Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

اس نے اپنے دل کو بہت سمجھایا تھا۔۔۔ لیکن اسے کسی پل چین نہیں تھا۔۔۔ اسے کراچی آۓ تین دن ہو چکے تھے۔۔۔ اور وہ ایسے ذہن پہ سوار ہوٸی تھی کہ بس۔۔۔
اچھا میں بھیجتی ہوں تمہیں۔۔۔ اور میری طرف کیوں نہیں آۓ تم۔۔۔ اب وہ خفگی دکھا رہی تھی۔۔۔۔
اب تو حیدر آباد چکر لگتے رہیں گے۔۔۔ اٶں گا اگلی دفعہ ۔۔۔ سگریٹ پھینک کے وہ ٹیرس سے واپس اپنے کمرے میں آ گیا۔۔۔
کیوں۔۔۔ کیا ابا۔۔۔ بات کرنا شروع ہوگۓ تم سے۔۔۔ منال کی تشویش والی آواز ابھری۔۔۔
نہیں جی۔۔۔ ہم دونوں کے مزاج ایک جیسے ہیں۔۔ یہ شکر ہے اب گھر گھسنے دیتے ہیں مجھے۔۔۔ تکیہ سر کے نیچے رکھ کے وہ بیڈ پہ لیٹ گیا تھا۔۔۔
اچھا تم فکر نا کرو۔۔ مان جاٸیں گے آہستہ۔۔۔ آہستہ۔۔منال نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔۔۔
اچھا چلو اب کیا سر کھا رہی ہو ۔۔۔ دانین کا نمبر سنڈ کرو کام ہے اس سے مجھے۔۔۔

anusinha
 

دانین نے اضافی پٹی کاٹ کے قینچی ایک طرف رکھ دی۔۔
میرے دل نے کچھ بھی چاہنا چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔ دانین نے سر گوشی میں پر سخت لہجے سے کہا۔۔۔ اور چیزیں سمیٹتی وہاں سے اٹھ گٸ۔۔۔
زرداد کے ہونٹوں سے مسکراہٹ ایک دم غاٸب ہوٸی تھی۔۔۔
💋💋💋💋💋💋💋
ہوں۔۔۔ کیسی ہو۔۔۔ سگریٹ کو منہ سے لگایا۔۔۔ اور دوسر ے ہاتھ سے فون کو کان سے لگا کر وہ بولا تھا۔۔۔
نہ کوٸی سلام نہ کوٸی دعا عجیب کوٸی بدتمیز انسان ہو تم۔۔۔ منال کی خفا سی آواز فون سے ابھری۔۔۔
ایسا ہی ہوں میں۔۔۔مجھے دانین کا نمبر سنڈ کرنا ذرا۔۔۔ سگریٹ کے دھویں کو ہوا میں ۔۔ خارج کرتے ہوۓ کہا۔۔۔
ہا۔۔۔ہاۓ۔۔۔ تمھارے پاس اسکا نمبر ہی نہیں ہے۔۔۔ منال کو حیرانی ہو رہی تھی۔۔۔
ہاں۔۔۔ نہیں تھا۔۔ کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوٸی۔۔۔ کان کے پیچھے خارش کی۔۔۔

anusinha
 

اس نے روٸی کو زور سے۔۔ اس کے زخم پر رکھا۔۔۔
آہ۔۔ ایک دم زرداد تھوڑا سا اوپر ہوا۔۔۔ پھر اپنی مسکراہٹ دباٸی۔۔۔
وہ اب نظریں جھکاۓ۔۔۔ پٹی اسکے بازو کر گرد گھما رہی تھی۔۔۔
دل تو چاہ رہا تھا یہ قینچی اٹھا کر۔۔۔ اس کی آنکھوں میں گھسا دے۔۔۔ دانین نے۔۔۔ اس کی اپنے اوپر گڑی ہوٸی نظروں۔۔ سے جھنجلا کر سوچا۔۔۔
وہ جان بوجھ کر زور زور سے پٹی کو گھما رہی تھی۔۔۔ تاکہ اس کی توجہ اس پر سے ہٹ جاۓ اور اپنے درد کی طرف ہو جاۓ۔۔۔ پر وہ تو ایسے مسکرا رہا تھا جیسے کوٸی تکلیف ہی نا ہو اسے۔۔۔ پتا نہیں کس مٹی سے بنا ہے۔۔۔
دل تو چاہ رہا ہوگا یہ قینچی میری آنکھوں میں گھسا دو۔۔۔ زرداد نے دھیرے سے پھر سر گوشی کی جبکہ اس کے ہونٹ ہنسی کو دبانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔۔۔

anusinha
 

پاگل ہو تم۔۔۔ دانین کہاں ہے ۔۔۔ اسے بلاٶ۔۔۔ سکندر اسکا بازو پکڑ کر کھڑا تھا۔۔ اچھا گہرا کٹ تھا۔۔۔
چاچو۔۔۔ وہ پتہ نہیں سو رہی شاٸید۔۔۔ اسکا دروازہ بجایا تھا میں نے۔۔۔
سدرہ جاٶاٹھاٶ ۔۔۔ دانی کو کہو آ کر دیکھے پٹی کرے یا پھر ہاسپٹل لے کر چلیں اگر زیادہ ہے کٹ تو۔۔
زرداد نے سب کو کہا تھا کہ وہ گر گیا تھا چلتے چلتے شیشے کے میز پہ۔۔ نیچے پڑے رگ میں پھنس کے۔۔۔۔
دانین اس کے بلکل سا منے فرسٹ ایڈ باکس لے کر کھڑی تھی۔۔۔
دانین پٹی کرو اس کی ۔۔ زرداد بیٹھو ادھر۔۔۔ انھوں نے زرداد کو بیڈ پہ بیٹھایا تھا۔۔
دانین پاس بیٹھ کر اسکے ہاتھ کو روٸی سے صاف کر رہی تھی۔۔۔ وہ محبت سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
خود ہی پہلے زخم دیتی ہو۔۔۔ پھر خود ہی مرہم رکھتی ہو۔۔ بھاری آواز میں سرگوشی کی۔۔۔
دانین کا چہرہ کرب سے پہلے زرد ہوا پھر اذیت اور غصے سےلال۔۔۔

anusinha
 

دانین تیزی سے اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔۔۔
وہ اپنے بازو سے نکلتے خون کی پرواہ کیے بنا اس کی طرف بھاگا تھا۔۔۔
دانین پلیز ۔۔۔ پلیز میرا یقین کرو۔۔۔ میں سچ بول رہا ھوں۔۔۔
دانین کے کمرے کے سامنے کھڑا وہ دروازہ پیٹ رہا تھا۔۔ خون کے قطرے۔۔۔ اسکے جوتوں اور فرش پر گر رہے تھے۔۔۔
دانین کوٸی جواب نہیں دے رہی تھی۔۔۔
پلیز دانین۔۔۔ درد سے بھری آواز تھی۔۔۔
گھنٹی کا شور گھر کے سناٹے کو چیر گیا تھا۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا دروازے تک پہنچا تھا۔۔۔جہاں جہاں سے وہ گزر رہا تھا۔۔۔خون کے قطرے فرش پہ نشان چھوڑ رہے تھے۔۔۔
دروازہ کھولا تو سب لوگ سامنے کھڑے تھے۔۔۔
❤❤❤❤
جاری ہے

anusinha
 

اس کی آواز میں اس دفعہ سختی کا عنصر تھوڑا کم تھا۔۔۔
میں تم سے معافی نہیں ۔۔۔ سکون ۔۔۔ مانگ رہا ہوں۔۔۔ وہی ٹوٹا ہوا لہجا۔۔۔
دانین نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ کیوں اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا تھا۔۔۔ سب کچھ تو پرفیکٹ تھا اس کی زندگی میں ۔۔ جو ۔۔۔ جو۔۔ وہ چاہتا تھا۔۔۔۔
اس کی تو کوٸی۔۔۔ آہ۔۔ کوٸی ۔۔ بد دعا تک نہ لگی تھی اسے۔۔۔
پھر اب وہ اس سے کون سے سکون کا طلبگار تھا۔۔۔
دانین ۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے۔۔۔ تم سے ۔۔۔ محبت ۔ ہو گٸ ۔ہے۔۔ وہ سر جھکاۓ اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔
بہت زور کا دھکا تھا ۔۔۔ جو اسے پڑا تھا۔۔۔ وہ جو اس کے جواب کا منتظر کھڑا تھا ایک دم سے لڑ کھڑا کر سامنے پڑے شیشے کے میز پر گرا تھا۔۔۔
ایک دھماکے سے میزے کے اندر پیوست شیشہ ٹوٹا تھا اور زرداد کا بازو چیرتا ہوا ایک ٹکڑا اپنا کام دکھا گیا تھا۔۔۔

anusinha
 

اس کے دل کے اندر اٹھنے والے محبت کے طوفان سے بلکل انجان دانین نے سوچا۔۔۔
مجھے سکون چاہیے۔۔۔ درد بھری آواز میں زرداد کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے۔۔۔
تو اس سلسلے میں ۔۔ میں کیا کر سکتی ہوں۔۔۔ راستہ چھوڑو میرا۔۔۔ وہ اس کی اس حالت کو سمجھنے سے بلکل قاصر تھی۔۔۔
میرا سکون ۔۔ صرف ۔۔ تمھارے پاس ہے۔۔۔ مجھے پتہ چل گیا ہے۔۔۔ ایک تڑپ تھی زرداد کی آواز میں۔۔۔
دانین کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔۔
میں نے تمہیں کر تو دیا ہے معاف۔۔۔ اب اور کیا کروں ۔۔۔ میں نے تمھیں اس دن بھی کہا تھا۔۔۔ اس کے بعد تم مجھے بار بار تنگ نہیں کرو گے۔۔۔ دانین نے اپنی طرف سے تو نظریں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے لیے اٹھاٸی تھیں۔۔۔
ایک لمحے کے لیے وہ ساکت ھو گٸ تھی۔۔۔ زرداد کی آنکھوں میں نمی تھی۔۔۔
میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے زرداد۔۔۔

anusinha
 

وہ وہاں رک گٸ تھی۔۔۔ اب سدرہ کو دانین کی وجہ سے رکنا پڑ رہا تھا۔۔۔
چچی۔۔۔ آپ جاٸیں ۔۔ میں ہوں گھر۔۔۔ ویسے بھی کل مجھے کراچی جانا ہے تو۔۔۔ میں اپنی تیاری کر لیتا ہوں۔۔۔ زرداد نے اپنے دل کی چوری کو چھپاتے ہوۓ کہا۔۔۔
اس سے بات کرنے کی ہمت جما کرتے کرتے آج ہفتے کا آخری دن آ گیا تھا۔۔۔ وہ اپنا بہت سا کام چھوڑ کر یہاں دل کے ھاتھوں مجبور ہو کر بیٹھا تھا۔۔۔
آج ۔۔۔ آخری کوشش کرنی تھی۔۔۔ اسے۔۔۔ دل کو ایک آس تھی۔۔ کہ دانین اس بہت محبت کرتی تھی اس کی بات کو سمجھے گی۔۔۔
وہ سب لوگ جا چکے تھے۔۔۔ اور وہ ٹی وی کے سامنے بیٹھا۔۔ بس یہ سوچے جا رہا تھا اس سے بات کیسے کرے گا۔۔۔
گھر کی گھنٹی کی آواز نے اس کے خیالات میں خلل پیدا کیا تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ وہ داخلی دروازے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔
دروازہ کھولا تو وہ بلکل سامنے کھڑی تھی۔۔۔

anusinha
 

کہ کیسے کہے۔۔۔کیا کہے۔۔۔کیا مصیبت تھی۔۔۔ اسے خود پر ہی غصہ آ گیا تھا۔۔۔
ہاں۔۔۔ کہ۔۔ کچھ نہیں۔۔۔ زرداد نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے۔۔۔ جب کہ انکھیں۔۔ ابھی بھی اس پر ہی مرکوز تھیں۔۔۔
تو کچھ نہیں تو پھر۔۔۔یہاں کیوں کھڑے ہو۔۔۔ زبان کی سختی اس کے اندر کی نفرت کو بیان کر رہی تھی۔۔۔
کچھ دیر اپنے ہونٹ کو دانتوں کے نیچے دبا کر پر سوچ انداز میں وہ کھڑا رہا۔۔۔ پھر باہر نکل گیا۔۔۔
جب اس سے جھوٹ بولا تھا کہ اس سے محبت ہے تب زبان کس طرح آرام سے فقرے بنا لیتی تھی۔۔۔ اب جب اس سے سچ میں محبت ہو گٸ ہے تو۔۔۔ زبان لفظوں کو ترتیب ہی دیتی رہ گٸ بولا کچھ بھی نہیں گیا۔۔۔
❤❤❤❤❤
تو دانین نے آنا ہے کچھ دیر میں ۔۔ میں گھر رہ جاتی ہوں ۔۔۔ سدرہ نے اپنے کپڑے واپس اٹھاتے ہوۓ کہا۔۔۔
منال کے سسرال میں آج دعوت تھی سب کی۔۔ دانین کو ہاسپٹل میں کام پڑ گیا تھا

anusinha
 

آنکھیں۔۔۔ اور دل بضد تھے۔۔۔ اور دماغ کو کسی صندوق میں بند کر ڈالا تھا ۔۔۔ دونوں نے مل کر۔۔
پھر وہ کتنی دیر اس کی فوٹو کو دیکھتارہا تھا۔۔۔پھر اپنے موباٸل میں ویڈیو اور البم سے اس کی تصاویر بنا ڈالی تھی اس نے۔۔۔
رات کو ٹی وی دیکھنے کے بہانے سے وہ لاونچ میں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ لیکن دل صرف اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ ٹی وی تو بہانا تھا۔۔ دیکھ تو وہ موباٸل پر تصاویر رہا تھا۔۔۔
کبھی زوم کر کے تو کبھی اپنی آنکھوں کے قریب کر کے۔۔۔
اسے خبر ہی نا ہوٸی کس وقت اس کی وہیں صوفے پر آنکھ لگ گٸ تھی۔۔۔
جس کا وہ انتظار کر رہا تھا۔۔۔ وہ پتہ نہیں کس لمحے آٸی ۔۔۔ اور بے نیازی سے اس کےپاس سے گزر کر اپنے کمرے میں چلی گٸی تھی۔۔۔
💞💞💞💞

anusinha
 

منہ پورا اخبار کے پیچھے چھپا دیا تھا۔۔۔
زرداد اب دھیرے دھیرے سے کھانے کے میز کو بجا رہا تھا۔۔۔
وہ ایک دم سرخ چہرہ لے کر وہاں سے اٹھی تھی۔۔۔
اور تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گٸی تھی ۔۔۔ جبکہ اس کی پشت پر کمر تک لہراتے اس کے بال زرداد کے دل پر بجلیاں گرا رہے تھے۔۔۔
وہ اب ہلکے ہلکے سے ۔۔۔ مکے دل پہ لگا رہا تھا جیسے کہ دل کودھڑکنے سے باز رکھ رہا ہو۔۔۔
زرداد ہارون ۔۔۔وہ تو دیکھنا تک گوارا نہیں کرتی۔۔۔ اس کا دل چاہا وقت واپس گھوم جاۓ اور کاش اس نےجو غلطی کی تھی وہ اس کو سدھار لے۔۔
سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔ اس نے پہلے غلطی کی تھی۔۔۔ یا دل اب غلطی کر بیٹھا تھا۔۔۔
❤💌💌💌💌❤
بار بار وہ اس کی منال کی رخصتی پر لی گٸ وہ ویڈیو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جب وہ کھڑی رو رہی تھی۔۔۔ سرخ جوڑا کیا جچ رہا تھا اسے۔۔۔ پتہ نہیں ۔۔۔ دل بھر نہیں رہا تھا ۔۔۔

anusinha
 

اسی خیال میں وہ برآمدے سے
ہوتا ہوا لاونچ میں آیا تھا۔۔۔اور ڈاٸنگ ٹیبل پر۔۔ وہ ہاتھ میں اخبار پکڑے۔۔۔ اور سامنے چاۓ کا کپ رکھے بیٹھی ہوٸی تھی۔۔۔
ایک دم سے خشگوار۔۔۔ حیرت اور خوشی نے زرداد کو اپنے حصار میں لیا تھا۔۔۔
دانین نے منہ کو اوپر کیے بنا صرف پلکوں کی جھالر اٹھا کر ایک نظر اس پہ ڈالی تھی جو ساکت کھڑا تھا اس کے سامنے۔۔۔
اس کو کیا ہو گیا ہے۔۔۔ دانین نے اس کی نظروں کی الجھن سے پورا اخبار کھول کر منہ کےآگے کر لیا تھا۔۔۔
زرداد کے لب مسکرا دیے تھے۔۔۔
آج ۔۔گٸ ۔۔ نہیں۔۔ ہاسپٹل ۔۔۔ اب دانین کے سر پر کھڑا تھا وہ۔۔۔
دانین نے کوٸی جواب نہیں دیا۔۔۔۔
ہم۔م۔م۔م۔ ناٸٹ شفٹ ہو گی۔۔۔وہ ساتھ رکھی کرسی پہ بیٹھ چکا تھا۔۔۔اور خود ہی اپنے کیےہوۓ سوال کا جواب دے رہا تھا۔
پھر بھی دوسری طرف وہی خاموشی تھی۔۔۔وہ بے نیازی سے اخبار پڑھ رہی تھی۔۔۔

anusinha
 

سارے کنٹریکٹ سب کچھ ۔۔۔ ایک ویک پینڈنگ کر دو۔ وہ مشہود کو تھوڑا سخت لہجے میں سمجھا رہا تھا۔۔۔
سر میم منسا اگر۔۔۔ کال ۔۔ کریں۔۔۔ مشہود نے ڈرتے ڈرتے اگلا سوال کیا۔۔۔ کیونکہ پہلے بھی جب وہ اپنا پرسنل نمبر نہیں اٹھاتا تھا تو۔۔ منسا مشہود کے ذریعے ہی اس کی رپوٹ لیتی تھی۔۔۔
نہیں ۔۔اسکی کال بھی نہیں۔۔۔ بلکہ ایک کام کرنا۔۔۔ زرداد نےنچلا ہونٹوں دانتوں میں لے کر سوچا۔۔۔
منسا کی کال آۓ تو اٹھانا مت۔۔۔ اوکے ۔۔ اللہ حافظ۔۔۔
ایسے عجیب سا ہلکا ہلکا محسوس کر رہا تھا وہ خود کو کیونکہ دل نے رات فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔
کہ وہ دانین سکندر ۔۔۔ کو نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ چاہیے کچھ بی ہو جاۓ۔۔۔ اس کے ہونٹوں پہ برسوں بعد زندگی سے بھرپور مسکراہٹ آٸی تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
وہ فریش ہونے کے بعد نیچے اتر رہا تھا جب دس بج رہے تھے۔۔۔دل میں خیال آیا کہ وہ تو ہاسپٹل جا چکی ہو گی۔

anusinha
 

آہستہ آہستہ ۔۔۔ اس اپنے اندر کی بے چینی کا سبب مل ہی گیا تھا۔۔۔
وہ زرداد ہارون۔۔۔ جو خود کو شہزادہ تصور کرتا تھا۔۔۔ آج بری طرح ۔۔۔ ایک عام سی رنگ روپ کی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا بیٹھا تھا۔۔۔ اس کا دماغ ۔۔۔ اس کے دل سے جنگ ہار گیا تھا۔۔۔
وہ گھٹنے ٹیک چکا تھا۔۔۔ اس کا دل پر اب کوٸی بس نہیں تھا۔۔۔ منسا سے محبت اس نے کی تھی۔۔۔ وہ اس کی خود ساختہ محبت تھی۔۔۔ لیکن دانین سے محبت ہو گٸ تھی۔۔۔ اور جو محبت بس ہو جاتی ہے۔۔۔ وہ انسان کے دل میں خدا کی ڈالی ہوٸی محبت ہوتی ہے۔۔۔
ہاں ۔۔۔اللہ نے آج اسے اسی لڑکی کی محبت میں مبتلہ کر دیا تھا۔۔۔ جس کی معصوم اور مخلص محبت کو اس نے پانچ سال پہلے بری طرح پیروں میں روند ڈالا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤

anusinha
 

وہ تو مل بھی گٸ ہے تمہیں۔۔ تمھارے دل کو تو قرار آنا چاہیے اب ۔۔۔
بھابھی میں آپکو ۔۔۔ بھیجتا ہوں اس کی فوٹو۔۔۔ موباٸل پہ۔۔۔ اسے اپنی ہی آواز بہت دور سے آتی ہوٸی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔
اوکے اب میں جاتی ہوں ۔۔۔ میں نکال کر رکھتی ہوں ۔۔البم اور ویڈیو۔۔۔ وہ خوش دلی سے کہتی ہوٸی نیچے چلی گٸ تھی۔۔۔
اور وہ دم سادھے بیٹھا تھا۔۔۔
اچھا تو۔۔۔ یہ تھی وہ بے چینی۔۔۔ بے سکونی۔۔۔ جو مجھے اندر ہی اندر ڈس رہی تھی۔۔۔ اور مجھے خبر بھی نہیں تھی۔۔۔ منسا۔۔۔کے لیے دل تو کبھی یوں دھڑکا نہیں تھا۔۔۔ بس محسوسات ہی تھیں۔۔۔ اب وہ بھی ختم ہو گٸ تھیں ان کی اس دن والی لڑاٸی کو ۔۔۔ پورا ہفتہ ہونے کو آیا تھا۔۔۔ اور اس نے اسے کال نہیں کی تھی۔۔۔ وہ بھی ضد کی ایسی تھی ایک دفعہ بھی اس نے اسے کال نہیں کی تھی۔۔۔ دل نے اکسایا ہی نہیں۔۔۔وہ آج یہ سب سوچ کے حیران ہوا تھا۔۔۔

anusinha
 

اچھا اچھا میں لے آتا ہوں مجھے دیکھنی ہے اور ویڈیو وہ بھی تو آ گٸی ہوگی کان کے پیچھے خارش کرتے ہوۓ پوچھا۔۔۔
جی جی بلکل۔۔ اور آپکے تقریباََ گانے ریکارڈ کرواۓ ہیں شازر نے ویڈ یو پر ۔۔اسما ہنستے ہوۓ کہہ رہی تھی۔۔۔
اچھا پھر تو آج ہی دیکھنی پڑے گی۔۔۔ چاۓ کا کپ پاس پڑے ٹیبل پہ رکھتے ہوۓ اس نے کہا۔۔۔
تم بھی کچھ دکھاٶ پہلے۔ اسما نے شرارت آنکھوں میں بھر کر کہا۔۔۔
کیا۔۔۔ وہ ۔۔ اسما کے انداز پہ ہنسا تھا۔۔۔ شازر تو سنجیدہ سا تھا۔۔۔ لیکن اسما کافی چلبلی سی تھی۔۔۔
جناب۔۔۔ منسا کی فوٹو دیکھنی ہے ۔۔ مجھے۔۔۔ وہ بھی ہنس رہی تھی۔۔۔
زرداد کے چہرے سے ایک دم ہنسی غاٸب ہوٸی تھی۔۔۔
منسا ۔۔۔ منسا۔ کو تو وہ بھول ہی گیا تھا۔۔۔ ایک دم دماغ نے دل کو حقیقت کا آٸینہ دکھایا تھا۔۔۔
زرداد ہارون ۔۔۔ کیا ہو گیا ہے تمھیں۔۔۔۔تم تو منسا سے محبت کا دعوی کرتے تھے۔۔۔

anusinha
 

انھی سوچوں میں گم تھا جب دروازے پہ دستک ہوٸ۔۔۔اس کا منہ دوسری طرف تھا۔۔ دل نے زور زور سے دھڑکنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ وہ چل کے پاس آ رہی تھی۔۔۔
اس میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی پلٹ کر اسے دیکھ پاتا ۔۔۔ اب وہ اس کے پاس آ گٸی تھی۔۔۔
دیور ۔۔۔ جی۔۔۔۔ چاۓ ۔۔ آپکی۔۔۔ اسما کی آواز ۔۔ پہ وہ بری طرح چونکا تھا۔۔۔
اسما ہاتھ میں چاۓ پکڑ کر کھڑی تھی۔۔۔
اوہ۔۔۔ بھابھی۔۔۔ زرداد نے اپنے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔۔۔
جی میں ۔۔۔ ہم بھی تو اپنے سپر سٹار کے ساتھ تھوڑا وقت گزار لیں۔۔۔ اسما بڑی خوش مزاج اور ہنس مکھ لڑکی تھی۔۔۔
جی ۔۔۔جی۔۔ کیوں نہیں بھابھی۔۔۔ بیٹھیں۔۔۔ اس نے سامنے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
بھابھی۔۔۔ شادی کی البم کہاں ہے۔۔۔ باتیں کرتے کرتے ۔۔۔ اس نے اسما سےپوچھا تھا۔۔۔
ہاں وہ۔۔۔ میرے کمرے میں ہے۔۔۔ اسما نے مسکراتے ہوۓ کہا ۔۔

anusinha
 

دانی ۔۔۔ آٶ بیٹا آٶ۔۔۔ میرے لیے اور زری کے لیے چاۓ بنا دینا۔۔۔ سکندر نے ٹی وی کا ریموٹ پکڑتے ہوۓ کہا۔۔۔ دانین کچن کی طرف پلٹی تھی۔۔
زرداد کی نظریں اب اس کی کمر پر تھی۔۔۔ اس کا لمبا قد اور پتلی سی کمر تھی۔۔۔ چہرہ اور جسم تھوڑا بھرنے سے اس کا سراپا بہت حد تک پرکشش ہو گیا تھا۔۔۔ لڑکپن میں تو۔۔۔ بہت ہی پتلی سی تھی وہ۔۔۔
یا شاٸید اس نظر سے وہ دیکھ ہی آج رہا تھا۔۔۔ دل کے تار۔۔ہلکے ہلکے بجنے سے لگے تھے۔۔۔ جیسے کوٸی ہلکے سے گدگدا رہا ہوں۔۔۔ ایک انوکھا سا کرنٹ۔۔۔ جس میں سکون ہو۔۔۔
چاچو دانین کو کہیں میری چاۓ میرے کمرے میں دے جاۓ۔۔۔ اس نے دھیرے سے سکندر کو کہا۔۔۔ اور نا سمجھی کی حالت میں اوپر آ کر بے تابی سے اس کا انتظار کرنے لگا تھا۔۔۔
مجھے ہو کیا گیا ہے۔۔۔ وہ عجیب کشمکش کا شکار تھا۔۔۔
ذہن کہہ رہا تھا وہ نہیں آۓ گی۔۔ دل کہہ رہا تھا وہ آۓ گی۔

anusinha
 

جو عجیب ہی خواہش کے لیے ہمک رہا تھا۔۔۔ کہ دانین اسے نظر آ جاۓ ۔۔۔
اسکا دماغ اور دل ایک سرد جنگ لڑ رہے تھے۔۔۔دماغ دل کو روک رہا تھا۔۔۔ اور دل تھا کہ کچھ بھی سننے سمجھنے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔۔
وہ انھی سوچوں میں الجھا ہوا تھا۔۔۔ جب وہ اسما کے ساتھ ہنستی ہوٸی اپنے کمرے سے نکلی تھی۔۔۔ ہلکے۔۔۔ فیروزی رنگ کا لمبا پلین فراک پہنا ہوا تھا۔۔۔ جس کے بازو آگے سے چوڑی دار تھے۔۔۔ بالوں کو بڑی بے نیازی سے جوڑے کی شکل دے رکھی تھی کہ وہ ارد گرد سے نکل کر گردن پر بکھرے ہوۓ تھے۔۔۔ گندمی رنگت کا شفاف چہرہ جس پر وہ بڑی پلکوں والی چمکتی۔۔۔ کچھ بولتی ہوٸی آنکھیں۔۔۔ لیے کھڑی تھی۔۔۔
وہ عام سی شکل کی لڑکی آج اس کے دل کو دنیا کی سب سے دلکش لڑکی لگ رہی تھی۔۔۔
دانین کی ہنستے ہنستے اچانک اس پر نظر پڑی تو چہرہ سپاٹ ہو گیا تھا۔۔۔

anusinha
 

احساس اب ہوا تھا کہ وہ کیا کچھ بول گیا ہے۔۔
پریشان دل۔۔۔ اور پریشان شکل لے کر وہ وہاں سے بھاری بھاری قدم اٹھاتا گھر کی طرف جا رہا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
اچھا کیا تم نے بتا دیا۔۔۔ نہیں تو میں تو کافی غور کر رہا تھا۔۔۔ اس رشتے پہ۔۔۔
اس نے سکندر کو کہا تھا کہ اسے پانچ سال ہو گۓ ہیں بدر سے دوستی چھوڑے ہوۓ ۔۔ دوستی اس کی بری صحبت کی وجہ سے ہی چھوڑی تھی اس نے۔۔ اب بھی باقی دوستوں سے پوچھ کر آ رہا ہوں ۔۔۔ کوٸی خاص اچھی رپیوٹ نہیں ہے اس کی۔۔۔
تمہیں بھی سارا اپنا کام چھوڑ کے آنا پڑا۔۔۔ سکندر اس کی طرف پیار سے دیکھ رہے تھے۔تمھارے سسر چلے گۓ کہ ابھی پاکستان ہی ہیں۔۔۔ سکندر نے مسکراتے ہوۓ اسے دیکھا۔۔۔
ہم۔مم۔مم جی پہ۔۔پہ۔۔ پتا نہیں چا چو۔۔۔ بات نہیں ہوٸی کبھی ان سے میری۔۔۔ پر سوچ انداز میں وہ اپنے دل کی حالت سمجھنے میں مصروف تھا۔۔۔