Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

وہ خود امامہ کے ہاسٹل چلے آئے۔ اس کے ایڈمیشن کے بعد آج پہلی بار وہ وہاں آئے تھے۔ گیٹ کیپر کے ہاتھ انہوں نے امامہ کے لئے پیغام بھجوایا اور خود انتظار کرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی آجائے گی مگر ایسا نہ ہوا، دس منٹ، پندرہ منٹ، بیس منٹ۔۔۔۔۔ وہ اب کچھ بیزار ہونے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ اندر دوبارہ پیغام بھجواتے انہیں گیٹ کیپر ایک لڑکی کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ کچھ قریب آنے پر انہوں نے اس لڑکی کو پہچان لیا وہ جویریہ تھی امامہ کی بچپن کی دوست اور اس کا تعلق بھی اسلام آباد سے ہی تھا۔
"السلام علیکم انکل!۔" جویریہ نے پاس آکر کہا۔
"وعلیکم السلام! بیٹا کیسی ہو تم۔"
"میں ٹھیک ہوں۔"
"میں یہ امامہ کے کچھ کپڑے دینے آیا تھا، لاہور آرہا تھا تو اس کی امی نے یہ پیکٹ دے دیا۔ اب یہاں بیٹھے مجھے گھنٹہ ہوگیا ہے مگر انہوں نے اسے بلایا نہیں۔"

anusinha
 

اب کیا کیا جاسکتا ہے، بس میرے مقدر میں تھا یہ سب کچھ۔" وسیم نے ایک مصنوعی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
"مجھے کبھی بھی موبائل فون نہیں خریدنا چاہیے کیونکہ یہ میرے کسی کام نہیں آسکے گا۔ کم از کم جہاں تک گرل فرینڈ کی تلاش کا سوال ہے۔" وہ ایک بار پھر کرسی جھلانے لگا۔
"دیر سے ہی سہی مگر بات تمہاری سمجھ میں آہی گئی۔" امامہ نے ہاتھ بڑھا کر میز سے ہیڈفون اٹھاتے ہوئے کہا۔
"ویسے تم سن کیا رہی تھیں؟" وسیم کو اسے ہیڈفون اٹھاتے دیکھ کر پھر یاد آیا۔
"ویسے ہی کچھ خاص نہیں تھا۔" امامہ نے اٹھتے ہوئے اسے جیسے ٹالا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

anusinha
 

سات آٹھ ماہ پہلے شاید تم سے اس کی گرل فرینڈ کی بات ہوئی تھی۔"
"ہاں تب شیبا تھی۔ اب پتا نہیں وہ کہاں ہے۔"
"اس بار تو گاڑی کے پچھلے شیشے پر اس نے اپنے موبائل کا نمبر بھی پینٹ کروایا ہوا تھا۔" امامہ ایک موبائل نمبر دہراتے ہوئے ہنسی۔
"تمہیں یاد ہے؟" وسیم بھی ہنسا۔
"میں نے زندگی میں پہلی بار اتنا بڑا موبائل نمبر کہیں لکھا دیکھا تھا اور وہ بھی گاڑی کے شیشے پر اس کے نام کے ساتھ، یاد تو ہونا ہی تھا۔" امامہ پھر ہنسی
"میں تو خود سوچ رہا ہوں اپنی گاڑی کے شیشے پر موبائل نمبر لکھوانے کا۔" وسیم نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"کونسے موبائل کا۔ وہ جو تم نے ابھی خریدا بھی نہیں۔" امامہ نے وسیم کا مذاق اڑآیا۔
"میں خرید رہا ہوں اس ماہ۔"
"بابا سے جوتے کھانے کے لئے تیار رہنا۔

anusinha
 

حلیہ بڑا عجیب سا ہوتا ہے اس کا۔ مجھے بعض دفعہ لگتا ہے ہپیوں کے کسی قبیلے سے کسی نہ کسی طرح اس کا تعلق ہوگا یا آئندہ ہوجائے گا۔"
"تم نے دیکھا ہے اسے؟"
"کل میں باہر سے آرہی تھی تو دیکھا تھا۔ وہ بھی اسی وقت باہر نکل رہا تھا، کوئی لڑکی بھی تھی ساتھ۔"
"لڑکی؟ جینز وغیرہ پہنی ہوئی تھی اس نے؟ وسیم نے اچانک دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
"ہاں۔"
"مشروم کٹ بالوں والی۔۔۔۔۔فئیر سی؟"
"ارسہ۔"" وسیم چٹکی بجاتے ہوئے مسکرایا۔ "اس کی گرل فرینڈ ہے۔"
"پچھلی دفعہ تو تم کسی اور کا نام لے رہے تھے۔" امامہ نے اسے گھورا۔
"پچھلی دفعہ کب؟" وسیم سوچ میں پڑ گیا۔

anusinha
 

تم جب سے لاہور گئی ہو خاصی بدل گئی ہو۔"
"مجھ پر اسٹڈیز کا بہت بوجھ ہوتا ہے۔"
"سب پر ہوتا ہے امامہ! مگر کوئی بھی اسٹڈیز کوا تنا سر پر سوار نہیں کرتا۔" وسیم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
"چھوڑو اس فضول بحث کو، یہ بتاؤ تم آج کل کیا کررہے ہو؟"
"عیش۔" وہ اسی طرح کرسی جھلاتا رہا۔
"یہ تو تم پورا سال ہی کرتے ہو، میں آج کل کی خاص مصروفیت کا پوچھ رہی ہوں۔"
"آج کل تو بس دوستوں کے ساتھ پھر رہا ہوں۔ تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ پیپرز کے بعد میری مصروفیات کیا ہوتی ہیں۔ سب کچھ بھولتی جارہی ہو تم۔" وسیم نے افسوس بھری نظروں سے کہا۔
"میں نے اس امید میں یہ سوال کیا تھا کہ شاید اس سال تم میں کوئی بہتری آجائے مگر نہیں، میں نے بے کار سوال کیا۔" امامہ نے اس کے تبصرے کے جواب میں کہا۔
"تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ میں تم سے ایک سال بڑا ہوں، تم نہیں،

anusinha
 

"اور تمہیں پتا ہے کہ تم آہستہ آہستہ کتنی خودغرض ہوتی جارہی ہو۔" وسیم نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ امامہ نے اس کی بات پر برا نہیں مانا۔
"اچھا۔۔۔۔۔ تمہیں پتا چل گیا کہ میں خودغرض ہوں۔" اس بار اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"حالانکہ تم جتنے بے وقوف ہو میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ نتیجہ اخذ کرلو گے۔"
"تم اگر مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش کررہی ہو تو مت کرو، میں شرمندہ نہیں ہوں گا۔" وسیم نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
"پھر بھی ایسے کاموں کی کوشش تو ہر ایک پر فرض ہوتی ہے۔"
"آج تمہاری زبان کچھ زیادہ نہیں چل رہی؟" وسیم نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہوسکتا ہے۔"
"ہوسکتا ہے نہیں، ایسا ہی ہے۔ چلو اچھا ہے، وہ چپ شاہ کا روزہ تو توڑ دیا ہے تم نے جو اسلام آباد آنے پر تم رکھ لیتی ہو۔" امامہ نے غور سے وسیم کو دیکھا۔
"کون سا چپ شاہ کا روزہ؟"

anusinha
 

اس نے بڑے صلح جویانہ انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
"نہیں، اب مجھے نہیں سننا کچھ، تم ہیڈفون رکھو اپنے پاس۔" امامہ نے ہیڈفون کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔
"ویسے تم سن کیا رہی تھیں؟"
"کیا سنا جاسکتا ہے؟" امامہ نے اسی کے انداز میں کہا۔
"غزلیں سن رہی ہوگی؟" وسیم نے خیال ظاہر کیا۔
"تمہیں پتا ہے وسیم! تم میں بہت ساری عادتیں بوڑھی عورتوں والی ہیں؟"
"مثلاً۔"
"مثلاً بال کی کھال اتارنا۔"
"اور۔"
"اور دوسری کی جاسوسی کرتے پھرنا اور شرمندہ بھی نہ ہونا۔

anusinha
 

انہوں نے اسے ان توقعات کے بارے میں بھی بتایا جو وہ اس سے رکھتے تھے ۔ اسے ان محبت بھرے جذبات سے بھی آگاہ کیا جو وہ اس کے لئے محسوس کرتے تھے ۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ چیونگم چباتا باپ کی بے چینی اور ماں کے آنسو دیکھتا رہا ۔ گفتگو کے آخر میں سکندر نے تقریبا" تنگ آکر اس سے کہا ۔
تمہیں کس چیز کی کمی ہے ۔ کیا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے یا جو تمہیں چاہیے ۔ مجھے بتاؤ سالار سوچ میں پڑگیا
اسپورٹس کار ۔ اگلے لمحے اس نے کہا
ٹھیک ہے میں تمہیں اسپورٹس کار باہر سے منگوادیتا ہوں مگر دوبارہ ایسی کوئی حرکت مت کرنا جو تم نے کی ہے ۔ اوکے ۔ سکندر عثمان کو کچھ اطمینان ہوا ۔
سالار نے سر ہلا دیا ۔ طیبہ نے ٹشو سے اپنے آنسو صاف کرنے ہوئے جیسے سکون کا سانس لیا ۔
وہ کمرے سے چلا گیا تو سکندر نے سگار سلگاتے ہوئے ان سے کہا

anusinha
 

ہوسکتا ہے یہ توجہ حاصل کرنے کے لئے یہ سب کرتا ہو ۔
اس نے کئی ماہ کے بعد سالار کے ماں باپ کو مشورہ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے باہر بجھوانے کے بجائے اسلام آباد کے ایک ادارے میں ایڈمیشن دلوا دیا گیا ۔ سکندر کو یہ اطمینان تھا کہ وہ اسے اپنے پاس رکھیں گے تو شاید وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے ۔ سالار نے ان کے فیصلے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس نے ان کے اس فیصلے پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اسے بیرون ملک تعلیم کے لئے بجھوایا جائے گا ۔
سائیکوانالسٹ کے ساتھ آخری سیشن کے بعد سکندر اسے گھر لے آئے اور انہوں نے طیبہ کے ساتھ مل کر اس سے ایک لمبی چوڑی میٹنگ کی ۔ وہ دونوں اپنے بیڈ روم میں بٹھا کر اسے ان تمام آسائشوں کے بارے میں بتاتے رہے جو وہ پچھلے کئی سالوں میں اسے فراہم کرتے رہے تھے ۔

anusinha
 

بات گھوم پھر کرپھر وہیں آگئی تھی ۔ سائیکلوانالسٹ کچھ دیر سوچتا رہا ۔
کیا تم یہ سب کسی لڑکی کی وجہ سے کررہے ہیں ؟
سالار نے گردن موڑ کر حیرانی سے اسے دیکھا ۔ لڑکی کی وجہ سے ؟
ہاں ۔ کوئی ایسی لڑکی جو تمہیں اچھی لگتی ہو جس سے تم شادی کرنا چاہتے ہو ۔ اس نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور پھر ہنستا ہی گیا ۔
مائی گاڈ ۔ آپ کا مطلب ہے کہ کسی لڑکی کی محبت کی وجہ سے میں خودکشی ۔۔۔۔ وہ ایک بار پھر بات ادھوری چھوڑ کر ہنسنے لگا ۔ لڑکی کی محبت ۔۔۔۔۔ اور خود کشی ۔ ۔۔۔۔ کیا مذاق ہے ۔
وہ اب اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا ۔
سائیکوانالسٹ نے اس طرح کے کئی سیشنز اس کے ساتھ کئے تھے اور ہر بار نتیجہ وہی ڈھاک کے وہی تین پات رہا ۔
آپ اسکو تعلیم کے لئے بیروں ملک بجھوانے کی بجائے یہیں رکھیں اور اس پر بہت زیادہ توجہ دیں ۔

anusinha
 

تم اس طرح کی چیزوں میں وقت ضائع کیوں کرتے ہو ۔ اتنا شاندار اکیڈمک ریکارڈ ہے تمہارا ۔
سالار نے اس بار انتہائی بیزاری سے جواب دیا ۔ پلیز پلیز اب میری ذہانت کے راگ الاپنا شروع مت کیجئے گا ۔۔ مجھے پتا ہے میں کیا ہوں ۔۔۔۔ تنگ آگیا ہوں میں اپنی تعریفیں سنتے سنتے ، اس کے لہجے میں تلخی تھی ، سائیکوانالسٹ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا ۔
اپنے لئے کوئی گول کیوں نہیں سیٹ کرتے تم ؟
میں نے کیا ہے ؟
کیا
مجھے خودکشی کے ایک اور کوشش کرنی ہے ۔ مکمل اطمینان تھا ۔
کیا تمہیں کوئی ڈپریشن ہے ؟
ناٹ ایٹ آل ۔
تو پھر مرنا کیوں چاہتے ہو ؟ ایک گہرا سانس
کیا آپ کو ایک بار پھر سے بتانا شروع کروں کہ میں مرنا نہیں چاہتا ۔ میں کچھ اور کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔ وہ اکتایا۔

anusinha
 

بہت تیز میوزک بج رہا ہے ، آپ ڈرنک کررہے ہیں ، آپ نے کچھ ڈرگزبھی لی ہوئی ہیں ، آپ ناچ رہے ہیں پھر آہستہ آہستہ آپ اپنے ہوش و حواس کھو دیتے ہیں ۔ آپ سرور میں ہیں ، کہاں ہیں ؟ کیوں ہیں ؟ کیا کررہے ہیں ؟ آپ کو کچھ بھی پتا نہیں لیکن آپ کو یہ ضرور پتا ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ آپ کو اچھا لگ رہا ہے ۔ میں جب باہر چھٹیاں گزارنے جاتا ہوں تو اپنے کزنز کے ساتھ ایسے بارز میں جاتا ہوں ۔ میرا پرابلم یہ ہے کہ ان کی طرح میں مدہوش نہیں ہوتا ۔ میں نے کبھی خوشی محسوس نہیں کی ۔ مجھے ان چیزوں سے اتنی خوشی نہیں مل پاتی جتنی باقی لوگوں کو ملتی ہے اور یہی چیز مجھے مایوس کرتی ہے ۔ میں نے سوچا کہ اگر سرور کی انتہا پر نہیں پہنچ سکتا تو شاید میں درد کی انتہا پر پر پہنچ سکوں لیکن وہ بھی نہیں ہوسکا ۔ وہ خاصا مایوس نظر آرہا تھا

anusinha
 

سائیکوانالسٹ نے ایک گہرا سانس لے کر اس 150 آئی کیو لیول والے نوجوان کو دیکھا جو اب چھت کو گھور رہا تھا ۔
تو ایک بار خود کشی کی کوشش سے تمہارا یہ تجسس ختم نہیں ہوا ۔
اور تب ۔۔۔۔۔ تب میں بے ہوش ہوگیا تھا ۔ اس لئے میں ٹھیک سے کچھ بھی محسوس نہیں کرسکا ۔ دوسری بار بھی ایسا ہی ہوا ۔ تیسری بار بھی اسیا ہی ہوا ۔ وہ مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے بولا ۔
اور اب تم چوتھی بار کوشش کرو گے ؟
یقینا" میں محسوس کرنا چاہتا ہوں کہ درد کی انتہا پر جاکر کیسا لگتا ہے ۔
کیا مطلب ؟
جیسے خوشی کی انتہا سرور ہوتا ہے ۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خوشی کی اس انتہا کے بعد کیا ہے ۔ اسی طرح درد کی بھی تو کوئی انتہا ہوتی ہوگئی ۔ جس کے بعد آپ کچھ بھی سمجھ نہیں سکتے ، جیسے سرور میں آپ کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے ۔
میں نہیں سمجھ سکا ۔
فرض کریں آپ ایک بار میں ہیں ۔

anusinha
 

جس کے پاس سکندر کے اسے اپنے ایک دوست کے مشورہ پر بھیجا تھا ۔
ٹھیک ہے سالار ۔ بالکل ٹو دی پوائنٹ بات کرتے ہیں ۔ مرنا کیوں چاہتے ہو تم ؟
سالار نے کندھے اچکائے ۔ آپ سے کس نے کہا میں مرنا چاہتا ہوں
خودکشی کی تین کوششیں کرچکے ہو تم
کوشش کرنے اور مرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے
تینوں دفعہ تم اتفاقا" بچے ہو ورنہ تم نے خود کو مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔
دیکھیں ۔ جس کو آپ خودکشی کی کوشش کہہ رہے ہیں ، میں اسے خودکشی کی کوشش نہیں سمجھا ، میں صرف دیکھنا چاہتا تھا کہ موت کی تکلیف کیسی ہوتی ہے ۔
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگا جو بڑے پرسکون انداز میں انہیں سمجھانے کی کوشش کررہا تھا ۔
اور موت کی تکلیف تم کیوں محسوس کرنا چاہتےتھے ۔
بس ایسے ہی تجسس سمجھ لیں ۔

anusinha
 

پچھلے دونوں واقعات بھی انہیں پوری طرح یاد آگئے تھے اور وہ پچھتانے لگے کہ انہوں نے پہلے اسکی بات پر اعتبار کیوں کیا ۔ پورا گھر اس کی وجہ سے پریشان ہوگیا تھا ۔ اس کے بارے میں اسکول ، کالونی اور خاندان ہر جگہ خبریں پھیل رہی تھیں ۔ وہ اس بار اس بار سے انکار نہیں کرسکتا تھا کہ اس نے خود کشی کی کوشش نہیں کی تھی ۔ مگر وہ یہ بتانے پر تیار نہیں تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا ۔ بھائی ، بہن ، ماں یا باپ اس نے کسی کے سوال کا بھی جواب نہیں دیا تھا ۔
سکندر اے لیولز کے بعد اس کے بڑے دو بھائیوں کی طرح اسے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھجوانا چاہتے تھے ، وہ جانتے تھے اسے کہیں بھی نہ صرف بڑی آسانی سے ایڈمیشن مل جائے گا بلکہ اسکالرشپ بھی ، لیکن ان کے سارے پلانز جیسے بھک کرکے اڑ گئے تھے ۔
اور اب وہ اس سائیکوانالسٹ کے سامنے موجود تھا ،

anusinha
 

اس کے پیچھے آنے والے ٹریفک کانسٹیبل نے ایسا کرتے ہوئے اسے دیکھا تھا ۔ خوش قسمتی سے گاڑی سے ٹکرانے کے بعد وہ ہوا میں اچھل کر ایک دوسری گاڑی کی چھت پر گرا اور پھر زمین پر گر گیا ۔۔ اس کے بازو اور ایک ٹانگ میں فریکچرز ہوئے ، تب اس کے والدین کانسٹیبل کے اصرار کے باوجود بھی اسے ایک حادثہ ہی سمجھے ، کیونکہ اس نے اپنے ماں باپ سے یہی کہا تھا کہ وہ غلطی سے ون وے سے ہٹ گیا تھا
دوسری بار اس نے پورے ایک سال بعد لاہور میں خود کو باندھ کر پانی میں ڈبونے کی کوشش کی ۔ ایک بار پھر اسے بچا لیا گیا ۔ پل پر کھڑے لوگوں نے اسے رسی سمیت باہر کھینچ لیا تھا۔ اس بار اس بات کی گواہی دینے والوں کی تعداد زیادہ تھی کہ اس نے خود اپنے آپ کو پانی میں گرایا تھا مگر اس کے ماں باپ کو ایک بار پھر یقین نہیں آیا ۔ سالار کا بیان یہ تھا کہ کچھ لڑکوں نے اسکی گاڑی کو

anusinha
 

اس کا آئی کیو لیول 150 کی رینج میں تھا ۔ وہ تھرو آوٹ ، آوٹ اسٹینڈنگ اکیڈمک ریکارڈ رکھتا تھا ۔ وہ گالف میں پریزیڈنٹس گولڈ میڈل تین بار جیت چکا تھا ۔ اور وہ ۔۔۔۔۔ وہ تیسری بار خودکشی کی ناکام کوشش کرنے کے بعد اس کے پاس آیا تھا ۔ اس کے والدین ہی اسے اس کے پاس لے کر آئے تھے اور وہ بے حد پریشان تھے ۔
وہ ملک کے چند بہت اچھے خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتا تھا ۔ ایسا خاندان جس کے پاس پیسے کی بھرمار تھی ۔ چار بھائیوں اور ایک بہن کے بعد وہ چوتھے نمبر پر تھا ۔ دو بھائی اور ایک بہن اس سے بڑے تھے ۔ اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے وہ اپنے والدین کا بہت زیادہ چہیتا تھا ۔ اس کے باوجود پچھلے تین سال میں اس نے تین بار خودکشی کی کوشش کی ۔ پہلی دفعہ اس نے سڑک پر بائیک چلاتے ہوئے ون وے کی خلاف ورزی کی اور بائیک سے ہاتھ اٹھا لیے ۔

anusinha
 

میں آپکو ایک مشورہ دوں ؟
کیا ؟
آپ میرے بارے میں وہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جو نہ آپ پہلے جانتے ہیں نہ میں ۔
آپ کے دائیں طرف ٹیبل پر جو سفید فائل پڑی ہے اس میں میرے بارے میں ساری تفصیل موجود ہے پھر آپ وقت ضائع کیوں کر رہے ہیں
سائیکوانالسٹ نے اپنے پاس موجود ٹیبل لیمپ کی روشنی میں سامنے کاؤچ پر دراز اس نوجوان کو دیکھا جو اپنے پیر مسلسل ہلا رہا تھا ۔ اس کے چہرے پر گہرا اطمینان تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سائیکلوانالسٹ کے ساتھ ہونے والی اس ساری گفتگو کو بے کار سمجھ رہا تھا ۔ کمرے میں موجود ٹھنڈک ، خاموشی اور نیم تاریکی نے اسکے اعصاب کو بالکل بھی متاثر نہیں کیا تھا ۔ وہ بات کرتے ہوئے وقتا" فوقتا" کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑا رہا تھا ۔ سائیکو انالسٹ کے لئے سامنے لیٹا ہوا نوجوان عجیب کیس تھا ۔ وہ فوٹو گرافک میموری کا مالک تھا ۔

anusinha
 

پھر میں وہاں سے واپس آگئی، بس رستے میں کچھ کتابیں لی تھیں میں نے ۔ امامہ نے کہا
دیکھا ۔ تم سے پہلے کہا تھا کہ ہمارے ساتھ چلو مگر اس وقت تم نے فورا" انکار کردیا ، بعد میں بےوقوفوں کی طرح پیچھے چل پڑیں ۔ ہم لوگ تو مشکوک ہوگئے تھے تمہارے بارے میں ۔ رابعہ نے کچھ اطمینان سے ایک شاپر کھولتے ہوئے کہا ۔
امامہ نے کوئی جواب نہیں دیا ، وہ صرف مسکراتے ہوئے ان دونوں کو دیکھتی رہی ۔ وہ دونوں اب اپنے شاپر کھولتے ہوئے خریدی ہوئی چیزیں اسے دکھا رہی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارا نام کیا ہے ؟
پتا نہیں
ماں باپ نے کیا رکھا تھا ؟
یہ ماں باپ سے پوچھیں ۔ ۔۔۔۔ خاموشی
لوگ کس نام سے پکارتے ہیں تمہیں ؟

anusinha
 

ہاسٹل میں تو کسی کے روم میں نہیں چلی گئی ۔ رابعہ نے خیال ظاہر کیا ۔ وہ دونوں اگلے کئی منٹ ان واقف لڑکیوں کے کمروں میں جاتی رہیں ، جن سے انکی ہیلو ہائے تھی مگر امامہ کا کہیں پتا نہیں تھا ۔
کہیں ہاسٹل سے باہر تو نہیں گئی ۔ رابعہ کو اچانک خیال آیا ۔
آؤ وارڈن سے پوچھ لیتے ہیں ۔ جویریہ نے کہا ۔ وہ دونوں وارڈن کے پاس چلی آئیں ۔
ہاں ، امامہ ابھی کچھ دیر پہلے باہر گئی ہے ۔ وارڈن نے انکی انکوائری پر بتایا ۔ جویریہ اور رابعہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگیں ۔
وہ کہہ رہی تھی شام کو آئے گی ۔ وارڈن نے انہیں مزید بتایا ۔ وہ دونوں وارڈن کے کمرے سے نکل آئیں ۔ یہ گئی کہاں ہے ؟ ہمارے ساتھ تو جانے سے انکار کردیا تھا کہ اسے سونا ہے اور وہ تھکی ہوئی ہے اور اسکی طبعیت خراب ہے ۔ اب وہ اس طرح غائب ہوگئی ہے ۔ رابعہ نے الجھے ہوئے انداز میں کہا ۔