کوٸی ۔۔۔ آواز نہیں آٸی تھی۔۔۔ نا منظور کی۔۔۔ وہ ابھی حیران ہی ہو رہی تھی ۔۔۔
چادر سر تک لی ہوٸی تھی ۔۔
اچانک اس کے کان کے قریب سرگوشی ہوٸی تھی۔۔۔۔ نا منظور۔۔۔۔ وہ اس کے اوپر ہی تو جھکا ہوا تھا۔۔۔ آواز ایسی خمار آلودہ تھی۔۔۔ کہ۔۔ دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔۔۔ایک دم سے گھبرا کر وہ اٹھی تھی۔۔۔
اب وہ قہقہ لگا رہا تھا ۔۔۔ سو جاٶ۔۔۔ تمھاری مرضی کے بنا نہیں۔۔۔ ویسے تو جہاں ۔۔۔ اتنا کچھ صرف اپنی مرضی سے کیا ہے تو ۔۔۔۔۔ وہ اس کے قریب ہوا تھا۔۔۔ پر انکھوں ۔۔۔ میں ابھی بھی شرارت بھری تھی۔۔۔
دانین کا رنگ ایک دم سے سرخ ہو گیا تھا۔۔۔۔ سوچنا بھی مت۔۔۔ وہ چڑ گٸ تھی۔۔۔ اسکو ہاتھ کے اشارے سے اپنی ساٸیڈ پر رہنے کا کہا۔۔۔
لو بھلا۔۔۔ اب سوچنے پر کیا پابندی۔۔۔ سوچنے تو دے دو۔۔۔ قاتل مسکراہٹ۔۔۔ اور نظروں میں بے پناہ پیار بھر کر وہ بولا تھا۔۔۔
اس کا سر گھوم گیا تھا۔۔۔
اور کچھ۔۔۔ کمینگی کی انتہا۔۔۔ اور شرارت سے قہقہ لگاتے ہوۓ کہا۔۔۔
میں اس رشتے کو آگے نہیں بڑھانا چاہتی کیونکہ ۔۔۔ میں جانتی تم نے چھوڑ دینا مجھے۔۔۔ میں نہیں چاھتی تم مجھ سے بیوی والی کوٸی بھی توقع رکھو۔۔۔ وہ پھر سے اپنے ارادوں سے آگاہی دے رہی تھی اسے۔۔۔
نا منظور۔۔۔ یہ تمھاری سوچ ہے۔۔۔ کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔۔۔ جبکہ میں جانتا ہوں تم کیا حیثیت رکھتی میرے لیے۔۔ اس لیے میں تو ٹراٸی کرتا رہوں گا۔۔۔ تم بس خود کو مظبوط رکھنا۔۔۔ اپنے مخصوص انداز میں آنکھ دباٸی۔۔۔
دانین پیر پٹختی ہوٸی بیڈ کی دوسری ساٸڈ پر جا کر لیٹ گٸ۔۔۔
اور تم ۔۔۔رات کو۔۔۔ میری ساٸڈ پر آۓ بھی تو یہ پاس پڑے واز سے تمھارا سر پھوڑ دوں گی۔۔۔ وہ چادر کو سر تک لیتے ہوۓ خبردار کرنے والے انداز میں کہا
جاری ہے
۔۔۔ اس لیے نا منظور ۔۔۔ میرے کمرے میں ہی رہنا پڑے گا۔۔۔ بڑے انداز میں کوٹ اتارتے ہوۓ کہا۔۔۔
اور کچھ۔۔۔۔بازو کے کف بٹن کھولتے ہوۓ کہا۔۔۔
مجھے ۔۔ الگ بیڈ چاہیے۔۔۔ تمھارے ساتھ ایک بستر میں نہیں سو سکتی۔۔۔ سخت لہجہ ۔۔۔ سپاٹ ۔۔ چہرے کے ساتھ دانین نے کہا۔۔۔
ہم۔م۔مم۔ بے اعتباری۔۔۔ ویسے ہونی بھی چاہیے۔۔۔ وہ ہنسا تھا۔۔۔ بازو کو فولڈ کر کے اب اوپر چڑھا رہا تھا ۔۔۔۔
یہ بھی نا منظور۔۔۔ بیڈ اتنا بڑا ہے۔۔۔ دوسرے کنارے پہ لیٹے تمہھیں ایسا ہی لگے گا تم بہت دور ہو مجھ سے۔۔۔ اب سینے پہ ھاتھ باندھے۔۔۔اسے شرارت سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
اور کچھ۔۔۔۔ ہنسی کو دباتے ہوۓ کہا۔۔۔
جب میری کوٸی بات منظوری میں آنی ہی نہیں۔ ۔۔۔ تو کیوں پوچھ رہے ۔۔۔ اور کچھ۔۔۔ اور کچھ۔۔۔ دانین نے چڑ کر کہا۔۔۔ ماتھے پہ سو بل تھے۔۔۔ میں تو پاگل ہو جاٶں گی اس کے ساتھ رہتے رہتے۔۔
مجھے الگ کمرہ چاہیے۔۔۔ وہ ادر گر د دیکھتے ہوۓ ۔۔۔ زرداد سے کہہ رہی تھی۔۔۔
اتنا خوبصورت گھر تھا۔۔۔ ہر چیز اس کے ذوق کا واضح ثبوت تھی۔ اتنی خوبصورت۔۔۔ ہر چیز تھی۔۔۔اتنا حسن پسند شخص۔۔۔ مجھے کیسے پسند کر سکتا۔۔۔ نہیں ہو سکتا۔۔۔ اس سوچ پر میں ایک دفعہ بیوقوف بن چکی ہوں۔۔۔ ضرور مجھ سے شادی کے ہیچھے اس کا کوٸی اور ہی مقصد ہو گا۔۔۔ ایسے کیسے ہو سکتا جس نے ہر چیز دنیا کی رکھی ہو جو حسن میں بے مثال ہو۔۔۔ تو وہ اپنی زندگی کے اتنے اہم شخص کو اتنا معامولی کیسے چن سکتا۔۔۔
دل اس بات کو مان ہی نہیں رہا تھا کہہ زرداد نے یہ سب اس کی محبت میں کیا ہے۔۔۔
بات یہ ہے۔۔۔ مسز۔۔۔ زرداد ہارون۔۔۔ کہ میں کوٸی عام بندہ نہیں ہوں۔۔۔ اتنے نوکر۔۔ ہیں گھر میں۔۔۔ مشہود کا آنا جانا لگا رہتا۔۔۔ تمہیں کیا پتہ میڈیا والے کیا کیا بنا دیتے چھوٹی سی چھوٹی بات کا بھی۔۔۔
ویڈیو۔۔ دیکھو سِنڈ کی تمہیں۔۔۔ اب موباٸل رکھ کے گاڑی ریورس کر رہا تھا۔۔۔ جبکہ لب بری طرح مسکراہٹ کو چھپا رہے تھے۔۔۔
دانین نے پر تجسس انداز میں موباٸل کو آن کیا۔۔۔ کیوں کہ اس کے ہنسنے کا انداز ہی ایسا تھا کہ۔۔وہ رہ نہیں سکی دیکھے بنا۔۔۔ ۔
اسکی تھوڑی دیر پہلے کی ویڈیو تھی جب وہ کھا رہی تھی۔۔۔ اور جلدی سے ۔۔۔ جیسے منہ صاف کر کے بیٹھی تھی دوبارہ سے۔۔۔ اففف کتنی عجیب لگ رہی تھی وہ۔۔۔ شرمندگی سے پانی پانی ہو گٸ تھی۔۔ زراد قہقہ لگا رہا تھا۔۔۔۔
اس سے میں نہیں ۔۔۔ جیت سکتی۔۔۔ چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔ دل کیا۔۔۔ کوٸی چیز ملے اور اس کا سر ہی پھوڑ دے۔۔۔
کھا لو اب ۔۔۔ دو باٸٹ لےکر آدھا تو پہلے ہی کھا چکی ہو۔۔۔ بڑے ہی ریلکس انداز میں کہہ رہا تھا۔۔۔ گلاسز اتار کر ایک طرف رکھ دۓ
دانین نے پیکٹ اٹھایا اور پچھلی سیٹ ہر پھینک دیا۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤
خود سے وعدہ لیا تھا وہ دانین پر کبھی غصہ نہیں کرے گا۔۔۔
اور ۔۔۔ میں اس دن کا انتظار کر رہی ہوں جب تم چھوڑ دو گے مجھے۔۔۔ جب تمہیں اپنی یہ ضد بےکار لگنے لگی تھی۔۔۔ دو ٹوک الفاظ میں کہا۔۔۔ اب آنسو خشک ہو گۓ تھے۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔ کرو انتظار اسی طرح بوڑھی ہو جاٶ گی۔۔۔۔ پھر سوچو ۔۔ گی کاش۔۔۔ یقین کر لیتی۔۔۔۔ آج سہارا بننے کو۔۔۔ کوٸی پانچ چھے بچے تو ہوتے۔۔۔۔ وہ پھر سے شرارت کے موڈ میں آ چکا تھا۔۔۔ غصے پر پوری طرح قابو پا چکا تھا۔۔۔
ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔۔ میں جانتی تمہیں۔۔۔ دانین کا اس کی بات سن کر رنگ غصے سے سرخ ہو گیا تھا۔۔۔
اچھا میں خود بھی یہ چاہتا ہوں تم جان لو پہلے مجھے اچھی طرح۔۔۔ پھر ہی کچھ پلین کرتے۔۔۔ اب وہ کمینگی کی حد تک ۔۔۔ شرارت کے موڈ میں تھا۔۔۔
چلو نکلو کھا لو کچھ زندہ رہو گی۔۔۔ تو ہی اتنا لڑ سکو گی میرے ساتھ۔۔۔
اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اسے اچانک اہنے مزاق کی گہراٸی کا احساس ہوا تھا۔۔۔۔
جو بھی تھا۔۔۔ مطلب ۔۔۔ مجھے ۔۔ پتا ہے ۔۔۔۔ تم نے صرف مجھے ازیت میں رکھنے تمھیں ٹھکرانے کی سزا کے طور پر شادی کی ہے۔۔۔ آنسو گال پر ٹپک ہی پڑے تھے۔۔۔ جنھیں وہنبری طرح رگڑ رگڑ کے صاف کر رہی تھی۔۔۔
نہیں ۔۔۔ میں سچ میں محبت کرتا ہوں ۔۔ دانین۔۔۔ ادھر دیکھو۔۔ اس کے آنسو صاف کرنے کے لیے ۔۔۔ اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جسے دانین نے بری طرح جھٹک دیا تھا۔۔۔
کچھ عرصے بعد کسی دوسری لڑکی کو یہ سب کچھ ہی کہہ رہے ہو گے تم۔۔۔ نفرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ دانین نےکہا۔۔۔
سٹیرنگ پر گرفت مضبوط ہو گٸ تھی۔۔۔ زرداد۔۔۔ کے ہاتھوں کی رگیں ۔۔۔ واضح ہو گٸ تھیں۔۔۔
میں ایسا نہیں ہوں۔۔۔ میں یہ ثابت کروں ۔۔گا۔۔۔ جبڑے بھینچ لیے تھے ۔۔ لیکن وہ ضبط کر رہا تھا۔۔۔
کچھ کھانا ہے۔۔۔ بڑی محبت سے پوچھا۔۔۔ اور لوگوں سے بچنے کے لیے سن گلاسز لگاۓ اور کیپ کو لے کر آنکھوں کے آگے کیا۔
زہر ہے۔۔۔ تو وہ لا دو۔۔۔ سپاٹ چہرےکے ساتھ کہا۔۔۔ آنکھیں رونے کی وجہ سے اب مشکل سے کھل رہی تھیں۔۔۔
اس کی کیا ضرورت ۔۔۔ وہ تو ویسے ہی بھرا پڑا تم میں۔۔۔۔ بڑے ریلکس انداز میں ترکی با ترکی جواب دیا۔۔۔ شرارت سے اس کی طرف دیکھتے ہوۓ اپنا کان کھجایا۔۔
پھر ۔۔۔ تم ۔۔ بچ کر ہی رہو۔۔۔ ڈس نا لوں تمہیں۔۔۔ ویسے سانپ جیسی خصلت کے مالک تم ہو میں نہیں۔۔۔ دانین کا پارہ چڑہ گیا تھا۔۔۔
جس دن بابا کو پتا لگے گا۔ تم نے کیا کیا ہے دھوکے سے شادی کی مجھ سے ان کی آستین کا سانپ ہو تم ۔۔۔ سوچو ان کے دل پہ کیا گزرے گی۔۔۔ وہ دانت پیس پیس کر کہہ رہی تھی۔۔۔
وہ ہنس رہا ۔۔۔تھا۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ تو ایسا کرتے ان کو بھی وہ ڈاٸری پڑھوا دیتے۔۔۔
قسط نمبر13
part1
دانین ماضی کو یاد کر رہی تھی جب اچانک جھٹکے سے گاڑی روکی تھی زرداد نے۔۔۔ وہ آج اس کے ساتھ کراچی جا رہی تھی۔۔۔ نا جانے کے لیے اتنا روٸی تھی۔۔ لیکن کوٸی ایک تو ہوتا جو اس کا ساتھ دیتا۔۔۔
تایا ابا وہ اب اس سے آس لگا بیٹھے تھے ۔۔۔ کہ وہ ان کے اس خبیث سپوت کو سدھارے گی۔۔۔ سکندر ۔۔۔ کا تو وہ ویسے ہی لاڈلا تھا ۔۔۔ جس کو ایک کھولنے کی طرح انھوں نے اپنی بیٹی تھما دی تھی۔۔۔ اور وہ خود وہ تو واقعی اس کو کھلونا ہی سمجھتا تھا۔۔۔ اس سے ضد لگا کر اسے اپنا بنایا تھا۔۔ لیکن دانین کو یہی لگتا تھا۔۔۔ کہ ایک دن وہ پچھتاۓ گا۔۔۔ اور بلکل اسی طرح اسے بھی چھوڑ دے گا جیسے منسا کو چھوڑ دیا۔۔۔ اس انڈسٹری سے جڑے لوگوں کی اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے۔۔۔ جس دن ضد کا خمار اترا۔۔۔اس کے لیے وہ کچھ نہیں ہو گی۔۔
دانین نے حیرانگی ۔۔ اور غصے کے ملے جلے تاثر سے دیکھا۔۔۔کل رات بھی صوفے پر لیٹنے کی وجہ سے ٹھیک سے نا سو سکی تھی۔۔۔ آج اگر سوچا تھا۔۔۔ اپنے کمرے میں آرام سے سوۓ گی تو۔۔۔
زری ۔۔۔ پلیز اپنے کمرے میں جاٶ۔۔۔ اس کے سر پر کھڑی کہہ رہی تھی۔۔۔
وہ تکیے میں منہ دے کر لیٹ گیا تھا۔۔۔ اس نے جھنجوڑا بھی ۔۔
سو جاٶ آرام سے۔۔۔ تکیے میں سے گھٹی سی آواز آٸی تھی۔۔۔ وہ ٹس سے مس نا ہوا۔۔۔ اس کےکمرے میں تو۔۔ کوٸی۔۔۔ صوفہ بھی نا تھا۔۔۔ کرسی پر جا کر بیٹھ گٸ۔۔۔ ایک تو ویسے سارا دن بیٹھ کر تھک چکی تھی۔۔۔ بے زاری سے اسے گھورتی رہی
وہ تو شاٸید سو بھی چکا تھا۔۔۔۔ دھیرے سے جا کر دوسری طرف لیٹ گٸ تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔۔۔ وہ ایک دم سے اپنے خیالوں باہر آٸی تھی۔۔۔
جاری ہے
سب لوگ ٹی وی پر متوجہ ہو گۓ تھے۔۔۔
دانین ایک دم وہاں سے اٹھ کر گٸ تھی۔۔۔
❤❤❤❤❤❤❤
بالوں کی پینیں نوچ نوچ کے اتار رہی تھی جب وہ ایک دم سے کمرے میں آ کر اس کے بلکل پیچھے کھڑا تھا ۔۔۔ دانین نے ایک نظر سامنے ڈریسنگ کے آینے میں اسے دیکھا۔۔۔اوپر چلو ۔۔۔ اپنے کمرے میں۔۔۔ نیچے جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
آج ولیمے کا دن تھا۔۔۔ رات کو تقریب کے بعد وہ اوپر جانے کے بجاۓ۔۔۔ اپنے کمرے میں آ گٸ تھی ۔۔۔ مہمان سب چلے گۓ تھے۔۔۔
نہیں۔۔۔ مختصر جواب دے کر اب وہ بے نیازی سے زیور اتار رہی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔ پھر آج یہں سو جاتے بڑے مزے سے وہ اچھل کر بیڈ پر لیٹا۔۔۔۔
دانین نے تڑپ کر پیچھے دیکھا۔۔
کیا مطلب۔۔۔ آنکھوں میں ناگواری بھری تھی۔۔۔
مطلب یہ کہ جہاں تم وہاں میں۔۔۔ بڑے مزے سے وہ بیڈ پر لیٹ چکا تھا ۔ ۔
دانین نے گھور کے دیکھا۔۔۔ لیکن اس نے کوٸی پرواہ نہیں کی۔۔۔
تو آپ سےاجازت لینی تھی۔۔۔ اور جاب یہ کرا چی میں شروع کرے گی۔۔۔ ہیار سے دانین کی طرف دیکھا۔۔۔
مہ۔۔۔ مہ۔۔۔ میں نے ۔۔ میں ایسا کچھ نہیں چاہتی۔۔۔سب لوگ دانین کی بات پورے ہونے سے پہلے ہی قہقہ لگا رہے تھے۔۔۔
ظاہر سی بات ہے برخوردار۔۔۔ اب تمھارے ساتھ ہی جاۓ گی۔۔۔ تمہیں ہم سے اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ سکندر خوش دلی سے کہہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ دانین کو زرداد کے ساتھ یوں بیٹھے دیکھ کر وہ بلاٸیں ہی لیتے جا رہے تھے۔۔۔
ٹی وی۔۔۔ تو چلاٶ ذرا ۔۔۔۔ شازر باہر سے کہیں سےآیا تھا۔۔۔ آتے ہی جلدی سے۔۔۔ ٹی وی آن کیا۔۔۔
تو آخر کار۔۔۔ ہمارے۔۔۔ زرداد ۔۔ کو ۔۔ ان کی۔۔۔ محبوبہ۔۔۔ مل ہی گٸیں۔۔۔ اینکر بڑے شوخ انداز میں۔۔۔ اس کی شادی کی خبر دے رہی تھی۔۔۔ اور ساتھ ہی ان کی شادی کی تصاویر تھی۔۔۔
آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے۔۔۔۔ زرداد کو شاٸید اندازہ بھی نہیں تھا اپنے خمار میں کتنی بے دردی سے پکڑ رکھا تھا اسے۔۔
تم کیا جانو۔۔۔ دوسروں کو بھی تکلیف ہوتی ہے ۔۔۔ صرف تمھارے پاس ہی دل نہیں دوسرے بھی رکھتے ہیں۔۔۔ دانین نے نفرت سے دروازے کی طرف دیکھ کٕ سوچا جہاں سے۔۔۔ محترم ۔۔ اتنے رعب سے گۓ تھے۔۔۔ اتنا کچھ غلط کردینے کے بعد چاہتا کہ میں اپنا دل صاف کر کوں۔۔۔
تم تو مجھے عزت تک نہیں دیتے تو سچی محبت کیا دو گے۔۔۔
صوفے پر سمٹ کر لیٹ گٸ تھی ۔۔۔ارد گرد۔۔۔ چادر کو لپیٹ کر۔۔۔
سگریٹ کو پھونک کر وہ تقریباََ سورج کی کرنوں کے ساتھ ہی کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔
اس کو سامنے صوفے پرسوۓ دیکھتے کب اس کی آنکھ لگی پتہ ہی نا چلا۔۔۔
❤❤❤❤❤
صبح جب آنکھ کھلی تو ۔۔۔ گیارہ بج رہے تھے۔۔۔ کمرہ بلکل خالی تھا۔۔۔پھولوں کی ڈھیروں پتیاں ۔۔۔۔ اس کا منہ چڑا رہی تھیں۔
وہ اب واقعی ہوش کھو رہا تھا۔۔۔ اس کی آواز اس کےاندر کا حال بتا رہی تھی۔۔۔ دانین کے اتنے دھکے مکوں کا کوٸی اثر ہی نہیں تھا۔۔۔
لیِو می۔۔۔ وہ چیخنے کے انداز میں زور سے بولی۔۔۔آنکھیں زورسے بند تھٕی۔۔۔زرداد نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا۔۔۔ سواۓ نفرت کے کچھ نہیں تھا۔۔۔ اس نے تو یہ سوچا تھا جب اتنا قریب کرے گا اسے تو اس کی قربت اس کی کھوٸی ہوٸی محبت لٹا دے گی۔۔۔ لیکن وہ تو۔۔۔ بری طرح دھکے دینے لگی تھی اسے۔۔۔ دانین پر تو اس کی قربت کا کیا ہی اثر ہونا تھا ۔۔ ہاں البتہ اس کی اپنی حالت اس کے اتنا قریب ہونے سے غیر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔ اپنی تیز ہوتی سانسوں ۔۔۔ کے ڈر سے۔۔۔ زرداد ایک دم اسے چھوڑ کر باہر نکل گیا تھا۔۔۔ ابھی اگر ایسا نا کرتا۔۔۔۔ تو پھر سے غلطی ہی کرتا۔۔۔ جو ہمیشہ سے کرتا ہی آ رہا تھا۔۔۔
دانین اپنے بازو سہلا رہی تھی۔۔۔
اور اس کا چہرہ اتنا قریب ہونے کی وجہ سے تھوڑی سی پیچھے ہوٸی۔۔۔
دونوں شرطیں نا منظور۔۔۔ زرداس کا لہجہ پھر سے سخت ہو گیا تھا۔۔۔ بڑے رعب سے کہا۔۔۔
دراصل بات یہ ہے کہ۔۔ زرداد نے اپنا کان کھجایا۔۔۔
۔۔۔ شروع سے کرتا۔۔۔ اپنے دل کی ہوں میں۔۔۔ ایک دم سے دانین کو کمر سے پکڑ کر ساتھ لگایا تھا۔۔۔ دانین کا اس افتاد پر جو اچانک ہوٸی منہ کھولے کا کھولا رہ گیا۔۔۔۔
کب سے تمھاری بک بک سن رہا ہوں۔۔۔ اب بس چپ۔۔۔ دانین کے ہونٹوں پر اپنی انگلی رکھ کر کہا۔۔۔جب کے نظریں۔۔۔ اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔۔۔
زری ۔۔۔ چھوڑو مجھے اسی وقت۔۔۔ دانین کا رنگ سرخ پڑ گیا تھا۔۔۔ ماتھے پہ بل پڑ گیے۔۔۔۔کمر پر سے اس کے ہاتھ کو جھونجوڑتی تو کبھی اس کے سینے پہ ہاتھ رکھ پیچھے کو دھکیلتے ہوٸی وہ بول رہی تھی۔۔۔
چھوڑنے کے لیے اتنے گیم کھیلے بھلا میں نے۔۔۔
تھی وہ اس کے لیے ۔۔۔ کہ وہ ساری دنیا سے لڑ جانے والا اس ایک لڑکی کے آگے بس کیوں ہو جاتی تھی اس کی۔۔۔
تم ۔۔۔ تم۔۔۔ محبت کرو گے۔۔۔ اگر تم مجھ سے محبت کرتے تو میرا میری خواہش کا احترام کرتے۔۔۔ یوں۔۔۔ میری ۔۔۔ نادان محبت کو زریعہ بنا کر سب کو دھوکا نا دیتے۔۔۔
تم نے دوسری دفعہ ۔۔۔ مجھے ۔۔ میری ہی نظروں میں گرا دیا ہےزرداد۔۔۔ میں شاٸید اب کبھی تمھارے لیے میرے دل میں بھری نفرت کو بدل نہیں پاٶں گی۔۔۔
مجھے کیا کرنا ہو گا۔۔۔ تمھارا دل جیتنے کے لیے۔۔ آنکھیں ۔۔۔ بہت دن نہ سونے ۔۔۔ اس کے اتنا قریب ہونے۔۔۔ اور اس کی نفرت کی تپش کے خمار سےبھری پڑی تھیں۔۔۔ اس کے بلکل سامنے اور قریب ہو کر ٹوٹے سے لہجے میں پوچھا۔۔۔
مجھے چھوڑ دو۔۔۔ اور سب کو جا کر بتاٶ۔۔۔ زین ایسا نہیں تھا۔۔۔ یہ سب تم نے کیا۔۔۔ وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ کہہ رہی تھی۔۔۔
اچھا ادھر پاس تو بیٹھو۔۔۔ ہاتھ پکڑ کے بیڈ پر بیٹھانا چاہا تو ۔۔۔ دانین نے زور سے ہاتھ جھٹکا تھا۔۔۔
مجھے ہاتھ مت لگانا زری۔۔۔ غصے سے کہا۔۔۔۔
بات سنو میری۔۔۔ پیار سے دانین کے ہاتھ کو پکڑا۔۔۔
چھوڑو۔۔۔ ابھی چھوڑو۔۔۔ وہ بری طرح ۔۔۔ اس سے اپنا ہاتھ چھڑوا رہی تھی۔۔۔
کیا مسٸلہ۔۔ کیا ہے ۔۔۔ تمھارے ساتھ۔۔۔ زرداد کو ایک دم چڑ ہوٸی تھی۔۔۔ ایک جھٹکے سے اٹھ کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔
پورے ۔۔۔ چھ سال ہو گۓ ۔۔۔ تمھارے پیچھے خوار ہو رہا ہوں۔۔۔ آواز میں سختی در آٸی تھی۔۔۔
زرداد ہارون تمھاری یہ چھ سال کی خواری ۔۔۔ میرے ایک آنسو۔۔ کی قیمت بھی ادا نہیں کر سکتی ۔۔۔ آواز غصے سے اکنپ رہی
تو پھر تم بتاٶ۔۔۔ خود ہی بتاٶ۔۔۔۔ کہ میں کیا ایسا کروں۔۔۔ میں۔۔۔ تم سے بہت محبت کرنے لگا ہوں۔۔۔ اب آواز میں پھر سے التجا تھی۔۔۔ کیا چیز ہو گٸ تھی
جب کہ یہ جانتا ہوں تم صرف اور صرف مجھ سے محبت کرتی ہو۔۔ تھوڑا سا قریب ہو ا تو
وہ ایک دم سے پیچھے ہوٸی۔۔۔ آنکھوں۔۔۔ میں اپنی دوسری دفعہ کی تزلیل کے بھی آثار تھے۔۔۔
غلط ۔۔ غلط۔۔۔ لگتا ہے تمہیں ۔۔۔ زری۔۔۔ انفیکٹ ۔۔ تمہیں غلط لگتا ہی نہیں۔۔۔ تم ہر کام کرتے بھی غلط ہو۔۔۔ وہ دانت پیس کر کہہ رہی تھی۔۔۔
تم نے پہلے مجھے اپنے جھوٹے پیار میں پھنسایا۔۔۔ وہ غلط۔۔ پھر۔۔۔ مجھے دھتکارا۔۔۔ وہ غلط۔۔۔ غم اور غصے سے ملی جلی آواز تھی۔۔۔
پھر دوبارہ میرے ساتھ جھوٹا پیارا جتلایا وہ بھی غلط۔۔۔ اور اب مجھے جس طرح۔۔۔ اپنایا۔۔۔ وہ بھی غلط۔۔۔ وہ اب چیخ رہی تھی۔۔۔
تو تم میری محبت پر کب اعتبار کرو گی۔۔۔ تھکی سی آواز تھی۔۔۔ اب وہ پاس بیڈ پر ڈھے سا گیا تھا۔۔۔ لیکن چہرے پر سب کچھ پا لینے کے بعد اس کا پیار نا پانے کا کرب تھا۔۔۔
دانین نےکچھ بھی بولنا گوارا نہیں کیا
آنکھوں میں ابھی بھی کاجل تھا۔۔۔ شفاف بچوں جیسی جلد تھی۔۔۔
وہ زرداد کے دل کو بے تاب کر دینے کی حد تک حسین لگ رہی تھی۔۔۔
دانین کو اس کے ایسے دیکھنے سے الجھن ہونے لگی تھی۔۔۔ کیا ہے اب کچھ بول کیوں نہیں رہا۔۔۔
پھر وہ صوفے سے اٹھا تھا۔۔۔ وہ اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کر رہی تھی۔۔۔ زرداد کو ہنسی آ رہی تھی۔۔۔ کیونکہ جیسے ہی وہ صوفے سے اٹھا تھا۔۔۔ وہ ایک دم سے تھوڑا سا کانپی تھی۔۔۔ پھر اپنے چہرے پر سختی کے آثار اتنی جلدی لے کر آٸی ۔۔ کہ زرداد کو یہ نا لگے وہ ڈر گٸ ہے۔۔۔
دانین تم نے جو بھی کہا۔۔۔ میں نے ناصرف سنا ۔۔۔ بلکہ قبول بھی کیا۔۔۔ اس کے بلکل سامنےاپنے مخصوص انداز میں ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔۔۔
دانین نے نظریں دوسری طرف پھیر لی تھیں۔۔۔
میں کیا کروں۔۔۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو گیا۔۔۔ تھا۔۔ کسی اور کا ہوتے کیسے دیکھ لوں۔۔۔
۔۔۔بڑی پر شوق نظروں سے دانین کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ ایسے جیسے ایک ایک لمحہ اپنے اندر اتار رہا ہو۔۔۔
خود غرض ہو۔۔۔ ظالم ۔۔۔ ہو ۔۔۔ جھوٹے ۔۔۔ دھوکے باز ہو۔۔۔۔۔ دانین دانت پیس کر سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ کہہ رہی تھی۔۔۔
اور کچھ ۔۔۔ ہنوز وہی انداز تھا۔۔۔
یہ مت سمجھنا۔۔۔ تم جیت گۓ ہو۔۔۔ میں کبھی۔۔۔ تمھارے ساتھ خوش نہیں رہوں گی۔۔۔ اور نا رہنے دوں گی تمہیں۔۔۔ دانین اب چیخنے کے سے انداز میں ۔۔ کہہ رہی تھی۔۔۔
اور کچھ۔۔۔ وہ پھر سے بولا تھا۔۔۔ دانین کو دیکھنے کی دلچسپی ہنوز وہی تھی۔۔۔ وہ اب خاموش ناک اور منہ پھلاۓ کھڑی تھی۔۔۔
بس اور کچھ تو نہیں کہنا تمہیں۔۔۔ دونوں ہتیھیلوں کو۔۔۔ بند کر کے ہونٹوں پہ رکھ کر وہ بس اسے دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔۔
نیلے رنگ کے ڈھیلا سا کرتا پہن رلکھا تھا ۔۔اور ہم رنگ دوپٹہ گلے میں جھول رہا تھا۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain