دانین نے غصے میں بھری نظر ڈالی ۔۔۔ اس پر کوٸی اثر نہیں تھا۔۔ مسکرا رہا تھا۔۔۔
ہاتھ دو اپنا۔۔۔ اپنی ہنسی کو دباتے ہوۓ زرداد نے کہا۔۔۔ وہ ساکت بیٹھی رہی۔۔۔
میں۔۔۔۔ کہہ ۔۔۔ رہا۔۔۔ ہوں۔۔۔ ہاتھ دو۔۔۔ اپنا۔۔۔ وہ اس کا ہاتھ زبردستی پکڑ رہا تھا۔۔۔
ہم۔م۔م۔ گڈ ۔۔۔ اس کے ہاتھ کو پکڑ کر اب اس کی ہتھیلی کھول دی تھی۔۔۔ اور دوسرے ہاتھ سے جیب میں سےکچھ تلاش کیا۔۔۔
کہاں ہے۔۔۔ ہاں مل گٸ۔۔۔ شرارت سے ہنسا۔۔۔
کہا تھا نا۔۔۔ یہ امانت ہے میرے پاس۔۔۔ صیح وقت پر ۔۔ اپنے ہی ہاتھوں سے پہناٶں گا۔۔۔ آنکھ دباٸی۔۔۔
دانین نے حقارت اور نفرت سے اس کی طرف دیکھا اور ایک جھٹکے سے انگوٹھی اتار کر پھینک دی۔۔۔ تم میری سوچ سے بھی زیادہ گھٹیا ہو۔۔۔ دانین غصے سے اٹھی تھی۔۔۔
اور۔۔۔ کچھ۔۔۔ اپنے سینے پر ہاتھ باندھے ۔۔ ٹانگ پر ٹانگ رکھے۔۔۔
باہر نکل کر۔۔۔ اس کے کمرے کا جاٸزہ لے رہی تھی۔۔۔ کمرہ ایسے پھولوں سے لیس تھا۔۔۔
ہر پھول اس پر ہنس رہا تھا۔۔۔ زور زور سے۔۔
بیڈ پر بیٹھنے کو بھی دل نہیں تھا۔۔۔ سامنے لگے صوفے پر بیٹھی تھی۔۔۔ سکندر کی باتیں ذہن میں گونج رہی تھیں۔۔۔
مجھے اور دکھ مت دے دانین۔۔۔ لوگوں کو جواب دیتے دیتے تھک گیا ہوں۔۔۔
دروازہ پہ دستک ہوٸی تھی۔۔۔ اس نے جلدی سے صوفے پر رکھیں ٹانگیں نیچے کی تھیں۔۔۔
آنکھوں میں شرارت۔۔۔ لبوں پہ مسکراہٹ لیے۔۔۔ وہ فتح کا پرچم لہرا رہا تھا۔۔۔
دانین نے اپنے پیروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔ ضبط۔۔۔ کا احساس اس کے چہرے سے صاف واضح تھا۔۔۔
اسکے ساتھ آ کر صوفے پر جیسے ہی بیٹھنے لگا تو دانین تیزی سے اٹھنے لگی۔۔۔
پر بازو زرداد کے ہاتھ میں تھا۔۔۔ بیٹھو ۔۔۔ یہاں۔۔۔ ایک جھٹکا دیا اسکا نازک وجود صوفے پر ڈھے گیا تھا۔۔۔
دانین نے اسے گھور کر دیکھا۔ ۔۔۔ تمہیں کیا ہوا ہے۔۔ تم کون سا زین سے محبت کرتی تھی۔۔۔ اس کو دیکھو تو ۔۔۔ ہاۓ۔۔ اس کو تو سچ میں سانولی سلونی مل گٸ۔۔۔ نرمل اس کے گھر والوں سے بھی زیادہ خوش تھی۔۔۔ ہر شخص خوش تھا۔۔۔
اسے سب اپنے دشمن لگ رہے تھے۔۔۔ وہ تو پاس ایسے سینہ چوڑا کر کے بیٹھا۔۔۔ تھا۔۔۔ ہر میدان فتح کر چکا ہو جیسے۔۔۔
سکندر نے سر پر کھڑے ہو کر اس سے ساٸن لیے تھے۔۔۔
اس نے سب کو قابو کر لیا تھا۔۔۔ کیا چیز تھا وہ۔۔۔ جو چاہتا پا لیتا تھا۔۔۔ ہر چیز جو اسے چاہیے ہوتی تھی اس کی ضد بن جاتی تھی۔۔۔ میں بھی اس کی ضد بن گٸ تھی ۔۔۔ اور کچھ نہیں۔۔۔ دل نا جانے کیا کیا سوچے جا رہا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
اس سے پہلے کہ وہ کمرے میں آتا ۔۔۔ وہ جلدی جلدی سب کچھ بدل چکی تھی۔۔۔ منہ کو رگڑ رگڑ کے دھو ڈالا تھا۔۔ آنسو اب بار بار دھونے کا کام کر رہے تھے۔۔۔
میں تم سے شادی نہیں کر سکتا اب۔۔۔
تو تمہیں مجھ پر اتنا سا بھی اعتبار نہیں رہا۔۔۔ تم میری بات تو سنو ۔۔۔ پہلے۔۔۔ یہ سب سارا کچھ زرداد کا۔۔۔ وہ گھوم گھوم کر اسے بتانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
پر اس کی بات ابھی پوری نہیں ہوٸی تھی کے زین نے فون بند کر دیا تھا۔۔۔
وہ دوبارہ کال ملا رہی تھی۔۔۔ اس دفعہ چہرہ سرخ تھا۔۔۔
اس نے فون بند کر دیا تھا۔۔۔ وہ ایک دم کرب سے مڑی تھی۔۔۔ تب اس کی نظر پاس ساکت کھڑی سدرہ پر پڑی۔۔۔
دانین ۔۔۔ تم ۔۔۔ مان کیوں نہیں لیتی۔۔ کہ تم ۔۔ صرف زرداد سے پیار کرتی ہو۔۔۔سدرہ کا لہجہ اور چہرہ دونوں سپاٹ تھے۔۔۔
امی۔۔۔ یہ۔کیا کہہ رہی ہیں۔۔۔ اس نے جھنجلا کے سدرہ کی طرف دیکھا ۔۔۔
میں بہت پہلے سے جانتی۔۔۔ جب اس کے جانے پہ تم بیمار ہوٸی تھی۔۔۔ رات رات بھر اسی کا نام پکارتی تھی۔۔۔ سدرہ کے ماتھے پہ بل تھے۔۔۔
تو۔۔۔ یہ ہی تو تم اور زرداد چاہتے تھے۔۔۔ دھماکا ہی تو کر ڈالا تھا۔۔۔
کیا۔۔۔ کیا۔۔ کہا تم نے۔۔۔ میں ۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آٸی۔۔۔ دانین نے پریشانی سے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔
تمھاری ساری ڈاٸری پڑھ چکا ہوں میں۔۔۔۔ جو تم نے زرداد کی محبت میں لکھی ہے۔۔۔ تمہارے ساتھ چار سال پڑھا ہوں ۔۔۔ ایک نظر میں۔۔۔ پہچان لی تمھاری راٸٹنگ۔۔۔ وہ دکھ بھری آواز میں بول رہا تھا۔۔۔
ماتھے پہ ٹھنڈا پسینا آ گیا تھا۔۔۔۔ تو زرداد ہارون ۔۔۔ تم وہ کر جاتے ہو ۔۔ جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔۔۔
وہ ڈاٸری ۔۔ میں نے ہی لکھی ۔۔ تھی۔۔۔ پر ۔۔۔ وہ میری زندگی کی بہت بڑی ۔۔۔ غلطی تھی۔۔۔ زین۔۔۔ پلیز۔۔۔ میں ایسا کچھ نہیں چاہتی۔۔۔ میں تمہیں سب بتا دوں گی۔۔۔ پہلے تم بارات لے کر آو۔۔۔۔
نہیں دانین ویسے بھی بہت دیر ہو گٸ ہے۔۔۔ اب ۔۔۔ اور غلطی ۔۔۔ تھی۔۔۔ یا محبت۔۔
بابا اپنا موباٸل دیں۔۔۔ جلدی۔۔۔ میرا موباٸل کل رات سے نہیں مل رہا مجھے۔۔۔۔ اس کی معصوم سی شکل پریشان حال لگ رہی تھی۔۔۔
تم نہیں کرو گی اس سے بات سمجھی تم۔۔۔ زرداد سے ہی ہو گی شادی۔۔۔ پہلی دفعہ وہ اتنی سختی سے بات کر رہے تھے۔۔۔
وہ غصے میں باہر نکلے تھے۔۔۔ دانین اب پاس کھڑی سدرہ کی طرف پلٹی تھی۔۔۔
امی مجھے موباٸل دیں ۔۔۔ اپنا وہ کمر پر ہاتھ رکھے پریشان حال کھڑی تھی۔۔۔ ہونٹوں پر بار بار زبان پھیر رہی تھی۔۔۔
سدرہ نے اپنا موباٸل آگے کیا تو اس نے جھپٹ کر موباٸل پکڑا تھا۔۔۔
کانپتے۔۔ ہاتھوں سے زین کا نمبر ڈاٸل کیا۔۔۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔ تڑپ کے وہ بولی تھی۔۔۔ زین ۔۔۔ یہ بابا کیا کہہ رہے ہاں۔۔۔۔ سانس اکھڑا ہوا تھا۔۔۔ وہ کہہ رہے ۔۔۔ کہ ۔۔ کہ۔۔۔ تم آج بارات لے کر نہیں آ رہے ہو۔۔۔۔وہ اب پریشانی سے اپنے ہونٹوں کو کچل رہی تھی۔۔۔
بس کل دانین ۔۔زرداد کی ہی دلہن بنے گی۔۔۔ سکندر اب غصے میں تھے۔۔۔
ہارون بھی چپ سے ہو گۓ تھے۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤
وہ چھت پر آ گیا تھا۔۔۔ دانین کے فون پر ابھی بھی۔۔۔ زین کی کال آ رہی تھیں۔۔۔
اس نے ایک دو دفعہ کال کاٹی تھی۔۔۔اب بجتے فون کو بند کر دیا تھا۔۔۔
سگریٹ ۔۔۔ ہاتھوں میں سلگ رہی تھی۔۔۔ آنکھوں میں ۔۔۔ نیند نہیں تھی۔۔۔ ویسے بھی ایسے عالم میں نیند کس کمبخت کو آنی تھی۔۔۔
سویا۔۔۔ اگر تو سب پلٹ نا جاۓ کہیں۔۔۔ اس خوف نے ہی جگا رکھا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
بابا۔۔۔ بابا۔۔۔ زین ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔ میں جانتی ہوں اسے ۔۔۔ آپ رکیں ۔۔۔ رکیں ۔۔۔ میں اس سے بات کرتی ہوں۔۔۔ وہ بوکھلاٸی سی لگ رہی تھی۔۔۔ سو کر کیا اٹھی یہاں تو دنیا ہی بدل گٸ تھی۔۔۔
سدرہ ماتھا چوم چوم کے بلاٸیں لے رہی تھی۔۔۔ اور بابا نے آ کر سر پر بم پھوڑ دیا کہ زرداد سے ہوگا نکاح۔۔۔
قسط نمبر12
اسی لیے ۔۔۔ اسی۔۔ لیے میرا دل شروع سے اس رشتے پر آمادہ نہیں تھا۔۔۔ سکندر کندھے گرا کر بیٹھے تھے۔۔۔۔
ہارون کا چہرہ اس سے بھی زیادہ پریشان حال تھا۔۔۔
زرداد نے کن اکھیوں سے سب کے چہروں کا جاٸزہ لیا۔۔۔۔۔۔ سدرہ کا رو رو کر برا حال تھا۔۔۔
وہ۔۔۔ خبیث ۔۔۔ کہتا۔۔۔ دانین کی شادی زرداد سے کر دیں۔۔۔ کوٸی وجہ بھی نا بتاٸی۔۔۔ سکندر نے زرداد کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔
زرداد ایک دم سیدھا ہوا اور ہونٹوں پر زبان پھیری۔۔۔
دانین ابھی سو رہی تھی۔۔۔ اسے کسی نے نہیں بتایا تھا۔۔۔
تو ۔۔۔ چاچو۔۔۔ آپ ۔۔ پھر کیوں ۔۔۔ ہو رہے پریشان۔۔۔ میں حاضر ہوں۔۔۔ زرداد نے دھیمے لہجے میں۔۔۔ مگر رک رک کر کہا۔۔۔
سکندر نے زرداد کی طرف مشکور ہوتے ہوۓ دیکھا۔۔۔
اور وہ ساتھ والی سیٹ پر پڑے موباٸل کو دیکھ کر مسکرایا۔۔۔
فون اٹھایا اور کال کاٹ دی۔۔۔
وہی مسکراہٹ ۔۔ ہونٹوں پہ تھی۔۔۔
دانین کو مہندی لگانے کے بعد وہ اس کے کمرے میں گیا تھا۔۔۔ اور تکیے کے پاس پڑے اس کو موباٸل کو آف کر کے اپنی جیب میں رکھنے میں
صرف چند سکینڈ ہی لگے تھے۔۔۔
💘💘💘
جاری ہے
۔۔ زین کی بات پر وہ کہہ رہا تھا کہ وہ دانین سے شادی نہیں کرسکتا۔۔۔وہ صبح بارات نہیں لاۓ گا۔۔
لیکن کیوں ایسا کر رہے تم ۔۔۔۔ سکندر کی آواز لڑ کھڑا گٸ تھی۔۔۔
آپ دانین کی شادی زرداد سے کر دیں۔۔زین نے کال کاٹ دی تھی۔۔۔
زین دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
اچھا سنو۔۔۔ یار ۔۔رات بہت ہو گٸ ہے۔۔۔ کیا یہ رنگ میں خرید سکتا ہوں۔۔۔
زین نے بے یقینی سے دیکھا۔۔۔ کمینگی کی انتہا تھی ویسے۔۔۔
وہ مسکرا رہا تھا۔۔۔ پھر ایک بھاری رقم کا چیک اسے پکڑا کر وہ انگوٹھی کو اپنی جیب میں رکھ رہا تھا۔۔۔
اپنے کوٹ کو اٹھ کر بڑے انداز میں جھٹکا دیا۔۔۔ اور گاڑی کی چابی اٹھاتا باہر نکل گیا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤💌❤💌
موباٸل کی بل بج رہی تھی۔۔۔ زین کا نمبر دانین کے فون پر چمک رہا تھا۔۔۔
پھر ملاٸی۔۔۔ پر وہ کال رسیو نہیں کر رہی تھی۔۔
کال نہیں اٹھاۓ گی تمھاری۔۔ زرداد دھیرے سے بولا۔۔۔
اب زرداد کال ملا رہا تھا۔۔ ۔۔ ہاں۔۔۔ دانین نے کال اٹھا لی تھی۔۔۔
زین نے چونک کر دیکھا۔۔۔
ہاں ۔۔۔ مان گیا ہے۔۔۔ تم کیوں رو رہی ہو۔۔۔ نہیں لے کر آۓ گا وہ بارات۔۔۔ زرداد دانین کو چپ کروا رہا تھا۔۔۔ بات کرو گی ۔۔ زین سے۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ زرداد نے کال کاٹی۔۔ زین کی طرف دیکھا۔۔۔
نہیں کرنا چاہتی بات۔۔۔ زرداد نے کندھے اچکاۓ۔۔۔
ڈاٸری میں۔۔۔ زرداد کے لیے۔۔۔ دانین نے اتنا کچھ لکھا ہوا تھا ۔۔ کہ وہ جان لینے کے بعد ۔۔ زین جیسا شریف انسان کبھی بھی اس شادی کے لیے راضی نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔
زین کے موباٸل سے زرداد نے اسے سکندر کا نمبر ملا کر دیا تھا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤
کیا کہہ رہے ہو یہ تم۔۔۔ سکندر کو جیسے دھکا لگا تھا۔۔۔
اس کو یہی لگا کہ میں شاٸید اب اسے نا اپناٶں۔۔۔ اسی لیے خاموشی سے تمھارے پرپوزل کی ایکسپٹ کر بیٹھی تھی۔۔۔
کرسی کے دونوں بازوٶں پر اپنے بازو ٹکا کر وہ آگے کو جھک کر کہہ رہا تھا۔۔۔
زین کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا۔۔ ایک رنگ جا رہا تھا۔۔۔
لیکن درحقیقت ۔۔۔ وہ صرف اور صرف مجھ سے اور میں اس سے محبت کرتا ہوں کرتا رہوں گا۔۔۔ اور وہ بھی کرتی رہے گی۔۔۔ چاہے آپ اس حقیقت کے بعد بھی اسے اپنا لیں۔۔ اب زرداد کندھے اچکاتا ہوا پیچھے ہوا تھا۔۔۔
زین کیسے نا یقین کرتا۔۔۔ اس حقیقت کی نا صرف ڈاٸری ہی ثبوت تھی بلکہ۔۔ دانین کا اس کے ساتھ رویہ بھی ثبوت تھا۔۔۔
زین کو کبھی اپنے لیے اپناٸت کا احساس نہیں ہوا تھا اس کی طرف سے۔۔۔
آپ ابھی کال کریں گے۔۔۔ چاچو کو اور منع کر دیں میری اور دانین کی یہ ہمبل ریکوسٹ ہے آپ سے۔۔۔بڑے التجا کے انداز میں زرداد نے کہا تھا
وہ چیخنے کے سے انداز میں کہہ رہی تھی۔۔۔
جا رہا ہوں۔۔۔ مسکراتا ہوا وہ باہر چلا گیا تھا۔۔۔
اور دانین نوچ نوچ کر اپنا زیور اتار رہی تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤
کیا مزاق ہے یہ۔۔۔ زین اپنے سامنے پڑی ڈاٸیری اور انگوٹھی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
مذاق نہیں یہ حقیقت ہے۔۔۔
بڑے انداز سے مسکرایا تھا زرداد۔۔
تم نے ڈاٸری پڑھ لی ہے ۔۔۔ پتہ تو چل گیا ہو گا کہ کتنی محبت ہے اسے مجھ سے۔۔۔ گھمبیر۔۔ ۔۔ بھاری آواز۔۔۔ میں کہا۔۔۔
رات کے تین بجے وہ زین کے گھر اس کے ڈراٸنگ روم میں اس کے سامنے موجود تھا۔۔۔
زین کی اس سے پہلی دفعہ ملاقات ہو رہی تھی۔۔۔ دانین کیا کبھی کسی گھر والے نے بھی ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔۔۔ ہاں صرف اتنا پتہ تھا اس کو کہ شازر کا ایک چھوٹا بھاٸی بھی ہے۔۔۔ جو کراچی ہوتا ہے۔۔۔
بہت اچھی لگ رہی ہو۔۔۔ اس کی آواز پر دانین نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔
وہ ابھی اندر آٸی ہی تھی۔۔۔ کچھ دیر پہلے ۔۔۔ اس کے گانے سے گھبرا کر۔۔۔
تم تم ۔۔نکلو ابھی اسی وقت۔۔۔ وہ ہڑ بڑا گٸ تھی۔۔۔ اس کے ایسے کمرے میں آنے پر۔۔۔ اور اس دن کا سارا منظر آنکھوں کے آگے گھوم گیا تھا۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔ گھبرا کیوں رہی ہو۔۔۔ جاتا ہوں۔۔ ابھی۔۔۔
ویسے بھی کل تم میرے پاس ہی ہوگی ۔۔۔ تو آج بے تابی نہیں دکھانی چاہیے۔۔۔ وہ شرارت سے ہنس رہا تھا۔۔۔
بکواس مت کرو اور نکلو یہاں سے نہیں تو میں تایا ابا کو آواز دے دوں گی۔۔۔
کوٸی نہیں سنےگا۔۔۔ سب ۔۔ باہر صحن میں ہیں۔۔۔
میں بھی جا رہا ہوں ۔۔ تمہیں کہنے آیا تھا رات بہت ہو گٸی ہے۔۔ ۔ تم سو جاٶ۔۔۔ کل نہیں سونے دوں گا۔۔۔ وہ قہقہ لگا رہا تھا۔۔۔ دانین کا ضبط سے رنگ سرخ پڑ گیا تھا۔۔۔ نکلو ۔۔۔ میرے کمرے سے باہر اسی وقت۔۔۔۔
دانین نے چونک کے اس کی طرف دیکھا تو اپنے مخصوص انداز میں آنکھ دباٸی۔۔۔ اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔۔۔
دانین نا سمجھی کی حالت میں اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔
کیا ہے اس کے ذہن میں۔۔۔ کیا کرنا چاہتا ہے۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں الجھ کر رہی گٸی تھی۔۔۔
تھوڑی دیر بعد۔۔۔۔
سب کی فرماٸش پر وہ گٹارتھامے اپنا وہی گانا گا رہا تھا۔۔۔۔
سانولی سلونی سی محبوبہ۔۔۔۔ گانے کے بول دانین کو زہر لگ رہے تھے۔۔۔
آنکھیں ۔۔ محبت سے بھر کے ۔۔ وہ بار بار کن اکھیوں سے دانین کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
جس کے لیے اب یہاں بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
گھر کے۔۔۔ جو ہارون کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔۔۔
اسی گھر کے صحن میں ہر بار کی طرح اس دفعہ اس کی مہندی کے لیے سٹیج سجا تھا۔۔۔
پر اس دفعہ انتظام اتنا شاندار تھا ۔۔ کہ سب حیران تھے۔۔۔ زرداد نے کسی چیز کی کمی نہ رکھی تھی۔۔۔
باہر ساونڈ سسٹم پر پھر اونچی آواز میں وہی گانا بج رہا تھا۔۔۔
دانین نے انگلیاں اپنے کانوں میں گھسا دی تھیں۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤
وہ مہندی لگانے کے لیے سٹیج پر آیا ۔۔۔ تو سب لوگ۔۔۔ بے یقینی کے عالم میں اسکا یہ عمل دیکھ رہے تھے۔۔۔
زرداد نے مہندی اپنی انگلی کی پور سے اٹھا کر اس کی ہتھیلی پہ سجے پتے پر لگا دی تھی۔۔۔ پھرتھوڑا سا اس کے قریب ہوا تھا۔۔
یہ پہلی شادی ہو گی جس میں دلہے نے اپنی دلہن کو۔۔ مہندی لگاٸی ہے۔۔۔ بھاری آواز میں اس نے دانین کے کان کے قریب سرگوشی کی۔۔
منال اب پیچھے ہو کر اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
خیر تم پریشان کیوں ہو رہی ۔۔ بہت پیاری لگ رہی ہو قسم سے۔۔۔ منال نے محبت بھری نظروں سے دیکھا۔۔۔
نہیں ۔۔ تو۔۔۔ پریشان کیوں ہوں گی میں۔۔۔ وہ منال کے ساتھ ساتھ خود کو بھی سنا رہی تھی۔۔۔
منال کمرے سے چلی گٸ تھی۔۔۔ وہ اپنے آپ کو سامنے آٸینے میں دیکھ رہی تھی۔۔۔
وہ بہت حد تک مختلف لگ رہی تھی۔۔ نکھرا ہوا گندمی چہرہ ہلکا سا میک اپ۔۔ پھولوں کا زیور۔۔۔
پر آنکھیں ۔۔ چہرہ۔۔۔ ساکت۔۔۔ جزبات۔۔ احسات سے خالی۔۔۔
زرداد نے سب کچھ نوچ ڈالا تھا۔۔۔ کھرچ ڈالا تھا اس کے دماغ سے۔۔ محبت کے جزبے سے ایسے اعتبار اٹھا تھا۔۔ کہ ایک پل کو کبھی اسے زین کی محبت پر بھی یقین نہ آیا تھا۔۔
اس نے دوپٹہ سیٹ کرنے کے لیے بازو اوپر کیے تھے۔۔۔
بہت کچھ زرداد کی وجہ سے بدل گیا تھا سواۓ اس گھر کے۔۔۔
روہانسی آواز میں ۔۔ اشعال نے اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔۔۔
تم اپنے مشورے اپنے پاس رکھو۔۔۔ بولو آوں تمہیں لینے۔۔۔ سن گلاسز لگاتے ہوۓ پوچھا۔۔۔
شام کو دانین کی مہندی تھی۔۔۔ ابھی چار بج رہے تھے۔۔۔
نہیں تم جاٶ میں آ جاوں گی۔۔۔ احمد ابھی آتے ہوں گے آفس سے۔۔۔ اشعال کی آواز میں بھاٸی کی محبت کی نمی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔ پھر آو۔۔۔ میں جا رہا ہوں ۔۔ اس نے ڈراٸیور کو حیدر آباد نکلنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔
اور خود سیٹ سے ٹیک لگا کر مسکرا رہا تھا۔۔۔
❤💌💌💌❤❤❤❤❤
وہ ۔۔جناب بھی ۔۔ پہنچ گۓ ہیں۔۔۔ منال نے اس کے سر پر دوپٹہ سیٹ کرتے ہوۓ کہا۔۔۔
کون۔۔۔ زری۔۔۔ بہت گھٹی سی آواز نکلی تھی۔۔۔ دانین کا رنگ ایک دفعہ زرد پڑا تھا۔۔۔
جی جناب۔۔ وہی۔۔ اشعال نے تو بہت روکا۔۔ اسکو۔۔۔ پر تمہیں تو پتہ ہے۔۔۔ ہر وہ کام کرتا جس سے کوٸی روک دے اسے۔۔۔
ہیں۔۔۔ اسی لیے تو دل کا دورہ پڑنے کی شرح میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔۔۔
منسا ایک دم ساکت ہو گٸ تھی۔۔۔ اس کے بعد کوٸی بات کرنے کو تھی ہی نہیں۔۔۔
وہ ایسے ہی لاش کی طر ح اٹھی تھی۔۔۔ اور چل دی تھی۔۔۔ جبکہ زرداد اپنے سر کو جھکاۓ۔۔۔ زمین کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
❤💌❤❤❤❤
تم ۔۔میرے ساتھ جاٶ گی یا ۔۔ احمد کے ساتھ نکلو گی۔۔۔ حیدر آباد کے لیے۔۔۔ کار میں بیٹھا وہ اپنے کوٹ کے آگے والے بٹن کو کھول رہا تھا۔۔۔ ڈراٸیور اس کے حکم کے انتظار میں ۔۔ سٹیرنگ پرہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔۔۔
کیا مطلب ۔۔۔ تم جا رہے ہو دانین کی شادی۔۔ پہ۔۔۔ حیرت کے سمندر میں غوطے لگاتی ہوٸی اشعال کی کی آواز ابھری تھی۔۔
میں نہیں جاٶں گا تو شادی کیسے ہو گی۔۔۔ قہقہ لگایا تھا۔۔۔
بکواس مت کرو۔۔۔ دیکھو تم مت جاٶ۔۔۔ میں تمہیں ایسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔۔۔
زرداد۔۔۔منسا نے آنسو میں رندھی ہوٸی آواز سے کہا
خود ساختہ ۔۔۔ محبت ۔۔۔ جس میں میرے دل سے زیادہ ۔۔ کردار میرے دماغ کا تھا۔۔۔ وہ رک رک کر بول رہا تھا۔۔۔
اب میرے اندر کا سارا انتظام اس کمبخت دل نےسنبھال رکھا ہے۔۔۔ وہ قہقہ لگا رہا تھا۔۔۔
منسا حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ منسا کی آنکھوں کی نمی صاف واضح تھی۔۔۔
دیکھو۔۔۔ دماغ ۔۔ ابھی بھی کبھی کبھی ۔۔۔ قید خانے ۔۔ کی چھوٹی سی کھڑکی سے چیخ چیخ کے دل کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ یہ ۔۔ نہیں ۔۔ ٹھیک۔۔۔ وہ تھوڑا سا آگے ہوا تھا۔۔۔
آنکھوں میں نمی اس کے بھی تھی۔۔۔ مرد مضبوط جسم کا مالک ضرور ہوتا ہے۔۔۔ لیکن دل اس کا بھی اسی مٹی سے سینچا گیا تھا۔۔۔ جس سےعورت کا۔۔۔
یہ الگ بات ہے کہ۔۔۔ عورت آنسو گال پر گرا کر سکون پا جاتی ہے۔۔۔ لیکن مرد کو اپنے آنسو بھی پی کر دل پر ہی گرانے پڑتے ہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain