Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

زرداد چھ سال کا ریلیشن یوں نہیں ختم ہوا کرتا۔۔۔۔ منسا نے دانت پیستے ہوۓ کہا۔۔۔
صیح کہہ رہی ہو۔۔۔ رشتہ چاہے چھ سال کا ہو یا دو سال کا یوں ختم نہیں ہوا کرتا۔۔ پر تمہارا اور میرا یوں ہی ختم ہوا کرتا ہے۔۔۔ یہ رسم تم نے ہی شروع کی تھی پہلے۔۔
۔ سپاٹ لہجے میں جواب ملا۔۔۔
وہ اس بات پہ تھوڑی جزبز سی ہوٸی تھی۔۔
منسا زرداد کے چہرے پر اپنے لیے محبت کا کوٸی ایک بھی آثار دیکھنے میں بری طرح ناکام ہو رہی تھی۔۔۔
زرداد تمہیں کیا ہو گیا ہے۔۔۔ وہ روہانسی ہو گٸ تھی۔۔۔
عشق۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ کرب میں لپٹی ہوٸی۔۔۔ بھاری آواز میں جواب ملا۔۔۔
کس سے۔۔۔ منسا کی آواز بہت دور سے آتی ہوٸی محسوس ہوٸی۔۔۔
ہے کوٸی۔۔۔ ظالم۔۔۔ جوس کا گلاس منہ سے ہٹاتے ہوۓ۔۔ چہرے پہ۔۔ قاتل مسکراہٹ لاتے ہوۓ اس نے کہا۔۔۔
تو جو مجھ سے تھا وہ کیا تھا۔۔۔

anusinha
 

زین سے بہت کم بات ہوتی تھی۔۔۔ اس کی۔۔۔ وہ کبھی کبھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ڈرتے ڈرتے دانین کو کال کرتا تھا۔۔۔۔
آج بھی۔۔۔ زرداد کا گانا سننے پر اس کا دل مچل سا گیا تھا۔۔۔
اچھا سنو۔۔۔ ایک گانا بھیج رہا ہوں۔۔۔ جب بھی سنتا ہوں۔۔۔ تمھارا چہرہ لہرا جاتا آنکھوں کے ۔۔ اگے۔۔۔
زین کی ملتان کے کسی ہاسپٹل میں جاب ہو گٸی تھی۔۔۔ اس کا اپنا اباٸی گھر بھی وہیں تھا۔۔۔ ان دونوں کی شادی کی تاریخ رکھی جا چکی تھی۔۔۔
ہم۔م۔م۔ بھیجیں آپ میں سنتی ہوں۔۔۔ سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔
فون کو ایک طرف رکھ کر آنکھوں کو ہاتھوں کی ہتھلیوں سےدبایا تھا۔۔۔
پیغام کی بیپ کے ساتھ ہی اس نے فون اٹھایا تھا۔۔۔ تھوڑی دیر پروسیسنگ کے بعد ویڈیو زرداد کی آواز کے ساتھ گونج رہی تھی۔۔۔
سانولی ۔۔۔ سلونی ۔۔ سی محبوبہ۔۔۔۔ تیری چوڑیاں شڑنگ کر کے۔۔۔ جانے کیسی آس دلاٸیں۔۔۔

anusinha
 

یہ نہیں تھا کہ اس کی محبت کی شدت میں کوٸی کمی آٸی تھی۔۔۔ محبت کا رنگ تو گہرے سے گہرا ہوتا جا رہا تھا ۔۔دانین کے نام سے اس نے ایک البم بنا ڈالی تھی۔۔۔ دانی۔۔۔۔۔
جس کا مین گانا ۔۔۔ یہ ہی تھا۔۔۔ جس پر پوری دنیا جھوم رہی تھی۔۔۔ آج اس کے ساتھ۔۔۔
منسا ۔۔ کی دوبارہ ۔۔کبھی اس نے کال تک نہیں اٹھاٸی تھی۔۔۔ لیکن وہ ابھی بھی ۔۔ اپنی پوری کوشش میں لگی تھی کہ کسی طرح پھر سے پیچ اپ ہو جاۓ۔۔۔
وہ سٹیج سےنیچے اتر رہا تھا۔۔۔ شورو غل۔۔۔ چیخ وپکار۔۔سکیورٹی۔۔ کے بیچ میں سے گزرتا ہوا۔۔ وہ اپنی کار میں بیٹھا تھا۔۔۔ جس کے بند شیشوں کو ہاتھ لگانے کو بھی لڑکیاں اپنی خوش قسمتی تصور کر رہی تھیں۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤
نہیں۔ ۔۔۔ ٹھیک ہوں ۔۔ آپ کیسے ہیں۔۔۔ دانین نے صوفے کی پشت کے ساتھ سر ٹکایا اور آنکھیں موند لیں۔۔۔ ناٸٹ شفٹ کی وجہ سے بہت تھکاوٹ ہو رہی تھی۔۔۔

anusinha
 

وہ سٹیج پہ۔۔۔ لاکھوں لوگوں کی دل کی دھڑکن بنا گا رہا تھا۔۔۔ لڑکیاں ۔۔۔ لڑکے۔۔۔ سب اس کے ساتھ جھوم رہے تھے۔۔۔ گا رہے تھے۔۔۔
زرداد نے اس گانے کا ری میک کیا تھا۔۔۔ اور اس کی آواز میں یہ گانا ۔۔۔ سب لوگوں کی ۔۔۔ دل کی دھڑکن بن کر دھڑکنے لگا۔۔۔
ہر جگہ۔۔۔ یہی گانا سناٸی دینے لگا۔۔۔۔ زرداد اب ہر طرح سے ۔۔ اپنی دھاک بٹھا چکا تھا۔۔۔ آۓ دن انٹرویوز۔۔۔۔ سب سے بڑے اشتہار کا برینڈ ایمبسیڈر وہ تھا۔۔۔ زری کے نام سے اس نے کپڑوں کا ایک برینڈ لانچ کیا تھا۔۔۔
اور اب ان کی حیدر آباد والی کپڑوں کی دوکان ۔۔۔ زری۔۔۔ برینڈ۔۔ کے نام میں تبدیل ہو چکی تھی۔۔۔ سکندر اور شازر نے اس معاملے میں اس کا بھر پور ساتھ دیا تھا۔۔۔ دنوں میں سب حالات بدل کے رکھ دیے تھے۔۔۔ سات ماہ کے اس پورے عرصے میں۔۔۔ اس نے دانین سے کوٸی بات نہیں کی تھی۔۔۔

anusinha
 

اور ۔۔۔ میری۔۔ اور میرے زین کی سچی محبت پر ایسی ہزاروں۔۔۔ انگوٹھیاں قربان۔۔۔ بڑی حقارت سے ناک اوپر چڑھاٸی۔۔۔ رکھو شوق سے اپنے پاس۔۔۔ سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ وہ جاتے ہوۓ دروازہ زور سے مار کر گٸ تھی۔۔۔
زرداد نے زور کا قہقہ لگایا تھا۔۔۔
میری اور میرے زین۔۔۔۔ اس نے زیرِلب دانین کے الفاظ کو دہرایا تھا۔۔۔ اور پھر سے قہقہ لگایا تھا۔۔۔ قہقہ اتنا جاندار تھا۔۔۔ کہ اس کی آنکھوں کے کونے بھیگ گۓ تھے۔۔۔
پھر بیڈ سے اٹھا تھا۔۔۔ اور ارد گرد تلاش شروع کر دی تھی۔۔۔۔۔
کہاں رکھ چھوڑی تھی۔۔۔ وہ سرخ ڈاٸری۔۔۔۔ وہ کمر پرہاتھ باندھے کھڑا سوچ رہا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤
سانولی۔۔۔ سلونی سی محبوبہ۔۔۔ تیری چوڑیاں۔۔۔ شڑنگ۔۔۔ کر کے۔۔۔۔ جانے ۔۔۔ کیسی ۔۔۔ آس۔۔۔ دلاٸیں۔۔۔ ہاۓ ۔۔ ہاۓ۔۔۔ کریں سب لڑکے۔۔۔
زرداد کی آواز۔۔۔ گونج رہی تھی۔۔۔

anusinha
 

دانین نے زور سے اپنے ہاتھ سے اس کا ہاتھ جھٹکنا چاہا تو زرداد نے اسی ہاتھ کو دبوچ لیا۔۔۔
شرافت تو تمھیں سمجھ نہیں آٸی تھی دانین سکندر۔۔۔ بڑے پیار سے اس کے قریب ہوا تھا۔۔۔۔
اب ایسے تو پھر ایسے ہی صیح۔۔۔۔۔۔ ایک دم اس کا ہاتھ چھوڑا تھا اور پیچھے ہوا ۔۔ جاٶ جا کر آرام سے سو جاٶ۔۔۔ آواز درد دکھ ۔۔۔ اور ضد پہ آنے کی وجہ سے بھاری اور کھردری سی ہو گٸ تھی۔۔۔
میں بھی کراچی جا رہا ہوں ۔۔۔ یہ رنگ تمہاری امانت ہے۔۔ میں خود تمہیں پہناوں گا فکر نا کرو۔۔۔
لیکن ابھی نہیں۔۔۔ جاٶ اب ۔۔۔ شاباش۔۔۔ واپس جا کر اپنے بیڈ پر لیٹ گیا تھا پھر سے۔۔۔
اگر تم یہ سمجھ رہے ہو۔۔۔ تمھارے ایسے کرنے سے میں پھر سے تمھاری گھٹیا محبت پر یقین کر بیٹھوں گی تو زرداد یہ بھول ہے تمھاری۔۔۔ سمجھے تم۔
انگشت انگلی کی اکڑ دانین کے پختہ ارادے اور زرداد کے لیے نفرت کا واضح ثبوت تھی

anusinha
 

زری ۔۔۔ میں اسی وقت جا کر تایا ابا کو بتاٶں گی۔۔۔ میری رنگ واپس دو۔۔ اس کو اپنے پاس آتا دیکھ کر قدم پیچھے جا رہے تھے۔۔۔
جاٶ ابھی جاو۔۔۔ ویسے بھی ۔۔۔ یہاں ۔۔۔ میری شرافت۔۔۔ اور محبت پر کسے اعتبار ہے۔۔۔ سینے پہ ہاتھ باندھے بلکل اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔
تو ایسا کرنے سے کیا تم پر اعتبار کر بیٹھوں گی میں بھول ہے تمہاری۔۔۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی۔۔۔
پر اس نے تو آج جیسے۔۔۔ شرافت بلاۓ تاک ۔۔ رکھ چھوڑی تھی۔۔۔
دانین نے جیسے ہی نظر اس سے ملاٸی اس نے شرارت سے اپنی داٸیں آنکھ دبا ٸی تھی۔۔ چہرے پر بھی ۔۔ مسکراہٹ تھی۔۔۔ نچلے ہونٹ کا ایک کونا دانتوں کے نیچے دبایا ہوا تھا۔۔۔۔
دانین ایک دم گڑ بڑا گٸ تھی۔۔۔
رِنگ صیح وقت پر صیح جگہ جاۓ گی۔۔۔ تمہیں ابھی بلکل نہیں ملے گی۔۔۔ اس کے چہرے پر گری اس کے بالوں کی لٹ کو دھیرے سے چھوا۔۔

anusinha
 

پھر دوسر ے ہاتھ سے اسکے ہاتھ میں سے انگوٹھی کو اتار رہا تھا۔۔۔ دانین مسلسل اپنے ہاتھ کو جھٹکے دے رہی تھی۔۔۔ تکلیف سے آنکھوں میں پانی تھا۔۔۔
زرداد نے بری طرح اس کی انگلی سے انگوٹھی کو نوچا تھا۔۔۔ اور اسے ایک جھٹکے سے چھوڑتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤
جاری ہے

anusinha
 

اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کے اسے پیچھے دھکیلتا ہوا جا رہا تھا۔۔
پھر زور سے اس کا وجود دیوار کے ساتھ لگا دیا تھا۔۔۔
جبکہ اس کا ہاتھ ہنوز دانین کے ہونٹوں پر تھا۔۔۔
زرداد نے اسے دیوار کے ساتھ لگا کر خود کو اس کے ساتھ یوں لگایا تھا کہ وہ ہل بھی نہیں پا رہی تھی۔۔۔
زرادد کی سانسوں کی آواز تک اسے سناٸی دے رہی تھی۔۔۔
جو غصے سے تیز تیز چل رہی تھیں۔۔۔
وہ تڑپنے کے سے انداز میں اپنا آپ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ لیکن اس کے فولادی جسم کے آگے سب کوشش ناکام تھی۔۔۔
دانین سکندر۔۔ شادی تو۔۔۔ تمھاری مجھ سے ہی ہوگی۔۔۔
اس کے کان کے قریب وہ غرایا تھا۔۔۔
پھر دوسر ے ہاتھ سے اسکے ہاتھ میں سے انگوٹھی کو اتار رہا تھا۔۔۔ دانین مسلسل اپنے ہاتھ کو جھٹکے دے رہی تھی۔۔۔ تکلیف سے آنکھوں میں پانی تھا۔۔۔

anusinha
 

۔ کرب تھا۔۔۔ تکلیف تھی۔۔۔ اشعال نے بتایا تھا۔۔ کہ سب مان گۓ تھے۔۔۔ لیکن دانین نہیں مانی تھی۔۔۔
دانین ہنس رہی تھی۔۔۔ زین اور اس کے گھر والے ایک دوسرے کے گلے مل رہے تھے۔۔۔
زین ایک کوٸی بہت ہی شریف و النفس قسم کا سادہ سا لڑکا تھا۔۔ آنکھوں پہ چشمہ تھا۔۔۔۔۔ دانین سے زیادہ وہ شرما رہا تھا۔۔۔
زرداد کا بس نہیں چل رہا تھا جا کر گلا دبا دے زین کا جس کے پہلو میں اس کی محبت بیٹھی تھی۔۔۔
اس نے دیوار میں زور سے ہاتھ مارا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤
دروازہ بند ہونے کی آواز پر دانین نے چونک کر دیکھا تھا۔۔۔
زرداد آنکھوں میں خون بھر کر اجڑی ہوٸی حالت میں کھڑا تھا۔۔۔ وہ ڈریسنگ میز کے سامنے بیٹھی اپنی چوڑیاں اتار رہی تھی جب وہ کمرے میں آیا۔۔۔
وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑی ہوٸی تھی۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی۔۔۔ زرداد تیزی سے دانین کی طرف بڑھا تھا۔۔

anusinha
 

سر جھکا کر وہ سامنے صوفے پر بیٹھی تھی اورچہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔ ضبط سے۔۔۔ دل کر رہا تھا جاۓ اور منہ نوچ لے زرداد کا۔ خود کو سمجھتا کیا ہے۔۔۔
بیٹا۔ ۔۔۔ مجھے تم سے بات کرنی ہے اکیلے میں سکندر دانین کے سر پر کھڑے کہہ رہے تھے۔۔۔
وہ دھیرے سے اٹھی تھی اور سکندر کے ساتھ چلتی ہوٸی اپنے کمرے میں آ گٸ تھی۔۔۔
دانین ۔۔۔ سکندر نے دانین کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔
دیکھو بیٹا۔۔۔ میں جو بھی کہوں اسے سمجھنا۔۔۔
انھوں دھیمے لہجے میں ٹھہر کر بات شروع کی۔۔۔
زرداد مجھے بہت عزیز ہے۔۔۔ بہت ہی پیارا بچہ ہے۔۔۔ دل کا بہت اچھا ہے۔۔۔ ہاں کچھ غلطیاں پہلے جوانی میں کرتا رہا۔۔ پر ۔ اب ایک سلجھا ہوا پڑھا لکھا اور ہر لحاظ سے تمھارے مستقبل کی روشن ہونے کی ضمانت دے سکتا ہے۔۔۔ میں چاہتا ہوں دل سے کہہ تمہاری شادی اس سے۔۔ہو۔۔ سکندر کا ہاتھ ابھی بھی دانین کے سر پر تھا۔۔۔

anusinha
 

ہارون اب سکندر کی بات تھوڑا تحمل سے سن رہے تھے۔۔۔
اور وہ نیلم کا کزن جو اتنے مان سے رشتہ لے کر گیا وہ۔۔۔ ثمرہ ہر گز اس بات سے خوش نہیں تھی۔۔۔ ماتھے پر سو بل ڈال کر بولی۔۔۔
اماں وہ کہہ رہا اتنا عرصہ ہو گیا ہے اس کی منسا سے بات نہیں ہوٸی ۔۔۔ انتہاٸی بدتمیز لڑکی ہے۔۔اور اس کا تو اس سے تب ہی من کھٹا ہو گیا تھا جب وہ اسے برے حال میں چھوڑ کر چل دی تھی۔۔۔ اشعال سب کو قاٸل کر رہی تھی۔۔۔
شازر ۔۔ تم دانین کو پارلر سے لے کر آو۔۔۔ میں اس سے بات کروں گا۔۔۔ تب ہی کوٸی فیصلہ ہو گا۔۔ ہارون نے دو ٹوک بات کر کے سب کو خاموش کروا دیا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
تو پھر بات ہی نہیں بنتی۔۔۔ بچی خود کہہ رہی کہ وہ نہیں کر سکتی کسی بھی صورت میں زرداد سےشادی۔۔
دانین ہلکے سے پیچ پنک رنگ کے سوٹ میں سلیقے سے کیے ہوۓ میک اپ اور جولیری زیب تن کیے۔۔۔ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔

anusinha
 

سکندر خاموشی سے پرسوچ انداز میں بیٹھے تھے۔۔۔
اب کیا ہم اپنے خاندان کا تماشہ بنا لیں اس خبیث کے لے۔۔۔ سب ہکا بکا کھڑے تھے زرداد کی اس فرماٸش پر۔۔۔
ہارون کا بول بول کر برا حال تھا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سر توڑ دیں ۔۔۔ زرداد کا۔۔۔
دانین پارلر گٸ ہوٸی تھی۔۔۔
بھاٸی صاحب۔ ۔۔۔ ایک منٹ ۔۔ آپ بیٹھیں۔۔۔ سکندر نے ہارون کو صوفے پر کندھا پکڑ کر بیٹھایا تھا۔۔۔۔
زرداد نے جو بھی کہا ہے۔۔۔ اس پر سوچا جا سکتا ہے۔۔۔ اتنی بھی کوٸی غلط بات نہیں کی ہے اس نے ۔۔۔ سکندر نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔ ہر دفعہ کی طرح اس دفعہ بھی انھیں رتی بھر بھی زرداد پر غصہ نہیں آیا تھا۔۔۔
زین باہر کا لڑکا۔۔ہے۔۔۔ جو بھی ہے۔۔۔ دل میں ایک ڈر ہے اسے بیٹی دیتے ہوۓ۔۔۔ اگر زرداد سے دانین کی شادی ہو جاتی ہے تو میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی کی بات ہو سکتی ہے۔۔۔

anusinha
 

تم میں سے کسی نے کبھی میرا ساتھ دیا بھی ہے۔۔۔ وہ دھاڑتا ہوا آگے بڑھا تھا۔۔۔
رکو ۔۔۔ میں چلتی ہوں۔۔۔ اچانک آنے والے خیال سے وہ اٹھی اور کمرے کی طرف چل پڑی۔۔۔
زرداد نے منسا کی دفعہ ایسے بلکل ری ایکٹ نہیں کیا تھا جیسے اب کر رہا تھا۔۔۔ اشعال کو اس کے دل کی سچاٸی پہ یقین آ رہا تھا۔۔۔ وہ رانیہ کی چند چیزیں بیگ میں ڈالتی ہوٸی اس کے ساتھ حیدرآباد کے لیے نکل پڑی تھی۔۔۔
راستے میں زرداد اسے پوری طرح قاٸل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
اس سے کہو۔۔۔ اپنی محبت سنبھال کر رکھے۔۔۔ ہارون کا غصے سے برا حال تھا۔۔۔
میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا۔۔۔ میں اس لڑکے کی بلکل ضمانت نہیں دیتا۔۔۔ خبیث ہے یہ پورا۔۔۔ وہ سکندر کی طرف منہ کر کے بول رہے تھے۔۔۔ ان کو غصے سے سانس چڑھا ہوا تھا۔۔۔
اشعال کو آگے کر کے وہ خود اوپر چلا گیا تھا۔۔۔

anusinha
 

وہ یونیورسٹی میں اس کے ساتھ تھا وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔۔۔ تم پاگل مت بنو۔۔۔ اشعال نےآواز کو دھیما رکھ کے اسے سمجھانا چاہا۔۔۔
نہیں کرتی وہ اسے پسند مجھے پتا ہے۔۔۔ تم مجھے بتاو تم نے میرا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔۔۔ وہ دو ٹوک الفاظ میں کہہ کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔
زری ۔۔۔کیا ۔۔۔ چیز ہو۔۔۔ تم۔۔۔ جینے دو سب کو ان کے حال میں۔۔۔ جب بھی میں تمھاری طرف سے بے فکر ہوتی ہوں ۔۔۔ ایک نیا تماشا شروع کر دیتے ہو تم۔۔۔ پہلے منسا کے لیے ان سب کو اتنی مشکل سے راضی کیا اور اب جب اس کے ساتھ سب بات ہو چکی ہےتوتم کہہ رہے ہو تمہیں اس سے محبت نہیں تھی۔۔۔ دانی سے ہے محبت۔۔۔اشعال نے نا سمجھ آنے والے انداز میں سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔
کل کو تمہیں دانی سے بھی محبت نہیں ہو گی۔۔۔ اشعال کا لہجہ اب سخت تھا۔۔۔
میں جا رہا ہوں ۔۔۔ میں خود ہی بات کر لوں گا۔۔۔

anusinha
 

زری ۔۔۔ دانین کی منگنی ہے آج شام کو۔۔۔ اور تم یہاں کھڑے ہو کر مجھ کہہ رہے ہو چلو۔۔ اس سے میرے رشتے کی بات کرو۔۔۔
تمہارے نزدیک یہ کوٸی بات ہی نہیں ہے۔۔اشعال ماتھے میں سو بل ڈالے اس پر چیخ رہی تھی۔۔۔۔
اور وہ جو۔۔۔ جس سے تمھاری بات پکی ہوٸی ہے۔۔۔ منسا۔۔ اس کاکیا۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔ بولو۔۔۔ اشعال اس کا نیچے کو جھکا چہرہ اوپر کو اٹھا کر بولی۔۔۔
بھاڑ میں ۔۔جاۓ وہ۔۔۔ میری طرف سے۔۔۔ وہ دھاڑنے کے سے انداز میں بولا تھا۔۔۔ آنکھوں میں لالی تھی۔۔۔ جو بہت سی شب کی بیداری کا واضح ثبوت تھی۔۔۔
تم یوں ۔۔۔ ہی فضول میں بحث کرتی رہو گی۔۔۔ اور ادھر اس کی منگنی ہو جاۓ گی۔۔۔ زرداد کو اب غصہ آ رہا تھا۔۔۔
آج سکندر کے فون پر اسے اس بات کا پتہ لگا تھا۔۔۔ کہ دانین کا رشتہ آیا تھا۔۔۔ اور دانین کی کی ہی مرضی شامل تھی۔۔۔ آج ان کی منگنی ہو رہی تھی۔۔۔

anusinha
 

وہ کبھی فون کو کان سے ہٹا کر دیکھ رہا تھا ۔۔۔ تو کبھی کان سےلگا کر ہیلو ہیلو کہہ رہا تھا۔۔۔
فون بیڈ پر پڑا تھا۔۔۔ اور دانین بیڈ پر کروٹ لیے سوٸی پڑی تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤
جی ۔۔تو یاد آ ہی گٸ میری۔۔ نرمل نے ہینڈ بیگ ۔۔ سامنے پڑے میز پر رکھا۔۔۔
وہ تھوڑا سا مسکراٸی تھی۔۔۔ لیکن چہر ے پر پریشانی کے آثار واضح تھے۔۔۔ زرداد کی فون کالز نے اس کا جینا حرام کر رکھا تھا۔۔۔ ایک ہفتے سے اوپر ہو گیا تھا وہ نمبر بدل بدل کر اس سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ کبھی پیغامات۔۔۔
پہلے کچھ آرڈر کر لیں بہت بھوک لگی ہے۔۔۔ یار میری جاب اپنے والے ہاسپٹل میں کرواٶ پلیز۔۔۔ میں تو تنگ آ گٸ ہوں قسم سے۔۔۔
وہ ویٹر کو اشارہ کرتے ہوۓ ۔۔۔ اپنے مخصوص انداز میں بولے جا رہی تھی۔۔۔ پھر اچانک دانین کے پریشان چہرے کو نوٹس کیا اس نے۔۔۔
تمہیں کیا ہوا خیریت ہے ۔۔

anusinha
 

پر دوسری طرف بلکل خاموشی تھی۔۔۔
دانین میری بات سنو وہ اب بول رہا تھا۔۔۔
مجھے خود نہیں پتا یہ کیسے ہو گیا۔۔۔ پر میں ۔ مجھے۔۔۔ یار۔۔۔ ۔وہ جھنجلا کے بولا۔۔
دانین مجھے تم سے شادی کرنی ہے۔۔۔ بڑی ہی۔۔۔ ہمت ہاری ہوٸی آواز تھی۔۔۔
دیکھو۔۔ مجھے پتہ ہے ۔۔ تم مجھ سے بہت محبت کرتی تھی۔۔۔ اب بھی کرتی ہو۔۔۔ بس ۔۔۔۔ تمھارا دل صاف نہیں ہو پا رہا میری طرف سے۔۔۔ وہ ٹیرس پر ٹہل رہا تھا۔۔۔
دیکھو۔۔۔ میں سب سنبھال لوں گا۔۔۔ میں ۔۔ سب کو راضی کروں گا۔۔۔
تین انگلیوں کو جوڑ کر اپنے ہونٹوں پہ رکھتے ہوۓ اس نے کہا۔۔میں تمہیں کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا۔۔۔ دانین میری محبت پر اعتبار کرو۔۔۔ مجھے بس ایک چانس اور دے کر دیکھو۔۔۔ اس نے آسمان کی طرف ایسے دیکھا جیسے التجا۔۔۔ خدا سے بھی ہو۔۔
کچھ تو بولو۔۔۔ دانین۔۔۔ دانین۔۔۔۔ ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔ کال تو نہیں کٹی تھی۔۔۔

anusinha
 

دانین سکندر اب کوٸی کچی عمر کی وہ بیوقوف دانین نہیں تھی۔۔ جو اس کی اوچھی باتوں میں آ کر پھر سے اس کا شکار ہو جاتی۔۔۔
اور جو شخص۔۔ ہر خوبصورت چیز کا دیوانہ ہو۔۔۔ اسے بھلا میری جیسی ۔۔ معمولی شکل وصورت کی لڑکی سے محبت ہو بھی کیسے سکتی۔۔۔ وہ ساکت بیڈ پہ بیٹھی سوچے جا رہی تھی۔۔ ۔۔
فون کتنی بار پھر سے بج چکا تھا اس نے فون اٹھایا کال کاٹی اور اس نمبر کو بلیک لسٹ میں ڈال کے فون کو ایک طرف بیڈ پر اچھال دیا۔۔۔
❤❤❤❤❤
بار بار۔۔۔ فون لگا لگا کر پاگل ہو گیا تھا۔۔۔ وہ فون اٹھا ہی نہیں رہی تھی۔۔۔
پھر کچھ ذہن میں آتے ہی۔۔ دوسرے نمبر سے کال ملاٸی تھی۔۔۔
دوسری ہی بِل پر اس کی آواز ابھری تھی۔۔۔
دانین پلیز کال مت کاٹنا۔۔۔ تمہیں چاچو کی قسم۔۔۔ بڑی تیزی سے اس نے الفاظ ادا کیے تھے۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ پھر سے کال کاٹ دیتی۔۔۔
اس نے کال نہیں کاٹی تھی۔۔

anusinha
 

جاہل ہی رہنا۔۔ بنے پھرتے ہو۔۔۔ سپر سٹار۔۔۔ اچھا وہ کچھ اور فرینڈز ہیں۔۔۔ ان کو بھی ملنا تم سے۔۔۔ التجا والے انداز میں منال نے کہا۔۔۔
اوہ یار۔۔۔ بہت سر کھاتی ہیں۔۔۔ اچھا چلو باۓ اب۔۔ اب وہ واقعی چڑ گیا تھا۔۔
اچھا دفعہ ہو۔۔۔ باۓ۔۔۔ منال نے خفگی سے کال کاٹ دی تھی۔۔۔
منال کا مسیج سکرین پہ چمک رہا تھا۔۔۔
زرداد نے دھڑکتے دل کے ساتھ مسیج کو کھولا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
وہ نماز کے بعد دعا مانگ رہی تھی۔۔۔ جب فون کی رِنگ سناٸی دی۔۔۔ ایک دفعہ تو فون بج بج کر بند ہو گیا تھا۔۔۔ اب دوسری دفعہ بج رہا تھا۔۔۔ جب وہ جاۓ نماز سمیٹ رہی تھی۔۔۔
آگے بڑھ کر اس نے فون اٹھا کر کان کو لگایا تھا۔۔۔
ہیلو۔۔۔ دانین کی ۔ مدھر سی آواز ابھری۔۔۔
زرداد کے دل کو جیسے تسکین ملی۔تھی۔۔۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔۔۔