تھوڑی دیر بعد جویریہ بھی اندر آگئی اور وہ بھی اسے ساتھ چلنے کے لئے مجبور کرتی رہی ، مگر امامہ کی زبان پر ایک ہی رٹ تھی ۔ نہیں مجھے سونا ہے ، میں بہت تھک گئی ہوں ۔ وہ مجبورا" اسے برا بھلا کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں ۔
رستے سے انہوں نے زینب کو اس کے گھر سے پک کیا اور زینب کو پک کرتے ہوئے جویریہ کو یاد آیا کہ اس کے بیگ کے اندر اس کا والٹ نہیں ہے ۔ وہ اسے ہاسٹل میں ہی چھوڑ آئی تھی ۔
واپس ہاسٹل چلتے ہیں ، وہاں سے والٹ لے کر پھر بازار چلیں گے ، جویریہ کے کہنے پر وہ لوگ دوبارہ ہاسٹل چلی آئیں ۔ مگر وہاں آکر انہیں حیرانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کمرے کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا
یہ امامہ کہاں ہے ۔ رابعہ نے حیرانی سے کہا ۔
پتا نہیں ۔ کمرہ لاک کرکے اس طرح کہاں جاسکتی ہے ۔ وہ تو کہہ رہی تھی کہ اسے سونا ہے ۔ جویریہ نے کہا ۔
کیا مطلب ہے ۔۔۔۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا ۔۔۔۔۔ تم سے پوچھ کون رہا ہے ۔۔۔۔۔ تمہیں بتا رہے ہیں ۔ رابعہ نے اسی لہجے میں کہا ۔
اور میں نے بتا دیا ہے ، میں کہیں نہیں جا رہی ۔ اس نے آنکھوں سے بازو ہٹائے بغیر کہا ۔
زینب بھی چل رہی ہے ہمارے ساتھ ، پورا گروپ جارہا ہے ، فلم بھی دیکھیں گے واپسی پر ۔ رابعہ نے پورا پروگرام بتاتے ہوئے کہا ۔
امامہ نے ایک لحظہ کے لئے اپنی آنکھوں سے بازو ہٹا کر اسے دیکھا ۔ زینب بھی جارہی ہے ۔
ہاں ، زینب کوہم راستے سے پک کریں گے ۔ امامہ کسی سوچ میں ڈوب گئی ۔
تم بہت ڈل ہوتی جارہی ہو امامہ ۔ رابعہ نے قدرے ناراضی کے ساتھ تبصرہ کیا ۔ ہمارے ساتھ کہیں آنا جانا ہی چھوڑ دیا ہے تم نے ، آخر ہوتا کیا جا رہا ہے تمہیں ۔
کچھ نہیں ، بس میں آج کچھ تھکی ہوئی ہوں ، اس لئے سونا چاہ رہی ہوں ۔ امامہ نے بازو ہٹا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
اس کی ٹانگیں اب بالکل بے جان نظر آرہی تھیں ۔ پل پر کھڑے لوگ خوف کے عالم میں اس بے جان وجود کو دیکھ رہے تھے ۔ پل پر موجود ہجوم بڑھ رہا تھا ۔ نیچے پانی میں موجود وجود ابھی بھی ساکت تھا ۔ صرف پانی اسے حرکت دے رہا تھا ۔ کسی پینڈولم کی طرح ۔۔۔۔۔ آگے پیچھے ۔۔۔۔۔ آگے پیچھے ۔۔۔۔۔ آگے پیچھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امامہ ! جلدی سے تیار ہوجاؤ ۔ رابعہ نے اپنی الماری سے اپنا ایک سوٹ نکال کر بیڈ پر پھینکتے ہوئے کہا ۔
امامہ نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا ۔ کس لئے تیار ہوجاؤں ؟
بھئی شاپنگ کے لئے جارہے ہیں ، ساتھ چلو ۔ رابعہ نے اسی تیز رفتاری کے ساتھ استری کا پلگ نکالتے ہوئے کہا
نہیں مجھے کہیں نہیں جانا ۔ اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھوں پر اپنا بازو رکھتے ہوئے کہا ۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی ۔
اس نے گاڑی نہر کے پل سے کچھ فاصلے پر کھڑی کردی پھر ڈگی سے ایک بوری اور رسی لی ۔ وہ بوری کو کھینچتے ہوئے اس پل کی طرف بڑھتا رہا ۔ پاس سے گزرنے والے کچھ راہ گیروں نے اسے دیکھا مگر وہ رکے نہیں۔ اوپر پہنچ کر اس نے اپنی شرٹ اتار کر نہر میں پھینک دی ۔ چند لمحوں میں اسکی شرٹ بہتے پانی کے ساتھ غائب ہوچکی تھی ۔ ڈارک بلوکلر کی تنگ جینز میں اس کا لمبا قد اور خوبصورت جسم بہت نمایاں تھا ۔
اس وقت اس کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر تھا جسے پڑھنا دوسرے کسی بھی شخص کے لیے ناممکن تھا ۔ اس کی عمر انیس بیس سال ہوگی ، مگر اس کے قدوقامت اور حلیے نے اسکی عمر کو جیسے بڑھا دیا تھا ۔ اس نے رسی پل سے نیچے نہر میں لٹکانی شروع کردی ۔ جب رسی کا سرا پانی میں غائب ہوگیا تو اس نے رسی کا دوسرا سرا بوری کے منہ پر لیپٹ کر سختی سے گرہیں لگانی شروع کردی اور اس وقت تک لگاتا رہا
اتنے سالوں سے کون سی بات ہے جو میں نے تم سے شیئر نہیں کی یا جو تمہیں پتا نہیں ہے پھر تم اس طرح مجھے مجرم سمجھ کر تفتیش کیوں کر رہی ہو ۔ وہ اب خفا ہورہی تھی
جویریہ گڑبڑا گئی ۔ یقین کیوں نہیں کروں گی ، صرف اس لئے اصرار کررہی تھی کہ شاید تم مجھے اس لئے اپنا مسئلہ نہیں بتا رہی کہ میں پریشان نہ ہوں اور تو کوئی بات نہیں
جویریہ کچھ نادم سی ہوکر اس کے پاس سے اٹھ کر واپس اپنی اسٹدی ٹیبل کے سامنے جا بیٹھی ۔ اس نے ایک بار پھر وہ کتاب کھول لی جسے وہ پہلے پڑھ رہی تھی ۔ کافی دیر تک کتاب پڑھتے رہنے کے بعد اس نے ایک جماہی لی اور گردن موڑ کر لاشعوری طور پر امامہ کو دیکھا ۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے اسکی نوٹ بک کھولے بیٹھی تھی مگر اسکی نظریں نوٹ بک پر نہیں تھیں وہ سامنے والی دیوار پر نظریں جمائے کہیں گم تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ۔ میں کیوں چپ رہوں گی ۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی ۔ میں تو پہلے کی طرح ہی بولتی ہوں ۔
صرف میں ہی نہیں ۔ باقی سب بھی تمہاری پریشانی کو محسوس کررہے ہیں ۔ جویریہ سنجیدگی سے بولی ۔
کوئی بات نہیں ہے ۔ صرف اسٹیڈیز کی ٹینشن ہے مجھے ۔
میں یقین نہیں کرسکتی ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں ۔ تمہیں ہم سے زیادہ ٹینشن تو نہیں ہوسکتی ۔
جویریہ نے سرہلاتے ہوئے کہا ۔ امامہ نے ایک گہرا سانس لیا ۔ وہ اب زچ ہورہی تھی ۔
تمہارے گھر میں تو خیریت ہے نا ؟
ہاں ۔ بالکل خیریت ہے
اسجد کے ساتھ تو کوئی جھگڑا نہیں ہوا
اسجد کے ساتھ جھگڑا کیوں ہوگا ۔ امامہ نے اسی کے انداز میں پوچھا
پھر بھی اختلافات تو ایک بہت ہی ۔ ۔۔۔۔۔ جویرہ کی بات اس نے درمیاں میں ہی کاٹ دی ۔ جب کہہ رہی ہوں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے تو تمہیں یقین کیوں نہیں آرہا ۔
وہ ایک بار پھر ہاتھ میں پکڑی نوٹ بک کو غور سے دیکھ رہی تھی ۔ جویریہ نے غور سے اسے دیکھا ۔
تم آج کل کچھ غائب دماغ نہیں ہوتی جارہیں ۔ ڈسٹرب ہو کسی وجہ سے ؟ جویریہ نے اپنے سامنے رکھی کتاب بند کرتے ہوئے بڑے ہمدردانہ لہجے میں کہا ۔
ڈسٹرب ؟ وہ بڑبڑائی ۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
تمہاری آنکھوں کے گرد حلقے بھی پڑے ہوئے ہیں ۔ کل رات کو شاید ساڑھے تین کا وقت تھا جب میری آنکھ کھلی اور تم اس وقت بھی جاگ رہی تھیں ۔
میں پڑھ رہی تھی ۔ اس نے مدافعانہ لہجے میں کہا۔
نہیں ۔ صرف کتاب اپنے سامنے رکھے بیٹھی ہوئی تھی ۔ مگر کتاب پر نظر نہیں تھی تمہاری ۔ جویریہ نے اس کا عذر رد کرتے ہوئے کہا ، تمہیں کوئی مسلئہ تو نہیں ہے ۔
کیا مسلئہ ہوسکتا ہے مجھے ۔
پھر تم اتنی چپ چپ کیوں رہنے لگی ہو ۔ جویریہ اس کی ٹال مٹول سے متاثر ہوئے بغیر بولی ۔
آپ اس کے سبجیکٹس اور ایکٹیوٹیز بڑھا دیں ۔ مگر اسے نارمل طریقے سے ہی پروموٹ کریں ۔
ان کے اصرار پر سالار کو دوبارہ ایک سال کے اندر پروموشن نہیں دیا گیا ۔ اس کے ٹیلنٹ کو اسپورٹس اور دوسری چیزوں کے ذریعے چینلائز کیا جانے لگا ۔ شطرنج ، ٹینس، گالف ، اور میوزک ۔ وہ چار شعبے تھے جن میں اسے سب سے زیادہ دلچسپی تھی ۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ خود کو صرف ان چار چیزوں تک ہی محدود رکھتا تھا ۔ وہ اسکول میں ہونے والے تقریبا" ہر گیم میں شریک ہوتا تھا ۔ اگر کسی میں شریک نہیں ہوتا تھا تو اسکی وجہ صرف یہ ہوتی تھی کہ وہ گیم اسے زیادہ چیلنجنگ نہیں لگتی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ صرف خاندان کے لئے بلکہ آپ کے ملک کے لئے بھی ۔ سکندر اور ان کی بیوی اس غیر ملکی سائیکالوجسٹ کی باتیں بڑے فخریہ انداز میں سنتے رہے ۔ اپنے دوسرے بچوں کے مقابلے میں وہ سالار کو زیادہ اہمیت دینے لگے تھے ۔ وہ ان کی سب سے چہیتی اولاد تھا اور انہیں اس کی کامیابیوں پر فخر تھا ۔
اسکول میں ایک ٹرم کے بعد اسے اگلی کلاس میں پرموٹ کردیا گیا ۔ اور دوسری ٹرم کے بعد اس سے اگلی کلاس میں اور اس وقت پہلی بار سکندر کو کچھ تشویش ہونے لگی ۔ وہ نہیں چاہتے تھے سالار آٹھ دس سال کی عمر میں جونیئر یا سینئر کیمرج کرلیتا ۔ مگر جس رفتار سے وہ ایک کلاس سے دوسری کلاس میں جارہا تھا یہی ہونا تھا ۔
میں چاہتا ہوں آپ میرے بیٹے کو اب پورے ایک سال بعد ہی اگلی کلاس میں پرموشن دیں ۔ میں نہیں چاہتا وہ اتنی جلدی ابنارمل طریقے سے اپنا ایکڈمک کیرئیر ختم کرلے۔
میں نے تو بس کچھ دن پہلے اسے چند کتابیں لا کر دی تھیں اور کل ایک بار ایسے ہی اس کے سامنے سو تک گنتی پڑھی تھی ۔ انہوں نے سکندر کے استفسار پر کہا ۔ سکندر نے سالار کو ایک بار پھر گنتی سنانے کے لیے کہا ۔ وہ سناتا گیا ، انکی بیوی ہکا بکا اسے دیکھتی رہیں ۔
دونوں میاں بیوی کویہ اندازہ ہوگیا تھا کہ انکا بچہ ذہنی اعتبار سے غیر معمولی صلاحیتیں رکھتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ ان دونوں نے اپنے باقی بچوں کی نسبت اسے بہت جلد ہی اسکول میں داخل کروا دیا تھا اور اسکول میں بھی وہ اپنی ان غیر معمولی صلاحتیوں کی وجہ سے بہت جلد ہی دوسروں کی نظروں میں آگیا تھا ۔
اس بچے کو آپ کی خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔ عام بچوں کی نسبت ایسے بچے زیادہ حساس ہوتے ہیں ، اگر آپ اسکی اچھی تربیت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ بچہ آپ کے اور آپ کے خاندان کے لئے ایک سرمایہ ہوگا ۔
ہاں
کہاں تک
ہنڈرڈ تک
سناؤ
وہ مشین کی طرح شروع ہوگیا ۔ ایک ہی سانس میں اس نے انہیں سو تک گنتی سنا دی ۔ سکندر کے پیٹ میں بل پڑنے لگے
اچھا ۔ میں ایک اور نمبر ڈائل کرتا ہوں میرے بعد تم اسے ڈائل کرنا ۔ انہوں نے ریسیور اس سے لیتے ہوئے کہا ۔
اچھا ۔ سالار کو یہ سب ایک دلچسپ کھیل کی طرح لگا ۔ سکندر نے ایک نمبر ڈائل کیا اور پھر فون بند کردیا ۔ سالار نے فورا" ریسیور پکڑ کر روانی کے ساتھ وہ نمبر ملا دیا ۔ سکندر کا سر گھومنے لگا ۔ وہ واقعی وہی نمبر تھا جو انہوں نے ملایا تھا ۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی نمبر ملائے اور پھر سالار سے وہی نمبر ملانے کے لئے کہا ۔ وہ کوئی غلطی کئے بغیر وہی نمبر ملاتا رہا ۔ وہ یقینا" فوٹو گرافک میموری رکھتا تھا ۔ انہوں نے اپنی بیوی کو بلایا ۔
میں نے اسے گنتی نہیں سکھائی ۔
انکل شاہنواز سے۔ سالار نے سکندر کو جواب دیا ۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کرریسیور اس سے لے لیا ۔ انکا خیال تھا کہ اس نے غلطی سے کوئی نمبر ملا لیا ہوگا یا پھر لاسٹ نمبر کو ری ڈائل کردیا ہوگا ۔ انہوں نے کان سے ریسیور لگایا ۔ دوسری طرف انکے بھائی ہی تھے ۔
یہ سالار نے نمبر ڈائل کیا ہے ۔ انہوں نے معذرت کرتے ہوئے اپنے بھائی سے کہا
سالار نے کیسے ڈائل کیا ۔ وہ تو بہت چھوٹا ہے ۔ ان کے بھائی نے دوسری طرف کچھ حیرانی سے پوچھا
میرا خیال ہے اس نے آپکا نمبر ری ڈائل کردیا ہے ۔ اتفاق سے ہاتھ لگ گیا ہوگا ۔ ہاتھ مار رہا تھا سیٹ پر ۔ انہوں نے فون بند کردیا اور ریسیور نیچے رکھ دیا ۔ سالار جو خاموشی سے ان کی گفتگو سننے میں مصروف تھا ریسیور نیچھے رکھتے ہی اس نے ایک بار پھر ریسیور اٹھالیا ۔ اس بار سکندر اسے دیکھنے لگے ۔
ایک دن جب وہ اپنے بھائی سے فون پر بات کرنے کے لئے فون کررہے تھے تو سالار ان کے پاس کھڑا تھا ۔ وہ اس وقت ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے اور فون پر باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی بھی دیکھ رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد انہوں نے فون رکھ دیا ۔ ریسیور رکھنے کے فورا" بعد انہوں نے سالار کو فون کا ریسیور اٹھاتے ہوئے دیکھا ۔
ہیلو انکل ، میں سالار ہوں ۔ وہ کہہ رہا تھا ۔ انہوں نے چونک کر اسے دیکھا ۔ وہ اطمینان سے ریسیور کان سے لگائے کسی سے باتوں میں مصروف تھا۔
میں ٹھیک ہوں ۔ آپ کیسے ہیں ؟ سکندر نے حیرت سے اسے دیکھا ۔ پہلے انکے ذہن میں یہی آیا کہ وہ جھوٹ موٹ فون پر باتیں کررہا ہے ۔
پاپا میرے پاس بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہین ۔ نہیں ۔ انہوں نے فون نہیں کیا ۔ میں نے خود کیا ہے ۔ وہ اسکے اگلے جملے پر چونکے
سالار کس سے باتیں کررہے ہو ۔ سکندر سے پوچھا
جس میں اس کی پرفارمنس نے اس کے ٹیچرز اور سائکالوجسٹ کو حیران کردیا تھا ۔ اس اسکول میں وہ 150 آئی کیو لیول والا پہلا اور واحد بچہ تھا اور چند ہی دنوں میں وہ وہاں سب کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا ۔
سکندر اور انکی بیوی سے ملاقات کے دوران سائیکالوجسٹ کو اس کے بچپن کے بارے میں کچھ اور کھوج لگانے کا موقع ملا ۔ وہ کافی دلچسپی سے سالار کے کیس کو اسٹڈی کررہا تھا اور دلچسپی کی یہ نوعیت پروفیشنل نہیں ذاتی تھی ۔ اپنے کیرئیر میں وہ پہلی بار اس آئی کیوکے بچے کا سامنا کررہا تھا ۔
سکندر کو آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد تھا ۔ سالار اس وقت صرف دو سال کا تھا اور غیر معمولی طور پر وہ اس عمر میں ایک عام بچے کی نسبت زیادہ صاف لہجے میں باتیں کرتا تھا ۔ اور باتوں کی نوعیت ایسی ہوتی تھی کہ وہ اور انکی بیوی اکثر حیران ہوتے ۔
ڈارک ہے ؟ ہینڈسم ہے ؟ اس بار امامہ مسکراتے ہوئے کچھ کہے بغیرزینب کو دیکھتی رہی ۔
امامہ نے اپنی پسند سے منگنی کی ہے ۔۔۔۔۔ وہ اچھا خاصا گڈلکنگ ہے ۔۔۔ جویریہ نے اس بار امامہ کی طرف سے جواب دیتے ہوئے کہا ۔
ہاں ہمیں اندازہ کرلینا چاہیے تھا ۔ آخر وہ امامہ کا فرسٹ کزن ہے ۔۔۔۔ اب امامہ تمہارا اگلا کام یہ ہے کہ تم ہمیں اس کی تصویر لا کر دکھاؤ ۔ زینب نے کہا
نہیں ، اس سے پہلے کا ضروری کام یہ ہے کہ تم ہمیں کچھ کھلانے پلانے لے چلو ۔ رابعہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ۔
فی الحال تو یہاں سے چلیں ، ہاسٹل جانا ہے مجھے ۔۔۔۔۔ امامہ یک دم اٹھ کر کھڑی ہوگئی تو وہ بھی اٹھ گئیں
ویسے جویریہ تم نے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی ، ساتھ چلتے ہوئے زینب نے جویریہ سے پوچھا۔
بھئی امامہ نہیں چاہتی تھی اس لیے میں نے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی
امامہ نے وضاحت کرنے ہوئے کہا ۔ کئی سال سے تمہاری کیا مراد ہے ؟ میرا مطلب ہے دو تین سال
پھر بھی امامہ بتانا تو چاہیے تھا تمہیں ۔۔۔۔۔ زینب کا اعتراض ابھی بھی اپنی جگہ قائم تھا ۔ امامہ نے مسکراتے ہوئے زینب کو دیکھا
اب کروں گی تو اور کسی کو بتاؤں یا نہ بتاؤں تمہیں ضرور بتاؤں گی
ویری فنی ۔ زینب نے اسے گھورتے ہوئے کہا
اور کچھ نہیں تو تم ہمیں کوئی تصویر وغیرہ ہی لاکر دکھا دو موصوف کی ۔۔۔۔ ہے کون؟ ۔۔۔۔۔۔ نام کیا ہے ؟ کیا کرتا ہے ؟
رابعہ نے ہمیشہ کی طرح ایک ہی سانس میں سوال در سوال کر ڈالے ۔
فرسٹ کزن ہے ۔۔۔۔۔ اسجد نام ہے ۔ امامہ نے رک رک کر کچھ ہوچتے ہوئے کہا ۔ ایم بی اے کیا اس نے اور بزنس کرتا ہے ۔
شکل و صورت کیسی ہے ۔ اس بار زینب نے پوچھا ۔ امامہ نے غور سے اسکے چہرے کو دیکھا
ٹھیک ہے
ٹھیک ہے ؟ میں تم سے پوچھ رہی ہوں ۔۔۔ لمبا ہے ؟
ان سب چیزوں سے کچھ فاصلے پر سرہانے ایک موبائل فون پڑا تھا جس پر یک دم کوئی کال آنے لگی تھی ۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا ہوا وہ نوجوان اب شاید نیند کے عالم میں تھا کیونکہ موبائل کی بیپ پر اس نے سر اٹھائے بغیر اپنا دایاں ہاتھ بیڈ پر ادھر سے ادھر پھیرا مگر موبائل اسکی رسائی سے بہت دور تھا ۔ اس پر مسلسل کال آرہی تھی ۔ کچھ دیر اسی طرح ادھر ادھر ہاتھ پھیرنے کے بعد اسکا ہاتھ ساکت ہوگیا ۔ شاید وہ اب سو چکا تھا ۔ موبائل پر اب بھی کال آرہی تھی ۔ پھر یک دم کسی نے دروازے پر دستک دی اور پھر دستک کی آواز بڑھتی گئی ۔ موبائل پر کال ختم ہوچکی تھی لیکن دروازے پر دستک دینے والے ہاتھ بڑھتے گئے اور وہ بیڈ پر اوندھے منہ بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ اسکواش کے ایک ریکٹ کے نیچے جہانگیرخان کا پوسٹر تھا اور دوسرے کے نیچے روڈنی مارٹن کا ۔
کمرے میں واحد جگہ جہاں بے ترتیبی تھی وہ ڈبل بیڈ تھا ۔ جس پر وہ لیٹا ہوا تھا ۔ سلک کی بیڈ شیٹ بری طرح سلوٹ زدہ تھی اور اس پر ادھر ادھر چند غیر ملکی میگزین پڑے ہوئے تھے جن میں پلے بوائے نمایاں تھا ۔ بیڈ پر ایک پیپر کٹر اور کاغذ کی کچھ چھوٹی چھوٹی کترنیں بھی پڑی ہوئی تھیں ۔ یقینا" کچھ دیرپہلے وہ ان میگزینز سے تصاویر کاٹ رہا تھا ۔ چیونگمز کے کچھ ریپرز بھی تڑے مڑے بیڈ پر ہی پڑے ہوئے تھے۔ ڈن ہل کا ایک پیکٹ اور لائٹر بھی ایش ٹرے کے ساتھ بیڈ پر ہی پڑا ہوا تھا ۔ جبکہ سلک کی سفید چمک دار بیڈ شیٹ پر کئی جگہ ایسے نشانات تھے جیسے وہاں پر سگریٹ کی راکھ گری ہو ۔ کافی کا ایک خالی مگ بھی بیڈ پر پڑا ہوا تھا اوراس کے پاس ایک ٹائی اور رسٹ واچ بھی تھی
اس کے دونوں پاؤن بھی میوزک کے ساتھ گردش میں تھے ۔
کمرے میں بیڈ اور اس کے اپنے حلیے کے علاوہ ہر چیز اپنی جگہ پر تھی ۔ کہیں پر کچھ بھی بے ترتیب نہیں تھا ۔ کہیں پر گرد کا ایک ذرہ تک نظر نہیں آرہا تھا ۔ میوزک سسٹم کے پاس موجود دیواری شیلف میں تمام آڈیو اور ویڈیو کیسٹس بڑے اچھے طریقے سے لی ہوئی تھیں ۔ ایک دوسری دیوار میں موجود ریکس پر کتابوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ کونے میں پڑی ہوئی کمپیوٹر ٹیبل سے عیاں تھا کہ اسے استعمال کرنے والا بہت آرگنائزڈ ہے ۔ کمرے کی مختلف دیواروں پر ہالی وڈ کی ایکٹریسز کے پوسٹر لگے ہوئے تھے ۔ باتھ روم کے دروازے اور کمرے کی کھڑکیوں کے شیشوں کو پلے بوائے میگزین سے کاٹی گئی کچھ ماڈلز کی تصویروں سے سجایا گیا تھا۔ کمرے میں پہلی بار داخل ہونے ولا دروازہ کھولتے ہی بہت بری طرح چونکتا
کھانے میں آج کیا پکایا ہے تم نے ۔ اس نے خانساماں سے پوچھا
خانساماں نے کچھ ڈشز گنوانی شروع کردیں ۔ اس کے چہرے پر کچھ ناگواری ابھری
میں کھانا نہیں کھاؤں گا ۔ سونے جارہا ہوں ۔ مجھے ڈسٹرب مت کرنا ۔ اس نے سختی سے کہا اور کچن سے نکل گیا ۔
پیروں میں پہنی ہوئی باٹا کی چپل کو وہ فرش پر تقریبا" گھسیٹ رہا تھا ۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور آنکھیں سرخ تھیں ۔ شرٹ کے چند ایک کے سوا سارے ہی بٹن کھلے ہوئے تھے ۔
اپنے کمرے میں جاکر اس نے دروازے کو لاک کرلیا اور وہاں موجود جہازی سائز کے میوزک سسٹم کی طرف گیا اور کمرے میں بولٹن کا گانا بلند آواز میں بجنے لگا ۔ وہ ریموٹ لیکر اپنے بیڈ پر آگیا اور اوندھے منہ بے ترتیبی کے عالم میں لیٹ گیا۔
اس کا ریموٹ والا بایاں ہاتھ بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا اور مسلسل ہل رہا تھا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain