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے حسن صاحب!" سالار نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"اور آپ نے یہ فاصلہ ایک ہی چھلانگ میں طے کر لیا ہے سالار صاحب!" حسن نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔
"تمہارا دماغ خراب ہے اور کچھ نہیں۔"
"اور تمہارا دماغ مجھ سے زیادہ خراب ہے ورنہ اس طرح کی حماقت کو ایڈونچر کبھی نہ کہتے۔" حسن بھی قدرے جھلایا ہوا تھا۔
"اگر تم نے میری مدد کی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمہارے منہ میں جو آئے تم کہہ دو۔"
حسن نے بتایا۔"پولیس اگر پہنچ بھی گئی تو تب بھی میں ان کی پہنچ سے بہت دور رہوں گا، مگر مجھے یہ یقین نہیں ہے کہ وہ مجھ تک پہنچ سکیں گے۔ اس لئے تم اطمینان رکھو۔"
"اگر تم واقعی اتنے بے فکر اور مطمئن ہو تو ٹھیک ہے، ہو سکتا ہے وہ تم تک نہ ہی آئیں، مگر میں نے پھر بھی سوچا کہ میں تمہیں بتا دوں۔" سالار نے فون بند کرتے ہوئے اس سے کہا۔
"ویسےتم اس لڑکی کو اب لاہور میں کہاں چھوڑ کر آئے ہو؟"
"لاہور کی ایک سڑک پر چھوڑ آیا ہوں اس کے علاوہ اور کہاں چھوڑ سکتا تھا۔ اس نے اپنے محل وقوع اور حدود اربعہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ وہ بس چلی گئی۔"
"عجیب بے وقوف ہو، کم از کم تم تو اس سے اس کا ٹھکانہ پوچھنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔"
"ہاں! مگر مجھے اس کی ضرورت نہیں پڑی۔" سالار نے دانستہ امامہ سے آخری بار ہونے والی اپنی گفتگو گول کر دی۔
اور اس ملاقات میں بھی میرا حلیہ بالکل مختلف تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ صرف حلیے سے ہاشم مبین احمد مجھ تک پہنچ سکتے ہیں؟"
"اور اگر وہ پہنچ گئے تو۔۔۔۔۔؟"
"تو۔۔۔۔۔ پتا نہیں۔۔۔۔۔ اس تو کے بارے میں، میں نے نہیں سوچا۔" حسن نے صاف گوئی سے کہا۔
"کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم کچھ دنوں کے لئے کہیں غائب ہو جاؤ اور یوں ظاہر کرو کہ جیسے تمہاری یہ غیرموجودگی کچھ ضروری کاموں کے لئے تھی۔" سالار نے اسے مشورہ دیا۔
"اس سے بہتر مشورہ بھی میرے پاس ہے۔ میں اس وکیل کو کچھ روپے پہنچا کر یہ ہدایت دے دیتا ہوں کہ ہاشم مبین یا پولیس کے پہنچنے پر وہ انہیں میرا غلط حلیہ بتائے۔ کم از کم اس طرح فوری طور پر میں کسی پریشانی کا شکار نہیں ہوں گا اور ان ہی دنوں میں ویسے بھی چند ہفتوں کے لئے انگلینڈ جا رہا ہوں۔"
سالار نے کچھ اکتاہٹ بھرے لہجے میں اسے ٹوکا۔" میں نے تمہیں فون اپنے مستقبل کا حا ل جاننے کے لئے نہیں کیا۔ میں صرف ایک خطرےسے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔"
"کس خطرے سے؟" حسن چونکا۔" تم نے جو وکیل ہائر کیا تھا وہ اس کے ذریعے تم تک اور پھر مجھ تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔" سالار نے اس سے کہا۔
"نہیں، وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکتے۔" حسن نے اس کی بات پر قدرے لاپرواہی سے کہا۔
"کیوں۔۔۔۔۔؟"
"کیونکہ میں نے سارا کام پہلے ہی بہت محتاط ہو کر کیا ہے۔" وہ وکیل بھی میرے اصلی نام اور پتے سے واقف نہیں ہے۔ اسے جو ایڈریس اور فون نمبر میں نے دیا تھا وہ جعلی تھا۔
سالار بے اختیار مسکرایا۔ اسے حسن سے ایسی عقلمندی اور چالاکی کی توقع رکھنی چاہئیے تھی۔ وہ ہر کام بڑی صفائی سے سرانجام دینے کا ماہر تھا۔
"میں صرف اس کے پاس ایک بار گیا تھا پھر فون پر ہی رابطہ کیا
اس لڑکی کا کیا نام ہے؟"
"سنعیہ!" سالار نے بے اختیار کہا۔ سکندر عثمان مزید کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ان کے جانے کے بعد سالار کو اس وکیل کا خیال آیا جس کے ذریعے انہوں نے ہاشم مبین احمد سے رابطہ کیا تھا۔ اس وکیل کو ہائر کرنے والا بھی حسن ہی تھا اور سالار سکندر کے نام سے وہ وکیل بھی واقف نہیں تھا، مگر سالار کے لئے قابل تشویش بات اس میں حسن کا انوالو ہونا تھا۔ ہاشم مبین احمد اس وکیل سے حسن اور حسن سے اس تک بہت آسانی سے پہنچ سکتے تھے۔
اس نے اگلا فون حسن کو کیا اور حسن کو سارے معاملے کی نوعیت سے گاہ کیا۔
"میں تمہیں پہلے ہی اس سب سے منع کر رہا تھا۔" اس نے چھوٹتے ہی سالار سے کہا۔" میں وسیم اور اس کی فیملی کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور ان کے اثر ورثوخ سے بھی بخوبی واقف ہوں۔" وہ بولتا جا رہا تھا۔
رستے میں ہم اس نام کے سروس اسٹیشن پر بھی رکے تھے۔"سالار نے نام بتایا، سروس اسٹیشن اور ہوٹل، وہ دھند کی وجہ سے صحیح طرح نہیں دیکھ سکی۔" سالار یکے بعد دیگرے ہر چیز کی تفصیل لکھواتا گیا۔ سروس اسٹیشن پر گاڑی ٹھیک کرنے والے آدمی سے لے کر چائے بنانے والے لڑکے کے حلیے اور اس کمرے کی تفصیلات۔۔۔۔۔ انہوں نے کیا کھایا تھا، سالار اور لڑکے کے درمیان کیا گفتگو ہوئی تھی۔ اس نے چھوٹی چھوٹی تفصیلات اسے لکھوائی تھیں۔ اس نے اپنے گھر کے پورچ سے لے کر اپنے کمرے تک کے راستے اور اپنے کمرے کا تمام حلیہ بھی اسے نوٹ کروا دیا تھا۔
"سنعیہ سے کہو یہ سب کچھ رٹ لے۔" اس نے اکمل کو آخری ہدایت دی اور فون بند کر دیا۔ فون بند کر کے وہ بیڈ پر بیٹھا ابھی کچھ سوچ رہا تھا جب سکندر عثمان اچانک دروازہ کھول کر اس کے کمرے میں آئے۔
"اس لڑکی کا کیا نام ہے؟"
میں ابھی کچھ دیر تک تمہیں دوبارہ فون کرتا ہوں۔"
وہ کہتے ہوئے تیزی سے ایک چٹ پر ایک ایڈریس لکھنے لگا اور پھر اسے لے کر سکندر کے کمرے میں آ گیا۔ اس نے چٹ سکندر کے سامنے کر دی، جسے انہوں نے تقریباً چھین لیا۔ ایک نظر اس چٹ پر ڈال کر انہوں نے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا۔
"دفع ہو جاؤ یہاں سے۔" وہ اطمینان سے انداز میں وہاں سے آ گیا۔
اپنے کمرے میں آ کر اس نے اکمل کو دوبارہ فون کیا۔
"میں تمہیں وہاں پہنچ کر فون کرتا ہوں۔" اکمل نے اس سے کہا وہ بیڈ پر لیٹ کر اس کا انتظار کرنے لگا۔ پندرہ منٹ کے بعد اکمل نے اسے فون کیا۔
"سالار! میں نے سنعیہ کو تیار کیا ہے۔ اسے میں نے سارا معاملہ سمجھا دیا ہے۔" اکمل نے اسے بتایا وہ سنعیہ کو جانتا تھا۔
"اکمل! اب تم ایک کاغذا ور پینسل لو اور میں کچھ چیزیں لکھوا رہا ہوں اسے لکھو۔"
مجھے یقین نہیں آتا کہ تم۔۔۔۔۔ تم اس طرح کی حرکت کر سکتے ہو۔ تم ایسی جگہ جا سکتے ہو؟" ایک لمبی خاموشی کے بعد سکندر نے کہا۔
"آئی ایم سوری پاپا! مگر میں جاتا ہوں۔۔۔۔۔ اور اس بات کا امامہ کے بھائی وسیم کو بھی پتا ہے۔ میں کئی بار ویک اینڈ پر اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں جاتا رہا ہوں اور وسیم یہ بات جانتا ہے، آپ اس سے پوچھ لیں۔"
"ایڈریس دو اس لڑکی کا۔" وہ کچھ دیر بعد غّرائے۔
"میں اپنے کمرے سے لے کر آتا ہوں۔" اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
اپنے کمرے میں آ کر اس نے موبائل اٹھایا اور لاہور میں رہنے والے اپنے ایک دوست کو فون کرنے لگا۔ اسے ساری صورت ِحال بتانے کے بعد اس نے کہا۔
"اکمل! میں اپنے پاپا کو ریڈ لائٹ ایریا کے اس گھر کا پتا دے رہا ہوں جہاں ہم جاتے رہتے ہیں۔ تم وہاں کسی بھی ایسی لڑکی کو جو مجھے جانتی ہے اس کو اس بارے میں بتا دو،
۔ راستے میں تم نے ایک سروس اسٹیشن پر رک کر گاڑی چیک کروائی ہے۔۔۔۔۔ اس لڑکی کے ساتھ وہاں کھانا کھایا ہے۔" سکندر نے اس سروس اسٹیشن اور ہوٹل کا نام بتاتے ہوئے کہا۔ سالار کچھ دیر سکندر کو دیکھتا رہا مگر اس نے کچھ بھی نہیں کہا۔" ایس پی نے مجھے یہ سب کچھ خود بتایا ہے۔ اس نے ابھی ہاشم مبین کو یہ سب کچھ نہیں بتایا۔ اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تم سے بات کروں اور خاموشی کے ساتھ لڑکی کو واپس پہنچا دوں یا اس کے گھر والوں کو اس لڑکی کا پتا بتا دوں تاکہ یہ معاملہ خاموشی سے کسی مسئلے کے بغیر ختم ہو جائے مگر وہ کب تک ہاشم مبین کو نہیں بتائے گا۔ وہ دوستی کا لحاظ کر کے سب کچھ چھپا بھی گیا تب بھی ہاشم مبین کے اور بہت سے ذرائع ہیں۔ اسے وہاں سے پتا چل جائے گا اور پھر تمہاری پوری زندگی جیل میں گزرے گی۔"
سکندر نے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔
لڑکی کو زبردستی لے جانا ضروری ہے اور میں کسی کے گھر نہیں گیا۔"
"ہاشم مبین کے چوکیدار نے رات کو تمہیں جاتے اور اور صبح آتے دیکھا ہے۔"
"اس کا چوکیدار جھوٹا ہے۔" سالار نے بلند آواز میں کہا۔
"میرے چوکیدار نے تمہیں رات کو ایک لڑکی کو کار میں لے جاتے دیکھا ہے۔" سکندر نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ سالار چند لمحے کچھ بول نہ سکا۔ سکندر یقیناً گھر آتے ہی چوکیدار سے بات کر چکے تھے۔
"وہ میری ایک فرینڈ تھی جسے میں گھر چھوڑنے گیا تھا۔" اس نے طیبہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"کون ہے وہ فرینڈ؟ اس کا نام اور پتہ بتاؤ۔"
"سوری پاپا میں نہیں بتا سکتا۔It’s personal۔"
"یہاں اسلام آباد چھوڑنے گئے تھے؟"
"ہاں۔۔۔۔۔"
"تم اسے لاہور چھوڑ کر آئے ہو۔ ایس پی نے مجھے خود بتایا ہے۔ تم چار ناکوں سے گزرے ہو۔ چاروں پر تمہارا نمبر نوٹ کیا گیا ہے۔
مجھے تو یہ تک نہیں پتا کہ وسیم کی بہن اغوا ہوئی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔ آخر وہ لوگ مجھ پر الزام کیوں لگا رہے ہیں۔ کیا ثبوت ہے ان کے پاس کہ میں نے ان کی بیٹی کو اغوا کیا ہے اور بالفرض میں نے اغوا کیا بھی ہے تو کیا میں یہاں اپنے گھر بیٹھا رہوں گا۔ مجھے اس وقت اس لڑکی کے ساتھ ہونا چاہئیے۔" سالار تلخی سے بولتا رہا۔
"مجھے ایس پی سے تمہارے کیس کی تفصیلات کا پتا چلا ہے، پھر میں نے کراچی سے ہاشم مبین کو فون کیا، وہ مجھ سے بات کرنے پر تیار نہیں تھا۔ مجھے اس سے بات کرنے کے لئے منتیں کرنی پڑیں۔ اس نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا ہے۔۔۔۔۔ اس کی بیٹی رات کو غائب ہوئی ہے۔۔۔۔۔ اور تم بھی رات کو گئے ہو اور صبح آئے ہو۔"
"تو پاپا! اس میں اغوا کہاں سے آ گیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں رات کو کہیں نہیں گیا اور دوسری بات یہ ہے کہ اغوا کرنے کے لئے کسی کے گھر جا کر
میں خود اس کے ساتھ تمہاری شادی کروا دو ں گا۔ تم فی الحال یہ بتاؤ کہ وہ کہاں ہے۔" سکندر عثمان نے اس بار اپنے لب و لہجے میں تبدیلی لاتے ہوئے کہا۔
"فارگاڈسیک پاپا۔۔۔۔۔ اسٹاپ اٹ۔۔۔۔۔ کون سی انڈرسٹینڈنگ، کیسی شادی۔۔۔۔۔ میری کسی کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ ہوتی تو میں اسے اغوا کروں گا اور میں انڈرسٹینڈنگ ڈویلپ کروں گا امامہ جیسی لڑکی کے ساتھ۔۔۔۔۔وہ میری ٹائپ ہے؟" اس بار سالار نے بلند آواز میں کہا۔
"تو پھر وہ تم پر اس کے اغوا کا الزام کیوں لگا رہے ہیں؟"
"یہ آپ ان سے پوچھیں ، مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟" اس نے اسی ناگواری سے جواب دیا۔
"آج ہاشم مبین کہہ رہے ہیں کل کو کوئی اور آ کر کہے گا اور آپ پھر مجھ پر چلانا شروع کر دیں گے۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو بتایا ہے میں سو رہا تھا جب پولیس آ کر باہر کھڑی ہو گئی اور اب آپ آ گئے ہیں اور آتے ہی مجھ پر۔۔۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain