Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

جب کہ طیبہ فکرمندی کے عالم میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔
"پاپا! آپ نے بلوایا تھا؟" سالار نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"بیٹھو پھر تمہیں بتاتا ہوں کیوں بلایا ہے۔" سکندر عثمان نے اسے دیکھتے ہی ٹہلنا بند کر دیا۔ وہ بڑے اطمینان سے طیبہ کے برابر بیٹھ گیا۔
"امامہ کہاں ہے؟" سکندر نے لمحہ ضائع کئے بغیر پوچھا۔
"کون امامہ؟" اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس کے چہرے پر تھوڑی بہت گھبراہٹ ضرور ہوتی، مگر وہ اپنے نام کا ایک ہی تھا۔
سکندر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔"تمہاری بہن۔۔۔۔۔" وہ غّرائے۔
"میری بہن کا نام انیتا ہے پاپا۔" سالار کے اطمینان میں کوئی کمی نہیں آئی۔
"تم مجھے صرف ایک بات بتاؤ۔ آخر تم مجھے اور کتنی بار اور کتنے طریقوں سے ذلیل کراؤ گے۔" اس بار سکندر عثمان دوسرے صوفے پر بیٹھ گئے۔
"آپ کیا کہہ رہے ہیں پاپا! میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔"

anusinha
 

سالار ابھی فون بند کر رہا تھا جب اس کی نظر اپنے کمرے کے کارپٹ پر پڑی۔ وہاں جوتے کے نشانات تھے اور اس نے دیکھا کہ ملازم بھی قدرے حیرانی کے عالم میں ان نشانات کو دیکھ رہا تھا جو کھڑکی سے قطار کی صورت میں بڑھ رہے تھے۔
"جوتے کے ان نشانات کو صاف کر دو۔" سالار نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
ملازم کمرے سے باہر چلا گیا۔ سالار اٹھ کر کھڑکی کی طرف آ گیا اور اس نے وہ سلائیڈنگ ونڈو پوری طرح کھول دی۔ اس کا اندازہ ٹھیک تھا۔ جوتے کے وہ مٹی والے نشانات باہر برآمدے میں بھی موجود تھے۔ امامہ اپنی کیاریوں سے گزر کر دیوار پھلانگ کر ان کی کیاریوں میں کودی تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس کے جوتے کے تلے مٹی سے بھر گئے تھے۔ اوس کی وجہ سے وہ مٹی کم اور کیچڑ زیادہ تھی اور اس کے برآمدے کے سفید ماربل پر وہ نشانات بالکل ایک قطار کی صورت میں آ رہے تھے۔

anusinha
 

اور خاص طور پر وارنٹ کے ساتھ آنے کی جرات ہی نہ کرتی مگر اس وقت پولیس کے سامنے آگے کنواں پیچھے کھائی والی صورت تھی۔
سالار نے بیڈ روم کے اندر آتے ہی فون اٹھا کر کراچی سکندر عثمان کو فون کیا۔
"پاپا! ایک چھوٹا سا پرابلم ہو گیا ہے۔" اس نے چھوٹتے ہی کہا۔
"یہاں ہمارے گھر کے باہر پولیس کھڑی ہے اور ان کے پاس میرے گرفتاری کے وارنٹ ہیں۔"
سکندر عثمان کے ہاتھ سے موبائل گرتے گرتے بچا۔
"کیوں۔۔۔۔۔؟"
"یہ تو نہیں پتا پاپا۔۔۔۔۔ میں سو رہا تھا، ملازم نے جگا کر مجھے بتایا، کیا میں جا کر پولیس والوں سے پوچھوں کہ وہ کس سلسلے میں مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟" سالارنے بڑی فرمانبرداری اور معصومیت کے ساتھ سکندر عثمان سے پوچھا۔
"نہیں، باہر نکلنے یا پولیس کو اندر بلوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنے کمرے میں ہی رہو۔ میں تھوڑی دیر بعد تمہیں رنگ کرتا ہوں۔"

anusinha
 

تو وہ زبردستی اندر آ جائیں گے اور تمام لوگوں کو گرفتار کر کے لے جائیں گے۔"
سالار نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔ چوکیدار نے واقعی بڑی عقل مندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسے یقیناً یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ پولیس رات والی لڑکی کے معاملے میں ہی تفتیش کے لئے وہاں آئی تھی اس لئے اس نے نہ تو پولیس کو اندر آنے دیا نہ ہی انہیں یہ بتایا کہ سالار گھر پر موجود تھا۔
"تم فکر مت کرو۔ میں کچھ نہ کچھ کرتا ہوں۔"سالار نے ملازم سے کہا اور واپس اپنے بیڈ روم میں آگیا، وہ کسی عام شہری کا گھر ہوتا تو پولیس شاید دیواریں پھلانگ کر بھی اندر موجود ہوتی مگر اس وقت وارنٹ ہونے کے باوجود اس گھر کا سائز اور جس علاقے میں وہ واقع تھا انہیں خوف میں مبتلا کر رہے تھے۔ اگر امامہ کا خاندان بھی اثر ورسوخ والا نہیں ہوتا تو شاید اس وقت پولیس اس سیکٹر میں آنے اور

anusinha
 

باہر ملازم کھڑا تھا۔
"کیا تکلیف ہے تمہیں۔۔۔۔۔ کیوں اس طرح دروازہ بجا رہے ہو؟ دروازہ توڑنا چاہتے ہو تم؟" وہ دروازہ کھولتے ہی ملازم پر چلایا۔
"سالارصاحب باہر پولیس کھڑی ہے۔" ملازم نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا۔ سالار کا غصہ اور نیند ایک منٹ میں غائب ہو گئے۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں وہ پولیس کے وہاں آ جانے کی وجہ جان گیا تھا اور اس ان کی اور امامہ کے گھر والوں کی اس مستعدی پر حیرت ہوئی۔ آخر چند گھنٹوں میں سیدھے اس تک کیسے پہنچ گئے تھے۔
"کس لئے آئی ہے پولیس؟" اس نے اپنی آواز کو پرسکون رکھتے ہوئے بے تاثر چہرے کے ساتھ پوچھا۔
"یہ تو جی پتا نہیں، وہ بس کہہ رہے ہیں کہ آپ سے ملنا ہے،مگر چوکیدار نے گیٹ نہیں کھولا۔ اس نے ان سے کہہ دیا ہے کہ آپ گھر پر نہیں ہیں مگرا ن کے پاس آپ کے وارنٹ ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انہیں اندر نہیں آنے دیا گیا

anusinha
 

تم اس کے بارے میں کسی کو نہیں بتاؤ گے بلکہ میں رات کو کہیں نہیں گیا، سمجھ میں آیا۔" اس نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
"جی۔۔۔۔۔ میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔" چوکیدار نے فرمانبرداری سے سر ہلایا۔ وہ احمق نہیں تھا کہ ایسی چیزوں کے بارے میں کسی کو بتاتا پھرتا۔
اپنے کمرے میں آ کر وہ اطمینان کے ساتھ سو گیا۔ اس کا اس دن کہیں جانے کا ارادہ نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس وقت گہری نیند میں تھا، جب اس نے اچانک کسی کو اپنے کمرے کے دروازے کو زور زور سے بجاتے سنا۔ وہ یک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دروازہ واقعی بج رہا تھا۔ اس نے مندی ہوئی نظروں سے وال کلاک کو دیکھا جو چار بجا رہا تھا۔ اپنی آنکھوں کو رگڑتے ہوئے وہ اپنے بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے دروازہ بجانے والے پر شدید غصہ آ رہا تھا۔ اسی غصے کے عالم میں اس نے بڑبڑاتے ہوئے ایک جھٹکے کے ساتھ دروازہ کھول دیا۔

anusinha
 

وہ واپسی پر دھند کی پرواہ کئے بغیر پوری رفتار سے گاڑی چلا کر آیا تھا۔ پورا رستہ اس کا ذہن اسی ادھیڑ بن میں لگا ہوا تھا کہ اس نے پستول آخر کہاں سے نکالا تھا۔ وہ پورے وثوق سے کہہ سکتا تھا کہ جس وقت وہ وضو کے لئے پاؤں دھو رہی تھی اس وقت وہ پستول اس کی پنڈل کے ساتھ نہیں تھا ورنہ وہ ضرور اسے دیکھ لیتا۔ بعد میں نماز پڑھنے کے دوران بھی وہ بغور اسے سر سے پاؤں تک دیکھتا رہا تھا، پستول تب بھی اس کی پنڈل کے ساتھ بندھا ہوا نہیں تھا۔ وہ برگر کھانے اور چائے پینے کے بعد گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی تھی اور وہ کچھ دیر بعد گاڑی میں آیا تھا۔ وہ یقیناً گاڑی میں موجود اس کے بیگ میں ہی ہو گا۔ وہ اندازے لگاتا رہا۔
وہ جس وقت اپنے گھر پہنچا اس کا موڈ آف تھا۔ گیٹ سے گاڑی اندر لے جاتے ہوئے اس نے چوکیدار کو اپنی طرف بلایا۔"رات کو میں جس لڑکی کے ساتھ یہاں سے گیا تھا

anusinha
 

وہ اسٹیرئنگ پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھلکھلا کر ہنسا۔
"کبھی زندگی میں پسٹل دیکھا بھی ہے تم نے۔" اس نے امامہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
سالار نے اسے جھکتے اور اپنے پاؤں کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھا۔ جب وہ سیدھی ہوئی تو اس نے سالار سے کہا۔" شاید اسے کہتے ہیں۔"
سالار ہنسنا بھول گیا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں چھوٹے سائز کا ایک بہت خوبصورت اور قیمتی لیڈیز پستول تھا۔ سالار پستول پر اس کے ہاتھ کی گرفت دیکھ کر جان گیا تھا کہ وہ کسی اناڑی کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ اس نے بے یقینی سے امامہ کو دیکھا۔
"تم مجھے شوٹ کر سکتی تھیں؟"
"ہاں، میں تمہیں شوٹ کر سکتی تھی مگر میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ تم نے مجھے کوئی دھوکا نہیں دیا۔"
اس نے مستحکم آواز میں کہا۔ اس نے پستول سالار کی طرف نہیں کیا تھا، صرف اپنے ہاتھ میں رکھا تھا۔
"گاڑی کا لاک۔۔۔۔۔ "

anusinha
 

کس کے ساتھ ہو۔۔۔۔۔ پھر یہاں سے تمہیں سیدھا پولیس اسٹیشن لے جا کر ان کی تحویل میں دے دیتا ہوں۔۔۔۔۔ تو پھر تمہارے اعتقاد اور اعتبار کا کیا ہوا۔" وہ مذاق اڑانے والے انداز میں کہہ رہا تھا۔
امامہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ سالار کو بے حد خوشی محسوس ہوئی۔ سالار نے موبائل آف کرتے ہوئے ایک بار پھر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔
"کتنا بڑا احسان کر رہا ہوں میں تم پر کہ ایسا نہیں کر رہا۔" اس نے موبائل کو دوبادہ ڈیش بورڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔" حالانکہ تم بے بس ہو، کچھ بھی نہیں کر سکتیں، اسی طرح رات کو میں تمہیں کہیں اور لے جاتا تو تم کیا کر لیتیں۔"
"میں تمہیں شوٹ کر دیتی۔" سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا پھر قہقہہ مار کر ہنسا۔
"کیا کر دیتیں۔ میں۔۔۔۔۔ تمہیں۔۔۔۔۔ شوٹ۔۔۔۔۔ کر ۔۔۔۔۔ دیتی۔"
اس نے اسی انداز میں رک رک کر اسے کہا۔

anusinha
 

تھا کہ وہ مجھے تمہارے جیسے آدمی کے ہاتھوں رسوا کرتے، یہ ممکن ہی نہیں تھا۔"
"فرض کرو ایسا ہو جاتا۔" سالار مصر ہوا۔" میں ایسی بات کیوں فرض کروں جو نہیں ہوئی۔" وہ اپنی بات پر قائم تھی۔
"یعنی تم مجھے کسی قسم کا کوئی کریڈٹ نہیں دو گی۔" وہ مذاق اڑانے والے انداز میں مسکرایا۔
"اچھا فرض کرو میں اب تمہیں جانے نہیں دیتا تو تم کیا کرو گی۔ گاڑی کا دروازہ جب تک میں نہیں کھولوں گا، نہیں کھلے گا۔۔۔۔۔ یہ تم جانتی ہو۔۔۔۔۔ اب بتاؤ تم کیا کرو گی۔"
وہ یک ٹک اسے دیکھتی رہی۔" یا میں یہ کرتا ہوں۔"سالار نے ڈیش بورڈ پر پڑا ہوا اپنا موبائل اٹھایا اور اس پر ایک نمبر ڈائل کرنے لگا۔"کہ تمہارے گھر فون کر دیتا ہوں۔" اس نے موبائل کی سکرین کو اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ اس پر امامہ کے گھر کا نمبر تھا۔
"میں انہیں تمہارے بارے میں بتاتا ہوں کہ تم کہاں ہو،

anusinha
 

جیسے جلال انصر؟"
امامہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔"ہاں، اس نے میری مدد نہیں کی، مجھ سے شادی نہیں کی مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ برا ہو گیا ہے۔ وہ اچھا آدمی ہے۔۔۔۔۔ ابھی بھی میرے نزدیک اچھا آدمی ہے۔"
"اور میں نے تمہاری مدد کی۔۔۔۔۔ تم سے شادی کی مگر یقیناً اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اچھا ہو گیا ہوں، میں برا آدمی ہوں۔" وہ عجیب سے انداز میں کہتے ہوئے مسکرایا۔"تمہارا خود اپنے بارے میں کیا خیال ہے امامہ۔۔۔۔۔ کیا تم اچھی لڑکی ہو؟"
اس نے اچانک چبھتے ہوئے انداز میں پوچھا اور پھر جواب کا انتظار کئے بغیر کہنے لگا۔
"میرے نزدیک تم بھی اچھی لڑکی نہیں ہو، تم بھی ایک لڑکے کے لئے اپنے گھر سے بھاگی ہو۔۔۔۔۔ اپنے منگیتر کو دھوکا دیا ہے تم نے۔۔۔۔۔ اپنی فیملی کی عزت کو خراب کیا ہے تم نے۔۔۔۔۔" سالار نے ہر لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے صاف گوئی سے کہا۔

anusinha
 

"ہم ایک فضول بحث کر رہے ہیں۔"
"ہو سکتا ہے۔" سالار نے کندھے اچکائے۔"مگر مجھے حیرانی ہے کہ تم۔۔۔۔۔"
اس بار امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔" تم نے میرے لئے یقیناً بہت کچھ کیا ہے۔۔۔۔۔ اور اگر میں تمہیں جانتی نہ ہوتی تو یقیناً میں تمہیں ایک بہت اچھا انسان سمجھتی اور کہہ بھی دیتی۔۔۔۔۔ مگر میں تمہیں اتنی اچھی طرح جانتی ہوں کہ میرے لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ تم ایک اچھے انسان ہو۔۔۔۔۔"
وہ رکی۔ سالار پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
"جو آدمی خود کشی کی کوشش کرتا ہو، شراب پیتا ہو، جس نے اپنا کمرہ عورتوں کی برہنہ تصویروں سے بھر رکھا ہو۔۔۔۔۔ وہ اچھا آدمی تو نہیں ہو سکتا۔"امامہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"تم کسی ایسے آدمی کے پاس جاتیں جو یہ تینوں کام نہ کرتا مگر تمہاری مدد بھی نہ کرتا تو کیا تمہارے لئے وہ اچھا آدمی ہوتا؟" سالار نے تیز آواز میں کہا۔"

anusinha
 

سالار نے اچانک تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے پوچھا۔
"تمہیں نہیں لگتا کہ میں دراصل بہت اچھا لڑکا ہوں۔"
"ہو سکتا ہے۔" امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔ سالار کو اس کی بات پر جیسے شاک لگا۔
"ہو سکتا ہے۔" وہ بے یقینی سے مسکرایا۔"ابھی بھی ہو سکتا ہے، تم بہت ناشکری ہو امامہ، میں نے تمہارے لئے اتنا کچھ کیا ہے جو اس زمانے میں کوئی لڑکا نہیں کرے گا اور تم پھر بھی مجھے اچھا ماننے پر تیار نہیں۔"
"میں ناشکری نہیں ہوں۔ مجھے اعتراف ہیں کہ تم نے مجھ پر بہت احسان کئے ہیں اور شاید تمہاری جگہ کوئی دوسرا کبھی نہ کرتا۔۔۔۔۔"
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔" تو میں اچھا ہوا نا۔"
وہ کچھ نہیں بولی صرف اسے دیکھتی رہی۔
"نہیں، مجھے پتا ہے تم یہی کہنا چاہتی ہو، حالانکہ مشرقی لڑکی کی خاموشی اس کا اقرار ہوتی ہے مگر تمہاری خاموشی تمہارا انکار ہوتی ہے۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں نا۔"

anusinha
 

پچھلے کچھ ہفتوں میں تم نے میری بہت مدد کی ہے، میں اس کے لئے تمہارا شکریہ ادا کر نا چاہتی ہوں۔ تم میری مدد نہ کرتے تو آج میں یہاں نہ ہوتی۔" وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔ "تمہارا موبائل ابھی میرے پاس ہے، مگر مجھے ابھی اس کی ضرورت ہے، میں کچھ عرصہ بعد اسے واپس بھجوا دوں گی۔"
"اس کی ضرورت نہیں، تم اسے رکھ سکتی ہو۔"
"میں کچھ دنوں بعد تم سے دوبارہ رابطہ کروں گی پھر تم مجھے طلاق کے پیپرز بھجوا دینا۔" وہ رکی۔
"میں امید کرتی ہوں کہ تم میرے پیرنٹس کو کچھ نہیں بتاؤ گے۔"
"یہ کہنے کی ضرورت تھی؟" سالار نے بھنوئیں اچکاتے ہوئے کہا۔" مجھے کچھ بتانا ہوتا تو میں بہت پہلے بتا چکا ہوتا۔" سالار نے قدرے سردمہری سے کہا۔" تم مجھے بہت برا لڑکا سمجھتی تھیں، کیا ابھی بھی تمہاری میرے بارے میں وہی رائے ہے یا تم نے اپنی رائے میں کچھ تبدیلی کی ہے۔"

anusinha
 

لاہور کی حدود میں داخل ہوتے ہی امامہ نے اس سے کہا۔" اب تم مجھے کسی بھی اسٹاپ پر اتار دو۔۔۔۔۔ میں چلی جاؤں گی۔"
"تم جہاں جانا چاہتی ہو، میں تمہیں وہاں چھوڑ دیتا ہوں۔ اتنی دھند میں کسی ٹرانسپورٹ کا انتظار کرتے تمہیں بہت وقت لگے گا۔" سڑکیں اس وقت تقریباً ویران تھیں، حالانکہ صبح ہو چکی تھی مگر دھند نے ہر چیز کو لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
"مجھے نہیں پتا، مجھے کہاں جانا ہے پھر تمہیں میں کس جگہ کا پتا بتاؤں ۔ ابھی تو شاید میں ہاسٹل جاؤں اور پھر وہاں۔۔۔۔۔" سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
"تو پھر میں تمہیں ہاسٹل چھوڑ دیتا ہوں۔" کچھ فاصلہ اسی طرح خاموشی سے طے ہوا پھر ہاسٹل سے کچھ فاصلے پر امامہ نے اس سے کہا۔
"بس تم یہاں گاڑی روک دو، میں یہاں سے خود چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ہاسٹل نہیں جانا چاہتی۔" سالار نے سڑک کے کنارے گاڑی روک دی۔

anusinha
 

اس نے کھڑے ہوتے ہوئے سالار کے ہاتھ سے اس بالٹی کو پکڑ لیا جو اب تقریباً خالی ہونے والی تھی۔ سالار چند قدم پیچھے ہٹ کر محویت سے دیکھنے لگا۔
وہ وضو کر چکی تو سالار کی محویت ختم ہوئی۔ اس نے گھڑی ا س کی طرف بڑھا دی۔
آگے پیچھے چلتے ہوئے وہ اس کمرے تک آئے جہاں وہ آدمی گیا تھا۔ وہ آدمی جب تک کمرے میں ایک طرف مصلحٰے بچھا چکا تھا۔ امامہ خاموشی سے جائے نماز کی طرف بڑھ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

anusinha
 

دروازہ کھلنے کی آواز پر سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا۔
"یہاں کتنی دیر رکنا ہے؟" وہ سالار سے پوچھ رہی تھی۔
"دس پندرہ منٹ۔۔۔۔۔ میں انجن بھی ایک دفعہ چیک کروانا چاہتا ہوں۔"
"میں نماز پڑھنا چاہتی ہوں، مجھے وضو کرنا ہے۔" اس نے سالار سے کہا۔ اس سے پہلے کہ سالار کچھ کہتا۔
اس آدمی نے بلند آواز میں اسے پکارتے ہوئے کہا۔
"باجی! وضو کرنا ہے تو اس ڈرم سے پانی لے لیں۔"
"اور وہ نماز کہاں پڑھے گی؟" سالار نے اس آدمی سے پوچھا۔
"یہ سامنے والے کمرے میں۔۔۔۔۔ میں جائے نماز دے دیتا ہوں۔" وہ اب پائپ اتار رہا تھا۔
"پہلے جائے نماز دے دوں پھر انجن آ کر چیک کرتا ہوں۔" اس آدمی نے اس کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
سالار نے دور سے امامہ کو اس ڈرم کے پاس کچھ تذبذب کی حالت میں کھڑے دیکھا۔ وہ لاشعوری طور پر آگے چلا آیا۔ وہ تارکول کا ایک بہت بڑا خالی ڈرم تھا

anusinha
 

اور چاہے جہاں مرضی کر دیتے۔۔۔۔۔ میں کروا لیتی۔"
"چاہے وہ جلال انصر نہ ہوتا۔" استہزائیہ انداز میں کہا۔
"ہاں۔۔۔۔۔ اب بھی آخر کون سا ہو گئی ہے اس سے۔" اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر نمی جھلملا رہی تھی۔
"تو تم ان سے یہ کہہ دیتیں۔"
"کہا تھا۔۔۔۔۔ تم سمجھتے ہو میں نے نہیں کہا ہو گا۔"
"مجھے ایک بات پر بہت حیرانی ہے۔" سالار نے چند لمحوں کے بعد کہا۔"آخر تم نے مجھے سے مدد لینے کا فیصلہ کیوں کیا۔۔۔۔۔ بلکہ کیسے کر لیا۔ تم مجھے خاصا ناپسند کرتی تھیں۔" اس نے امامہ کی بات کا جواب دئیے بغیر بات جاری رکھی۔
"میرے پاس تمہارے علاوہ دوسرا کوئی آپشن تھا ہی نہیں۔" امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔" میری اپنی کوئی فرینڈ اس طرح میری مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی جس طرح کوئی لڑکا کر سکتا تھا۔ اسجد کے علاوہ میں صرف جلال اور تم سے واقف تھی۔۔۔۔۔

anusinha
 

میں نے تم سے کہا بعض چیزوں پر اختیار نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ بعض خواہشات۔۔۔۔۔ بس ان سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں ہوتا۔" اس نے افسردگی سے سر کو جھٹکتے ہوئے کہا۔
"اور اب جب وہ شادی کر چکا ہے تو اب تم کیا کرو گی؟"
"پتا نہیں۔"
"تم ایسا کرو۔۔۔۔۔ کہ تم کسی اور نعت پڑھنے والے کو ڈھونڈ لو، تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔" وہ مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔
امامہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی۔ وہ سفاکی کی حد تک بے حس تھا۔" اس طرح کیوں دیکھ رہی وہ تم۔۔۔۔۔ میں مذاق کر رہا ہوں۔" وہ اب اپنی ہنسی پر قابو پا چکا تھا۔ امامہ نے کچھ کہنے کے بجائے گردن موڑ لی۔
"تمہیں تمہارے فادر نے مارا ہے۔" سالار نے پہلے کی طرح کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولنے کا معمول جاری رکھا۔
"تمہیں کس نے بتایا۔" امامہ نے اسے دیکھے بغیر کہا۔
"ملازمہ نے۔" سالار نے اطمینان سے جواب دیا۔"

anusinha
 

امامہ نے اچانک اس سے پوچھا۔ وہ حیران ہوا۔
"آف کورس اپنی پسند سے۔۔۔۔۔ پیرنٹس کی پسند سے شادی والا زمانہ تو نہیں ہے یہ۔" اس نے کندھے اچکاتے ہوئے لاپرواہی سے کہا۔
"تم بھی تو کسی کوالٹی کی وجہ سے ہی کوئی لڑکی پسند کرو گے۔۔۔۔۔ شکل و صورت کی وجہ سے ۔۔۔۔۔ یا پھر جس سے تمہاری انڈراسٹینڈنگ ہو جائے گی اس سے۔۔۔۔۔ ایسا ہی ہو گا نا۔" وہ پوچھ رہی تھی۔
"یقیناً۔" سالار نے کہا۔
"میں بھی تو یہی کر رہی ہوں۔ اپنی اپنی ترجیحات کی بات ہوتی ہے۔ تم ان چیزوں کی بنا پر کسی سے شادی کرو گے، میں بھی ایسی ہی ایک وجہ کی بنا پر شادی کرنا چاہتی تھی جلال انصر سے۔۔۔۔۔" وہ رکی۔
"میری خواہش ہے، میری شادی اس سے ہو جو حضرت محمدﷺ سے مجھ سے زیادہ محبت رکھتا ہو۔ جلال انصر! آپ ﷺ سے مجھ سے زیادہ محبت کرتا تھا۔۔۔۔۔ مجھے لگا، مجھے اسی شخص سے شادی کرنی چاہئیے۔۔۔۔۔