Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

۔" امامہ کو ان کی بات پر تعجب ہوا۔
"اب یہ تو وہی لوگ بتا سکتے ہیں کہ وہ ہمارے فرقے کو کیوں پسند نہیں کرتے۔۔۔۔۔ یہ تو ہمیں غیر مسلم بھی کہتے ہیں۔" اس کی امی نے کہا۔
"کیوں غیر مسلم کہتے ہیں۔ ہم تو غیر مسلم نہیں ہیں۔" امامہ نے کچھ الجھ کر کہا۔
"ہاں بالکل۔ ہم مسلمان ہیں۔۔۔۔۔ مگر یہ لوگ ہمارے نبی پر یقین نہیں رکھتے۔" اسکی امی نے کہا۔
"کیوں؟"
"اب اس کیوں کا میں کیا جواب دے سکتی ہوں۔ اب یہ لوگ یقین نہیں رکھتے۔ کٹر ہیں بڑے، یہ تو انہیں قیامت کے دن ہی پتا چلے گا کہ کون سیدھے رستے پر تھا۔ ہم یا یہ۔۔۔۔۔۔"
"مگر امی مجھ سے تو انہوں نے کبھی مذہب پر بات نہیں کی۔ پھر مذہب مسئلہ کیسے بن گیا۔۔۔۔۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے پھر دوسرے کے گھر آنے جانے سے کیا ہوتا ہے۔" امامہ ابھی بھی الجھی ہوئی تھی۔
"یہ بات انہیں کون سمجھائے۔۔۔۔۔ یہ لوگ ہمیں جھوٹا کہتے ہیں،

anusinha
 

مگر اسے حیرت ہوتی تھی کہ اتنی گہری دوستی کے باوجود بھی جویریہ اور تحریم اس کے گھر آنے سے کتراتی تھیں۔ امامہ ہر سال اپنی سالگرہ پر انہیں انوائیٹ کرتی اور اکثر وہ اپنے گھر پر ہونے والی دوسری تقریبات میں بھی انہیں مدعو کرتیں، وہ گھر سے اجازت نہ ملنے کا بہانہ بنا دیتیں۔ چند بار امامہ نے خود ان دونوں کے والدین سے اجازت لینے کے لئے بات کی، لیکن اس کے بے تحاشا اصرار کے باوجود ان دونوں کے والدین انہیں اس کے گھر آنے کی اجازت نہ دیتے۔ ان کے رویے پر کچھ شاکی ہوکر اس نے اپنے والدین سے شکایت کی۔
"تمہاری یہ دونوں فرینڈز سید ہیں۔ یہ لوگ عام طور پر ہمارے فرقہ کو پسند نہیں کرتے۔ اسی لئے ان دونوں کے والدین انہیں ہمارے گھر آنے نہیں دیتے۔"
ایک بار اس کی امی نے اس کی شکایت پر کہا۔
"یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔ ہمارے فرقے کو کیوں پسند نہیں کرتے۔"

anusinha
 

اور کیا نہیں۔۔۔۔۔"
"تم نہیں جانتیں اور یہی افسوس ناک بات ہے۔" جویریہ نے کہا امامہ نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اس بار بہت زور کے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑالیا اور تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے چل پڑی۔
اس بار جویریہ نے اس کے پیچھے جانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کچھ افسوس اور پریشانی سے اسے دور جاتے دیکھتی رہی۔ امامہ اس طرح ناراض نہیں ہوتی تھی جس طرح وہ آج ہوگئی تھی اور یہی بات جویریہ کو پریشان کررہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ سب کچھ اسکول میں ہونے والے ایک واقعے سے شروع ہوا تھا۔ امامہ اس وقت میٹرک کی اسٹوڈنٹ تھی اور تحریم اس کی اچھی دوستوں میں سے ایک تھی۔ وہ لوگ کئی سال سے اکٹھے تھے اور نہ صرف ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے بلکہ انکی فیملیز بھی ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔ اپنی فرینڈز میں سے امامہ کی سب سے زیادہ دوستی تحریم اور جویریہ سے تھی

anusinha
 

ور وہ مسلسل اپنا بازو جویریہ کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کررہی تھی۔
"یہ تمہارا اصرار تھا کہ میں تمہیں اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاؤں۔ میں اسی لئے تمہیں نہیں بتا رہی تھی اور میں نے تمہیں پہلے ہی متنبہ کردیا تھا کہ تم میری بات پر بہت ناراض ہوگی مگر تم نے مجھے یقین دلایا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔" جویریہ نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
"مجھے اگر یہ پتا ہوتا کہ تم میرے ساتھ اس طرح کی بات کرو گی تو میں کبھی تم سے تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش جاننے پر اصرار نہ کرتی۔" امامہ نے اس بار قدرے غصے سے کہا۔
"اچھا میں دوبارہ اس معاملے پر تم سے بات نہیں کروں گی۔" جویریہ نے قدرے مدافعانہ انداز میں کہا۔
"اس سے کیا ہوگا۔ مجھے یہ تو پتا چل گیا ہے کہ تم درحقیقت میرے بارے میں کیا سوچتی ہو۔۔۔۔۔ ہماری دوستی اب کبھی بھی پہلے جیسی نہیں ہوسکتی۔

anusinha
 

تمہیں تو میں اپنا دوست سمجھتی تھی مگر تم بھی۔۔۔۔۔" جویریہ نے نرمی سے اس کی بات کاٹ دی۔
"تحریم نے تم سے تب جو کچھ کہا تھا، ٹھیک کہا تھا۔" امامہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی، اسے جویریہ کی باتوں سے بہت تکلیف ہورہی تھی۔
"اور صرف آج ہی نہیں، میں اس وقت بھی تحریم کو صحیح سمجھتی تھی مگر میری تمہارے ساتھ دوستی تھی اور میں چاہنے کے باوجود تم سے یہ نہیں کہہ سکی کہ میں تحریم کو حق بجانب سمجھتی ہوں۔ اگر وہ یہ کہتی تھی کہ تم مسلمان نہیں ہو تو یہ ٹھیک تھا۔ تم مسلمان نہیں ہو۔"
امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ جویریہ بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ امامہ کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے جانے کی کوشش کی مگر جویریہ نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
"تم میرا بازو چھوڑ دو۔۔۔۔۔ مجھے جانے دو، آئندہ کبھی تم مجھ سے بات تک مت کرنا۔"

anusinha
 

مگر اس کے گھر کس لئے گئی تھیں تم؟"
"دوستی ہے اس سے میری۔" امامہ نے کہا۔
"دوستی۔۔۔۔۔؟ کیسی دوستی۔۔۔۔۔؟ چار دن کی سلام دعا ہے تمہارے ساتھ اس کی اور میرا خیال ہے تم تو اسے اچھی طرح جانتی بھی نہیں ہو پھر اس کے گھر رہنے کے لئے کیوں چل پڑیں؟" جویریہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔
"وہ بھی اس طرح جھوٹ بول کر۔۔۔۔۔ کم از کم اس کے گھر جاکر رہنے کے لئے تمہیں ہم سے یا اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔" رابعہ نے اسی لہجے میں کہا۔
"تم اسے کال کرکے پوچھ لو کہ میں اس کے گھر پر تھی یا نہیں۔۔۔۔۔" امامہ نے کہا۔
"چلو یہ مان لیا کہ تم اس کے گھر پر تھیں مگر کیوں تھیں؟" جویریہ نے پوچھا۔
امامہ خاموش رہی پھر کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ "مجھے اس کی مدد کی ضرورت تھی۔"
ان دونوں نے حیران ہوکر دیکھا۔ "کس سلسلے میں؟"

anusinha
 

مجھے اپنی پوزیشن کلئیر کرنے دو رابعہ! تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو۔" امامہ نے اس بار قدرے کمزور انداز میں کہا۔
"تم کو احساس ہے کہ تمہاری وجہ سے ہمارا کیرئیر اور ہماری زندگی کس طرح داؤ پر لگ گئی تھی۔ یہ دوستی ہوتی ہے؟ اسے دوستی کہتے ہیں؟"
"ٹھیک ہے۔ مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے معاف کردو۔" امامہ نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
"جب تک تم یہ نہیں بتاؤ گی کہ تم کہاں غائب ہوگئی تھیں، میں تمہاری کوئی معذرت قبول نہیں کروں گی۔" رابعہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
امامہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
"میں صبیحہ کے گھر چلی گئی تھی۔" جویریہ اور رابعہ نے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"کون۔۔۔۔۔؟" ان دونوں نے تقریباً بیک وقت پوچھا۔
"تم لوگ جانتی ہو اسے۔" امامہ نے کہا۔
"وہ فورتھ ائیر کی صبیحہ؟" جویریہ نے بے اختیار پوچھا۔
امامہ نے سرہلایا۔ "

anusinha
 

اتنا غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا نہ ہی کسی غلط جگہ پر گئی ہوں اور ہاں بھاگی بھی نہیں ہوں۔" امامہ نے جوتوں کی قید سے اپنے پیروں کو آزاد کرتے ہوئے قدرے دھیمے لہجے میں کہا۔
"پھر تم کہاں گئی تھیں؟" اس بار جویریہ نے پوچھا۔
"اپنی ایک دوست کے ہاں۔"
"کونسی دوست؟"
"ہے ایک۔"
"اس طرح جھوٹ بول کر کیوں؟"
"میں تم لوگوں کے سوالوں سے بچنا چاہتی تھی اور گھر والوں کو بتاتی یا ان سے اجازت لینے کی کوشش کرتی تو وہ کبھی اجازت نہ دیتے۔"
"کس کے ہاں گئی تھیں؟ اور کس لئے؟" جویریہ نے اس بار قدرے تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔
"میں نے کہا نا، میں بتا دوں گی۔ کچھ وقت دو مجھے۔" امامہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
"کوئی وقت نہیں دے سکتے تمہیں۔۔۔۔۔ تمہیں وقت دیں تاکہ تم ایک بار پھر غائب ہوجاؤ اور اس بار واپس ہی نہ آؤ۔"

anusinha
 

بہتر ہے تمہارے پیرنٹس کو تمہاری ان حرکتوں کے بارے میں پتا چل جائے۔" رابعہ نے دو ٹوک انداز میں اس سے کہا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"کون سی حرکتوں کے بارے میں۔۔۔۔۔ میں نے کیا کیا ہے۔"
"کیا کیا ہے؟ ہاسٹل سے اس طرح دو دن کے لئے گھر کا کہہ کر غائب ہوجانا تمہارے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے۔"
امامہ جواب دینے کے بجائے دوسرے جوتے کے بھی اسٹریپس کھولنے لگی۔
"مجھےو ارڈن کے پاس چلے ہی جانا چاہیے۔"
رابعہ نے غصے کے عالم میں دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
جویریہ نے آگے بڑھ کر اسے روکا۔ "وارڈن سے بات کرلیں گے، پہلے اس سے تو بات کرلیں۔ تم جلد بازی مت کرو۔"
"مگر اس ڈھیٹ کا اطمینان دیکھو۔۔۔۔۔ مجال ہے ذرہ برابر شرمندگی بھی اس کے چہرے پر جھلک رہی ہو۔" رابعہ نے غصے میں امامہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"میں تم دونوں کو سب کچھ بتا دوں گی۔

anusinha
 

اب کیوں منہ بند ہوگیا ہے۔ اب بھی کہو اسلام آباد سے آرہی ہو۔" رابعہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"بابا یہاں۔ آئے تھے؟" امامہ نے اٹکتے ہوئے کہا۔
"ہاں آئے تھے، تمہارے کچھ کپڑے دینے کے لئے۔" جویریہ نے کہا۔
"انہیں یہ پتا چل گیا کہ میں ہاسٹل میں نہیں ہوں۔"
"میں نے جھوٹ بول دیا کہ تم ہاسٹل سے کسی کام سے باہر گئی ہو، وہ کپڑے دے کر چلے گئے۔" جویریہ نے کہا۔ امامہ نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔
"یعنی انہیں کچھ پتا نہیں چلا؟" اس نے بستر پر بیٹھ کر اپنے جوتے کے اسٹریپس کھولتے ہوئے کہا۔
"نہیں انہیں کچھ پتا نہیں چلا۔۔۔۔۔ تم منہ اٹھا کر اگلے ہفتے پھر کہیں روانہ ہوجانا۔ مائنڈ یو امامہ! میں اب وارڈن سے اس سلسلے میں بات کرنے والی ہوں۔ ہم تمہاری وجہ سے خاصی پریشانی اٹھا چکے ہیں۔ مزید اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

anusinha
 

یہ کہ ہم ڈفر ہیں۔ ایڈیٹ ہیں۔ پاگل ہیں۔ بھئی ہم ہیں۔ ہم مانتے ہیں۔۔۔۔۔ نہ ہوتے تو یوں تم پر اندھا اعتبار نہ کیا ہوتا تم سے اتنا بڑا دھوکا نہ کھایا ہوتا۔" رابعہ نے کہا۔
"مجھے تمہاری کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ کونسا دھوکا۔۔۔۔۔ کیسا دھوکا، کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم آرام سے مجھے اپنی بات سمجھاؤ۔" امامہ نے بے چارگی سے کہا۔
"تم ویک اینڈ کہاں گزار کر آئی ہو؟" جویریہ نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔
"تمہیں بتا چکی ہوں اسلام آباد میں، وہاں سے آج سیدھا کالج آئی ہوں اور اب کالج سے۔۔۔۔۔" رابعہ نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔
"بکواس بند کرو۔۔۔۔۔ یہ جھوٹ اب نہیں چل سکتا، تم اسلام آباد نہیں گئی تھیں۔"
"یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟" اس بار امامہ نے بھی قدرے بلند آواز میں کہا۔
"کیونکہ تمہارے فادر یہاں آئے تھے کل۔" امامہ کا رنگ اڑ گیا۔ وہ کچھ بول نہیں سکی

anusinha
 

وہ وارڈن کے کمرے سے ابھی کچھ دور ہی تھیں جب انہوں نے امامہ کو بڑے اطمینان کے ساتھ اندر آتے دیکھا۔ اس کا بیگ اس کے کاندھے پر تھا اور فولڈر ہاتھوں میں، وہ یقیناً سیدھی کالج سے آرہی تھی۔
جویریہ اور رابعہ کو یوں لگا جیسے ان کے پیروں کے نیچے سے نکلتی ہوئی زمین یکدم تھم گئی تھی۔ ان کی رکی ہوئی سانس ایک بار پھر چلنے لگی تھی۔ کل کے اخبارات میں متوقع وہ ہیڈلائنز جو بھوت بن کر ان کے گرد ناچ رہی تھیں یکدم غائب ہوگئیں اور ان کی جگہ اس غصے اور اشتعال نے لے لی تھی جو انہیں امامہ کی شکل دیکھ کر آیا تھا۔
وہ انہیں دیکھ چکی تھی اور اب ان کی طرف بڑھ رہی تھی، اس کے چہرے پر بڑی خوشگوار سی مسکراہٹ تھی۔
"تم دونوں آج کالج کیوں نہیں آئیں؟" سلام دعا کے بعد اس نے ان سے پوچھا۔
"تمہاری مصیبتوں سے چھٹکارا ملے گا تو ہم کہیں آنے جانے کا سوچ سکیں گے۔"

anusinha
 

اس کے والد سے کہ وہ یہاں نہیں ہے، پھر وہ جو چاہے کرتے، یہ ان کا مسئلہ ہوتا، کم از کم ہم تو اس طرح نہ پھنستے جس طرح اب پھنس گئے ہیں۔" رابعہ مسلسل بڑبڑارہی تھی۔
"خیر اب کیا ہوسکتا ہے، صبح تک انتظار کرتے ہیں اگر وہ کل بھی نہیں آئی تو پھر وارڈن کو سب کچھ بتا دیں گے۔" جویریہ نے کمرے کے چکر لگاتے ہوئے کہا۔
وہ رات ان دونوں نے اسی طرح باتیں کرتے جاگتے ہوئے گزار لی۔ اگلے دن وہ دونوں کالج نہیں گئیں۔ اس حالت میں کالج جانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔
امامہ ویک اینڈ پر ہفتہ کو واپسی پر نوبجے کے قریب آجایا کرتی تھی مگر وہ اس دن نہیں آئی۔ ان کے اعصاب جواب دینے لگے۔ ڈھائی بجے کے قریب وہ فق رنگت اور کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اپنے کمرے سے وارڈن کے کمرے میں جانے کے لئے نکل آئیں، ان کے ذہن میں وہ جملے گردش کررہے تھے، جو انہیں وارڈن سے کہنے تھے۔

anusinha
 

تاکہ اس کا بھائی اسے کوسٹر کے اسٹینڈ سے پک کرلے۔ اگر اس بار بھی اس نے اطلاع دی تھی تو پھر اس کے وہاں نہ پہنچنے پر وہ لوگ اطمینا ن سے وہاں نہ بیٹھے ہوتے، وہ یہاں ہوسٹل میں فون کرتے اور اس کے والد کے انداز سے تو ایسا محسوس ہوا ہے جیسے اس کا اس ویک اینڈ پر اسلام آباد کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔" رابعہ نے اس کے قیاس کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔ وہ کبھی بھی ایک ماہ میں دوبار اسلام آباد نہیں جاتی تھی مگر اس بار تو وہ دوسرے ہی ہفتے اسلام آباد جارہی تھی اور اس نے وارڈن سے خاص طور پر یہ کہہ کر اجازت لی تھی۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے، کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور غلط ہے۔" جویریہ کو پھر خدشات ستانے لگے۔
"اسکے ساتھ ساتھ ہم بھی بری طرح ڈوبیں گے۔ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی جو ہم نے سب کچھ اس طرح کوراپ کیا، ہمیں صاف صاف بات کرنی چاہیے تھی

anusinha
 

"ایسا ہونے میں کوئی دیر تھوڑی لگتی ہے، بس انسان کا کردار کمزور ہونا چاہیے۔" رابعہ بدگمانی کی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی۔
"رابعہ! اس کی مرضی سے اس کی منگنی ہوئی تھی، وہ اور اسجد ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے پھر وہ اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتی ہے۔" جویریہ نے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
"پھر تم بتاؤ کہ وہ کہاں ہے۔۔۔۔۔ میں نے تو مکھی بنا کر اسے کسی دیوار کے ساتھ نہیں چپکایا ہے، اس کے بابا اس سے ملنے یہاں آئے ہیں اور وہ اپنے گھر سے آئے ہیں، تو ظاہر ہے وہ گھر پر نہیں گئی اور ہم سے وہ یہی کہہ کر گئی تھی کہ وہ گھر جارہی ہے۔" رابعہ نے بے چارگی سے کہا۔
"ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ اسے کوئی حادثہ پیش آگیا ہو۔ ہوسکتا ہے وہ اسی لئے گھر نہ پہنچ سکی ہو۔"
"وہ ہر بار یہاں سے فون کرکے اسلام آباد اپنے گھر والوں کو ا پنے آنے کی اطلاع دے دیتی تھی

anusinha
 

وہ اندازہ کرسکتی تھیں اور اسی لئے باربار ان کے رونگٹے کھڑے ہورہے تھے۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ گئی کہاں۔۔۔۔۔ اور کیوں۔۔۔۔۔ وہ دونوں اس کے پچھلے رویوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ کس طرح پچھلے ایک سال سے وہ بالکل بدل گئی تھی، اس نے انکے ساتھ گھومنا پھرنا بند کردیا تھا، وہ الجھی الجھی رہنے لگی تھی، پڑھائی میں اس کا انہماک بھی کم ہوگیا تھا اور اس کی کم گوئی۔
"اور وہ جو ایک بار وہ ہمارے شاپنگ کے لئے جانے پر پیچھے سے غائب تھی، تب بھی وہ یقیناً وہیں گئی ہوگی جہاں وہ اب گئی ہے اور ہم نے کس طرح بے وقوفوں کی طرح اس پر اعتبار کرلیا۔" رابعہ کو پچھلی باتیں یاد آرہی تھیں۔
"مگر امامہ ایسی نہیں تھی، میں تو اسے بچپن سے جانتی ہوں۔ وہ ایسی بالکل بھی نہیں تھی۔" جویریہ کو اب بھی اس پر کوئی شک نہیں ہورہا تھا۔

anusinha
 

جویریہ اور رابعہ رات بھر سو نہیں سکیں۔ وہ مکمل طور پر خوف کی گرفت میں تھیں۔ اگر وہ نہ آئی تو کیا ہوگا، یہ سوال ان کے سامنے بار بار بھیانک شکلیں بدل بدل کر آرہا تھا۔ انہیں اپنا کیرئیر ڈوبتا ہوا نظر آرہا تھا۔ انہیں اندازہ تھا کہ ان کے گھر والے ایسے معاملے پر کیسا ردعمل ظاہر کریں گے۔ وہ انہیں بری طرح ملامت کرتے، انہیں امامہ کے والد کو سب کچھ صاف صاف نہ بتانے پر تنقید کا نشانہ بناتے اور پھر وارڈن سے سارے معاملے کو چھپانے پر اور بھی ناراض ہوتے۔
انہیں اندازہ نہیں تھا کہ حقیقت سامنے آنے پر خود ہاشم مبین اور انکی فیملی کا ردعمل کیا ہوگا، وہ اس سارے معاملے میں ان دونوں کے رول کو کس طرح دیکھیں گے۔ ہاسٹل میں لڑکیاں ان کے بارے میں کس طرح کی باتیں کریں گی اور پھر اگر یہ سارا معاملہ پولیس کیس بن گیا تو پولیس ان کی اس پردہ پوشی کو کیا سمجھے گی،

anusinha
 

ورنہ وہ ایسی لڑکی تو نہیں ہے کہ اس طرح۔۔۔۔۔" رابعہ کو اچانک ایک خدشے نے ستایا۔
"مگر اب ہم کیا کریں۔ ہم تو کسی سے اس سارے معاملے کو ڈسکس بھی نہیں کرسکتے۔" جویریہ نے ناخن کترتے ہوئے کہا۔
"زینب سے بات کریں۔" رابعہ نے کہا۔
"فار گاڈ سیک رابعہ! کبھی تو عقل سے کام لے لیا کرو، اس سے کیا بات کریں گے ہم۔" جویریہ نے جھنجلا کر کہا۔
"تو پھر انتظار کرتے ہیں، ہوسکتا ہے وہ آج رات تک یا کل تک آجائے اگر آگئی تو پھر کوئی مسئلہ نہیں رہے گا اور اگر نہ آئی تو پھر ہم وارڈن کو سب کچھ سچ سچ بتا دیں گے۔" رابعہ نے سنجیدگی سے سارے معاملے پر غور کرتے ہوئے طے کیا۔ جویریہ نے اسے دیکھا مگر اس کے مشورے پر کچھ کہا نہیں۔ پریشانی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

anusinha
 

جویریہ نے پیکٹ بستر پر پھینکتے ہوئے کہا۔
"وارڈن سے کیا کہا تم نے؟" رابعہ نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا۔
"کیا کہا؟ جھوٹ بولا ہے اور کیا کہہ سکتی ہوں۔ یہ بتا دیتی کہ وہ اسلام آباد میں نہیں ہے تو ہاسٹل میں ابھی ہنگامہ شروع ہوجاتا، وہ تو پولیس کو بلوا لیتیں۔" جویریہ نے ناخن کاٹتے ہوئے کہا۔
"اور انکل کو۔۔۔۔۔ ان کو کیا بتایا ہے؟" رابعہ نے پوچھا۔
"ان سے بھی جھوٹ بولا ہے، یہی کہا ہے کہ وہ مارکیٹ گئی ہے۔"
"مگر اب ہوگا کیا؟" رابعہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
"مجھے تو یہ فکر ہورہی ہے کہ اگر وہ واپس نہ آئی تو میں تو بری طرح پکڑی جاؤں گی۔ سب یہی سمجھیں گے کہ مجھے اس کے پروگرام کا پتا تھا، اس لئے میں نے وارڈن اور اس کے گھروالوں سے سب کچھ چھپایا۔" جویریہ کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔
"کہیں امامہ کو کوئی حادثہ ہی پیش نہ آگیا ہو؟

anusinha
 

ہاشم کے لہجے میں شکوہ تھا۔
"انکل! امامہ ماکیٹ گئی ہے کچھ دوستوں کے ساتھ، آپ یہ پیکٹ مجھے دے دیں، میں خود اسے دے دوں گی۔"
"ٹھیک ہے، تم رکھ لو۔" ہاشم نے وہ پیکٹ جویریہ کی طرف بڑھا دیا۔
رسمی علیک سلیک کے بعد وہ واپس مڑ گئے۔ جویریہ بھی پیکٹ پکڑ کر ہاسٹل کی طرف چلی گئی مگر اب اس کے چہرے پر موجود مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی، کوئی بھی اس وقت اس کے چہرے پر پریشانی کو واضح طور پر بھانپ سکتا تھا۔
ہاسٹل کے اندر آتے ہی وارڈن سے اس کا سامنا ہوگیا جو سامنے ہی کھڑی تھیں، جویریہ کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ آگئی۔
"بات ہوئی تمہاری اس کے والد سے؟" وارڈن نے اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
"جی بات ہوئی، پریشانی والا کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ اسلام آباد میں اپنے گھر پر ہی ہے، اس کے والد یہ پیکٹ لے کر آئے تھے، میرے گھر والوں نے میرے کچھ کپڑے بھجوائے ہیں۔