"تم پچھلے کچھ دنوں سے بہت پریشان ہو، کوئی پرابلم ہے؟" وسیم نے اس رات امامہ سے پوچھا وہ پچھلے کچھ دن سے بہت زیادہ خاموش اور الجھی الجھی نظر آرہی تھی۔
"نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے تمہارا وہم ہے۔" امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"خیر وہم تو نہیں، کوئی نہ کوئی بات ہے ضرور۔ تم بتانا نہیں چاہتیں تو اور بات ہے۔" وسیم نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ وہ امامہ کے ڈبل بیڈ پر اس سے کچھ فاصلے پر لیٹا ہوا تھا اور وہ اپنی فائل میں رکھے نوٹس الٹ پلٹ رہی تھی۔ وسیم کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا پھر اس نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
"میں نے ٹھیک کہا نا، تم بتانا نہیں چاہتیں؟"
"ہاں میں فی الحال بتانا نہیں چاہتی۔" امامہ نے ایک گہرا سانس لے کر اعتراف کیا۔
"بتا دو، ہوسکتا ہے میں تمہاری مدد کرسکوں۔" وسیم نے اسے اکسایا۔
"وسیم! میں خود تمہیں بتا دوں گی
اور سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
تحریم سے ہونے والے جھگڑے کے بعد ایک تبدیلی جو اس میں آئی وہ اپنے مذہب کا مطالعہ تھا۔ تبلیغی مواد کے علاوہ ان کتابوں کے علاوہ جنہیں اس مذہب کے ماننے والے مقدس سمجھتے تھے اس نے اور بھی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کردیا اور بنیادی طور پر اسی زمانے میں اس کی الجھنوں کا آغاز ہوا مگر کچھ عرصہ مطالعہ کے بعد اس نے ایک بار پھر ان الجھنوں اور اضطراب کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ میٹرک کے فوراً بعد اسجد سے اسکی منگنی ہوگئی وہ اعظم مبین کا بیٹا تھا۔ یہ اگرچہ کوئی محبت کی منگنی نہیں تھی مگر اسکے باوجود امامہ اور اسجد کی پسند اس رشتہ کا باعث بنی تھی۔ نسبت طے ہونے کے بعد اسجد کے لئے امامہ کے دل میں خاص جگہ بن گئی تھی۔
اپنی پسند کے شخص سے نسبت کے بعد اس کا دوسرا ٹارگٹ میڈیکل میں ایڈمیشن تھا
ہونے والے خطبات کو بھی باقاعدگی سے سنتی اور دیکھتی آرہی تھی۔ تحریم کے ساتھ ہونے والے جھگڑے سے پہلے اس نے کبھی اپنے مذہب کے بارے میں غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے لئے اپنا فرقہ ایسا ہی تھا، جیسے اسلام کا کوئی دوسرا فرقہ۔۔۔۔۔ اس کی برین واشنگ بھی اسی طرح کی گئی تھی کہ وہ سمجھتی تھی کہ صرف وہی سیدھے راستے پر تھے بلکہ وہی جنت میں جائیں گے۔
اگرچہ گھر میں بہت شروع میں ہی اسے باقی بہن بھائیوں کے ساتھ یہ نصیحت کردی گئی تھی کہ وہ بلاوجہ لوگوں کو یہ نہ بتائیں کہ وہ دراصل کیا ہیں۔ اسکول میں تعلیم کے دوران ہی وہ یہ بھی جان گئی تھی کہ 1974ء میں انہیں پارلیمنٹ نے ایک غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا تھا وہ سمجھتی تھی کہ یہ مذہبی داؤ میں آ کر کیا جانے والا ایک سیاسی فیصلہ ہے، مگر تحریم کے ساتھ ہونےو الے جھگڑے نے اسے اپنے مذہب کے بارے میں غور کرنے
جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور اس نے ہاشم مبین کو بھی کسی قسم کے مالی مسائل سے گزرتے نہیں دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے لئے تحریم کی یہ بات ناقابل یقین تھی کہ اس کے خاندان نے پیسہ حاصل کرنے کے لئے یہ مذہب اختیار کیا۔ غیر ملکی مشنز اور بیرون ملک سے ملنے والے فنڈز کا الزام بھی اس کے لئے ناقابلِ قبول تھا۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ ہاشم مبین اس مذہب کی تبلیغ اور ترویج کرتے ہیں اور تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک ہیں مگر یہ کوئی خلاف معمول بات نہیں تھی۔ وہ شروع سے ہی اس سلسلے میں اپنے تایا اور والد کی سرگرمیوں کو دیکھتی آرہی تھی۔ اس کے نزدیک یہ کام ایسا تھا جو وہ "اسلام" کی تبلیغ و ترویج کے لئے کررہے تھے۔
اپنے گھر والوں کے ساتھ وہ کئی بار مذہبی اجتماع میں بھی جاچکی تھی اور سرکردہ رہنماؤں کے لندن سے سیٹلائٹ کے ذریعے
دس پندرہ سالوں میں وہ دونوں بھائی اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔ اس کی وجہ سے انہوں نے بے تحاشا پیسہ کمایا اور اس پیسے سے انہوں نے سرمایا کاری بھی کی مگر ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تحریک کی تبلیغ کے لئے میسر ہونے والے فنڈز ہی تھے۔ ان کا شمار اسلام آباد کی ایلیٹ کلاس میں ہوتا تھا۔ بے تحاشا دولت ہونے کے باوجود ہاشم اور اعظم مبین کے گھر کا ماحول روایتی تھا۔ ان کی خواتین باقاعدہ پردہ کیا کرتی تھیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ان خواتین پر ناروا پابندیاں یا کسی قسم کا جبر روا رکھا گیا تھا۔ اس مذہب کی خواتین میں تعلیم کا تناسب پاکستان میں کسی بھی مذہب کے مقابلے میں ہمیشہ ہی زیادہ رہا ہے ان لوگوں نے اعلی تعلیم بھی معروف اداروں سے حاصل کی۔
امامہ بھی اسی قسم کے ماحول میں پلی بڑھی تھی۔ وہ یقینا ً ان لوگوں میں سے تھی
کہ اب تحریم کیساتھ د وبارہ پہلے جیسے تعلقات قائم رکھنا اس کے لئے مشکل ہوگیا تھا۔ خود تحریم نے بھی اس کی اس خاموشی کو پھلانگنے یا توڑنے کی کوشش نہیں کی۔
ہاشم مبین احمد احمدی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے بڑے بھائی، اعظم مبین احمد بھی جماعت کے اہم رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ان کے پورے خاندان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی تمام افراد بہت سال پہلےاس وقت قادیانیت اختیار کرگئے تھے جب اعظم مبین احمد نے اس کام کا آغاز یا تھا جن لوگوں نے قادیانیت اختیار نہیں کی تھی وہ باقی لوگوں سے قطع تعلق کرچکے تھےاپنے بڑے بھائی اعظم مبین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہاشم مبین نے بھی یہ مذہب اختیار کرلیا۔ اعظم مبین ہی کی طرح انہوں نے اپنے مذہب کے فروغ اور تبلیغ کے لئے کام کرنا بھی شروع کردیا۔
اس دن وہ گھر واپس آکر اپنے کمرے میں بند ہوکر روتی رہی۔ تحریم کی باتوں نے اسے واقعی بہت دل برداشتہ اور مایوس کیا تھا۔
ہاشم مبین احمد اس دن شام کو ہی آفس سے گھر واپس آگئے ۔ واپس آنے پر انہیں سلمیٰ سے پتا چلا کہ امامہ کی طبیعت خراب ہے وہ اس کا حال احوال پوچھنےا س کے کمرے میں چلے آئے۔ امامہ کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ ہاشم مبین حیران رہ گئے۔
"کیا بات ہے امامہ؟" انہوں نے امامہ کے قریب آکر پوچھا
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور کچھ بہانہ کرنے کی بجائے بے اختیار رونے لگی۔ ہاشم کچھ پریشان ہوکر اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئے۔
"کیا ہوا۔۔۔۔۔ امامہ؟"
"تحریم نے آج اسکول میں مجھ سے بہت بدتمیز کی ہے۔" اس نے روتے ہوئے کہا۔
ہاشم مبین نے بے اختیار ایک اطمینان بھری سانس لی۔ "پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے تم لوگوں میں؟"
"بابا! آپ کو نہیں پتا اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟"
امامہ نے اسے جاتے ہوئے دیکھا پھر گردن موڑ کر اپنے پاس بیٹھی جویریہ کی طرف دیکھا۔
"کیا تم بھی میرے بارے میں ایسا ہی سوچتی ہو؟"
"تحریم نے غصہ میں آکر تم سے یہ سب کچھ کہا ہے۔ تم اس کی باتوں کا برا مت مانو۔" جویریہ نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
"تم ان سب باتوں کو چھوڑو۔۔۔۔۔ آؤ کلاس میں چلتے ہیں۔ بریک ختم ہونے والی ہے۔" جویریہ نے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوگئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تمہیں یقین نہیں آرہا تو تم اپنے گھر والوں سے پوچھ لینا کہ اس قدر دولت کس طرح آئی ان کے پاس۔۔۔۔۔ اور ابھی بھی کس طرح آرہی ہے۔ تمہارے والد اس مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ہر سال لاکھوں ڈالرز آتے ہیں، انہیں غیر ملکی مشنز اور این جی اوز سے۔۔۔۔۔" تحریم نے کچھ تحقیر آمیز انداز میں کہا۔
"یہ جھوٹ ہے، سفید جھوٹ۔" امامہ نے بے اختیار کہا۔ "میرے بابا کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیتے۔ وہ اگر اس فرقہ کے لئے کام کرتے ہیں، تو غلط کیا ہے۔ کیا دوسرے فرقوں کے لئے کام نہیں کیا جاتا۔ دوسرے فرقوں کے بھی تو علماء ہوتے ہیں یا ایسے لوگ جو انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔"
"دوسرے فرقوں کو یورپی مشنز سے روپیہ نہیں ملتا۔"
"میرے بابا کو کہیں سے کچھ نہیں ملتا۔" امامہ نے ایک بار پھر کہا۔ تحریم نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
بہت سے لوگوں سے دوستی ہوتی ہے ہماری اور دوستی میں عام طور پر مذہب آڑے نہیں آتا لیکن گھر میں آنا جانا۔۔۔۔۔ کچھ مختلف چیز ہے۔۔۔۔۔ انہیں شاید میری کسی عیسائی یا یہودی یا ہندو دوست کے گھر جانے پر اعتراض نہ ہولیکن تمہارے گھر جانے پر ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ لوگ اپنے مذہب کو مانتے ہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے جس مذہب سے تعلق ہوتا ہے وہی بتاتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا تم لوگوں کو ناپسند کیا جاتا ہے اتنا ان لوگوں کو نہیں کیا جاتا کیونکہ تم لوگ صرف پیسے کے حصول اور اچھے مستقبل کے لئے یہ نیا مذہب اختیار کرکے ہمارے دین میں گھسنے کی کوشش کررہے ہو، مگر کرسچن، ہندو یا یہودی ایسا نہیں کرتے۔"
امامہ نے بے اختیار اسے ٹوکا۔ "کس پیسے کی بات کررہی ہو تم؟ تم ہماری فیملی کو جانتی ہو۔۔۔۔۔ ہم لوگ شروع سے ہی بہت امیر ہیں۔
ورنہ تمہیں پتا ہوتا ان سرکردہ رہنماؤں کے بارے میں۔"
جویریہ تحریم کی اس ساری گفتگو کے دوران خاموش رہی تھی، وہ صرف کن اکھیوں سے امامہ کو دیکھتی رہی تھی۔ "اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ محمد ﷺ اس کے آخری نبی ہیں اور میرے پیغمبر ﷺ اس پر گواہی دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے آخری نبی ہیں اور میری کتاب مجھ تک یہ دونوں باتیں بہت صاف واضح اور دوٹوک انداز میں پہنچا دیتی ہے تو پھر مجھے کسی اور شخص کے ثبوت اور اعلان کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ سمجھیں۔"
تحریم نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"بہتر ہے تم اپنے مذہب کو یا ہمارے مذہب کو زیر بحث لانے کی کوشش نہ کرو۔ اتنے سالوں سے دوستی چل رہی ہے، چلنے دو۔۔۔۔۔"
"جہاں تک تمہارے گھر نہ آنے کا تعلق ہے تو ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے کہ میرے والدین کو تمہارے گھر آنا پسند نہیں ۔ یہاں اسکول میں تم سے دوستی اور بات ہے۔
بالکل اسی طرح تم لوگوں کا نبی ہے کیونکہ تم اس کے پیروکار ہو۔ ویسے تم لوگ تو ہمیں بھی مسلمان نہیں سمجھتے۔ ابھی تم اصرار کررہی ہو کہ تم اسلام کا ایک فرقہ ہو۔۔۔۔۔ جبکہ تمہارے نبی اور اس کے بعد آنے والے تمہاری جماعت کے تمام لیڈرز کا دعویٰ ہے کہ جو مرزا کی نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔ تو اسلام سے تو تم لوگ تمام مسلمانوں کو پہلے ہی خارج کرچکے ہو۔"
"ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں نے ایسا کب کہا ہے؟" امامہ نے قدرے لڑکھڑائے ہوئے لہجے میں کہا۔
"تو پھر تم اپنے والد سے ذرا اس معاملے کو ڈسکس کرو۔۔۔۔۔ وہ تمہیں خاصی اپ ٹو ڈیٹ انفارمیشن دیں گے اس بارے میں۔۔۔۔۔ تمہارے مذہب کے خاصے سرکردہ رہنما ہیں وہ۔۔۔۔۔" تحریم نے کہا۔ "اور یہ جو کتابیں تم ہمیں پیش کررہی ہو۔۔۔۔۔ انہیں خود پڑھا ہے تم نے۔۔۔۔۔ نہیں پڑھا ہوگا۔۔۔۔۔
اور نہ اس کے بارے میں جس پر تم بات کررہی ہو۔"
تحریم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"اور میں ایک چیز بتادوں تمہیں۔۔۔۔۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ تم لوگ محمد ﷺ کی نبوت کے ختم ہونے کا انکار کرتے ہو تو ہمارے پیغمبر ﷺ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔"
"مگر ہم محمد ﷺ کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں۔" امامہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
"تو پھر ہم بھی انجیل پر یقین رکھتے ہیں، اسے الہامی کتاب مانتے ہیں، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں تو کیا ہم کرسچن ہیں؟ اور ہم تو حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کی نبوت پر بھی یقین رکھتے ہیں تو کیا پھر ہم یہودی ہیں؟" تحریم نے کچھ تمسخر سے کہا۔ "لیکن ہمارا دین اسلام ہے، کیونکہ ہم محمد ﷺ کے پیروکار ہیں اور ہم ان پیغمبروں پر یقین رکھنے کے باوجود نہ عیسائیت کا حصہ ہیں نہ یہودیت کا،
اور تم لوگ اگر حضور ﷺ کو پیغمبر مانتے ہو تو کوئی احسان نہیں کرتے۔ تم ان کی نبوت کو جھٹلاؤ گے تو اور کیا جھٹلاؤ گے، پھر تو انجیل کو بھی جھٹلانا پڑے گا۔ جس میں حضور ﷺ کی نبوت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ پھر تو توریت کو بھی جھٹلانا پڑے گاجس میں ان کی نبوت کی بات کی گئی ہے، پھر قرآن پاک کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو محمد ﷺ کو آخری نبی قرار دیتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر تمہارا نبی محمد ﷺ کی نبوت کو جھٹلاتا ہے تو وہ ان مناظروں کی کیا توجیہہ پیش کرتا جو وہ نبوت کا دعویٰ کرنے سے پہلے کئی سال عیسائی پادریوں سے محمد ﷺ کی نبوت اور اسلام کے آخری دین ہونے پر کرتا رہاتھا۔ اس لئے امامہ ہاشم! تم ان چیزوں کے بارے میں بحث کرنے کی کوشش مت کرو جن کے بارے میں تمہیں سرے سے کچھ پتا ہی نہیں ہے۔ تمہیں نہ اس مذہب کے بارے میں پتا ہے جس پر تم چل رہی ہو
تم لوگوں کو اگر قرآن پر واقعی یقین ہوتا تو تمہیں اس کے ایک ایک حرف پر یقین ہوتا۔ نبی ہونے میں اور نبی بننے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔"
"تحریم! تم میری اور میرے فرقہ کی بے عزتی کررہی ہو۔" امامہ نے انکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ کہا۔
"میں کسی کی بے عزتی نہیں کررہی۔ میں صرف حقیقت بیان کررہی ہوں، وہ اگر تمہیں بے عزتی لگتی ہے تو میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتی۔" تحریم نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
"روزہ رکھنے اور بھوکے رہنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ قرآن پڑھنے اور اس پر ایمان لانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بہت سارے عیسائی اور ہندو بھی اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے قرآن پاک پڑھتے ہیں تو کیا انہیں مسلمان مان لیا جاتا ہے اور بہت سے مسلمان بھی دوسرے مذہب کے بارے میں جاننے کے لئے دوسری الہامی کتابیں پڑھتے ہیں تو کیا وہ غیر مسلم ہوجاتے ہیں
اس لئے تم کو کوئی وضاحت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" اس نے بڑے روکھے لہجے میں امامہ سے کہا۔ "اور جہاں تک ان کتابوں کا تعلق ہے تو میرے اور جویریہ کے پاس اتنا بے کار وقت نہیں ہے کہ ان احمقانہ دعوؤں، خوش فہمیوں اور گمراہی کے اس پلندے پر ضائع کریں جسے تم اپنی کتابیں کہہ رہی ہو۔" تحریم نے ایک جھٹکے کے ساتھ جویریہ کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں کھینچ کر انہیں بھی امامہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ امامہ کا چہرہ خفت اور شرمندگی سے سرخ پڑ گیا۔ اسے تحریم سے اس طرح کے تبصرے کی توقع نہیں تھی اگر ہوتی تو وہ کبھی اسے وہ کتابیں دینے کی حماقت ہی نہ کرتی۔
"اور جہاں تک اس احترام کا تعلق ہے تو اس نبی میں جس پر نبوت کا نزول ہوتا ہے اور اس نبی میں جو خودبخود نبی ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
"تم سے کس نے کہا کہ ہمیں تمہارے مذہب یا تمہارے نبی کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں ہیں؟" تحریم نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
"میں خود اندازہ کرسکتی ہوں۔ صرف اسی وجہ سے تو تم لوگ ہمارے گھر نہیں آتے۔ تم لوگ شاید یہ سمجھتے ہو کہ ہم لوگ مسلمان نہیں ہیں یا ہم لوگ قرآن نہیں پڑھتے یا ہم لوگ محمد ﷺ کو پیغمبر نہیں مانتے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہم لوگ ان سب چیزوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کے بعد ہمارا بھی ایک نبی ہے اور وہ بھی اسی طرح قابل احترام ہے جس طرح محمد ﷺ۔" امامہ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
تحریم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتابیں اسے واپس تھما دیں۔ "ہمیں تمہارے اور تمہارے مذہب کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہم تمہارے مذہب کے بارے میں ضرورت سے زیادہ جانتے ہیں۔
بریک کے دوران وہ جب گراؤنڈ میں آکر بیٹھیں تو امامہ اپنے ساتھ وہ کتابیں بھی لے آئی۔
"میں تمہارے اور جویریہ کے لئے کچھ لے کر آئی ہوں۔
"کیا لائی ہو دکھاؤ!۔" امامہ نے شاپر سے وہ کتابیں نکال لیں اور انہیں دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ان دونوں کی طرف بڑھا دیا۔ وہ دونوں ان کتابوں پر نظر ڈالتے ہی کچھ چپ سی ہوگئیں۔ جویریہ نے امامہ سے کچھ نہیں کہا مگر تحریم یکدم کچھ اکھڑ گئی۔
"یہ کیا ہے؟" اس نے سردمہری سے پوچھا۔
"یہ کتابیں میں تمہارے لئے لائی ہوں۔" امامہ نے کہا۔
"کیوں؟"
"تاکہ تم لوگوں کی غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔"
"کس طرح کی غلط فہمیاں؟"
"وہی غلط فہمیاں جو تمہارے دل میں، ہمارے مذہب کے بارے میں ہیں۔" امامہ نے کہا۔
میں ان لوگوں کو اپنی کتابیں پڑھنے کے لئے دوں گی، تاکہ ان کے دل سے میرے بارے میں یہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں، پھر ہوسکتا ہے یہ ہمارے نبی کو بھی مان جائیں۔" امامہ نے کہا اس کی امی کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔
"آپ کو میری تجویز پسند نہیں آئی؟"
"ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔ تم ضرور انہیں اپنی کتابیں دو۔۔۔۔۔ مگر اس طریقے سے نہیں کہ انہیں یہ لگے کہ تم اپنے فرقہ کی ترویج کے لئے انہیں یہ کتابیں دے رہی ہو۔ تم انہیں یہ کہہ کر کتابیں دینا کہ تم چاہتی ہو کہ وہ ہمارے بارے میں جانیں۔ ہم کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں اور ان سے یہ بھی کہنا کہ ان کتابوں کا ذکر وہ اپنے گھروالوں سے نہ کریں۔۔۔۔۔ ورنہ وہ لوگ زیادہ ناراض ہوجائیں گے۔" امامہ نے انکی بات پر سرہلادیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس کے چند دنوں بعد امامہ اسکول میں کچھ کتابیں لے گئی تھی۔
حالانکہ خود انہیں ہمارے بارے میں کچھ پتا نہیں۔۔۔۔۔ بس مولویوں کے کہنے میں آکر ہم پر چڑھ دوڑتے ہیں، انہیں ہمارے بارے میں اور ہمارے نبی کی تعلیمات کے بارے میں کچھ پتا ہو تو یہ لوگ اس طرح نہ کریں۔ شاید پھر انہیں کچھ شعور آجائے۔۔۔۔۔ اور یہ لوگ بھی ہماری طرح راہ راست پر آجائیں۔ تمہاری فرینڈز اگر تمہارے گھر نہیں آتیں تو تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم بھی ان کے گھر مت جایا کرو۔"
"مگر امی! انکی غلط فہمیاں تو دور ہونا چاہیں میرے بارے میں۔" امامہ نے ایک بار پھر کہا۔
"یہ کام تم نہیں کرسکتیں۔ ان لوگوں کے ماں باپ مسلسل اپنے بچوں کی ہمارے خلاف برین واشنگ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں ہمارے خلاف زہر بھرتے رہتے ہیں۔"
"نہیں امی! وہ میری بیسٹ فرینڈز ہیں۔ ان کو میرے بارے میں اس طرح نہیں سوچنا چاہیے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain